سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(8) مسئلہ تقلید

  • 23911
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1793

سوال

(8) مسئلہ تقلید

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی ایک ہی مسلک کی مکمل تقلید کے سلسلے میں آپ کا کیا مؤقف ہے؟کیاچاروں ائمہ(ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ ،مالک رحمۃ اللہ علیہ ،شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اوراحمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ ) کو چھوڑ کر کسی اور امام کی تقلید جائز ہے؟اور کیا یہ جائز ہے کہ کسی ایک مسئلے میں کسی ایک امام کی تقلید کی جائے اور دوسرے مسئلے میں کسی دوسرے امام کی؟کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اماموں کی تقلید کی بجائے قرآن وسنت کا براہِ راست اتباع کیاجائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عدل وانصاف پر مبنی جواب کے لیے ہمیں مندرجہ ذیل اصول وضوابط کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔

1۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلامی فقہ صرف چار مسلکوں تک محدود نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔امام صرف چار(ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ ،مالک رحمۃ اللہ علیہ ،شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اوراحمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ ) ہی نہیں ہیں۔بلکہ ان کے علاوہ دوسرے علماء فقہ بھی ہیں جو علمی مرتبہ میں ان چاروں کے ہم پلہ ہیں۔مثال  کے طور پر امام لیث بن سعد جو کہ امام مالک کے ہم عصر تھے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کی نظر میں امام لیث امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  سے بہتر فقیہ تھے۔اسی طرح عراق میں امام سفیان ثوری  رحمۃ اللہ علیہ  تھے جو کہ علم فقہ میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کی برابری کرسکتے ہیں۔امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ  نے انھیں پانچواں امام تسلیم کیا ہے۔علم حدیث میں انھیں "امیرالمؤمنین"کا خطاب عطاکیاگیا ہے۔اسی طرح امام طبری  رحمۃ اللہ علیہ  کا شمار بھی جید فقہاءمیں ہوتا ہے ۔فقہ کے علاوہ انھیں تفسیر،تاریخ اور حدیث پربھی زبردست کمال حاصل تھا۔ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ ،مالک رحمۃ اللہ علیہ ،شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اوراحمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  سے قبل بھی علم وفقہ کے عمائدین پائے جاتے تھے اور جوان چاروں اماموں کے استاد بھی تھے۔کون ہے جو امام زہری رحمۃ اللہ علیہ  اور سعید بن المیسب  رحمۃ اللہ علیہ  کے ناموں سے ناواقف ہے۔اسی طرح ان عمائدین سے قبل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے درمیان بھی جید علماء وفقہاء پائے جاتے تھے مثلاًحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اوران کے علاوہ بے شمار نام ہیں جو فقہ کے میدان میں بہت اونچے مرتبہ پرفائزتھے۔

2۔ان چاروں ائمہ نے کبھی اسی بات کادعویٰ نہیں کیا کہ وہ معصوم عن الخطاہیں اور ان سے غلطی نہیں ہوسکتی۔اور نہ دوسرے علماء کرام ہی ان چاروں ائمہ کے بارے میں اس طرح کادعویٰ رکھتے ہیں۔ صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ یہ امام حضرات قرآن وحدیث کی روشنی میں صحیح رائے قائم کرنے کے لیے اجتہاد کرتے تھے۔ان کے اجتہاد کی بنیاد قرآن وسنت پر تھی نہ کہ اپنی مرضی اور خواہش پر۔اسی اجتہادکے نتیجے میں ان کے درمیان اختلافات ہوئے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کےمطابق اجتہاد کی راہ میں حق اورصحیح بات تک پہنچنے والے کو دو ا جر ملیں گے جب کہ غلطی کرنےوالا بھی ایک اجر کا مستحق قرارپائے گا۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کہاکرتے تھے کہ میں بشر ہوں اورغلطی بھی کرسکتا ہوں۔پس میرے قول کوقرآن وحدیث کے پیمانے پرپرکھا کرو۔امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرمایاکرتے تھے کہ"یہ میری رائے ہے اور یہ رائے میری نظرمیں سب سے بہتر ہے۔لیکن اگرمیری رائے سے بہتر کوئی رائے مجھے معلوم ہوتو میں فوراً اسے قبول کرلوں گا۔"امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  کہا کرتے تھے کہ "میری رائے میری نظر میں صحیح ہے اور غلط بھی ہوسکتی ہے۔اور دوسروں کی رائے میں نظر میں غلط ہے لیکن صحیح بھی ہوسکتی ہے۔"اس اجتہاد کانتیجہ تھا کہ کبھی کبھی ایک مسئلے میں کسی ایک امام کی ایک سے زائد رائے ہوتی تھی۔امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  جب عراق میں تھے تو عراق کے ماحول اور وہاں کی ضرورتوں کے مطابق ان کے فتوے ہوتےتھے۔اور جب مصر میں جابسے تو مصرکے حالات اور حاجات کے مطابق ان کے فتوے عراق سے قدرے مختلف ہوتے تھے۔اسی طرح کسی ایک مسئلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی جورائے آج ہوتی تھی،اگلے سال مختلف حالات کی وجہ سے ان کی رائے بھی مختلف ہوتی تھی۔اور جب ان سے پوچھا جاتا کہ ایساکیوں ہے؟تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جواب دیتے کہ:

"ذلك على ما علمنا، وهذا على ما نعلم!"

’’كل كا فتویٰ کل کے مطابق تھا اور آج کی رائے آج کے علم کے مطابق ہے‘‘

3۔کسی ایک مسلک کا اتباع اورتقلید کرنافرض ہے اور نہ سنت بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ ایسی تقلید قرآن وسنت کی رو سے جائز نہیں ہے۔

(الف)۔قرآن وسنت سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پرشریعت کے معاملے میں صرف اپنی اور اپنے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت فرض کی ہے۔اپنے بندوں میں سے کسی ایک متعین شخص کی اطاعت کا حکم نہیں دیا ہے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ ایسی کوئی شخصیت نہیں ہے،جس کی تمام رائیں صحیح ہوں اورجس سے غلطی کا امکان نہ ہو۔انسان خواہ کتنا ہی بڑا عالم وفقیہ ہواگر اسے سے غلطی کا امکان ہے تو اس کی مکمل تقلید اوراتباع کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟یہ تو سراسر گمراہی کی بات ہے۔اس طرح کی تقلید کامطلب تو یہ ہے کہ ہم نے اس عالم وفقیہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا درجہ عطا کردیا۔اپنے علماء وفقہاء کو رسول یا خدا کا درجہ عطا کردینا ایسی صریح گمراہی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی سخت سرزنش کی ہے:

﴿اتَّخَذوا أَحبارَهُم وَرُهبـٰنَهُم أَربابًا مِن دونِ اللَّهِ... ﴿٣١﴾... سورة التوبة

’’انھوں نے ا پنے علماء اوردرویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔‘‘

(ب)۔خودان علماء وفقہاء کرام نے لوگوں کو اپنی مکمل تقلید سے منع کیا ہے اور اس بات سے روکا ہے کہ اندھے بہرے ہوکر ان کی باتوں کو تسلیم کرلیا جائے۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے تھے کہ" نہ میری تقلید کرو نہ مالک  رحمۃ اللہ علیہ  کی نہ ثوری رحمۃ اللہ علیہ  کی اور نہ اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ  کی۔بلکہ اس کی بات مانو جس کی بات ان سب نے مانی ہے"یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی۔امام ابو یوسف جو کہ مشہور حنفی عالم تھے،فرماتے ہیں"کسی کے لیےجائزنہیں ہےکہ ہماری باتوں کو بیان کرے اور تسلیم کرے یہ جانے بغیرکہ ہم نے کہاں سے یہ باتیں اخذ کی ہیں۔"

(ج)۔اس طرح کی مکمل تقلید کرنا اور اس کے لیےمتعصب ہونا ایک ایسی بدعت ہے جس کا وجود قرون اولیٰ(صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور سلف صالحین کے دور) میں نہیں تھا۔یہ تو بعد کے دور کی پیداوار ہے جب امت مسلمہ میں علم اور اخلاص کی کمی ہوگئی۔علامہ ابوزید اپنی کتاب"تقدیم الادلہ" میں فرماتے ہیں"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین  رحمۃ اللہ علیہ  کے دور میں لوگ اللہ اور رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے علاوہ دوسروں کی بات تقلید کی بنیاد پر نہیں بلکہ دلیل کی بنیاد پر مانتے تھے۔کسی ایک شخص کی مکمل تقلید نہیں کرتے تھے۔ایک مسئلہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بات مانتے تو دوسرے مسئلہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی رائے کو ترجیح دیتے۔نہ کوئی مکمل طور پر  حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی تقلید کرتا اور نہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی۔یہ وہ دور تھا جس کی تعریف خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے کی ہے۔لیکن بعد کے دور میں جب لوگوں میں تقوے کی کمی آگئی اور اجتہاد کی مشقتوں سے کترانے لگے تو وہ قرآن وسنت کی دلیلوں کے بجائے اپنے علمائے کرام پر تکیہ کرنے لگے۔پس کوئی اما م ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  پر تکیہ کرنے لگا اور حنفی بن گیا اور کوئی امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ پر تکیہ کرنے لگا اور مالکی بن گیا۔"وغیرہ وغیرہ۔

