السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سگریٹ نوشی کے سلسلے میں ہم نے آپ کی رائے پڑھی کہ سگریٹ نوشی حرام ہے کیوں کہ اس میں جان و مال دونوں کا نقصان ہےاور یہ خود کشی کے برابر ہے۔ سگریٹ ہی کی طرح ہمارے ملک یمن میں ایک چیز بہ کثرت استعمال کی جاتی ہے جسے لوگ"القات"کہتے ہیں۔ یمن میں اس کا استعمال بہت عام ہے حتی کہ علماء بھی شوق سے اسے تناول فرماتے ہیں اور وہ اس میں کوئی قباحت بھی نہیں محسوس کرتے ۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یمن سے باہر کے بعض علماء نے القات کو حرام قراردیا ہے کیوں کہ سگریٹ کی طرح اس میں بھی جان و مال دونوں کا نقصان ہے۔ اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟("القات"پان ہی کی ایک شکل ہے ۔ اس کے پتے بھی پان کے پتوں کی طرح ہوتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ القات کے پتوں کو بغیر چونے اور زردہ کے استعمال کیا جاتا ہے جب کہ پان میں چونا زردہ اور کتھا استعمال کرتے ہیں جس سے اس کے نقصان میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے میری نظر میں اگر القات کا استعمال جائز نہیں ہے تو پان استعمال بہ درجہ اولیٰ جائز نہیں ہے)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سگریٹ کے بارے میں ہم پہلے ہی کافی تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے ہیں کہ پابندی کے ساتھ اس کا استعمال کرنا اور اس کا عادی ہونا حرام ہے۔ کیونکہ اس میں مال کی بربادی کے ساتھ ساتھ صحت کی بھی بربادی ہے اور دھیرے دھیرے یہ چیز موت کے منہ میں لے جاتی ہے۔
یہ تو خود کشی کے برابر ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ اس کے استعمال سے کینسر جیسا مرض ہو سکتا ہے اور موت آسکتی ہے اس کا استعمال کرنا خود کشی نہیں تو اور کیا ہے۔ مزید یہ کہ اس کا نقصان صرف پینے والوں تک محدود نہیں رہتا ہے بلکہ آس پاس بیٹھے لوگ بھی اس کے دھویں سے متاثر ہوتے ہیں۔اور ان کی صحت پر اتنا ہی برااثر پڑتا ہے جتنا پینے والوں پر پڑتا ہے۔ اسلام کا بنیادی اصول ہے:
"لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ"
’’کوئی ایسا کام نہ کرو جس سے خود کو نقصان ہو یا دوسروں کو نقصان ہو‘‘
سگریٹ نوشی میں خود کا بھی نقصان ہے اور دوسروں کا بھی۔ اسلامی شریعت کے تمام احکام پانچ چیزوں کی حفاظت کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔ دین جان عقل نسل اور مال کوئی بھی کام ان پانچ چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو نقصان پہنچائے تو شریعت کی نظر میں وہ کام جائز نہیں ہے۔
آپ غور کریں گے تو معلوم ہو گا کہ سگریٹ نوشی ان پانچوں ہی چیزوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
چند سال قبل"القات"کے موضوع پر مدینہ یونیورسٹی نے ایک سیمینار کرایا تھا اس سیمینار میں شرکت کرنے والے تمام علماء و مشائخ نے متفقہ طور پر سگریٹ کی طرح القات کو بھی ناجائز قراردیا تھا صرف یمنی علماء اس رائے سے متفق نہیں تھے۔ ان کا دعوی تھا کہ لوگ "القات" کی حقیقت سے ناواقف ہیں جبھی انھوں نے اسے ناجائز قراردیا ہے چنانچہ یمن کے علماء و مشائخ بھی بڑے شوق سے القات تناول فرماتے ہیں۔
چند سال قبل یمن کے دورے پر گیا تھا اور ذاتی تجربہ و مشاہدہ کی بنا پر میں نے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے ہیں۔
(1)القات ایک مہنگی شے ہے پہلے میں اسے سگریٹ کی طرح سستی شے تصور کرتاتھا لیکن وہاں جا کر پتا چلا کہ یہ تو سگریٹ کے مقابلے میں دسیوں گنا مہنگی شے ہے۔ اتنی مہنگی شے کو چبا چبا کر تھوک دینا بلا شبہ فضول خرچی ہے۔ نہ تو اس میں کوئی دینی فائدہ ہے اور نہ دنیوی ۔
(2)القات کا استعمال سراسر وقت کی بربادی ہے۔ عام طور پر لوگ اسے ظہر کے بعد سے لے کر مغرب تک استعمال کرتے ہیں اس دوران لوگ القات چبانے اور گپیں لڑانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کرتے۔ ذرا غور کریں کہ پورے ملک میں اس رواج سے کس قدر وقت کی بربادی ہوتی ہے یہ تو ملک کا بہت بڑا نقصان ہے۔ اتنا سارا وقت اگر کسی مفید کام میں لگایاجاتا تو ملک کی تعمیر و ترقی میں خاصی مدد ملتی لوگ اب اس نقصان کو محسوس کرنے لگے ہیں۔
(3)یمن کی تقریباً تیس فیصد زمین القات کی پیداوار میں استعمال ہوتی ہے۔ اگر یہی زمین اناج اگانے کے لیے استعمال کی جاتی تو یمن کو باہر ملکوں سے غلہ درآمد کرنے کی ضرورت نہ ہوتی ۔بلاشبہ اتنے بڑے پیمانے پر القات کی پیداواریمن کے بجٹ پر مالی بوجھ ہے۔
(4)انصاف پسند لوگ اقرار کرتے ہیں کہ صحت کے نقطہ نظرسے القات ایک نقصان دہ چیزہے جو لوگ بلاوجہ اس میں فائدہ تلاش کرنےکی کوشش کرتے ہیں انھیں سمجھنا چاہیے کہ اگر اس میں تھوڑا بہت فائدہ ہے بھی تواس کے مقابلے میں اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں کسی چیز میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتو شریعت کی روسے وہ ناجائز قرارپاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب شراب اور جوئے کو حرام کیا تو اس کی یہی وجہ بتائی کہ اس میں فائدہ اور نقصان دونوں ہےلیکن فائدہ کے مقابلے میں نقصانات زیادہ ہیں۔[1]
ان حقائق کی بنیاد پر یمن کے علماء ومشائخ اب اس بات کا اعتراف کرنےلگے ہیں کہ القات کو ناجائز ہونا چاہیے چنانچہ یمن کے مشہور عالم دین علامہ محمد سالم البیحانی نے اپنی کتاب "اصلاح المجتمع" میں بڑی تفصیل کے ساتھ القات کے نقصانات پر روشنی ڈالی ہے اور اسے ناجائز قراردیا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ القات میں مال کی بربادی کے ساتھ ساتھ وقت اور صحت کی بھی بربادی ہے۔ اس سے دانت اور معدہ خراب ہوتا ہے اور مختلف قسم کی پیٹ کی بیماریاں ہوتی ہیں۔ اس کا استعمال کرنے والوں کا جسم عام طور پر کمزورہونے لگتا ہے سگریٹ کی طرح تمباکو کا استعمال بھی جائز نہیں ہے۔ یہ شراب کی طرح نشہ آور تو نہیں لیکن اس میں متعدد خرابیاں اور بیماریاں پائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام اہل علم اس کے استعمال کو ناجائز قراردیتے ہیں۔ ان چیزوں سے زیادہ مضر اور پھوہڑ وہ تمباکو (کھینی)ہے جسے لوگ ہاتھوں میں مل کر دانتوں کے درمیان رکھتے ہیں یا ناک سے سونگھ کر چھینک لیتے ہیں۔ یہ لوگ کھینی کھا کر ادھر ادھر تھوکتے ہیں خود بھی نقصان اٹھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی بیماریوں میں مبتلا کرتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ سگریٹ ہو یا القات یا تمباکو ان تمام چیزوں کے نقصانات اتنے زیادہ ہیں کہ کوئی بھی انصاف پسند عالم دین ان کے استعمال کو جائز اور مباح نہیں قراردے سکتا۔
[1]۔آپ غورکریں گے تو معلوم ہوگا کہ پان کے استعمال میں وقت کی بربادی تو نہیں ہےالبتہ مال اور صحت کی بربادی ضرور ہے۔ اس میں زردہ کا استعمال اس کے نقصان میں مزید اضافہ کردیتا ہے۔ اس کے استعمال سے دانتوں کو نقصان پہنچتا ہے اور بھوک کم ہونے لگتی ہے۔ پان کے استعمال سے صحت پر کافی برااثر پڑتا ہے اور یہ کہ پان کھانے والے ادھر ادھرتھوکتے رہتے ہیں۔یہ لوگ عمارتوں کو غلیظ اور بدنما کر دیتے ہیں اور بیماری پھیلانے کاکام کرتے ہیں ان سب حقائق کی روشنی میں پان کا استعمال کسی صورت جائز نہیں ہے۔ پتا نہیں کہ برصغیر کے علماء کو یہ بات کیسے گواراہوتی ہے کہ خود بھی شوق سے پان کھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی گلوریاں پیش کرتے ہیں۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب