سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(42) زور زبردستی کا حمل

  • 23945
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1932

سوال

(42) زور زبردستی کا حمل

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بوسنیا کی ان لڑکیوں اور عورتوں نے جو سربیا کے وحشی اور ظالم فوجیوں کی جنسی ہوس کا نشانہ بن چکی ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو چکی ہیں۔ انھوں نے اس حرام حمل کے بارے میں دریافت کیا ہے ظاہر ہے کہ یہ حمل ان کی مرضی کے خلاف اور زور زبردستی کے ذریعے قرار پایا ہے۔ وہ جاننا چاہتی ہیں کہ وہ اس حرام حمل کا کیا کریں؟ کیا وہ اس کا اسقاط کراسکتی ہیں؟اگر نہیں کرا سکتی ہیں تو ولادت کے بعد یہ بچہ مسلم کہلائے گا یا کافر؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہی سوال مجھ سے اریٹریا کی ان مسلم خواتین نے کیا تھا جواریٹریاکی تحریک آزادی کے دوران عیسائی فوجیوں کی جنسی ہوس کا نشانہ بن چکی تھیں اور اس سے قبل ایسا ہی سوال ان مسلم خواتین نے کیا تھا جو بغیر کسی قصور کے جیلوں میں بند ہیں اور افسران جیل وقتاً فوقتاً ان سے اپنی جنسی پیاس بجھاتے رہتے ہیں ان سب کا سوال یہ تھا کہ اس زور زبردستی کے نتیجہ میں جو بچہ ان کے پیٹ میں پل رہا ہے وہ اس کا کیا کریں؟

اس سوال کے جواب میں میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ زور زبردستی کے ذریعے جنسی ہوس کا نشانہ بن جانے والی لڑکیاں اور عورتیں بے قصور اور بے گناہ ہیں یہ گناہ ان کی  مرضی سے نہیں ہوا ہے۔اللہ کا قانون حق وانصاف پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ توزنا سے زیادہ بھیانک جرم شرک کو بھی درگزرکر دیتا ہے اگر کسی شخص کو اس کی مرضی کے خلاف شرک پر مجبورکیا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

﴿ إِلّا مَن أُكرِهَ وَقَلبُهُ مُطمَئِنٌّ بِالإيمـٰنِ ...﴿١٠٦﴾... سورة النحل

’’سوائے اس شخص کے جس کے ساتھ زبردستی کی جائے لیکن اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔‘‘

بلکہ اضطراری حالت اور مجبوری میں حرام چیزیں بھی حلال ہو جاتی ہیں:

﴿ فَمَنِ اضطُرَّ غَيرَ باغٍ وَلا عادٍ فَلا إِثمَ عَلَيهِ إِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿١٧٣﴾... سورة البقرة

’’ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہوا ور وہ ان میں سے کوئی چیز کھالے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہویا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے۔ بلا شبہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘

اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے۔

"إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ "

’’اللہ تعالیٰ نے میری امت کی بھول چوک اور اس گناہ کو معاف فرمایا ہے جو زور زبردستی کے ذریعہ کرایا جائے۔‘‘

ان لڑکیوں اور عورتوں کا صرف اتنا قصور ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور صرف اسی بنا پر انھیں بے عزت کیا گیا ہے اور وہ جنسی استحصال کا شکار ہوئی ہیں ان شاء اللہ وہ اس ظلم و بربریت کے عوض میں اللہ کے یہاں اجرو ثواب کی مستحق ہوں گی۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"مَا يُصِيبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ وَلَا هَمٍّ وَلَا حَزَنٍ وَلَا أَذًى وَلَا غَمٍّ ، حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا إِلَّا كَفَّرَ اللهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ" (بخاری)

’’مسلم کو جو بھی مصیبت ،تکلیف غم اور پریشانی لاحق ہوتی ہے حتی کہ اگر اس کے کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ اس کے بدلہ اس کے گناہ  کو معاف کردیتا ہے۔‘‘

میں مسلم جوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان مظلوم خواتین کو اپنی عصمت میں لے لیں۔ ان سے شادی کر لیں تاکہ ان کے غم وآلام کا کچھ تو امداد ہو سکے۔ کیوں کہ کسی شریف عورت کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا مصیبت ہو سکتی ہے کہ درندہ صفت لوگ اس کی عزت و آبرو کو خاک میں ملادیں۔البتہ اس حمل کے اسقاط سے میں متفق نہیں ہوں ۔ میں اس سے پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ استقراحمل کے بعد اسے ساقط کرانا جائز نہیں ہے۔ خواہ یہ حمل زنا کے نتیجے ہی میں قرارپایا ہو۔کیوں کہ زنا کے ذریعے وجود میں آنے والا بچہ بھی ایک جیتی جاگتی روح ہے اور اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے کہ وہ زنا کی وجہ سے وجود میں آیا ہے یہی وجہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت غامدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  (وہ صحابیہ جنھوں نے زنا کا ارتکاب کیا تھا اور اس کا اعتراف بھی کر لیا تھا) کو ان کے اعتراف کے فوراً بعد رجم موت کی سزا نہیں دی تھی بلکہ انھیں حکم دیا کہ پہلے وہ بچے کو جنم دے لیں اور دو سال تک اسے دودھ پلائیں ۔ چنانچہ اس کے بعد انھیں رجم کی سزادی گئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے انھیں اس بات کا حکم نہیں دیا کہ یہ حرام نطفہ کا بچہ ہے اس لیے اسے ساقط کرادیں اس سلسلے میں میرا فتوی یہی ہے۔ البتہ بعض علمائے کرام کسی معقول عذر کی بنا پر چالیس دن سے پہلے پہلے اور بعض علمائے کرام ایک سوبیس دن سے پہلے پہلے اسقاط کی اجازت دیتے ہیں کیوں کہ اس مدت میں حمل میں روح نہیں ہوتی ہے۔

گویا یہ ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔ سوال کرنے والی خواتین چاہیں تو اس فقہی اختلاف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حمل کو چالیس یا ایک سو بیس دن سے قبل اسقاط کراسکتی ہیں۔ اس کے لیے ان کے پاس ایک معقول عذربھی ہے۔اور وہ عذریہ ہے کہ حالت جنگ میں ان کے ساتھ زنا بالجبرکیا گیا ہے اور اگر وہ چاہیں تو اس حمل کو ساقط نہ کرائیں اور بچے کو جنم دیں۔ کوئی شخص انہیں زبردستی اسقاط پر مجبور نہیں کر سکتا ہے۔ اور جنم لینے والا بچہ مسلمان ہی کہلائے گا کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ " (بخاری)

"ہربچہ دین فطرت (اسلام ) پر جنم لیتا ہے۔"

ولادت کے بعد اس بچے کی تعلیم و تربیت اور نان و نفقہ کی ذمے داری مسلم حکومت اور مسلم معاشرہ پر عائدہوتی ہے۔ یہ بات کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے کہ ایسی مظلوم ماں اور بے سہارا بچہ کو یونہی بے یارو مدد گار چھوڑ دیا جائے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

طبی مسائل،جلد:2،صفحہ:268

محدث فتویٰ

تبصرے