السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مصر کے ایک استاد نے اپنے مقالہ میں لکھا ہے کہ نقاب کا رواج ایک بدعت ہے۔ کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس طرح کے نقاب کا رواج نہیں تھا ۔ ازہر یونیورسٹی جو کہ ایک دینی ادارہ ہے یہاں کے ایک عالم دین نے بھی اس بات کی تائید کی ہے۔ کیا واقعی موجودہ زمانے کا نقاب ایک بدعت ہے؟ امید ہے کہ آپ تسلی بخش جواب دیں گے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں رائج شدہ نقاب یا برقع کو بدعت کہنا اور یہ دعوی کرنا کہ اسلامی شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے علمی اعتبار سے اس دعوی میں کوئی سچائی نہیں ہے بلکہ حقائق کی غلط عکاسی ہے۔
دراصل نقاب کا استعمال بدن کے ساتھ ساتھ چہرہ اور ہاتھ چھپانے کے لیے ہوتا ہے۔ ورنہ پردہ بغیر نقاب کے بھی ہو سکتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پردہ میں چہرہ اور ہاتھ چھپانا ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ صحابہ کرام کے دور ہی سے اس بات پر اختلاف رہا کہ چہرہ اور ہاتھ چھپانا بھی ضروری ہے یا نہیں میں پچھلے جواب میں واضح کر چکا ہوں کہ فقہائے کرام کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ چہرے اور ہاتھ کو چھپانا ضروری نہیں ہے۔
اسی طرح علمائے کرام مندرجہ ذیل آیت میں لفظ "جلابیب "کے سلسلے میں اختلاف رکھتے ہیں کہ اس سے کون سا لباس مراد ہے۔ وہ آیت کریمہ یہ ہے۔
﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ قُل لِأَزوٰجِكَ وَبَناتِكَ وَنِساءِ المُؤمِنينَ يُدنينَ عَلَيهِنَّ مِن جَلـٰبيبِهِنَّ ذٰلِكَ أَدنىٰ أَن يُعرَفنَ فَلا يُؤذَينَ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٥٩﴾... سورة الأحزاب
’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیویوں ،بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر جلابیب ڈال لیا کریں۔ اس طرح ان کی پہچان واضح رہے گی اور لوگ انھیں تنگ نہیں کریں گے۔ اور مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘
بعض علمائے کرام کے نزدیک جلا بیب وہ لباس ہے جو بدن کے ساتھ چہرہ اور ہاتھ کو بھی چھپائے اور اکثریت کی رائے یہ ہے کہ جلابیب کے دائرے میں چہرے اور ہاتھ کو چھپانا نہیں آتا میرا موقف یہ ہے کہ پردے میں چہرہ اور ہاتھ چھپانا ضروری نہیں ہے یہی موقف عرب و عجم کے جمہور علماء کا ہے البتہ سعودی عرب اور ہندوستان و پاکستان کے علماء اس موقف سے اختلاف رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پردے میں چہرہ اور ہاتھ چھپانا لازمی ہے۔سعودی عرب کے علماء میں سر فہرست مرحوم شیخ عبد اللہ بن باز ہیں اور ہندو پاک میں سر فہرست مولانا سیدابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ ہیں انھوں نے اپنی کتاب "پردہ" میں اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ چہرہ کا چھپانا ضروری ہے۔ سلف صالحین میں بھی ایسے قابل قدر علماء کرام موجود تھے جو پردہ میں چہرہ کا چھپانا ضروری تصور کرتے تھے کیوں کہ عورت کاحسن اس کے چہرے سے مترشح ہوتا ہے اور چہرہ کھلا رکھنا باعث فتنہ ہو سکتا ہے۔ اس موقف کے پیش نظر نقاب کا استعمال پہلے بھی ہوتا تھا اور آج بھی ہو تا ہے۔
چونکہ چہرہ چھپانا اس کا کھلا رکھنا ایک اختلافی مسئلہ ہے اس لیے ہر صاحب رائے کو پورا حق ہے کہ وہ اپنے موقف کے مطابق عمل کرے۔ اگر کسی کا موقف یہ ہے کہ چہرہ چھپانا لازمی ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے موقف کے مطابق عمل کرے اور کسی دوسرے شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اسے غلط یا گمراہ یا بدعت قراردے۔
جو عورتیں چہرہ چھپانے کے حق میں ہیں اور سمجھتی ہیں کہ نقاب لگا کر ہی پردہ کا اہتمام ہو سکتا ہے تو انھیں اس رائے کے اختیار اور اس کے مطابق عمل کرنے کی پوری آزادی ہے۔ اگر ہم انھیں اس آزادی سے محروم کردیں گے تو شریعت کی نظر میں ایک غلط اقدام ہوگا۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر کوئی عورت چہرہ چھپانا ضروری نہیں سمجھتی ہے اس کے باوجود محض اختیاطاًاپنا چہرہ چھپاتی ہے اور نقاب لگاتی ہے تو ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ ہم اسے عمل سے منع کر دیں۔
حیرت ہے ان علماء پر جو نقاب کو بدعت قراردینے پر تلے ہوئے ہیں جب کہ سلف صالحین کے زمانے سے ہی اس نقاب کا رواج ہے اور عورتیں شریعت کا حکم سمجھ کر یہ نقاب لگاتی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ نقاب کی آڑ میں نقاب لگانے والیوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور نقاب کی مخالفت کی جاتی ہے۔ حالانکہ نقاب بہرحال ایک خالص اسلامی لباس ہے اور ان عورتوں کو کچھ نہیں کہا جاتا ہے جو تنگ اور مختصر کپڑے پہن کراور چہرے پر ہزار قسم کے میک اپ کر کے کالجوں یونیورسٹیوں اور بازاروں میں دندناتی پھرتی ہیں۔اس غیر اسلامی لباس کی انھیں ہمارے معاشرے میں پوری آزادی ہے اور کوئی بھی ان پر تنقید کرنے کی جرات نہیں کرتا ہے اور اور اگر جرات کرے تو دقیانوسی کٹرپنتھی اور نہ جانے کیا کیا سمجھا جاتا ہےحالانکہ اس طرح کے غیر شرعی لباس زیب تن کرنے والیوں پر حدیث میں لعنت کی گئی ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب