السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا کسی اسلامی ملک میں اس بات کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ مختلف سیاسی پارٹیوں کا وجود ہو؟بعض علمائے دین اس بات کےخلاف ہیں۔ان کا مؤقف یہ ہے کہ اسلام اتحاد واتفاق کی تعلیم دیتاہے اور فرقہ بندی سے روکتا ہے۔متعدد سیاسی پارٹیوں کی تشکیل فرقہ بندی اورانتشار وتفرقہ کی طرف لے جاتا ہے۔کیا ان علمائے کرام کا موقف درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میں اپنی اس رائے کا متعدد بار اظہار کرچکا ہوں کہ اسلامی ملک کے اندر مختلف سیاسی پارٹیوں کی تشکیل میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔کیونکہ اس ممانعت کے لیے کوئی شرعی دلیل قرآن وحدیث میں نہیں ہے۔اور بغیر کسی واضح دلیل کے کسی جائز چیز کو ناجائز قراردینا صحیح نہیں ہے۔بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ دورحاضر میں سیاسی پارٹیوں کی تشکیل نہ صرف یہ کہ جائز بلکہ وقت کی شدید ضرورت ہے تاکہ ملک کے اندر کسی ایک ہی پارٹی کی اجارہ داری نہ ہو کہ وہ تمام معاملات میں اپنی من مانی کرتی پھرے اور کوئی اپوزیشن پارٹی نہ ہوجو اس کے نامناسب اقدامات پر اس کی گرفت کرسکے۔آج ہم اپنی کھلی آنکھوں سےمشاہدہ کررہے ہیں کہ بعض غیر جمہوری ملکوں میں کسی ایک ہی پارٹی کے سیاسی استبداد کی وجہ سے معارضین پر کس قدر ظلم ہورہاہے۔تاہم سیاسی پارٹیوں کی تشکیل کی اجازت دو شرطوں کے ساتھ دی جاسکتی ہے۔
پہلی شرط یہ کہ تشکیل پانےوالی پارٹی اسلام کو باحیثیت عقیدہ اور اسلامی شریعت کوباحیثیت قانون تسلیم کرتی ہو اور اسلام کے ساتھ اس کا رویہ معاندانہ نہ ہو۔اجتہادی مسائل میں اگر اس کےنظریات دوسری اسلامی پارٹیوں سے مختلف ہوں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔اور دوسری شرط یہ ہے کہ یہ پارٹی اسلام کے دشمنوں کے مفاد کےلیے کام نہ کرے۔
اسلامی ملک کے اندر اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ کسی ایک سیاسی پارٹی کی تشکیل ہو جو سرے سے اسلامی عقیدہ وشریعت ہی کو نہ تسلیم کرتی ہو ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح احکام وتعلیمات کا مذاق اڑاتی ہو اور کفر والحاد کی دعوت دیتی ہو۔
متعدد سیاسی پارٹیوں کی تشکیل کامقصد یہ ہے کہ کوئی ایک ہی سیاسی پارٹی پورے ملک کے سیاہ وسپید کی مالک نہ بن جائے اور اپنی من مانی کرتی پھرے اور کوئی اسے روکنے والا نہ ہو۔اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ برسراقتدار پارٹی کے علاوہ کوئی دوسری مضبوط پارٹی بھی ہو جسے سیاست کی اصطلاح میں اپوزیشن پارٹی کہتے ہیں تاکہ وہ برسراقتدار پارٹی کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکے۔اس کامستقل محاسبہ کرے۔غلط پالیسیوں پر اس کی گرفت کرے اور مفید مشورے دے سکے۔
یہ باتیں میں اپنی طرف سے نہیں پیش کررہا ہوں بلکہ یہ نظریہ قرآن وسنت کی تعلیمات سے ماخوذ ہے۔قرآن وسنت میں مسلمانوں کو حکم دیاگیا ہے کہ اپنے امراء وحکام کونصیحت کرتے رہیں۔مفید مشورے دیتے رہیں اور غلط اقدامات سے انھیں روکتے رہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّه بِعِقَابٍ مِنْهُ" (ترمذی،ابوداؤد)
’’لوگ جب ظالم کو دیکھیں اور اس کی گرفت نہ کریں تو بہت قریب ہے کہ اللہ ان سب پر اپنا عذاب نازل کرے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مسند خلافت پر بیٹھے تھے تو لوگوں کے نام اپنے سب سے پہلے خطاب میں یہ بات کہی تھی کہ مجھے سیدھے راستہ پر دیکھنا تو میری مدد کرنا اور مجھے غلط راستہ پردیکھنا تو میری پکڑ کرنا اورمیری اصلاح کرنا۔حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرنے کا جمہوری حق اور اس جیسے دوسرے جمہوری حقوق سے لوگوں کو سب سے پہلے اسلام ہی نے متعارف کرایا ہے۔سیاسی پارٹیوں کی تشکیل بھی ان ہی جمہوری حقوق میں سے ایک ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ دور حاضر میں وہ کون سے وسائل ہیں جن کے ذریعے سے حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کی جاسکتی ہے اور اسے نامناسب اقدامات سے روکا جاسکتا ہے؟اور اپنے مفید ومثبت مشوروں کو حکومت سے منوایا جاسکتا ہے؟ظاہر ہے کہ تیر وتلوار اور اسلحہ کے ذریعے سے یہ مقصد حاصل کرنا یا زمین پر فساد برپاکرکے حکومت کو مجبورا کرنا اسلامی نقطہء نظر سے صحیح اقدام نہیں کہا جاسکتا۔
انسان نے ایک طویل تجربے کے بعد اس مقصد کو حاصل کرنے کا ایک ایسا مؤثر اور پر امن طریقہ تلاش کیا ہے۔جس کے ذریعے سے بغیر کسی خون خرابے کے حکومت وقت پر دباؤڈالا جاسکتا ہے اور یہ طریقہ ہے ملک کے اندر سیاسی پارٹیوں کا وجود یا کم از کم اپوزیشن پارٹی کا وجود۔
حاکم وقت کے لیے کسی ایک نہتے فرد مخالفت پر قابو پانا اور کچل ڈالنا نہایت آسان کام ہے۔لیکن اس کی مخالفت پر اگر کوئی مضبوط سیاسی پارٹی ہوتو اس کی آواز کو دبانا حاکم وقت کےلیے ممکن نہیں ہوگا۔حکومت کو اگر یہ احساس ہوکہ اس کے محاسبہ اور اس کی گرفت کرنے کے لیے ملک میں اپوزیشن پارٹیاں موجود ہیں تو اس کے لیے من مانی کرنا آسان نہیں ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے وسیع تر مفاد کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے اندر دوسری سیاسی پارٹیوں کا بھی وجود ہوتا کہ برسراقتدار پارٹی کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاسکے۔اس کا محاسبہ اور اس کی باز پرس ہوتی رہے۔اسے مفید مشورے ملتے رہیں اور وہ نفع بخش پالیسیوں سے باخبر ہوتی رہے۔اسے بھلائیوں کی طرف رہنمائی کی جاسکے اور برائیوں سے روکا جاسکے۔اور بلاشبہ یہ نظریہ عین اسلامی نظریہ سیاست ہے۔
بعض سادہ لوح حضرات تصور کرتے ہیں کہ حکومت وقت اگر اللہ کی شریعت کے مطابق کام کررہی ہوتو پھر اس کی کیا ضرورت ہے کہ اس کی مخالفت کی جائے۔بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے تمام افراد اس حکومت کی تائید کریں اور حاکم وقت کی مکمل اطاعت کریں کیونکہ قرآن کی رو سے اولیاء الامور کی اطاعت واجب ہے۔
میں ان سادہ لوحوں سے کہنا چاہوں گا کہ کسی بھی اسلامی ملک کا سربراہ کوئی فرشتہ یا معصوم عن الخطا نہیں ہوتا۔اس سے بھی غلطیوں کاامکان ہے اور اس کے وزراء اور دوسرے ممبرانِ حکومت سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں۔کیونکہ یہ سب انسان ہیں۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی اچھائیوں اور برائیوں دونوں پر نظر رکھی جائے۔جب تک اچھے ہیں ان کی اطاعت کی جائے اور جب برائیوں کی طرف مائل ہونے لگیں تو ان کی گرفت کی جائے جیسا کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے پہلے خطاب میں اپیل کی تھی۔اس مقصد کے حصول کے لیے ایسی سیاسی پارٹیوں کا وجود ضروری ہے جو حکومت وقت کی گرفت کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہو۔
تاہم اس میں ایک قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ اسلامی ملک میں سیاسی پارٹیوں کا وجودشخصی یا علاقائی بنیاد پر نہ ہو۔مثلاً یہ نہ ہوکہ فلاں شخص کی پارٹی ہے اور وہ فلاں شخص کی پارٹی ہے۔یہ فلاں علاقہ کی پارٹی ہے اور وہ فلاں علاقہ کی پارٹی ہے۔کیونکہ ایسا کرنے سے عصبیتیں جنم لیتی ہیں اور باہمی تفرقہ کی صورت پیدا ہوتی ہے۔پھر یہ ہوتا ہے کہ جو شخص جس پارٹی سے منسلک ہوتا ہے غلط اور صحیح ہر صورت میں اپنی ہی پارٹی یا اپنے علاقہ کی پارٹی کی حمایت کرتاہے۔اس سے قطعِ نظر کہ اس کی پارٹی کا مؤقف صحیح ہےیا غلط۔
ہونا یہ چاہیے کہ پارٹی کا وجود نظریاتی اورفکری بنیادوں پر ہو۔کسی مسئلہ میں اختلاف ہوجانا اور لوگوں کاالگ الگ پارٹیوں میں منقسم ہوجانا عین فطری بات ہے۔ملکی اور ملی مسائل میں بھی لوگوں کے الگ الگ نظریے اور رائیں ہوسکتی ہیں۔اس بنیاد پر ملک کے اندر مختلف سیاسی پارٹیوں کا وجودایک صحت مند علامت ہے۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے فقہی مسائل میں اختلاف کیوجہ سے مختلف مسلک وجود میں آئے۔کوئی بھی مسلمان اپنے خاص فقہی مسلک مثلاً حنفی یا شافعی مسلک سے منسلک ہونے کے باوجود دوسرے مسلک کے مسلمانوں کو نہ تو کافر سمجھتا ہے اور نہ گمراہ۔بلکہ اس مسلک کے اختلاف کے باوجود سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
بالکل یہی صورتِ حال ہے سیاسی مسائل میں اختلاف کے نتیجہ میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے وجود میں آنے کی۔یہ اعتراض کرنا بالکل غلط ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے وجود سے ملک کے اندر تفرقہ اوردشمنی جنم لے گی۔جس طرح فقہی مسائل میں اختلاف کے نتیجہ میں مختلف مسلک ہوسکتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی دشمنی یاعداوت نہیں ہوتی ہے۔اسی طرح سیاسی مسائل میں اختلاف کے نتیجہ میں مختلف سیاسی پارٹیاں وجود میں آسکتی ہیں اور یہ کوئی تفرقہ بندی یا انتشار نہیں ہے۔
سیاسی پارٹیوں کے وجود کے سلسلے میں لوگ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ یہ فکر مغربی ممالک کی دین ہے۔اور ہمیں ان کی تقلید کرنے یا مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
یہ اعتراض بھی بے بنیاد ہے کیونکہ ہمیں ہر طرح کی تقلید سے نہیں بلکہ صرف اندھی تقلید سے منع کیاگیا ہے۔اور ان چیزوں میں مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے جو غیر قوموں کا وجہ امتیاز ہیں مثلاً عیسائیوں کی طرح صلیب پہننا یا ہندوؤں کی طرح پیشانی پر تلک لگانا۔جس نے یہ مشابہت اختیار کی وہ اسی قوم کافرد شمار کیا جانے لگے گا۔البتہ اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے کہ دوسری قوموں کی اچھی اورمفید باتیں اختیار کی جائیں،بلکہ ہمیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ اچھی اور مفید باتیں جہاں سے ملیں انھیں اختیار کرناچاہیے۔چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں خندق کھودنے کا طریقہ ایرانیوں سے سیکھا اور بادشاہوں کے پاس خطوط بھیجتے وقت ان پر مہر ثبت کرنے کے لیےانگوٹھی کا استعمال دوسرے ملک کے بادشاہوں سے سیکھا۔اسی طرح عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ٹیکس اور دیوان کا نظام غیر قوموں سے سیکھا۔اور معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ڈاک کانظام دوسری قوموں سے اختیار کیا۔
اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ غیر قوموں سے سیکھ کر جمہوریت اختیار کی جائے اور جمہوریت کے تحت متعدد سیاسی پارٹیوں کے وجود کوجائز قراردیا جائے۔بشرط یہ کہ:
1۔اس کا اختیار کرنا ہمارے لیے مفید ہو۔
2۔اسے اختیار کرکے اس میں بعض تبدیلیاں لائی جائیں تاکہ یہ چیز ہماری شریعت سے ہم آہنگ ہوجائے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب