السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے معاشرے میں عورت سے متعلق بڑی بد گمانیاں پائی جاتی ہیں بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں ہر مصیبت اور ہر فساد کے پیچھے عورت کا ہا تھ ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ وہ عورت ہی تھی جس نے آدم علیہ السلام کو شجر ممنوعہ کھانے پر آمادہ کر لیا اور اس کی پاداش میں حضرت آدم علیہ السلام جنت سے نکال دیے گئےبعض لوگ عورت کو فتنہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک عورت مکمل فتنہ ہے اور اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے کبھی ضعیف اور گھڑی ہوئی حدیثیں پیش کرتے ہیں اور کبھی ایسی صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جس کا مفہوم وہ نہیں ہوتا جیسا وہ سمجھتے ہیں مثلاًیہ حدیث جس میں عورتوں کے فتنہ سے خبردار کیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"مَا تركْتُ بعْدِي فِتْنَةً هِي أَضَرُّ عَلَى الرِّجالِ مِنَ النِّسَاءِ"
’’میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی دوسرا فتنہ نہیں چھوڑاہے۔‘‘
اس حدیث میں عورتوں کے فتنہ سے کیا مراد ہے؟ یہ لوگ اس طرح کی حدیثیں پیش کرکے عورتوں کو مکمل فتنہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے معاملے میں ان کا رویہ بڑا سخت ہوتا ہے عورتوں کے فتنے سے محفوظ رہنے کے لیے انھوں نے عورتوں پر بڑی سخت قسم کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ان کے نزدیک عورتوں کا پردہ بھی بہت ہی سخت قسم کا ہوتا ہے۔ حتی کہ عورتوں کی آواز بھی ان کے نزدیک پردہ ہے تاکہ کوئی غیر محرم ان کی آواز نہ سن سکے ان کے نزدیک بہتری اسی میں ہے کہ اپنی موت تک گھر کی چار دیواری میں مقید رہے۔ جب کہ اسلام نے عورتوں کو جتنی عزت بخشی ہے کسی اور مذہب نے نہیں بخشی ہے۔ عورتوں کے ساتھ انصاف کرنے اور انھیں ان کے مکمل حقوق ادا کرنے کے معاملے میں اسلام کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ لیکن اس بات پر صدفی صدیقین کے باوجود ہم اس بات سے قاصر ہیں کہ عورتوں کے معاملہ میں متشدد اور سخت گیر قسم کے علماء کو قائل کر سکیں۔ اس لیے کہ ہمارا علم کوتاہ ہے آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مسلم معاشرے میں عورتوں کا مسئلہ جس قدر افراط و تفریط کا شکار ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ہے یہ ایسا احساس اور جذباتی مسئلہ ہے(lssue)بن کر رہ گیا ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے سچ کیا ہے اور غلط کیا؟
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام کے علاوہ کوئی ایسا دین مذہب یا فلسفہ حیات نہیں ہے جس نے عورت کو اس کا مکمل جائز حق اور عدل وانصاف عطا کیا ہواور اس کی نسوانیت کی حفاظت کی ہو۔ اسلام نے عورت کو کئی حیثیتوں سے عزت بخشی ہے۔ ایک انسان کی حیثیت سے ایک صنف نازک کی حیثیت سے ایک ماں کی حیثیت سے ایک بیوی کی حیثیت سے ایک بیٹی کی حیثیت سے اور ایک معاشرے کے ایک فرد کامل کی حیثیت سے۔
انسان کی حیثیت سے عورت کی عزت افزائی اس طرح کی گئی ہے کہ ذمہ داریوں اور فرائض کے معاملے میں عورت مرد کے برابر ہے۔ دونوں یکساں درجے کے ذمہ دار ہیں اور یکساں طور پر انعام یا سزا کے حق دار ہیں۔ کسی انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کا سب سے پہلا حکم مرد اور عورت دونوں کے لیے برابر تھا اور اس حکم کی نا فرمانی پر دونوں کو یکساں سزادی گئی۔ اللہ کا یہ پہلا حکم حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کے لیے تھا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم کچھ یوں تھا۔
﴿اسكُن أَنتَ وَزَوجُكَ الجَنَّةَ وَكُلا مِنها رَغَدًا حَيثُ شِئتُما وَلا تَقرَبا هـٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكونا مِنَ الظّـٰلِمينَ ﴿٣٥﴾... سورة البقرة
’’ تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور یہاں بہ فراغت جو چاہو کھاؤ مگر تم دونوں اس درخت کا رخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے۔‘‘
ماں کی حیثیت سے اسلام نے عورت کو جو عزت بخشی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔اسلام نے ماں کے پیروں تلے جنت قراردے کر اسے جو بلند مقام عطا کیا ہے وہ سب پر ظاہر ہے۔ بیوی کی حیثیت سے اس طرح عزت بخشی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي" (ترمذی)
’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہتر ہے۔ اور میں اپنی بیوی کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں۔‘‘
لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض سخت مزاج اور تشدد پسند مسلمان عورتوں کے معاملے میں بڑا ظلم کرتے ہیں۔ انھوں نے عورتوں کو ان حقوق سے بھی محروم کر دیا ہے جنھیں اسلامی شریعت نے انھیں ایک انسان اور ایک عورت کی حیثیت سے عطا کیا ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ ساری تلفیاں اور زیادتیاں دین اور مذہب کے نام پر ہوتی ہیں حالانکہ ہمارا دین اس طرح کی حق تلفیوں سے پاک ہے۔ عورتوں کو کم عقل ثابت کرنے کے لیے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ من گھڑت حدیث منسوب کردی۔"شاوروهن وخالفوهن"ان عورتوں سے مشورہ کرو لیکن ان کے مشورے پر عمل نہ کرو۔‘‘
یہ واضح طور پر ایک من گھڑت اور بے بنیاد حدیث ہے کیوں کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے مشورہ فرماتے اور ان مشوروں پر عمل بھی کیا کرتے تھے۔ مثلاً صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم المومنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مشورہ کیا اور ان کے مشورے کو قبول کرتے ہوئے اس پر عمل بھی کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں خیرو برکت عطا کی۔
انھی حضرات نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف یہ قول غلط طور پر منسوب کر دیا:
"المرأة شرّ كلّها، وشرّ ما فيها: أنه لا بدّ منها"
’’عورت مکمل برائی ہے اور اس کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ اس کی برائی سے مفرنہیں ہے۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اس قول کا انتساب بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کیوں کہ یہ ایک غیر منطقی اور غیر معقول قول ہے۔ اور اس طرح کی واہیات بات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کہہ ہی نہیں سکتے ہیں کیوں کہ یہ بات قرآن کی تعلیمات کے عین خلاف ہے۔ قرآن نے جہاں جہاں واجبات و فرائض کے سلسلے میں مسلمانوں کومخاطب کیا ہے وہاں مرد وعورت دونوں یکساں طور پر مخاطب ہیں۔ اسی طرح جزاو سزا کے معاملے میں بھی مرددونوں برابر ہیں نماز پڑھنے کا حکم دونوں کے لیے یکساں طور پر ہے اور نماز نہ پڑھنے کی صورت میں دونوں کو ایک جیسی سزا اور پڑھنے کی صورت میں ایک جیسا انعام ملے گا۔
اسی طرح کی ایک من گھڑت اور بے بنیاد بات یہ ہے کہ عورت کی آواز پردہ ہے اور یہ جائز نہیں ہے کہ شوہر اور محرم کے علاوہ کوئی دوسرا اس کی آواز سنے۔ اور یہ بھی جائز نہیں ہے کہ شوہر اور محرم کے علاوہ کسی اور کے ساتھ بات کرے کیوں کہ اس کی آواز پردہ ہے اس طرح کی بے بنیاد بات کرنے والوں سے میں نے اس کی دلیل پوچھی تو وہ کوئی دلیل نہیں پیش کر سکے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث میں اس کے برعکس بات کہی گئی ہے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے پردہ کی اوٹ میں بات کر سکتے ہیں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں پردے کی اوٹ میں رہ کر غیر محرموں سے بات کرتی تھیں اور انھیں مفید مشورے دیتی تھیں۔مسائل کا حل بتاتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنائی تھیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں بلا کسی رکاوٹ کے مردوں کی موجودگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر ان سے مسائل دریافت کرتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم انھیں بڑے اطمینان سے جواب دیتے تھے اور کبھی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس بات پر نہیں ٹوکا کہ تم مردوں کی موجودگی میں آکر کیوں باتیں کرتی ہو؟ خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی عورتوں کی آواز کو پردہ نہیں تصور کیا جاتا تھا چنانچہ مشہور واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔ دوران خطبہ کسی عورت نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کسی بات پر بھری مجلس میں ٹوکا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےاپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا۔ اور کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی کہ اس عورت نے بھری مجلس میں بات کیوں کی۔ کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین عورت کی آواز کو پردہ نہیں تصور کرتے تھے۔
سورہ قصص میں اللہ تعالیٰ نے ایک واقعہ کا تذکرہ کیا ہے۔ واقعہ کے درمیان اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کسی بزرگ (غالباً نبی) کی دو بیٹیوں سے بات کی اور پانی بھرنے میں ان کی مدد کی اور ان کے ساتھ چل کر ان کے گھر بھی گئے اگر عورت کی آواز پردہ ہوتی تو موسیٰ علیہ السلام کبھی ان لڑکیوں سے باتیں نہیں کرتے اور نہ ان بزرگ کی بیٹیاں ان سے بات کرنے کو پسند کرتیں ۔
حق بات یہ ہے کہ اسلامی شریعت نے مردوں عورتوں سے یا عورتوں کو مردوں سے بات کرنے کی ممانعت نہیں کی ہے۔ ممانعت اس بات کی ہے کہ عورتیں مردوں سے لبھانے والے انداز میں بات کریں۔ مردوں سے بات چیت کرنا منع نہیں ہے بلکہ پیار بھرے لہجے میں اور لبھانے والے انداز میں بات کرنا منع ہے۔ درج ذیل آیت اس ممانعت کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
﴿يـٰنِساءَ النَّبِىِّ لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ إِنِ اتَّقَيتُنَّ فَلا تَخضَعنَ بِالقَولِ فَيَطمَعَ الَّذى فى قَلبِهِ مَرَضٌ وَقُلنَ قَولًا مَعروفًا ﴿٣٢﴾... سورةالاحزاب
’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ جس کے دل میں کھوٹ ہے کسی لالچ میں پڑجائے اور بھلی بات کرو۔‘‘
اگر محض بات چیت کرنے کی ممانعت ہوتی تو اللہ تعالیٰ کبھی آیت کے آخر میں"وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا" نہ فرماتا جس کے معنی ہیں"اور بھلے طریقے سے بات کرو۔"معلوم ہوا کہ لبھانے والے انداز میں اور پھوہڑ طریقے سے بات چیت کرنے کی ممانعت ہے۔ اور بھلے طریقے سے بات چیت کرنے کی اجازت ہے۔ اگر عورت کی آوازپردہ ہوتی تو اللہ کبھی بات چیت کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کی آواز پردہ نہیں ہے۔
آپ نے جس حدیث کا اپنے سوال میں حوالہ دیا ہے اس حدیث کو سمجھنے میں بھی لوگوں نے زبردست غلطی کی ہے وہ حدیث ہے:
"مَا تركْتُ بعْدِي فِتْنَةً هِي أَضَرُّ عَلَى الرِّجالِ مِنَ النِّسَاءِ"
’’میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ ضرررساں فتنہ نہیں چھوڑا‘‘
انھوں نے یہاں لفظ فتنہ سے یہ مفہوم اخذ کر لیا کہ عورتیں مصیبت اور فتنہ کی جڑہیں۔یا جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فقرو فاقہ اور بیماری کو فتنہ قراردے کر ان سے پناہ مانگی ہے عورتیں بھی کچھ اسی قسم کا فتنہ ہیں۔ حالانکہ حدیث کا یہ مفہوم ہر گز نہیں ہے۔ لفظ فتنہ عربی زبان میں آزمائش اور امتحان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی وہ چیز جس کے ذریعے سے کسی کی آزمائش ہو، یہ آزمائش کبھی بری چیزوں کے ذریعے ہوتی ہے اور کبھی بھلی چیزوں کے ذریعے ۔ اللہ تعالیٰ انسان کو کبھی پریشانیوں میں مبتلا کر کے آزماتا ہے اور کبھی نعمتیں عطا کر کے آزماتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
﴿وَنَبلوكُم بِالشَّرِّ وَالخَيرِ فِتنَةً ...﴿٣٥﴾... سورة الأنبياء
’’اور ہم اچھے اور برے دونوں سے تمھاری آزمائشیں کرتے ہیں۔‘‘
اس لیے عربی زبان میں لفظ فتنہ کبھی بری چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بھلی چیزوں کے لیے مثلاً مال اور اولاد اللہ کی بڑی نعمتیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی فتنہ قراردیا ہے۔
﴿ إِنَّما أَموٰلُكُم وَأَولـٰدُكُم فِتنَةٌ ...﴿١٥﴾... سورة التغابن
’’بلا شبہ تمھاری دولت اور تمھاری اولاد آزمائش کا سامان ہے۔‘‘
یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں ہیں لیکن اللہ ان ہی نعمتوں کے ذریعے سے اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے کہ کہیں یہ بندے ان نعمتوں میں مگن ہو کر اپنے رب کو بھول تو نہیں جاتے ہیں اور اپنے فرائض کی ادائی میں کوتاہی تو نہیں کرتے ہیں۔اس مفہوم میں قرآن کی یہ آیت ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تُلهِكُم أَموٰلُكُم وَلا أَولـٰدُكُم عَن ذِكرِ اللَّهِ ... ﴿٩﴾... سورةالمنافقون
’’اے مومنو!دیکھو تمھاری دولت اور تمھاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے۔‘‘
انسان جس طرح مال و اولاد کے ذریعے آزمایا جاتا ہے دراں حالے کہ یہ دونوں چیزیں اللہ کی نعمتیں ہیں اسی طرح عورتیں اور بیویاں بھی اللہ کی نعمت ہونے کے باوجود آزمائش کا ذریعہ ہیں۔ یہ عورتیں فتنہ و فساد کی جڑنہیں ہیں اور نہ برائیوں کا گہوارہ ہیں۔ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق نیک بیویاں اللہ کا بڑا انعام ہیں۔ اور اس انعام میں اللہ نے اپنے بندوں کے لیے آزمائش رکھی ہے کہ کہیں یہ بندے عورتوں کے چکرمیں اپنے رب کو فراموش تو نہیں کر بیٹھتے۔ اسی آزمائش کی طرف درج ذیل آیت میں اشارہ ہے۔
﴿إِنَّ مِن أَزوٰجِكُم وَأَولـٰدِكُم عَدُوًّا لَكُم فَاحذَروهُم ... ﴿١٤﴾... سورة التغابن
’’تمھاری بیویوں اور آل اولاد میں بھی تمھارے دشمن ہوتے ہیں پس ان سے ہو شیار رہو۔‘‘
ایک صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مال و دولت اور عیش و عشرت کی فراوانی سے خبردار کیا ہے۔ وہ حدیث یہ ہے۔
"فَوَاللهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ ، وَلَكِنِّي أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ الدُّنْيَا عَلَيْكُمْ كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا ، وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ "(بخاری و مسلم)
’’بخدا مجھے تمھارے سلسلے میں فقرو فاقہ کا اندیشہ نہیں ہے۔ مجھے اندیشہ اس بات کا ہے کہ دنیا تم پر وسیع کر دی جائے گی جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر وسیع کر دی گئی تھی۔اور تم بھی دنیا کمانے کے لیے اسی طرح ایک دوسرے کا مقابلہ کرو گے جیسا ان لوگوں نے کیا۔ اور یہ دنیا بھی تمھیں ویسے ہی برباد کردے گی جیسے اس نے ان لوگوں کو برباد کیا تھا۔‘‘
اس حدیث کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم غربت اور فقیری کو پسندیدہ اور مرغوب شے سمجھتے تھے اور اس کی طرف اپنی امت کو دعوت دے رہے تھے ۔ کیوں کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غربت اور فقیری سے اللہ کی پناہ مانگی ہے اور یہ بات بھی نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت میں خوش حالی اور دولت کی فراوانی کو ناپسندیدہ شے سمجھتے تھے کیوں کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے كہ:
"نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحُ لِلْمَرْءِ الصَّالِحِ"(مسند احمد)
’’عمدہ مال و دولت صالح شخص کے لیے کیا خوب نعمت ہے‘‘
اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں ایسے بھی تھے جن کے پاس دولت کی فراوانی تھی اور اس فراوانی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ناپسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ اس حدیث کا مفہوم صرف یہ ہے کہ فقرو فاقہ کے مقابلہ میں دولت کی فراوانی زیادہ بڑی آزمائش کی چیز ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطرے سے آگا کیا ہے کہ کہیں کوئی شخص دنیا کے عیش و عشرت میں الجھ کر آخرت کی طرف سے غافل نہ ہو جائے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب