سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(40) انسانی اعضاء کی پیوند کاری

  • 23943
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-01
  • مشاہدات : 5385

سوال

(40) انسانی اعضاء کی پیوند کاری

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

انسانی اعضاء کی پیوند کاری  کے سلسلے میں مجھ سے کچھ سوالات کیے گئے ہیں چونکہ یہ اجتہادی مسائل ہیں اس لیے میں نے ان کے جواب میں تحقیق کارویہ پیش نظر رکھا ہے۔ اجتہادی مسائل میں کسی بھی فقیہ یا مفتی کی رائے حتمی نہیں ہو سکتی اس لیے میں بھی ان مسائل میں اپنی رائے کو قطعی یا حرف آخرنہیں قرار دے سکتا ۔ پہلے میں ان تمام سوالات کو یکجا پیش کرتا ہوں۔

(1)کیا کسی مسلمان کے لیے جائز ہے کہ اپنی زندگی ہی میں اپنے کسی عضو کا عطیہ کسی دوسرے شخص کو دے دے؟

(2)کیا موت کے بعد میت کے کسی عضو کو بہ عطیہ کسی کو دیا جا سکتا ہے؟

(3)عضو کا عطیہ کسے دیا جا سکتا ہے؟ اپنے کسی رشتہ دار یا دوسرے مسلمانوں کو؟ یا مسلم وغیر مسلم کسی بھی انسان کو۔

(4)اگر اس کا عطیہ کرنا جائز ہے تو کیا اس کی خریدو فروخت بھی جائز ہے؟

(5)کیا میت کے گھر  والوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ میت کے کسی عضو کا عطیہ دے سکیں؟ اسی طرح کیا حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ حادثات میں مرنے والوں کے بعض اعضا کو محفوظ کر کے زندہ لوگوں میں کسی ضرورت مند کو عطیہ کردے۔

(6)کیا کسی غیر مسلم کا عضو کسی مسلم کے جسم میں لگایا جا سکتا ہے؟

(7)کیا کسی جانور (پاک و ناپاک )کا عضو کسی مسلم کے جسم میں لگایا جا سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسانی اعضاء کا عطیہ کرنا جائز ہے یا ناجائز اس سلسلے میں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ چونکہ انسان اپنے جسم کا مالک نہیں ہو تا ہے۔ اور اس میں کسی قسم کے تصرف کا حق اسے حاصل نہیں ہے۔اس لیے جس چیز کا وہ مالک نہیں ہے اسے وہ عطیہ بھی نہیں کر سکتا ہے۔ لیکن اس مسئلہ کو ایک دوسرے زاویے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ انسانی جسم اگرچہ اللہ کی ملکیت ہے لیکن اللہ ہی نے انسان کو اس بات کا حق عطا کیا ہے کہ فائدے اور نفع کی خاطر اس ملکیت میں وہ اپنی مرضی سے تصرف کر سکے۔ مثال کے طور پر جسم کی طرح مال و دولت بھی اللہ کی ملکیت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بطور امانت انسان کو عطا کیا ہے جیسا کہ اللہ خود فرماتا ہے:

﴿وَءاتوهُم مِن مالِ اللَّهِ الَّذى ءاتىٰكُم...﴿٣٣﴾... سورة النور

’’اور انھیں اللہ کے اس مال میں سے دو جو اسی نے تم کو عطا کیا ہے۔‘‘

اس آیت میں واضح طور پر اللہ نے یہ بات کہہ دی ہے کہ اس نے جو مال ہمیں عطا کیا ہے وہ دراصل اللہ کا مال ہے۔ لیکن اس کے باوجود اللہ نے ہمیں اس بات کا حق عطا کیا ہے کہ ہم اپنی مرضی سے اس میں تصرف کر سکیں۔ اس لیے جس طرح مال و دولت کا عطیہ دے کر ہم کسی انسان کی مدد کر سکتے ہیں اسی طرح اپنے جسم کا کوئی عضو کسی ضرورت مند انسان کو دے کر اس کی مددکرسکتے ہیں لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ انسان اپنی پوری دولت کسی کو عطیہ دے سکتا ہے لیکن اپنا پورا جسم کسی کو عطیہ نہیں دے سکتا یا کوئی ایسا عضو بہ طور عطیہ نہیں دے سکتا کہ جس کے  عطا کرنے سے خود اس کی جان چلی جائے۔ جس طرح کسی مسلمان کے لیے یہ جائز ہے کہ دریا میں کود کر کسی ڈوبتے ہوئے انسان کو بچائے یا جلتے ہوئے مکان میں داخل ہو کر کسی شخص کی جان بچائے اس ی طرح یہ بھی جائز ہونا چاہیے کہ اپنے جسم کا کوئی عضو عطا کر کے کسی مرتے ہوئے شخص کی جان بچائے۔ آج ہم خون کے عطیہ کو جائز قراردیتے ہیں حالانکہ خون بھی تو انسانی جسم کا ایک حصہ ہے اور بہت ہی اہم حصہ ہے۔

اسلامی شریعت کا اصول ہے کہ بہ قدر امکان کسی کی مصیبت کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ جبھی تو بھوکوں کو کھانا کھلانا قیدیوں کو رہائی دلانا مریض کا علاج کرانا اور مرتے ہوئے شخص کی جان بچانا شریعت کی نظر میں بڑے نیک اعمال ہیں کسی مسلم کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ کسی شخص کو مصیبت میں دیکھے اور اس کی مدد نہ کرے۔

اس بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر کسی مریض کو کسی انسانی عضو کی اتنی شدید ضرورت ہے۔کہ اس کے بغیر اس کازندہ رہنا مشکل ہے۔ مثلاً یہ کہ اس کا گردہ ناکارہ ہوجائے اور اسے گردےکی شدیدضرورت ہے تو ایسی صورت میں کوئی شخص اپنے دو گردوں میں سے ایک گردے کا عطیہ دے کر اس کی جان بچالے تو اس کا یہ عمل باعث اجرو ثواب ہے۔ اگر مال و دولت کا عطیہ باعث اجرو ثواب ہے تو انسانی عضو کا عطیہ اس سے بھی بڑھ کر کار ثواب ہے کیوں کہ مال کے بغیر محتاج انسان مر نہیں جائے گا لیکن اس عضو کے بغیر اس کی زندگی ختم ہو سکتی ہے۔ البتہ انسانی عضو کا عطیہ کرنا چند شرطوں کے ساتھ جائز ہے:

(1)کسی ایسے عضو کا عطیہ جائز نہیں ہے جو جسم میں ایک ہی عد دہو مثلاً دل کیوں کہ اس کا عطیہ دینے کے بعد انسان کے لیے زندہ رہنا ممکن نہیں ہے۔

(2)اسی طرح کسی ظاہری عضو کا عطیہ دینا جائز نہیں مثلاً ہاتھ پیر آنکھ وغیرہ

(3)عطیہ دینے سے اگر بیوی اور بال بچوں میں سے کسی کو نقصان ہو رہا ہو تو ایسی صورت میں عطیہ دینا جائز نہیں ہے۔ مجھ سے ایک عورت نے سوال کیا کہ میں اپنا ایک گردہ اپنی بہن کو عطیہ کرنا چاہتی ہوں لیکن میرا شوہر راضی نہیں ہے میں کیا کروں؟میں نے جواب دیا کہ چونکہ تم پر تمھارے شوہر کے حقوق زیادہ ہیں تم اپنا ایک گردہ عطیہ دینا چاہتی ہو۔ اس کے لیے تمھارا آپریشن ہو گا۔ جسمانی طور پر تم کمزور ہو جاؤ گی ساری زندگی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی اور یہ ساری باتیں تمھارے شوہر کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ تم اپنے شوہر سے بھی اس بات کی اجازت لے لو۔

(4)عضو کا عطیہ کرنے والا عاقل و بالغ ہو۔ کم سن بچہ اپنی مرضی سے یہ کام نہیں کر سکتا کیونکہ اپنے نفع و نقصان کی اسے تمیز نہیں ہے۔ یہی حال پاگل شخص کا ہے۔

(5)بچے اور پاگل کے سرپرست (ولی) کےلیے بھی جائز نہیں ہے کہ اپنی مرضی سے ان کے کسی عضو کا عطیہ کریں۔

موت کے بعد عضو کا عطیہ کرنا

جس طرح انسان اپنی زندگی میں اپنے کسی عضو کا عطیہ کر سکتا ہے اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ مرنے سے قبل یہ وصیت کر جائے کہ میرے مرنے کےبعد اس کا فلاں عضو عطیہ کر دیا جائے اس لیے کہ مرنے کے بعد لازمی طور پر اس کا جسم مٹی میں مل کر نیست و نوبود ہو جائے گا اور کسی کے کام کا نہ رہے گا۔نیست و نابود ہونے کے بجائے اس کا کوئی عضو کسی ضرورت مند کے کام آجائے تو یہ عمل یقیناً قابل تحسین اور باعث اجرو ثواب ہے۔ قرآن و سنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے عطیہ دینے کی ممانعت ثابت ہو رہی ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک موقع پر کسی صحابی سے کہا تھا ’’کسی ایسی چیز کو دینے سے کیوں رک رہے ہو۔ جس کے دینے سے تمھارا کوئی نقصان نہیں ہے لیکن کسی اور کا بھلا ہو جائے گا۔"ذرا غور کیجیے کہ مرنے والا مر جائے گا اور اس کے کسی بھی عضو سے نہ وہ خود فائدہ اٹھا سکتا ہے اور نہ کوئی اور ۔ ایسی صورت میں اگر کسی ضرورت مند کو اس کا کوئی قابل استعمال عضو عطیہ کر دیا جائے تو کیا یہ نیکی کاکام نہیں ہے۔

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ موت کے بعد کسی عضو کے نکالنے سے لاش کی بے حرمتی ہوتی ہے اور لاش کی بے حرمتی سے منع کیا گیا ہے۔ حدیث شریف ہے:

" كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِ عَظْمِ الْحَيِّ " (مسند احمد)

’’مردہ کی ہڈی توڑنا زندہ شخص کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے۔‘‘

ان کے اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ لاش کی بے حرمتی جائز نہیں ہے لیکن مردہ جسم سے کسی عضو کےنکال لینے سے اس کی بے حرمتی نہیں ہوتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح زندہ شخص کے جسم میں آپریشن کر کے کسی عضو کو نکال لیا جائے تو اس کی بے حرمتی نہیں ہوتی ہے مذکورہ حدیث میں جس چیز سے منع کیا گیا ہے وہ ہے لاش کا مثلہ بنانا اور اسے مسخ کرنا جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ انتقاماً کیا کرتے تھے۔

بعض لوگ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ سلف صالحین میں سے کسی نے بھی عضو کے عطیہ کے سلسلے میں کوئی کلام نہیں کیا ہے اور نہ اسے جائز قراردیا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم سلف صالحین کے نقش قدم پر چلیں ان کے اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ سلف صالحین کے زمانہ میں اعضاء کی پیوندی کاری کا کوئی تصور نہیں تھا جب یہ کام ان کے زمانے میں ہوتا ہی نہیں تھا تو اس سلسلے میں بھلا وہ کلام کیسے کرتے؟دور حاضر میں ہم بہت سارے ایسے کام کرتے ہیں جو سلف صالحین نے نہیں کیے تھے کیوں کہ ان کے دور میں ان چیزوں کا وجود ہی نہیں تھا۔ اعضاء کی پیوندی کاری بھی ان چیزوں میں سے ایک ہے۔ اس سلسلے میں ایک بات ذہن نشین کرانی ضروری ہے اور وہ یہ کہ میت کے پورے جسم کا عطیہ جائز نہیں ہے۔ تاکہ شریعت کے حکم کے مطابق میت کی تکفین و تدفین ہو سکے۔

کسی غیر مسلم کو عضو کا عطیہ دینا 

جس طرح مال و دولت کا عطیہ کسی غیر مسلم کو دیا جاسکتا ہے اسی طرح عضو کا عطیہ بھی غیر مسلم کو دیا جا سکتا ہے الایہ کہ یہ غیر مسلم کھلم کھلامسلمانوں کا دشمن ہو یا اسلام سے مرتد ہو گیا ہو تو ایسی صورت میں یہ عطیہ جائز نہیں ہے اگر صورت حال ایسی ہو کہ مسلم اور غیر مسلم بیک وقت دونوں ہی کسی عضو کے ضرورت مند ہوں تو ایسی صورت میں مسلم شخص کو ترجیح دی جائے گی کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:

﴿وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ... ﴿٧١﴾... سورة التوبة

’’مومن  مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں۔‘‘

اسی طرح دین دار مسلم کو غیر دین دار مسلم پر اور رشتہ دار کو غیر رشتہ دار پر ترجیح دی جائے گی۔ اور جس طرح کسی متعین شخص کو عضو کا عطیہ دینا جائز ہے اسی طرح کسی ایسے فرد یا سوسائٹی کو بھی یہ عطیہ دینا جائز ہے جو ان اعضاء کو محفوظ رکھتی ہو اور اور بہ وقت ضرورت مستحق لوگوں کو ان اعضاء کا عطیہ فراہم کرتی ہو۔

عضو کا عطیہ جائز ہے لیکن اس کی خریدو فروخت جائز نہیں ہے۔

انسانی اعضاء کا عطیہ تو جائز ہے لیکن اس کی خریدو فروخت جائز نہیں ہے تاکہ انسانی جسم سامان تجارت نہ بن جائے کہ اس سے اس کی بے حرمتی لازمی آتی ہے۔افسوس کی بات ہے کہ بعض غریب ملکوں میں انسانی اعضاء کی تجارت زوروں پر ہے۔ غریبوں کو پیسے کالالچ دے کر یا ان کی بے خبری میں ان کے اعضاء نکال لیے جاتے ہیں اور مال داروں کو مہنگے داموں فروخت کیے جاتے ہیں بلاشبہ یہ ایک گھناؤنا جرم ہے۔

عضو کا عطیہ قبول کرنے والا اگر اپنی خوشی سے عطیہ دینے والے کو بہ طور انعام کچھ رقم دے دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطے کہ پہلے سے اس سلسلے میں کوئی بات نہ کی گئی ہو۔

اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ قرض لینے والا اپنی خوشی سے قرض دینے والے کو قرض کی واپسی کے وقت قرض کی رقم سے کچھ زائد رقم عطا کردے۔یہ زائد رقم عطا کرنا جائز ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی ایسا کیا ہے۔

میت کے وارثین میت کے اعضاء کا عطیہ دے سکتے ہیں یا نہیں

جس طرح مرنے کے بعد میت کی دولت کے مال اس کے وارثین بن جاتے ہیں اسی طرح مرنے کے بعد میت کا جسم اس کی اپنی ملکیت نہیں رہ جاتا بلکہ اس پر تصرف کا حق اس کے وارثین کو مل جاتا ہےاس لیے میت کے سر پرست اور وارثین کے لیے میت کے کسی عضو کا عطیہ کرنا جائز اور درست ہے۔ ایسا ہی حق اللہ تعالیٰ نے مقتول کے وارثین کو دیا ہے کہ چاہیں تو وہ قتل کے بدلے قصاص کا مطالبہ کریں یا چاہیں تو قصاص نہ لے کردیت پر اکتفا کریں۔ اللہ کا فرمان ہے:

﴿ وَمَن قُتِلَ مَظلومًا فَقَد جَعَلنا لِوَلِيِّهِ سُلطـٰنًا فَلا يُسرِف فِى القَتلِ إِنَّهُ كانَ مَنصورًا ﴿٣٣﴾... سورة الإسراء

’’اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے پس چاہیے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے اس کی مدد کی جائےگی۔‘‘

قطرمیں کسی نے مجھ سے دریافت کیا کہ وہ بچے جو پیدائشی طور پر ناقص الجسم(Abnormal) پیدا ہوتے ہیں اور جن کے زیادہ دنوں تک زندہ رہنے کی کوئی امید  نہیں ہوتی ہے کیا ان کے بعض اعضاء کو نکا ل کر ان بچوں کو عطا کیا جا سکتا ہے جنھیں ان اعضاء کی سخت ضرورت ہے؟ میں نے جواب دیا کہ یہ کام نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ باعث اجرو ثواب ہے۔ میرے اس فتوے پر لوگوں نے عمل کیا اور اللہ کا شکر ہے کہ اس کی وجہ سے بہت سارے بچوں کو نئی زندگی مل گئی البتہ اگر مرنے والا مرنے سے قبل اپنے کسی عضو کے عطیہ سے منع کر جائے تو ایسی صورت میں وارثین اس کے اس عضو کا عطیہ نہیں دے سکتے۔

اسی طرح حکومت کے لیے بھی جائز ہے کہ حادثات میں پائی جانے والی لاوارث  لاشوں کے اعضاء کو نکال کر محفوظ کر لے تاکہ بہ وقت ضرورت حاجت مند مریضوں میں ان اعضاء کی پیوندی کاری کی جا سکے۔ بہ شرطے کہ اس بات کا یقین کر لیا جائے کہ یہ لاش لا وارث ہے۔

غیر مسلم شخص کا عضو مسلم شخص کے بدن میں لگانا

غیر مسلم شخص کے عضو کی مسلم شخص کے بدن میں پیوندکاری بالکل جائز اور درست ہے۔کیوں کہ انسان کے اعضاء مسلم یا کافر نہیں ہوتے اور قرآن کی یہ آیت کہ:

﴿إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ﴾

’’مشرکین نجس اور ناپاک ہیں‘‘

اس آیت میں نجاست سے مراد ظاہری اور جسمانی نجاست نہیں ہے بلکہ روحانی اور معنوی نجاست ہے۔

کسی ناپاک جانور کا عضو مسلم شخص کے بدن میں لگانا 

رہا یہ سوال کہ کسی ناپاک جانور مثلاً سور وغیرہ کا کوئی عضو کسی مسلم شخص کے بدن میں لگایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ تو اس سلسلے میں میرا جواب یہ ہے کہ انتہائی ناگزیر حالت میں اس کی اجازت دی جا سکتی ہےاور وہ بھی بہ قدر ضرورت ، اسی طرح جس طرح انتہائی ناگزیرحالت میں اللہ تعالیٰ نے اس کے گوشت کو بہ قدرضرورت حلال قراردیا ہے۔

سور کی جو چیز حرام کی گئی ہے وہ ہے اس کا گوشت کھانا جیسا کہ قرآن کی آیتوں سے پتا چلتا ہے رہا اس کے اعضاء سے استفادہ کرنا تو صراحت کے ساتھ کہیں بھی اس کی حرمت نہیں بیان کی گئی ہے سور کی طرح مردار کا گوشت بھی اللہ تعالیٰ نے حرام قراردیا ہے لیکن اس کے چمڑے سے استفادے کو جائز قراردیا ہے اور جہاں تک اس کے عضو کے نجس ہونے کا سوال ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ نجاست قابل گرفت ہوتی ہے جو جسم کے ماہری حصہ میں لگی ہوتی ہے جسم کے اندرونی حصے میں تو پہلے ہی سے پیشاب پاخانہ اور خون کی صورت میں بےشمارنجاست اور غلاظت بھری ہوتی ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سور کے نجس عضو کو بدن کے اندرونی حصے میں لگانا کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہونی چاہیے۔

آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ایک مرد کے خصیے کو دوسرے مرد میں لگانا کسی صورت جائز نہیں ہے کیوں کہ اس خصیہ میں وہ مادہ ہوتا ہے جس سے بچے کی ولادت ہوتی ہے ۔ اگر ایک مرد کے خصیے کو دوسرے مرد میں لگادیا جائے تو اس سے نسب کے خلط ملط ہونے کا امکان ہے۔ یہی تو وہ امکان ہے۔ جس کی وجہ سے عورت طلاق یا شوہر کی وفات کے بعد عدت گزارتی ہے۔

اسی طرح کسی شخص کے دماغ کو دوسرے شخص میں لگانا درست نہیں ہے کیوں کہ اس طرح بڑے غلط نتائج سامنے آسکتے ہیں واللہ اعلم بالصواب۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

طبی مسائل،جلد:2،صفحہ:255

محدث فتویٰ

تبصرے