سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(9) مسلکی و فکری اختلاف کے باوجود تعاون و اتحاد

  • 23912
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2533

سوال

(9) مسلکی و فکری اختلاف کے باوجود تعاون و اتحاد

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اکثر میں نے آپ کو تقریروں اورخطبوں میں اس قاعدہ کلیہ کا اعادہ کرتے سنا ہے کہ"جو امور ہماری امت مسلمہ کے درمیان متفق علیہ ہیں،ان میں ہمیں آپس میں تعاون کرنا چاہیے اور جن امور میں ہمارے درمیان اختلاف ہے ان سے صرف نظر کرنا چاہیے اور انھیں تفرقہ اور پھوٹ کا سبب نہیں بننے دینا چاہیے۔‘‘

سوال یہ ہے کہ کس نے یہ قاعدہ کلیہ وضع کیا ہے؟کیاشریعت میں اس ک کوئی دلیل ہے؟آخر ہم ان لوگوں سے کیسے تعاون کرسکتے ہیں،جواہل بدعت ہیں۔درآں حالیکہ بہت ساری باتوں میں ہمارے اور ان کے درمیان اتفاق ہے۔جولوگ قرآن وسنت کی تعلیمات کی خلاف ورزیاں کررہے ہیں،ان سے کیونکر صرف نظر کیا جاسکتاہے؟ہمیں تو شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ بدعتوں اور گمراہیوں کی روک تھام کی جائے نہ کہ رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرلی جائے۔اس سلسلے میں وضاحت مطلوب ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ قاعدہ کلیہ کو وضع کرنے اور اس کی طرف اُمت مسلمہ کو بلانے والے مصری عالم دین سید  رشید رضا  رحمۃ اللہ علیہ  ہیں۔اس قاعدہ کلیہ کامدعا ومقصد یہ ہے کہ امت مسلمہ کی تمام جماعتوں کو جو فی الحال اپنے آپسی اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور ہیں انھیں اسلام کے دشمنوں کے خلاف متحد ومنظم کیا جائے۔انھیں متحد ومنظم کرنے کے لیے جس بات کو بنیاد بنایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ان جماعتوں کے مابین لاکھ اختلافات سہی لیکن وہ باتیں ان اختلافی امور کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں جن پر یہ تمام جماعتیں اتفاق رکھتی ہیں مثلاً ایک اللہ،ایک رسول،ایک قرآن وحدیث کی اصولی تعلیمات ان کے علاوہ اور بھی بے شمار باتیں ہیں جن پر تمام امت کا اتفاق ہے ۔اس قاعدہ کلیہ کامقصد یہ ہے کہ تمام جماعتیں اپنے فکری اورمسلکی اختلافات کو بھول کرمتفق علیہ باتوں کی بنیاد پر متحد ہوجائیں۔علامہ مرحوم نے اس قاعدہ کلیہ کو یونہی بے دلیل نہیں وجع کیاتھا۔اس کی بنیاد انھوں نے قرآن وسنت کی واضح تعلیمات پررکھی تھی۔غور کرنے والا محسوس کرے گا کہ آج ہماری امت مسلمہ کس قدر آپسی انتشار کا شکار ہے اور ہمیں کس قدر آپسی اتحاد واتفاق اور باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔تمام مسلمان اس بات پر تو متفق ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور اسلام ان کا مذہب ہےلیکن اس اتفاق کے باوجود وہ آپسی انتشار کا شکار ہیں ،جب کہ مسلم دشمن طاقتیں مختلف مذاہب وملل میں بٹنے کے باوجود اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی میں متحد اور متعاون ہیں۔اللہ کاارشاد ہے:

﴿وَالَّذينَ كَفَروا بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ إِلّا تَفعَلوهُ تَكُن فِتنَةٌ فِى الأَرضِ وَفَسادٌ كَبيرٌ ﴿٧٣﴾... سورة الانفال

’’جولوگ کافر ہیں ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔اگر تم نے بھی ایسا نہ کیا تو زمین میں بڑا فتنہ اورفساد برپا ہوگا۔‘‘

یہ کافر جماعتیں مسلمانوں کی سرکوبی کے لیے ایک دوسرے کا تعاون کرتی ہیں۔اگر تم مسلمانوں نے مسلم دشمن طاقتوں سے نبردآزما ہونے کے لیے ویسے ہی اتحاد واتفاق اور باہمی تعاون کا مظاہرہ نہیں کیا جیسا کہ اہل کفر کرتے ہیں تو اس روئے زمین پر بڑا فساد برپا ہوگا اور ہر سوفتنہ پھیل جائے گا یعنی ہرسوکفروالحاد کا غلبہ ہوگا۔چنانچہ صورت حال یہی ہے کہ ہم مسلمان آپسی اختلافات کا شکار ہوکرایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں اور ساری زمین پر ان لوگوں کا قبضہ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔اس صورت حال کےپیش نظر اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ مسلم امت کی مختلف جماعتوں کے درمیان جو فکری یامسلکی یاکسی قسم کے اختلافات ہیں انھیں فراموش اور نظر انداز کرکے آپسی اتحاد وتعاون کی فضا ہموار کی جائے اور امت مسلمہ کے اہم ترین مسائل کی طرف توجہ مبذول کرائی جائے۔

علامہ سید رشید رضا جیسے غیرت مند اور باشعور عالم دین نےجب دیکھا کہ یہودی،عیسائی اور بت پرست سب کے سب مسلمانوں کی دشمنی میں ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نظریاتی اور مسلکی اختلافات میں الجھ کر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مشغول ہیں تو انھوں نے اس قاعدہ کلیہ کو وضع کیا جس کا مقصد یہ ہے کہ مسلم جماعتوں کو متحد کرنے کی راہ میں ان کی نظریاتی اور مسلکی اختلافات حائل نہ ہوں۔مسلم دانشوروں نے اس قاعدہ کلیہ کوکھلے دل کے ساتھ خوش آمدید کہا اور ان سب کی خواہش اور تمنا ہے کہ اس قاعدہ کلیہ کو عملی جامہ پہنایا جائے۔

رہا یہ سوال کہ اُمت مسلمہ کی ان جماعتوں کے ساتھ کیس تعاون کیا جائے جو بدعتوں میں مبتلا ہیں؟اس کاجواب یہ ہے کہ جس طرح کفر کے کئی درجے اور منزلیں ہوتی ہیں اسی طرح بدعت کی بھی کئی منزلیں اورقسمیں ہیں۔بعض بدعتیں شدید اور بھیانک قسم کی ہوتی ہیں جن کا ارتکاب کرنے والا اسلام سےخارج ہوجاتا ہے۔اور بعض بدعتیں ہلکی ہوتی ہیں اور ان کاارتکاب کرنے والا  صرف گناہ گار ہوتا ہے،اسلام سے خارج نہیں ہوتا ہے۔یہ تصور کرناغلط ہےکہ بدعت خواہ کسی قسم کی ہو اور اس کی نوعیت کیسی بھی ہو اس کا ارتکاب کرنے والا مسلمان نہیں رہا۔

اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اہل بدعت اور گمراہ قسم کے مسلمانوں کے ساتھ ان باتوں میں تعاون کیاجائےجو دین کی اُصولی باتیں ہیں اور جنھیں اہل بدعت بھی تسلیم کرتےہیں یا ان باتوں میں جن میں ہم سب کا مشترکہ مفاد وابستہ ہو۔ایسی بے شمار باتیں ہوسکتی ہیں جن میں ہم سب کا مشترکہ سیاسی یا معاشی یا سماجی مفاد ہو۔ہمیں چاہیے کہ ان امور میں ہم سب مل جل کر کام کریں۔بلکہ اس بات میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ ان معتدل قسم کی غیرمسلم جماعتوں کےساتھ تعاون کیاجائے جو متشدد اور مسلم مخالف غیر مسلم جماعتوں کے مقابلے میں ہمیں تعاون دینا چاہتی ہوں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فتح مکہ کے بعد قبیلہ ہوازن کے مشرکین کے مقابلہ میں بعض مشرکین قریش کاتعاون حاصل کیا تھا کیونکہ رشتہ داروں کی بنا پر مشرکین قریش کے دلوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے قبیلہ ہوازن کے مقابلہ میں نرم گوشہ تھا۔حتیٰ کہ صفوان بن امیہ نے اسلام قبول کرنے سےقبل کہاتھا کہ ہم قریش کاایک شخص(یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ) حکومت کرے بہتر ہے اس بات سے کہ قبیلہ ہوازن کا کوئی شخص ہم پر حکومت کرے۔

زرا سورہ روم کی ابتدائی آیتوں کے پس منظر پر غور کیجئے۔اہل فارس اور رومیوں کے درمیان جنگ ہوئی جس میں رومیوں کو شکست اٹھانی پڑی۔اہل فارس آگ پوجتے تھےاور اللہ پر یقین نہیں رکھتے تھے جب کہ رومی عیسائی تھے۔اہل کتاب تھے اور اللہ پر یقین رکھتے تھے۔اس بنا پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے دلوں میں ایرانیوں کے مقابلہ میں رومیوں کے لیے نرم گوشہ تھا اور رومیوں کی فتح کے تمنائی تھے۔حالانکہ دونوں ہی غیر مسلم قومیں تھیں۔لیکن رومیوں کی شکست نے انھیں غمزدہ کردیا۔اللہ تعالیٰ نے انھیں خوشخبری سنائی کہ صرف چند سالوں کے بعد رومیوں اور ایرانیوں کےدرمیان دوبارہ جنگ ہوگی اور اس جنگ میں رومیوں کوفتح نصیب ہوگی اور ان کی فتح سے مسلمانوں کو خوشی حاصل ہوگی۔آخر میں اللہ فرماتا ہے:

﴿ وَيَومَئِذٍ يَفرَحُ المُؤمِنونَ ﴿٤ بِنَصرِ اللَّهِ يَنصُرُ ...﴿٥﴾... سورة الروم

’’اس دن مسلمان اللہ کی نصرت و مدد سے خوش ہو جائیں گے۔‘‘

علماء اہل سنت اور سلف صالحین نے معتزلیوں کو اہل بدعت قراردینے کے باوجودان سے ان کی علمی وفکری کا وشوں میں استفادہ کیاہے۔علامہ زمخشری کی تفسیر"الکشاف"تمام اہل سنت کے نزدیک ایک معتبر اورمقبول عام تفسیر کی کتاب ہے حالانکہ علامہ زمخشری معتزلی تھے۔امام غزالی کہتے ہیں کہ فلسفیوں پر ان کی گمراہیاں اورفتنہ پردازیاں واضح کرنے کے لیے میں نےکبھی معتزلیوں سے مدد حاصل کی اور کبھی کرامیوں سے حالانکہ یہ دونوں بدعتی گروہ ہیں لیکن میں نے ان سے اس لیے مدد حاصل کی کیونکہ فلسفیوں کی گمراہیاں زیادہ خطرناک ہیں۔رہی وہ مسلم جماعتیں جن سے ہمارا اختلاف فقہی مسائل اور شرعی احکام میں ہے مثلاً حنفیوں اور شافعیوں کے درمیان یا حنفیوں اور سلفیوں کے درمیان تو یہ اختلاف ہرگز ایسا نہیں ہے جس کی وجہ سے ہمارے درمیان اتحاد واتفاق کا جذبہ ختم ہوکر دشمنیاں اور دوریاں پیدا ہوجائیں اور ہر ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی پر اترآئیں۔بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہم ان مسلکی اختلافات سے صرف نظر کرتے ہوئے اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مل جل کر مشترکہ قومی وملی مفادات کے لیے کام کریں۔ہمیں جان لینا چاہیے کہ قرآن وحدیث کی وہ دلیلیں جن کی وجہ سے مسلک کا اختلاف ہوتا ہے دو طرح کی ہوتی ہیں:

1۔پہلی قسم ان دلیلوں کی ہے جنھیں اصطلاحی زبان میں قطعی کہا جاتا ہے یعنی وہ دلیلیں جن کامفہوم بالکل واضح اوراٹل ہوتا ہے مثلاً وہ قرآنی آیات یااحادیث جن میں نماز یا زکوٰۃ یا رمضان کے روزوں کاحکم ہے یا توحید وآخرت کی تعلیم ہے۔ان آیات یا احادیث کامفہوم بالکل واضح اور اس کے صحیح ہونے میں کسی قسم کے شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کی تمام جماعتیں ان قطعی دلیلوں کو تسلیم کرتی ہیں اور کسی کو بھی ان سے اختلاف نہیں ہوتا ہے۔

2۔دوسری قسم ان دلیلوں کی ہے،جنھیں اصطلاح میں ظنی کہتے ہیں۔یعنی وہ قرآنی آیات یا احادیث جن میں ایک سے زائد مفہوم کا احتمال ہوتا ہے۔چونکہ ان کا مفہوم بالکل اٹل اور قطعی نہیں ہوتا بلکہ ان میں کافی گنجائش ہوتی ہے۔اس لیے فقہاء کرام اپنی اپنی سمجھ کے لحاظ سے ان کا مفہوم متعین کرتے ہیں اور یوں مسلک کااختلاف وجود میں آتا ہے ۔مثلاً بعض قرآنی آیات یا احادیث میں کسی بات کا حکم ہوتا ہے لیکن اس حکم کا صیغہ ایسا ہوتا ہے کہ اس سے واجب اورفرض ہونے کا بھی مفہوم نکلتا ہے اور محض سنت یا نفل ہونے کا بھی۔مثلاً یہ حدیث شریف:

"أَحْفُوا الشَّوَارِبَ وأَعفوا اللِّحَى"

’’مونچھیں ترشواؤ اورداڑھیاں بڑھاؤ۔‘‘

اس حدیث میں مونچھیں ترشوانے اور داڑھی بڑھانے کا حکم ہے۔بعض فقہاء نے اس حکم کو واجب اورفرض پر محمول کیا۔چنانچہ ان کے نزدیک داڑھی بڑھانا اور مونچھیں ترشوانا سنت نہیں بالکل واجب اور فرض ہے۔جب کہ بعض فقہاء نے اس حکم کو سنت اور نفل پر محمول کیا۔چنانچہ ان کے نزدیک داڑھی بڑھانا اورمونچھ ترشوانا سنت اور مستحب ہے۔چونکہ اس حکم میں دونوں قسم کےمفہوم کی گنجائش ہے اس لیے دونوں مسلک کو غلط نہیں قراردیا جاسکتا۔

الغرض یہ کہ ظنی دلیلوں کی بنا پر مسلک کا اختلاف ایسا اختلاف نہیں ہے جو معیوب ہواور جس کی بنا پر ہمارے درمیان ناچاقی اور دشمنی پیدا ہو۔ہمیں چاہیے کہ ہم اس طرح کے اختلافات سے صرف نظر کرتے ہوئے ان باتوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کریں جن پر ہم سب کا اتفاق ہے ۔البتہ قطعی دلیلوں میں اگرکوئی مسلم جماعت اختلاف کرتی ہے یعنی نماز،روزہ وغیرہ کے فرض ہونے سے انکار کرتی ہے تو ایسی جماعت سے تعاون کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔بلکہ ان کی شدید مخالفت ہونی چاہیے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اُصول فقہ،جلد:2،صفحہ:62

محدث فتویٰ

تبصرے