السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا سماج میں برائیوں کی روک تھام کے لیے قوت و طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث میں فرمایا گیا ہے:
"مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ" (مسلم)
’’تم میں سے جو کوئی بھی برائی دیکھے تو اسے چاہیے کہ بہ زور طاقت اس کی روک تھام کرے۔ جو ایسا نہیں کر سکتا اسے چاہیے کہ اپنی زبان سے روک تھام کرے اور جو ایسا بھی کرنے پر قادر نہیں ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے دل میں براسمجھےاور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘
اس حدیث کی بنیاد پر بعض جذباتی قسم کے دین دار حضرات سماجی برائیوں کی روک تھام کے لیے قوت و طاقت کے استعمال پر اصرار کرتے ہیں خواہ اس کے نتائج کچھ بھی ہوں اور اگر حکومت چند خرابیوں میں ملوث ہے برائیوں کی ترویج کر رہی ہے تو یہ لوگ حکومت کے خلاف تحزیبی کاروائیوں پر اتر آتے ہیں اور اس راہ میں انھیں جو نقصانات ہوتےہیں یا جان چلی جاتی ہے تو اسے اللہ کی راہ میں شہادت تصورکرتے ہیں ۔ جب کہ بعض لوگوں کا موقف یہ ہے کہ سماج میں برائیوں کی روک تھام انفرادی ذمے داری نہیں بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کیوں کہ برائیوں کی روک تھام کے لیے اگر ہر شخص انفرادی طور پر اپنی طاقت و قوت کا استعمال شروع کردے تو معاشرہ میں برائیوں کی روک تھام کے بجائے فتنہ و فساد کا دروازہ کھل جائے گا۔
اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟امید ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں تشفی بخش جواب دیں گے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلاشبہ بھلائیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا جسے شریعت کی اصطلاح میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کہتے ہیں دین کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ یہ وہ فریضہ اور وصف ہے جس کی وجہ سے اس امت کو بہترین امت کا خطاب دیا گیا ہے:
﴿كُنتُم خَيرَ أُمَّةٍ أُخرِجَت لِلنّاسِ تَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ وَتُؤمِنونَ بِاللَّهِ ... ﴿١١٠﴾... سورةآل عمران
’’تم بہترین امت ہو جولوگوں کے لیے برپا کیے گئے ہوتم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
اور جس اُمت نے اس فریضہ سے غفلت برتی وہ امت اللہ کے نزدیک ملعون قرارپائی:
﴿لُعِنَ الَّذينَ كَفَروا مِن بَنى إِسرٰءيلَ عَلىٰ لِسانِ داوۥدَ وَعيسَى ابنِ مَريَمَ ذٰلِكَ بِما عَصَوا وَكانوا يَعتَدونَ ﴿٧٨﴾ كانوا لا يَتَناهَونَ عَن مُنكَرٍ فَعَلوهُ لَبِئسَ ما كانوا يَفعَلونَ ﴿٧٩﴾... سورة المائدة
’’نبی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی زبان سے لعنت کی گئی کیوں کہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے۔ انھوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑدیا تھا۔براطرز عمل جو انھوں نے اختیار کیا۔‘‘
حقیقی مسلم وہ نہیں ہے جو صرف اپنی اصلاح کر کے مطمئن ہو جائے اور مگن رہے معاشرہ میں برائیوں اور گم راہیوں کو پھلتا پھولتا دیکھے اور اسے تکلیف نہ ہو۔ اسے یہ فکر دامن گیرنہ ہو کہ ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کے لیے مسلسل جدو جہد ہونی چاہیے۔ حقیقی مسلم وہ ہے جسے اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد رہنے والے انسانوں کی اصلاح کی بھی فکر ہو۔ ایک سچے اور اچھے مسلمان کے لیے کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ خود تو آگ میں جلنے سے تکلیف محسوس کرتا ہو اور دوسروں کو آگ میں جلتا دیکھ کر بے پروا بنا رہے۔ ایک سچے انسان اور مسلمان کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے۔"
﴿وَالعَصرِ ﴿١﴾ إِنَّ الإِنسـٰنَ لَفى خُسرٍ ﴿٢﴾ إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ وَتَواصَوا بِالحَقِّ وَتَواصَوا بِالصَّبرِ ﴿٣﴾... سورةالعصر
’’زمانے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔‘‘
"تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ"کی تشریح یہ ہے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کو حق اور اچھی باتوں کی تلقین کرتے رہتے ہیں ۔ آپ نے اپنے سوال میں جس صحیح حدیث کاحوالہ دیا ہے اس کا مفہوم بھی یہی ہے کہ مومن وہی شخص ہو سکتا ہے جو حق اور نیک باتوں کی تلقین کرتا رہے اور جو باتیں باطل ہیں اور سماج کو نقصان پہنچارہی ہیں ان کی روک تھام کے لیے ہمہ تن کوشاں رہے۔ اگر بہ زور طاقت روک سکتا ہے تو یہ سب سے بہتر صورت ہے۔ ورنہ اپنی زبان اور قلم سے کوشاں رہے۔ یہ بات تو ایک باہوش طاقت اور زندہ قوم کی علامت ہے کہ معاشرہ میں پھیلتی برائیوں پر خاموش نہ رہے بلکہ زور طاقت انھیں روکنے کی کوشش کرے۔ اگر امت مسلمہ کو اس بات کا احساس ہے۔ کہ اللہ نے اسے بہترین امت کا خطاب دیا ہے تو اسے چاہیے کہ ان اوصاف کو اختیار کرے ان سے اس کا بہترین ہونا ثابت ہو سکتا ہے۔
تاہم اس فریضہ کی ادائی کے سلسلے میں چند باتوں اورشرطوں کی رعایت نہایت ضروری ہے۔ مذکورہ حدیث کے الفاظ خود ہی ان شرطوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
(1)پہلی شرط یہ ہے کہ جس برائی کی روک تھام مقصود ہو وہ"منکر" ہو جیسا کہ مذکورہ حدیث میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ منکر اس برائی کو کہتے ہیں۔ جسے قرآن یا صحیح حدیث میں واضح طور پر اور مکمل صراحت کے ساتھ حرام اور گناہ قراردیا گیا ہو۔
اس بنا پروہ بُرائیاں جنھیں ہمارا ذہن برائی تصور کرتا ہو لیکن قرآن و حدیث میں انھیں گناہ نہیں قراردیا گیا ہے منکر کے دائرے میں نہیں آئیں گی۔ کیوں کہ جب تک اللہ اور اس کا رسول کسی برائی کو منکر نہیں کہتا اسے ہمارے منکر سمجھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا
اسی طرح وہ گناہ صغیرہ کہلاتے ہیں منکر میں شمار نہیں ہوں گے کیوں کہ اس طرح کے گناہ خود بہ خود معاف ہوتے رہتے ہیں اللہ فرماتا ہے۔
﴿إِن تَجتَنِبوا كَبائِرَ ما تُنهَونَ عَنهُ نُكَفِّر عَنكُم سَيِّـٔاتِكُم وَنُدخِلكُم مُدخَلًا كَريمًا ﴿٣١﴾... سورة النساء
’’اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمھیں منع کیا جا رہا ہے۔ تو تمھاری چھوٹی چھوٹی برائیوں کو ہم معاف کرتے رہیں گے۔اور تم کو عزت کی جگہ داخل کریں گے۔‘‘
اسی طرح بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں علماء کے درمیان اختلاف ہوتا ہے۔ بعض انھیں گناہ قرار دیتے ہیں اور بعض انھیں جائز اور مباح تصور کرتے ہیں مثلاً سگریٹ کا استعمال کرنا یا موسیقی کے ساتھ گانا سنن وغیرہ اس طرح کے اختلافی مسائل بھی منکر کے دائرے میں نہیں آتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ بعض سخت گیر قسم کے مسلمانوں نے دوکانوں میں گُھس کر گڈیوں اور کھیلنے کے مجسموں کو توڑنا پھوڑنا شروع کر دیا اور اس طرح ایک ہنگامہ برپا کر دیا وہ یہ حالانکہ ان کا یہ عمل صحیح نہیں تھا ۔ کیوں کہ گڈیوں اور مجسموں سے کھیلنا ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی نظر میں یہ بات ناجائز ہو لیکن بہت سارے علماء گڈیوں سے کھیلنے کو جائز قراردیتے ہیں۔ کوئی ضروری تو نہیں کہ جو مسلک وہ اختیار کریں۔سارےمسلمان وہی مسلک اختیار کر لیں۔ آخر کس بنا پر وہ اپنی مرضی اور اپنا مسلک دوسروں پر تھوپ سکتے ہیں۔
غرض کہ اس طرح کے اختلافی مسائل میں سخت گیر موقف اپنانا یا چھوٹے چھوٹے گناہوں کی روک تھام کے لیے طاقت کا استعمال کرنا کسی طرح مناسب اقدام نہیں ہے۔
(2)دوسری شرط یہ ہے کہ جس منکر کی روک تھام مقصود ہو معاشرہ میں علانیہ طور پر اور کھلم کھلا اس کا ارتکاب ہو رہا ہو کیوں کہ حدیث کے الفاظ ہیں۔"من رای"جس کا مفہوم یہ ہےکہ وہ منکر لوگوں کی نظر میں آجائے۔اگر کوئی شخص چوری چھپے یا اپنے گھر میں بیٹھ کر کسی منکر کا ارتکاب کررہا ہے تو اسے بذور طاقت روکنا ہماری ذمے داری نہیں ہے۔یہ اس کے اور اس کے خدا کے درمیان کا معاملہ ہے۔چاہے تو اسے سزا دے اور چاہے تومعاف کردے۔جیساکہ حدیث شریف میں ہے :
" كُلُّ أَمَّتِى مُعَافًى إِلاَّ الْمُجَاهِرِينَ"
’’میری اُمت کا ہر شخص قابلِ معافی ہے سوائے ان لوگوں کے جو کھلم کھلا بُرائیاں کرتے ہیں۔‘‘
مشہور واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں کوئی شخص چوری چھپے اپنے گھر کے اندرکسی بُرائی میں ملوث تھا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسےبرائی سے روکنے کے لیے چپکے سے اس کےگھر کے پچھواڑے سے اندر آگھسے اوررنگے ہاتھوں اسے پکڑ لیا۔اس شخص نے کہا کہ اےامیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں نے تو بُرائی کرکے صرف ایک گناہ کیا ہے۔لیکن آپ نے اس طرح میرے گھر میں گھس کر تین گناہ کیے ہیں۔پہلا گناہ یہ ہے کہ آپ نے تجسس کیا اورمیری ٹوہ میں لگے رہے حالانکہ اللہ نے تجسس اور ٹوہ میں لگے رہنے سے منع کیا ہے ۔دوسرا گناہ یہ ہے کہ آپ میرے گھر کے پچھواڑے سے چوری چھپے میرے گھر کے اندر آئے حالانکہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ جب کسی کے گھر جاؤ توگھر کے دروازے سے جاؤ۔تیسرا گناہ یہ ہے کہ آپ میرے گھر کے اندر بغیر میری اجازت اور بغیر سلام کیے داخل ہوئے۔حالانکہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ جب کسی کے گھر جاؤ تو سلام کرو اور اس کی اجازت ملے تب اندر جاؤ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا اور بہت نادم ہوئے۔
3۔تیسری شرط یہ ہے کہ بُرائیوں کو بزور طاقت روکنے والے کے پاس ان کی روک تھام کے لیے خاطر خواہ استطاعت اور مادی ومعنوی وسائل مہیا ہوں اسی لیے مذکورہ حدیث میں یہ بات کہی گئی ہے کہ جو شخص اس طرح کی استطاعت نہ رکھتا ہو اسے طاقت کے بجائے صرف زبان کا استعمال کرنا چاہیے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ طاقت کے زورپر برائیوں کی روک تھام کے لیے اس کی استطاعت اور اس کے لیے مناسب وسائل کا مہیا ہونا ضروری ہے۔بعض لوگ وسائل مہیانہ ہونے کے باوجود محض جذبات میں آکر طاقت کا استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں۔یہ اقدام غیر حکیمانہ اور حدیث کے مزاج کےخلاف ہے۔کیونکہ ایسا کرنے سے بُرائیوں کے دور ہونے کے بجائے نئے نئے مسائل اور فتنے جنم لیتے ہیں۔
مناسب یہ ہوگا کہ ہرشخص اپنے ہی اثرورسوخ والے علاقہ میں رہ کر برائیوں کی روک تھام کی کوشش کرے۔مثلاً شوہر اپنے گھر والوں کے درمیان رونما ہونے والی خرابیوں اور برائیوں پر نظر رکھے اور انھیں دور کرنے کی کوشش کرے۔اسی طرح حاکم وقت اپنے ملک کے حدود میں رہتے ہوئے برائیوں کی روک تھام کے لیے قوت کا استعمال کرسکتاہے۔
4۔اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ برائیوں کی روک تھام کے لیے طاقت کا استعمال کسی بڑی برائی یا فتنے کا سبب نہ بن جائے۔مثلاً خون خرابے کی نوبت آجائے یا اس بات کا اندیشہ ہو کہ جنھیں بُرائیوں سے روکا جارہا ہے وہ ضد میں آکر ہنگامہ مچائیں گے اور مزید برائیوں کا ارتکاب کرنے لگیں گے۔اسی لیے علمائے کرام کہتے ہیں کہ ایسے موقع پر خاموشی اختیار کرنا زیادہ بہتر ہے۔صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا:
"لَوْلاَ أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِشِرْكٍ....لَبَنَيْتُها عَلَى أَسَاسِ إِبْرَاهِيمَ"
’’اگر تمہاری قوم شرک کے زمانے سے بہت قریب نہ ہوتی تو میں کعبہ کی تعمیر ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر کرتا۔‘‘
یعنی تمہاری قوم ابھی ابھی شرک سے نکلی ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ اگر میں نے ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر کعبہ کی تعمیر کی تو تمہاری قوم ضد میں آکر دوبارہ شرک میں واپس چلی جائے گی۔اگر یہ اندیشہ نہ ہوتاتو میں ایساضرور کرتا۔
ذہنوں میں ایک اہم سوال یہ ابھرتا ہے کہ اگر برائیاں حکومت کی طرف سے پھیلائی جارہی ہوں تو کیا عوام حکومت کو ان برائیوں سے باز رکھنے کےلیے طاقت کا استعمال کرسکتی ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے غیر منظم اور جذباتی انداز میں قوت کا استعمال خطرناک نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔اس طرح کے اقدام سے پہلے ضروری ہے کہ عوام کے پاس حکومت پر اثر انداز ہونے کے لیے مناسب وسائل مہیا ہوں۔دور جدید میں یہ مناسب وسائل حسب ذیل ہوسکتے ہیں۔
1۔عوامی طاقت ہو،کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کی آواز سے بڑھ کر اور کوئی طاقت نہیں ہوسکتی۔
2۔ملک کے پارلیمنٹ میں عوام کا اپنا اثرورسوخ پیداکرنا،کیونکہ پارلیمنٹ ہی سب سے مؤثر ادارہ ہے جسے قوانین بنانے،انھیں نافذ کرنے یا انھیں ختم کرنے کے اختیارات ہوتے ہیں۔
3۔ملک کی فوج میں عوام کااپنااثرورسوخ بنانا کیونکہ حکومت کے لیے فوج کے مطالبات کوٹھکرانا ذرا مشکل ہوتا ہے۔اگر فوج چاہے تو حکومت کو اس کے غلط اقدامات سے روک سکتی ہے۔
آخرمیں ان لوگوں سے کچھ کہنا چاہوں گا جومعاشرہ میں برائیوں کے خاتمہ کا نیک ارادہ رکھتے ہیں اور اس کے لیے کچھ عملی اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ صدیوں سے ہماری قوم جہالت اور گمراہی میں مبتلا ہے،جس کی وجہ سے اس قوم میں بُرائیاں جڑپکڑ چکی ہیں۔اس لیے جب تک بنیادی اور اصل برائیاں نہیں دور کی جائیں گی اس وقت تک خاطر خواہ نتائج سامنے آنے کا امکانات بہت کم ہیں۔جن برائیوں کوبنیادی حیثیت حاصل نہیں ہے۔انھیں اگربزور طاقت دور بھی کردیا جائے تو بھی بنیادی خرابیاں معاشرے کو ہمیشہ کھوکھلا اور تباہ وبرباد کرتی رہیں گی۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے بنیادی خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔بنیادی خرابیوں سے میری مراد ہے۔جہالت۔ناخواندگی۔صحیح دین سے ناواقفیت اور اچھے اور اعلیٰ کردار کا فقدان وغیرہ وغیرہ۔جب تک ان خرابیوں کودورنہیں کیا جائےگا۔اس وقت محفل موسیقی کو زبردستی بندکرانے۔عورتوں کو زبردستی برقعے پہنوانے اور گڑیوں کی دوکانوں کو توڑنے پھوڑنے سے فائدہ کم اور نقصانات زیادہ ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم کی جہالت دور کی جائے۔ان میں دینی ودنیاوی تعلیم عام کی جائے۔انھیں صحیح دین سے واقف کرایاجائے اور ان میں اعلیٰ کردار پیدا کیاجائے۔اگر ایسا کیاگیا تو چھوٹی چھوٹی اور غیر بنیادی خرابیاں خود بہ خود زائل ہوجائیں گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ بُرائیوں کے ازالے کے لیے حکمت ودانائی کا استعمال بہت ضروری ہے۔آج ہماری دعوتی سرگرمیوں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم حکمت ودانائی کا راستہ اختیار کرنے اور نتائج پر نظر رکھنے کے بجائے محض جذباتی انداز میں دعوت کا کام کرتے ہیں۔جہاں نرمی اختیار کرنی چاہیے وہاں بحث ومباحثہ اور تشدد پراتر آتے ہیں بلکہ بسااوقات لڑائی جھگڑے کی نوبت آجاتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمت کاراستہ اختیارکیا جائے اور نرمی اور رغبت دلانے والاانداز اپنایا جائے اور ہرقدم نتائج پر نظر رکھتے ہوئے اور موقع ومناسبت کا خیال کرتے ہوئے اٹھایا جائے۔اللہ کافرمان ہے:
﴿ادعُ إِلىٰ سَبيلِ رَبِّكَ بِالحِكمَةِ وَالمَوعِظَةِ الحَسَنَةِ وَجـٰدِلهُم بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ ...﴿١٢٥﴾... سورة النحل
’’اپنےرب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے بہت اچھے طریقے سے مباحثہ کیا کرو۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب موسیٰ علیہ السلام کوفرعون جیسے ظالم وجابرحکمراں کے پاس بھیجنا تو انھیں بھی نرمی اختیار کرنے کی ہدایت کی۔
﴿اذهَبا إِلىٰ فِرعَونَ إِنَّهُ طَغىٰ ﴿٤٣﴾ فَقولا لَهُ قَولًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَو يَخشىٰ ﴿٤٤﴾... سورة طه
’’تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ۔اس نے سرکشی کی ہے۔پس تم دونوں اس سے نرم باتیں کہوشاید کہ وہ نصیحت حاصل کرلے یا اس کے اندرڈرپیدا ہوجائے۔‘‘
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب