سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(36) شطرنج

  • 23939
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3167

سوال

(36) شطرنج
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا شطرنج کھیلنا جائز ہے؟ آپ نے اپنی کتاب "الحلال والحرام فی الاسلام" میں اسے تین شرطوں کے ساتھ جائز قراردیا ہے۔ وہ شرطیں یہ ہیں۔

(1)یہ کھیل نماز اور دوسرے فرائض سے غافل نہ کردے۔

(2)اس میں جوانہ شامل ہو۔

(3)کھیل کے دوران گالم گلوچ نہ ہو۔

میں نے بعض حضرات کو یہ کہتے سنا ہے کہ آپ اپنے فتووں میں کافی نرمی اور سہولت کا پہلو اختیار کرتے ہیں۔ آپ میں چیزوں کو حلال اور جائز قراردیا دینے کا رجحان زیادہ ہے۔ ان کے مطابق آپ دینی معاملات میں کافی بے پروائی اور سہل پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کے قول کے مطابق  شطرنج ایک حرام کھیل ہے جسے آپ نے جائز قراردیا ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں تسلی بخش وضاحت مطلوب ہے۔ مجھے بھی اس کھیل میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی ہے۔ ہم خالی وقتوں میں خوش گپیاں اور عیب جوئی کرنے کی بجائے اس کے ذریعے تفریح حاصل کر لیتے ہیں۔کیا ہمارا یہ موقف صحیح ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کچھ دنوں پہلے بحرین کی ایک فقہی کانفرنس میں میرے کسی دینی بھائی نے مجھ پر اسی قسم کی تہمت لگائی تھی کہ میں اپنے فتووں میں کافی سہولت پسندی اور نرمی کی طرف مائل ہوں اور یہ کہ میں چیزوں کو ناجائز قراردینے سے زیادہ انھیں جائز قراردینے میں دلچسپی رکھتا ہوں مجھے یادہے کہ میں نے اسی کانفرنس میں اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ جو لوگ مجھ پر سہل پسندی کا الزام لگاتے ہیں ایسا ہی الزام میں ان پر بھی لگا سکتا ہوں کہ وہ اپنے فتووں میں تشدد اور سختی کی طرف مائل ہیں۔ انھیں چیزوں کو جائز اور حلال قراردینے سے زیادہ حرام اور ناجائز قراردینے میں دلچسپی ہے۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا حکم یہ ہے کہ دینی احکام میں آسانیاں فراہم کی جائیں اور سختیوں سے پرہیز کیا جائے۔ ملاحظہ کریں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی دو حدیثیں :

"يَسِّرَا وَلاَ تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلاَ تُنَفِّرَا" (بخاری مسلم)

"آسانیاں پیدا کرو مشکلیں اور سختیاں نہیں اور ایسی باتیں بتاؤ جن سے دل میں اسلام کے لیے رغبت پیدا ہو۔ ایسی باتیں نہ بتاؤ جن سے اسلام سے دوری اور تنفر پیدا ہو۔"

"إنما بعثتم ميسرين ولم تبعثوا معسرين" (بخاری ،ترمذی)

"تمھیں آسانیاں فراہم کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے نہ کہ سختیاں اور مشکلیں بنانے والا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو جب بھی دوچیزوں میں سے کسی ایک کو اپنانے کا اختیار دیا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیشہ ان میں سے آسان پہلو کو اختیاردیا گیا۔اسی مفہوم کی دوسری صحیح احادیث اور قرآن کی آیتیں بھی ہیں پھر یہ لوگ آسانی اور نرمی کی بجائے تشدد اور سختی کی طرف میلان کیوں رکھتے ہیں۔ اسلام کا موقف تو یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو چیزوں کو جائز قراردیا جائے اور حتی الامکان لوگوں پر سے پابندیوں اور سختیوں کا بوجھ کم کیا جائے۔ اللہ فرماتا ہے۔

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَسـَٔلوا عَن أَشياءَ إِن تُبدَ لَكُم تَسُؤكُم ... ﴿١٠١﴾... سورة المائدة

"اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو!ایسی باتیں نہ پوچھا کرو، جو تم پر ظاہر کردی جائیں تو ہم پرناگوار ہوں۔"

جتنی چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے حرام قراردے دیا ہے بس انھیں پر اکتفا کرو،خواہ مخواہ کرید کرید کر ایسے سوالات نہ کرو کہ ان کے جواب کی وجہ سے دوسری چیزیں بھی حرام قرار دی جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے بے شمار چیزوں کے معاملے میں خاموشی اختیار کی ہے۔ تاکہ یہ چیزیں ہمارے لیے جائز بنی رہیں یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اپنے بندوں پر، اس لیے ہمیں بھی خواہ مخواہ ان چیزوں کے بارے میں تجسس میں پڑ کر انہیں حرام اور ناجائز قراردینے میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"مَا أَحَلَّ اللهُ فِي كِتَابِهِ فَهُوَ حَلَالٌُ ، وَمَا حَرَّمَ فَهوَ حَرَامٌ ، وَمَا سَكَتَ عَنهُ فَهُوَ عَفْوٌ ، فَاقبَلُوا مِنَ اللهِ عَافِيَتَه ﴿ وَمَا كَانَ رَبُّك نَسِيَّا﴾"

"اللہ نے جس چیز کو اپنی کتاب میں حلال قراردیا ہے وہ حلال ہے اور جسے حرام قراردیا ہے وہ حرام ہے اور جس کے سلسلے میں وہ خاموش ہے اس کے سلسلے میں چھوٹ ہے تم اللہ کی اس چھوٹ کو قبول کرو۔ اللہ تعالیٰ ان چیزوں کے بارے میں بھول چوک کی وجہ سے خاموش نہیں رہا۔"

اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر غضب ناک ہوتا ہےجو اپنی مرضی سے چیزوں کو حلال یا حرام قراردیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

﴿قُل أَرَءَيتُم ما أَنزَلَ اللَّهُ لَكُم مِن رِزقٍ فَجَعَلتُم مِنهُ حَرامًا وَحَلـٰلًا قُل ءاللَّهُ أَذِنَ لَكُم أَم عَلَى اللَّهِ تَفتَرونَ ﴿٥٩﴾... سورة يونس

"اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ان سے کہو تم لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ رزق اللہ نے تمھارے لیے اتاراتھا اس میں تم نے خود ہی کسی کو حرام اور کسی کو حلال ٹھہرا لیا ۔ ان سے پوچھو کہ کیا اللہ نے تم کو اس کی اجازت دی تھی ؟یا تم اللہ پر افترا کر رہے ہو؟"

قرآن و حدیث کے ان دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ دینی احکام میں آسانیوں کی طرف مائل ہونا اور چیزوں کو حلال قرار دینے میں دلچسپی کا مظاہرہ کرنا ہی اسلام کا موقف ہے اور یہی اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فقہی معاملات میں لوگوں کی ضرورتوں زمانے اور علاقے کے حالات اور مزاج کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے مسائل میں سختیاں پیدا ہوتی ہیں ۔یہ بات غیر مسلموں کے سامنے ہمارے دین کی غلط تصویر پیش کرتی ہے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی اس کی صراحت کی ہے۔ مشہور حدیث ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے گھر میں کچھ گانے والی لڑکیوں کو گانا گانے پر ڈانٹا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے گھر میں بیٹھ کر تم یہ حرکت کر رہی ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو روکا اور فرمایا:کہ انھیں خوشی کے موقعے پر گانے دو۔ ذرا یہودی قوم بھی دیکھ لے کہ ہمارے دین میں تفریح کی گنجائش اور وسعت ہے جنوبی افریقہ کے ایک عالم دین نے بھی مجھ پر اسی قسم کا اعتراض کرتے ہوئے مقالہ لکھا تھا لیکن ان کا انداز بہت غیر شائستہ اور تنقیدی آداب و اصول سے محروم تھا۔ ان کے مقالے کو پڑھ کر لگا کہ موصوف کو نہ قرآن کا صحیح علم ہے اور نہ حدیث کا اور نہ علم فقہ پر ہی انھیں کوئی خاص دسترس ہے۔ وہ اصلاًہندوستان کے رہنے والے حنفی المسلک تھے۔ ان کا دعوی تھا کہ تمام علمائے کرام نے متفقہ طور پر شطرنج کو حرام قراردیا ہے اور اس کا کھیلنا گناہ کبیرہ ہے۔

موصوف کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ خود حنفی مسلک میں اس کھیل کو اس وقت تک حرام نہیں قرار دیا گیا جب تک کہ اس میں جوانہ شامل ہو۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے میں شطرنج کے سلسلے میں چاروں مسلک کی رائے بیان کر دوں۔

(1)احناف کی معتبر فقہی کتاب قدوری اور ہدایہ کے مطابق وہ شخص جو شطرنج میں جوا کھیلتا ہے اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ اس لیے کہ جواکھیل کر اس نے حرام کام کیا ہے۔

محض شطرنج کھیلنا کوئی ایسا برا کام نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے اس کی شہادت ٹھکرادی جائے۔

(2)امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  اپنی کتاب "الروضہ"میں شافعی مسلک کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔"شطرنج کھیلنا بعض لوگوں کے نزدیک مکروہ ہے بعض کے نزدیک جائز اور اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ جو لوگ اسے مکروہ کہتے ہیں ان کے نزدیک مکروہ تنز یہی ہے۔"آگے مزید لکھتے ہیں۔"اگر شطرنج میں جوا کھیلا جائے یا اس کی وجہ سے نماز میں غفلت ہو جائے یا کسی فحش کام کا ارتکاب ہو جائے تو پھر یہ گناہ ہے۔ ایسے شخص کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی۔"

(3)امام ابن رشد اس سلسلے میں امام مالک کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔"امام مالک سے شطرنج  کے سلسلے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ بہت اچھا کام نہیں ہے۔ لیکن اس میں کوئی حرج  بھی نہیں ہے۔ یہ اور کھیلوں کی طرح محض کھیل تماشے کی چیز ہے۔ البتہ باریش دین داراور بڑی عمر کے لوگوں کو یہ کھیل زیب نہیں دیتا ۔"

(4)ابن قدامہ اپنی کتاب "المغنی "میں حنبلی مسلک کی وضاحت کرتے لکھتے ہیں "ہر وہ کھیل جس میں جوا شامل کر لیا جائے حرام ہے۔ اور جس میں جوا شامل نہیں ہے وہ کھیل حلال بھی ہو سکتا ہے اور حرام بھی، شطرنج تو وہ بغیر جوئے کے بھی حرام ہے۔"

یہ ہیں چاروں مسلک کے اقوال بعض اسے جائز قراردیتے ہیں۔ بعض مکروہ اور بعض کے نزدیک یہ حرام ہے۔ گویا یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے اور اختلافی مسئلے میں کسی بھی ایک رائے کو اختیار کرنے کی مکمل اجازت ہوتی ہے۔

جو لوگ شطرنج کو حرام قراردیتے ہیں ان کے دلایل حسب ذیل ہیں۔

(1)ارشاد ربانی:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا الخَمرُ وَالمَيسِرُ وَالأَنصابُ وَالأَزلـٰمُ رِجسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطـٰنِ فَاجتَنِبوهُ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٩٠﴾... سورة المائدة

"اے ایمان والو! یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ان سے پرہیز کرو تاکہ تمھیں کامیابی نصیب ہو۔"

(2)ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

"إن الله عز وجل ينظر فى كل يوم ثلاثمائة وستين نظرة ليس لصاحب الشاة فيها نصيب"

"اللہ تعالیٰ ہر دن تین سو ساٹھ دفعہ اپنے بندوں پر نظر ڈالتا ہے۔ اس میں سے کوئی بھی نظر بادشاہ والے (شطرنج کھیلنے والے) کے لیے نہیں ہے۔"

"ألا إن أصحاب الشاه في النار الذين يقولون قتلت والله شاهك"

"سن لو!بادشاہ والے (شطرنج کھیلنے والے)جہنم میں جائیں گے۔ جو یہ کہتے ہیں بہ خدا میں نے تمھارے بادشاہ کو مار ڈالا۔"

"ملعون من لعب بالشطرنج"

" شطرنج کھیلنے والے پر لعنت  ہے۔"

(3)جس طرح فرد شیر کھیلنا متفقہ طور پر حرام ہے اسی طرح شطرنج کھیلنا بھی حرام ہے۔ کیوں کہ دونوں کھیل ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔

(4)بعض صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مروی ہے کہ انھوں نے اس کھیل کو پسند نہیں فرمایا:مثلاًحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے جب اس کھیل کو دیکھا تو فرمایا:

﴿ما هـٰذِهِ التَّماثيلُ الَّتى أَنتُم لَها عـٰكِفونَ ﴿٥٢﴾... سورة الأنبياء

یہ کن مورتیوں پر تم گرے پڑے رہے ہو۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اوپر بیان کئے گئے تمام دلائل کمزور اور ناقابل قبول ہیں۔

سورہ مائدہ کی جس آیت کو بہ طور دلیل پیش کیا گیا ہے اس میں جوائے اور شراب کو حرام قراردیا گیا ہے۔ اس آیت میں یہ بات تونہیں ہے کہ شطرنج کھیلنا جوا ہے۔ ہم سب بہ خوبی جانتے ہیں کہ شطرنج بغیر جوئے کے بھی کھیلا جاتا ہے۔ اس آیت میں جوئے کی حرمت ہے نہ کہ شطرنج کی۔

شطرنج کی حرمت کے سلسلے میں جتنی حدیثیں بہ طور دلیل پیش کی گئیں وہ سب ضعیف اور موضوع ہیں۔ان میں سے کوئی بھی حدیث دلیل نہیں بن سکتی۔ واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں عرب قوم شطرنج کے کھیل سے ناواقف تھی۔اسلامی فتوحات کے بعد یہ کھیل ہندوستان اور ایران سے ہوتا ہواعربوں میں آیا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے شطرنج کو حرام قراردینے کے باوجود ان بے سند احادیث کو بہ طور دلیل نہیں پیش کیا ہے۔ ان کی دلیل صرف یہ ہے کہ یہ کھیل نماز اور دوسرے فرائض سے غافل کر دیتا ہے۔

یہ کہنا غلط ہے کہ شطرنج کا کھیل فرد شیر سے مشابہ ہے۔ ان دونوں کھیلوں میں نمایاں فرق ہے۔ شطرنج میں دماغ اور ذہانت کا استعمال ہوتا ہے اور اس میں کافی حد تک سنجیدگی اور شائستگی ہوتی ہے جب کہ فرد شیر ایک گھٹیا اور پھوہڑ کھیل ہے، جس میں عقل و ذہانت کا کوئی کام نہیں ہے اور اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے حرام قراردیا ہے۔

شطرنج سے متعلق صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین کے جن اقوال کو نقل کیا گیا ہے ان میں سے کوئی بھی قول باوثوق ذرائع سے ثابت نہیں ہے۔ علامہ ناصرالدین البانی رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب "ارواء الغلیل"میں تفصیل کے ساتھ واضح کیا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی قول صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے ثابت نہیں ہے بالفرض اگر تسلیم بھی لیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے شطرنج کو دیکھ کر یہ بات کہی تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھیں ذاتی طور پر یہ کھیل پسند نہیں آیا۔ کیوں کہ اگر یہ کھیل حرام ہوتا تو آگے بڑھ کر بزور قوت وہ اس کھیل کو روک دیتے کیوں کہ وہ خلیفہ وقت تھے۔

اس کے برخلافت جو بات باوثوق ذرائع سے مروی ہے۔ وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  خود بھی اس کھیل سے متعلق مختلف رائے رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضرت ابو موسیٰ  اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وغیرہم کے نزدیک یہ کھیل ناپسندیدہ اور مکروہ ہے۔ جب کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے نزدیک یہ کھیل مباح اور جائز ہے۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  شطرنج کھیلتے تھے۔

اس وضاحت کے بعد یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ شطرنج کو حرام قراردینے کے لیے کوئی واضح اور مضبوط دلیل نہیں اور بغیر کسی واضح دلیل کے کسی بھی چیز کو حرام نہیں قراردیا جا سکتا۔

دوسرے کھیلوں کی طرح شطرنج بھی تفریح کا ایک ذریعہ ہے اور اس بات میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ جائز تفریح کی ضرورت سبھی  کوہوتی ہے۔ اپنے فارغ اور خالی وقت میں اگر کوئی شخص تفریح کی خاطر تھوڑی دیر کے لیے شطرنج کھیل لیتا ہے تو یہ اس بات سے بہت بہتر ہے کہ وہ اپنا فارغ وقت غیبت  یا کسی دوسرے فضول مشغلے میں گزار دے۔

شطرنج کے سلسلے میں میرا موقف یہ ہے کہ یہ ایک جائز کھیل ہے بہ شرطے کہ:

1۔اس میں جوانہ شامل ہو۔ اس لیے کہ جوا گناہ کبیرہ اور حرام ہے۔

2۔نماز اور دوسرے فرائض سے غافل نہ کرے خواہ یہ فرائض دنیوی ہی کیوں نہ ہوں۔

3۔کھیل کے دوران گالم گلوچ اور فحش باتوں سے اجتناب کیا جائے۔

(4) عوامی جگہوں پر بیٹھ کر نہ کھیلا جائے۔ اس لیے کہ یہ بات شرافت کے خلاف ہے۔

5۔اعتدال کے ساتھ اور حد میں رہ کر کھیلا جائے۔ حد سے زیادہ کھیلنا اور اس کا عادی ہو جانا صحیح نہیں ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی ومعاشی مسائل،جلد:2،صفحہ:225

محدث فتویٰ

تبصرے