سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(17) عورتوں پر نظر ڈالنے کے شرعی حدود

  • 23920
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3117

سوال

(17) عورتوں پر نظر ڈالنے کے شرعی حدود

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شرعی نقطہ نظر سے مردوں کا عورتوں کی طرف دیکھنے اور عورتوں کا مردوں کی طرف دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ خاص کریہ امر وضاحت طلب ہے کہ عورتیں کس حد تک مردوں کو دیکھ سکتی ہیں؟ کیوں کہ میں نے بعض علماء اور مقررین کو تقریروں میں یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ عورتوں کا مردوں کی طرف دیکھنا قطعاً جائز نہیں ہے۔ چاہے یہ دیکھنا شہوت کی نظر سے ہو یا بغیر شہوت کے اس سلسلے میں دلیل کے طور پر مندرجہ ذیل حدیثیں پیش کرتے ہیں۔

(1)نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے دریافت کیا کہ عورتوں کے لیے کون سی بات بہتر ہو سکتی ہے؟ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے جواب دیا کہ عورتوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ نہ وہ مردوں کو دیکھیں اور نہ مرد انھیں  دیکھیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس عمدہ جواب پر فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا محبت اور پیار سے بوسہ لیا اور فرمایا کہ تم بہترین باپ کی بہترین اولاد ہو۔

(2)اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں کہ میں اور میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   حضور صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس بیٹھے تھے کہ اس درمیان عبد اللہ ابن مکتوم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے پاس آئے جو کہ دونوں آنکھوں سے اندھے تھے ۔ یہ بات اس زمانے کی ہے جب پردے کا حکم آچکا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہم دونوں سے کہا کہ تم دونوں ابن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے پردہ کرو ۔ ہم نے کہا کہ وہ تو اندھے ہیں۔ نہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نہ پہچان سکتے ہیں۔ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:" کہ تم دونوں تو اندھی نہیں ہو۔ کیا تم انھیں نہیں دیکھ رہی ہو؟ موجودہ زمانے میں زندگی کی مختلف ضرورتوں اور کچھ دوسرے اسباب کی وجہ سے مردوں اور عورتوں کا اختلاط کافی بڑھ چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ کیسے ممکن ہے کہ نہ مرد عورت کو دیکھے اور نہ عورت مرد کو دیکھے۔ کیا عملی طور پر یہ بات ممکن ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ نے غایت درجہ حکمت و مصلحت کے تحت تمام جان دار کو جوڑوں میں پیدا کیا ہے بلکہ کائنات میں پائی جانے والی تمام چیزوں کو اللہ نے جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا ہے،اللہ فرماتا ہے۔

﴿وَمِن كُلِّ شَىءٍ خَلَقنا زَوجَينِ لَعَلَّكُم تَذَكَّرونَ ﴿٤٩﴾... سورة الذاريات

’’اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنا ئے ہیں شاید کہ تم اس بات سے سبق لو۔‘‘

اسی قانون فطرت کے تحت اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو بھی جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا ہے تاکہ نسل انسانی کا سلسلہ یونہی آگے بڑھتا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لیے بے پناہ کشش اور جاذبیت رکھ دی ہے تاکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آنے کے لیے بے تاب رہیں۔ اگر دونوں میں ایک دوسرے کے لیے بے پناہ کشش نہ ہو تو شوہر اور بیوی کے درمیان کبھی تعلقات قائم نہیں ہو سکتے اور نہ نسل انسانی ہی آگے بڑھ سکتی ہے۔ یہی قانون فطرت ہے اور قانون فطرت سے بغاوت کسی صورت مناسب نہیں ہے:

اللہ تعالیٰ نے جس دن آدم صلی اللہ علیہ وسلم  کی تخلیق کی اسی دن ان کی پسلی سے عورت (حوا) کو بھی  بنایا۔ تاکہ وہ آدم علیہ السلام  کے لیے راحت اور سکون کا ذریعہ بن سکیں۔ اللہ فرماتا ہے:

﴿هُوَ الَّذى خَلَقَكُم مِن نَفسٍ و‌ٰحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنها زَوجَها لِيَسكُنَ إِلَيها ... ﴿١٨٩﴾... سورة الاعراف

’’وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے‘‘

پھر یہ دونوں مرد اور عورت کی صورت میں ایک ساتھ جنت میں زندگی گزارنے لگے۔ پھر اللہ کی نا فرمانی کی پاداش میں ایک ساتھ جنت سے نکال کر زمین پر بسائے گئے اس زمین پر ان دونوں کے باہمی اختلاط سے نسل انسانی کا سلسلہ شروع ہوا اور قیامت تک مردوں اور عورتوں کے باہمی تعلقات کے نتیجے میں یہ سلسلہ رواں دواں رہے گا۔ عورت اورمرد ایک دوسرے کے لیے اس قدر ناگزیر ہیں اور ان دونوں کا رشتہ اس قدر گہراہے کہ اللہ فرماتا ہے"بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۖ "یعنی تم سب(مرداور عورت ) ایک دوسرے کا حصہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی زندگی کے سارے مسائل اور ذمے داریاں ان دونوں میں مشترک ہیں اور دونوں کو مل کر یہ ذمے داریاں نبھانی ہیں یہی قانون فطرت ہے۔ اس لیے یہ تصور کرنا کہ مرد اور عورت اس طرح علیحدہ علیحدہ زندگی گزاریں کہ ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں نا ممکن سی بات ہے۔ یہ چیز اسی وقت ممکن ہے جب انسان قانون فطرت سے بغاوت کرتے ہوئے غیر فطری زندگی گزارنا شروع کردے تمام انسانوں سے رشتہ کاٹ کر پہاڑوں پر بس جائے اور رہبانیت کی زندگی اختیار کر لے۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ رہبانیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ"اللہ نے اس کی اجازت نہیں دی تھی بلکہ عیسائیوں نے خود ہی اسے ایجاد اور اختیار کیا تھا۔"چنانچہ آج بھی عیسائیوں میں دین دار لوگوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ شادی کریں اور عورتوں سے قربت اختیار کریں۔ لیکن اسلام کا نقطہ نظریہ ہے کہ ان دونوں کا ایک دوسرے سے الگ ہو کر زندگی گزارنا قانون فطرت کے خلاف ہے۔ انسانی زندگی کی عمارت دونوں کے مشترکہ تعاون ہی سے کھڑی ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

﴿وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ...﴿٧١﴾... سورة التوبة

’’مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔‘‘

اس موقع پر دو باتوں کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔ پہلی قابل ذکر بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زنا کا عورت کے لیے کوڑوں کی سزا سے قبل جو سزا بتائی تھی وہ یہ تھی کہ زنا کا عورت کو گھر کے اندر اس طرح قید کر دیا جائے کہ وہ مرتے دم تک گھر سے باہر نہ نکل سکے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عورت کا گھر کے اندر قید رہنا اور گھر سے باہر نہ نکل سکنا اس کے لیے سزا ہے اور عام حالات میں معمول کی زندگی میں اسے اس طرح گھر کے اندر قید رکھنا اس پر بڑا ظلم ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر مرد اور عورت کے درمیان ایک دوسرے کے لیے بے پناہ کشش اور جاذبیت رکھی ہے۔ یہ بالکل ایک فطری بات ہے اور اللہ کی فطرت میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو پرہیز گار اور پاکباز ثابت کرنے کے چکر میں یہ کہتا ہے کہ عورتوں میں اس کی دلچسپی بالکل نہیں ہے یا عورتیں اس کے لیے بالکل کشش نہیں رکھتی ہیں وہ یقیناً جھوٹا ہے۔ کیوں کہ اس کا یہ دعوی قانون فطرت کے خلاف ہے۔

ان تمام حقائق کی روشنی میں میں آپ کے سوال کے جواب کی طرف آتا ہوں۔

عورت اپنے جسم کے کس کس عضو کو کھلا رکھ سکتی ہے؟ اس سلسلے میں میرا موقف وہی ہے جو علماء کی اکثریت کا ہے۔ عورت اپنا چہرہ ہتھیلی اور پیر غیر محرموں کے سامنے بھی کھلا رکھ سکتی ہے۔لیکن کیا ان کھلے ہوئے اعضا کو دیکھنا جائز ہے؟

تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ پہلی نظر جائز ہے۔ اگر غلطی سے اور بغیر کسی ارادے کے ان پر نظر پڑ جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ اور اس بات پر بھی متفق ہیں کہ شہوت اور لذت کی نظر سے انھیں دیکھنا جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ شہوت جذبات کو بھڑکاتی ہے اور گناہ پر اکساتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ :

"النظرة بريد الزنا "

’’نظرزنا کی پیغام بر ہوتی ہے‘‘

اسی طرح علمائے کرام اس بات پر بھی متفق ہیں کہ ہتھیلی پیراور چہرے کے علاوہ عورت کے دوسرے اعضاء مثلاًاس کے بال گردن پیٹھ اور پنڈلی (یہ اعضاء ہیں جنھیں عام طور پر آج کل کی عورتیں کھلا رکھتی ہیں) وغیرہ کی طرف غیر محرم کی لیے دیکھنا جائز نہیں ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے دو اصولی باتوں کا بیان ضروری ہے۔

پہلی بات یہ کہ ہنگامی حالات میں اور شدید ضرورت کے وقت ناجائز بات بھی جائز ہو جاتی ہے۔ مثلاًبھوک سے جان جانے کا خطرہ ہے تو سورکا گوشت کھانا جائز ہو جاتا ہے۔ اسی طرح علاج و معالجہ کی خاطر یا ولادت کے موقع پر عورت اپنا ستر ڈاکٹر کے سامنے کھول سکتی ہے یا فسادات اور جنگ کے موقع پر عورت کے لیے پردہ کرنا ممکن نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ بے پردہ رہے دوسری یہ کہ اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو جائز چیز بھی ناجائز ہو جاتی ہے بشرطے کہ یہ اندیشہ محض خیالی اور وہمی نہ ہو جیسا کہ بعض شکی قسم کے لوگوں کو ہر وقت فتنہ کا اندیشہ لاحق رہتا ہے بلکہ واقعہ ایسی صورت حال جس میں فتنہ کا اندیشہ ہو۔ اس سلسلے میں سب سے صحیح فیصلہ خود انسان کا اپنا ضمیر کر سکتا ہے کہ کون سے حالات اس کے لیے باعث فتنہ ہیں اور کون سے نہیں ہیں ایسے وقت پر ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے ضمیر کی طرف رجوع کرے۔ اور اپنے ضمیر کی آواز پر عمل کرے۔ فتوؤں کے چکر میں بہت زیادہ نہ رہے۔[1]

اس سلسلہ میں علماء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ مرد کی ستر کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے چاہے شہوت کی نظر سے دیکھا جائے یا بغیر شہوت کے۔ لیکن مرد کی ستر کیا ہے اس سلسلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک مرد کی ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے لیکن اس رائے کے حق میں وہ جو حدیثیں بہ طور دلیل پیش کرتے ہیں ان میں کوئی بھی حدیث صحیح حدیث نہیں ہے۔

بعض علماء کے نزدیک مرد کی ران ستر نہیں ہے اور اس رائے کے حق میں وہ انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی وہ روایت پیش کرتے ہیں جس میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے بعض مواقع پر لوگوں کے سامنے اپنی ران کھولی ہے۔ اگر اس رائے کو اختیار کیا جائے تو کھلاڑیوں کے لیے بڑی سہولت ہو جائے گی جو عام طور پر نیکر پہن کر کھیلتے ہیں کیوں کہ یہی کھیل کا یونیفام ہوتا ہے۔ البتہ ہم مسلمانوں کو مسلسل اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ کھیلوں کے لیے اپنے خاص یونیفام قانونی طور پر تسلیم کرواسکیں ۔

یہاں ایک بات قابل ذکر ہے اور یہ کہ مرد کی ستر کو دیکھنا جس طرح عورتوں کے لیے جائز نہیں ہے اسی طرح مرد کے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ دوسرے مرد کی ستر پر نظر کرے۔ اور جس طرح ایک مرد دوسرے مرد کا سارا جسم ستر کے علاوہ دیکھ سکتا ہے اسی طرح ایک عورت بھی ستر کے علاوہ مرد کا سارا جسم دیکھ سکتی ہے بشرطے کہ یہ دیکھنا شہوت کی نظر سے نہ ہواور اس دیکھنے میں واقعی کوئی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ یہی بیشتر فقہاء کا موقف ہے۔ اور میرا بھی یہی موقف ہےکیوں کہ بخاری شریف اور مسلم شریف کی ایک صحیح حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   بنت قیس کو عبد اللہ بن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا تھا اور فرمایا کہ وہ اندھے ہیں تم کپڑے بھی اتاردوگی تو وہ تمھیں دیکھ نہیں سکیں گے۔

بخاری اور مسلم شریف کی ایک اورحدیث ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو اپنے کندھے پر بٹھا کر چند حبشیوں کا کھیل تماشا دکھایا جو مسجد نبوی کے اندر اپنے کرتب کا مظاہرہ کررہے تھے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے مردوں کو بغیر کسی شہوت کے دیکھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود انھیں ایسا کرنے کو کہا اگر عورتوں کے لیے مردوں کو دیکھنا جائز نہ ہوتا تو عورتوں کی طرح مردوں کے لیے بھی پردہ کرنا واجب ہو جاتاہے۔

آپ نے اپنے سوال میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   والی جس حدیث کا حوالہ دیا ہے علمی نقطہ نظر سے اس کی کوئی قیمت نہیں ہے اور یہ ایک من گھڑت حدیث ہے جسے کسی طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔اور وہ حدیث جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   اور اُم میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو عبد اللہ بن مکتوم سے پردہ کرنے کا حکم دیا تھا اور انھیں اس بات سے منع کیا تھا کہ وہ عبد اللہ بن مکتوم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھیں یہ حدیث ابو داؤد  رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث ہے اور اس کی سند میں ایک ایسے راوی ہیں( یعنی نیہان ) جوعلم حدیث کے میدان میں غیر معروف شخصیت ہیں۔ اس لیے بخاری اور مسلم شریف کی وہ صحیح حدیثیں جن کا میں نے تذکرہ کیا ہے ان کے مقابلہ میں ابو داود کی اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا ۔


[1] ۔یہاں پر ضمیر کی آواز پر عمل کرنے کی بات کہی جا رہی ہے نہ کہ خواہشوں کی آواز پر مسلمان اپنی خواہشوں کے پیچھے نہ بھاگے بلکہ اپنا ضمیر ٹٹولے اور یکھے کہ اس کا ضمیر کیا کہہ رہا ہے۔ اور حقیقت  یہ ہے کہ انسان چاہے کتنا بھی بھٹکا ہوا ہواس کا ضمیر گمراہ اور مردہ نہیں ہوتا ہے دور حاضر کی ترقیوں نے عورتوں کو گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہر آفس ہر دفتر اور ہر شعبہ زندگی میں عورتیں مردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں اور قطع نظر اس کے کہ یہ بات جائز ہے یا ناجائز اب صورت حال یہ ہے کہ دفتر دوکان اور دوسری جگہوں پر عورتیں اور لڑکیاں موجود ہوتی ہیں اور ایک مسلمان شخص اپنے معمولات زندگی کی تکمیل کے لیے ان عورتوں سے بات کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔بات کرنے کے دوران مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ عورتوں سے منہ پھیر کر بات کی جائے کیوں کہ یہ بد اخلاقی ہوگی اور یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ بات کے دوران ان کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا جائے۔ اس لیے مناسب  یہی ہے کہ ان کے ساتھ نارمل انداز میں گفتگو کی جائے(یہ بات میں نے قرضاوی صاحب کی مختصر تقریر وں سے اخذ کی ہے مترجم 

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عورت اور خاندان،جلد:2،صفحہ:107

محدث فتویٰ

تبصرے