4۔کسی مسئلہ میں کسی امام کی رائے سے اتفاق نہ کرنا ان کی شان میں گستاخی نہیں ہے اور اس سے ان کی علمی منزلت میں بھی کمی واقع نہیں ہوتی ہے۔علمائے کرام کی عزت واحترام کرنا ایک اسلامی فریضہ ہے کیوں کہ علمائے کرام انبیاء علیہ السلام  کے حقیقی جانشین ہیں جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے۔عزت واحترام کرنا ایک بات ہے اور کسی کی رائے سے اتفاق نہ کرنا دوسری بات ہے۔کسی کی رائے سے مخالفت کے باوجود اس کی بھرپور عزت کی جاسکتی ہے۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے حد درجہ محبت کے باوجود فرماتے تھے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں صائب الرائے بھی ہیں اور ایسے بھی جن سے غلطیاں ہوئی ہیں۔اس لیے یہ سمجھنا سراسر جہالت ہے کہ کسی مسئلہ میں کسی امام کی رائے سے اختلاف کرنا اس کی شان میں گستاخی یا اس کی بے عزتی ہے۔

5۔ہم نے تقلید کے سلسلے میں نہایت نرم الفاظ استعمال کیے ہیں اور بتایا ہے کہ تقلید نہ تو واجب ہے اور نہ سنت،لیکن ہمارے سلف صالحین نے تقلید کے لیے بڑے سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن حزم کہتے ہیں کہ تقلید حرام ہے۔[1] اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ کسی اور کی بات بغیر کسی دلیل کے قبول کرلے۔اللہ کاحکم ہے:

﴿ اتَّبِعوا ما أُنزِلَ إِلَيكُم مِن رَبِّكُم وَلا تَتَّبِعوا مِن دونِهِ أَولِياءَ ...﴿٣﴾... سورة الاعراف

’’لوگو جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرواور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔‘‘

دوسری جگہ اللہ کافرمان ہے:

﴿وَإِذا قيلَ لَهُمُ اتَّبِعوا ما أَنزَلَ اللَّهُ قالوا بَل نَتَّبِعُ ما أَلفَينا عَلَيهِ ءاباءَنا ...﴿١٧٠﴾... سورة البقرة

’’ان سےجب کہا جاتا ہے کہ اللہ نےجو احکام نازل کیے ہیں ان کی پیروی کروتو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔‘‘

تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ،تابعین  رحمۃ اللہ علیہ  اور سلف صالحین اس بات پر متفق رہے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ اور کوئی ایسا شخص نہیں ہے،جس کی تمام کی تمام باتیں قبول کرلی جائیں کیوں کہ اسکی باتیں صحیح بھی ہوسکتی ہیں اورغلط بھی۔جو لوگ مکمل طور پر ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ،مالک رحمۃ اللہ علیہ ،شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،یااحمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  کی تقلید کرتے ہیں انھیں جان لینا چاہیے کہ وہ ایساکرکے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور سلف صالحین کی متفق علیہ روش سے ہٹ کر کام کرتے ہیں۔آکر کس بنیاد پر انھوں نے ان اماموں کو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  پر فوقیت دے رکھی ہے۔کہ وہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ،امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،کی مکمل تقلید تو کرلیتے ہیں لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،یاحضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،کی تقلید نہیں  کرسکتے؟

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ جس شخص نےکسی امام کی اس طرح تقلید کی کہ اس کی ساری باتوں کوبرحق مانتا ہو اور دوسرے اماموں کی باتوں کوردکردیتا ہو اسےقتل کردینا چاہیے الا یہ کہ وہ اس عمل سے توبہ کرلے کیونکہ ایسا کرکے اس نے اپنے امام کو شارع اور نبی کے درجہ پر لابٹھایا اور اس کے اس عمل نے اسے اسلام سے خارج کردیا۔

6۔کوئی ضروری نہیں ہے کہ جو رائے سب سے زیادہ مشہور اور جس کے ماننے والے کثرت میں ہوں وہی رائے سب سے زیادہ صحیح رائے ہو یا جس رائے کے ماننے والے اقلیت میں ہوں وہ رائے سرے سے غلط ہوکیونکہ کسی رائے کے غلط یا صحیح ہونے کا دارومدار اس کی شہرت اور اس کے متبعین کی کثرت پر نہیں ہے بلکہ دلیل کےمضبوط اور معتبر ہونے پر ہے۔ورنہ اسلام کبھی دین حق نہ ہوتا کیوں کہ اس کے ماننے والے دنیا میں ہمیشہ اقلیت میں رہے ہیں۔اللہ فرماتا ہے:

﴿وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يُؤمِنونَ ﴿١﴾... سورة الرعد

’’لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘

﴿وَما أَكثَرُ النّاسِ وَلَو حَرَصتَ بِمُؤمِنينَ ﴿١٠٣﴾... سورة يوسف

’’تم کیسی ہی خواہش کرلو لیکن لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لاسکتی۔‘‘

7۔اجتہادی مسائل میں اختلاف کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے اپنی عزت اوروقار کا مسئلہ بنا کر تفرقہ اور دشمنی کی صورت پیدا کرلی جائے۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور سلف صالحین  فقہی مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتے تھے لیکن کبھی ایسا نہیں ہواکہ اس اختلاف کی وجہ سے ان کے درمیان دشمنی ہوئی ہو۔اس اختلاف کے باوجود وہ ایک دوسرے کی امامت میں نماز پڑھتے اور ان کے درمیان مکمل اتحاد واتفاق تھا۔

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  ،امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ بھی فقہی مسائل میں اختلاف رکھتے تھے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان میں سے کسی کو اپنی بات کے صحیح ہونے پر اس قدر اصرار ہوکہ دوسرے کی بات کو سرے سے قبول ہی نہ کرے۔چنانچہ امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  نماز فجر میں دعائے قنوت کوضروری سمجھنے کے باوجود جب انھوں نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کی قبر کے نزدیک نماز فجر ادا کی تو ان کے رتبہ کا احترام کرتے ہوئے فجر کی نماز میں دعائے قنوت نہیں پڑھی۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔کیا آپ ان کی امامت میں نماز پڑھ سکتے ہیں؟احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  نے جواب دیا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  اور سعید بن المسیب جیسے حضرات کی امامت میں نماز پڑھنے سے کسے تامل ہوسکتا ہے۔

اکثر یہ دیکھا اور سنا گیا ہے کہ عام لوگ ان فقہی مسائل میں اختلافات کی کثرت دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ  آخر ان اختلافات  کے اسباب کیا ہیں؟ان کے اطمینان قلب کے لیے ان اسباب کا بیان ضروری سمجھتا ہوں۔وہ یہ ہیں:

1۔شرعی احکام کامنبع ومآخذ قرآنی آیات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت طیبہ ہے،اور یہ عین فطری بات ہے کہ ان قرآنی آیات یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے اقوال کو سمجھنے میں اور ان کے مفہوم کی تعین میں لوگ مختلف ہوجائیں۔بعض لوگ ظاہری مفہوم کو  ترجیح دیتے ہیں اور بعض لوگ بات کے اصل مدعاومقصد کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اس کے اصل مفہوم کو ترجیح دیتے ہیں۔مفہوم کے تعین میں اس اختلاف کی وجہ سے فقہی مسائل میں اختلاف ہوجاتا ہے۔مثال کے طور پر غزوہ احزاب سے واپسی کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے فرمایا:

"من كان يؤمن بالله و اليوم الآخر فلا يصلين العصر الا في بني قريظة" (بخاری ومسلم)

’’جوشخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو وہ عصر کی نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی ادا کرے۔‘‘

جب سورج غروب ہونے کا وقت آیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  بنی قریظہ نہیں پہنچ سکے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس حکم کے بارے میں غور کرنے لگے۔چنانچہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کہنے لگے کہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز اداکرنے کاحکم دیا ہے،اس لیے ہم وہیں جا کرادا کریں گے۔خواہ نماز قضا ہوجائے،اور بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم نماز قضا کردیں بلکہ آپ کا مقصد یہ تھا کہ ہم جلد از جلد بنی قریظہ پہنچنے کی کوشش کریں۔چنانچہ انھوں نے سورج غروب ہونے سے قبل اوربنی قریظہ پہنچنے سے قبل عصر کی نماز ادا کرلی۔یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے ایک فریق نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کے ظاہری مفہوم پر عمل کیا اوردوسرے فریق نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کے اصل مدعا ومقصد کو مد نظر رکھا۔بعد میں جب یہ معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے پیش ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے دونوں فریقوں کو درست قراردیا۔

اب آپ دیکھ لیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کاحکم ایک ہی تھا لیکن دونوں فریقوں نے اپنی اپنی سمجھ اور اجتہاد کے مطابق عمل کیا اور ان کے درمیان اختلاف ہوا اور اس اختلاف کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان دونوں کودرست قراردیا۔

2۔طبعاً بعض لوگ سختی اور تشدد کی طرف مائل ہوتے ہیں جب کہ بعض لوگ فطری طور پر سہل پسند ہوتے ہیں۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نسبتاً سخت مزاج واقع ہوئے تھے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا میلان سہل پسندی اورآسانی کی طرف تھا۔طبیعت میں اس فرق کی وجہ سے بھی فقہی مسائل میں اختلافات ہوتے ہیں۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اپنی سخت طبیعت  کی وجہ سے اپنے بچوں کو بوسہ دینے سے گریز کرتے تھے جب کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ایسا کرنے کو نیک عمل سمجھتے تھے۔

3۔عربی زبان میں بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن میں حقیقی اور مجازی دونوں قسم کے معنوں کا احتمال ہوتا ہے۔بعض لوگ حقیقی معنی ومفہوم کو لیتے ہیں اور بعض لفظ کےمجازی مفہوم کو ترجیح دیتے ہیں مثال کے طور پرقرآن کے الفاظ"أَوْلامَسْتُمُ النِّسَاءَ"میں لفظ"لامَسْتُمُ""میں حقیقی اور مجازی دونوں مفہوم کی گنجائش ہے۔اس کا حقیقی معنی ہے ہاتھ سے چھونا۔اور اس کا مجازی مفہوم ہے بیوی سے مباشرت کرنا۔جن فقہاء کرام نے اس کے حقیقی مفہوم کو ترجیح دی ان کے نزدیک بیوی کو صرف ہاتھ سے چھودینے سے وضو ٹوٹ جاتاہے لیکن جن کے نزدیک یہاں لفظ کا مجازی مفہوم مراد ہے۔ان کے نزدیک بیوی کو صرف ہاتھ سے چھودینے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔

4۔بسا اوقات ایساہوتا ہے کہ ایک روایت اور حدیث کسی امام کے نزدیک صحیح اور معتبر ہوتی ہے اور وہ اس کے مطابق اپنی رائے قائم کرتا ہے جب کہ کسی دوسرے امام کے نزدیک یہ حدیث غیرمعتبر اورضعیف ہوتی ہے اور وہ اس غیر معتبر روایت کو اپنی دلیل نہیں بناتا۔روایت کے معتبر ہونے یا نہ ہونے سے بھی فقہی مسائل میں اختلافات ہوئے ہیں۔

5۔بعض فقہائے کرام فقہی مسائل کے سلسلے میں قرآن وحدیث کے علاوہ دوسرے عوامل پربھی نظر رکھتے ہیں۔مثلاً دنیا کے بدلتے حالات،مختلف علاقے والوں کی مختلف ضرورتیں اور عوامی مصلحتیں وغیرہ۔ان فقہائے کرام کے نزدیک یہ عوامل کچھ زیادہ معتبر نہیں ہیں۔

6۔بعض فقہاء کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے قبل کی شریعتیں ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سےپہلے بھیجے گئے انبیاء ورسل کی شریعتیں ہمارے لیے بھی شریعت کی حیثیت رکھتی ہیں اورانھیں بطور دلیل پیش کیاجاتا ہے۔جب کہ بعض کےنزدیک اگلی شریعتیں ہمارے لیے شریعت کی حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔

ان کے علاوہ اور بھی اسباب ہیں جن کیوجہ سے فقہاء کے درمیان فقہی مسائل میں اختلافات ہوئے ہیں۔ان اسباب کے متعلق بہت ساری کتابیں بھی تصنیف کی گئی ہیں۔مثلاً علامہ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ  کی"الانصاف فی اسباب الاختلاف"اور شیخ علی الخفیف کی"اسباب اختلاف الفقہاء"

ایک بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ فقہی مسائل میں اختلافات کوئی مصیبت یاتفرقہ کی علامت نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک شرعی ضرورت ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ اختلافات ہمارے دین کی وسعت اور کشادگی کی واضح علامت ہے اور ہم بندوں کے حق میں رحمت ہیں۔یہ اللہ کی رحمت ہی تو ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو شرعی مسائل میں تنگی نہیں بلکہ کشادگی عطا کی ہے۔انھیں کسی ایک رائے کا پابند نہیں بنایا ہے بلکہ انھیں یہ گنجائش اورعطا کی ہے کہ وہ اپنی ضرورتوں اور اپنے علاقے اور اپنے زمانے کے حالات کے لحاظ سےکسی موزوں اور بہتر رائے پرعمل کریں۔بالکل فطری بات ہے کہ کوئی فتویٰ کسی  پرانے زمانے کے لحاظ سے موزوں اور مناسب ہو لیکن وہی فتویٰ آج کے بدلے ہوئے حالات اور گوناگوں ضرورتوں کے پیش نظر بالکل موزوں اورمناسب نہ ہو۔اسی طرح عین ممکن ہے کہ کوئی فتویٰ کسی ملک کے لیے موزوں ہو لیکن دوسرے ملک کے لیے ناموزوں ہو کیوں کہ دونوں ملکوں کے حالات مختلف ہوسکتے ہیں۔یہ وجہ ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  جب مصر میں مقیم تھے تو ان کے فتوے ان فتوؤں سے مختلف تھے جو انھوں نے عراق میں قیام کے دوران دیے۔کیوں کہ دونوں ملکوں کے حالات جدا جدا تھے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اس سال ایک فتویٰ دیتے اور اگلے سال اسی مسئلہ میں مختلف فتویٰ دیتے اور جب پوچھا جاتا تو جواب دیتے کہ کل کا فتویٰ کل کےحالات کے لحاظ سےتھا اور آج کافتویٰ آج کے لحاظ سے۔خلیفہ منصور نے امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  سے خواہش ظاہر کی کہ تمام مسلمانوں کو ان کی تصنیف"الموطا" کا پابند بنادیں تو امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  نے انکار کردیا اور فرمایا کہ امیر المومنین ایسا نہ کیجئے کیونکہ مسلمان مختلف ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ان کے حالات جدا جدا ہیں اور ان کی ضرورتیں الگ الگ ہیں۔

تمام لوگوں کو کسی ایک ہی مسلک کا پابند بنادینا یا اجتہاد کادروازہ بند کردینا شریعت کی رو سے ایک غلط عمل ہے کیونکہ یہ عمل قرآن وسنت اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے عمل کے خلاف ہے۔اس طرح کی فکر اس زمانے کی پیداوار ہے۔جب مسلمانوں میں علمی جہالت اور ہر طرح کی پسماندگی آگئی۔حنبلی رحمۃ اللہ علیہ  علمائےکرام کہتے ہیں کہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی ایسے عالم او فقیہ کا ہونا لازمی ہے جو اجتہاد کے مرتبہ پر فائزہو۔اور یہ بات اللہ کی رحمت سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔البتہ وہ شخص جو قرآن وسنت اور دوسرے شرعی علوم پر عبور نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ جن مسائل میں اسے علم نہ ہو ان کے سلسلہ میں علمائے کرام کی طرف رجوع کرے اور ان سے سوال کرے کیونکہ خدا کا حکم ہے:

﴿ فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ ﴿٧﴾... سورة الأنبياء

’’پس علم والوں سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے ہو۔‘‘

کسی مسئلہ میں علم نہ ہونے کے باوجود کوئی رائے قائم کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔

رہا آپ کا یہ سوال کہ کیا یہ بات جائز ہے کہ کوئی شخص کسی ایک مسئلہ میں حنفی مسلک کا اتباع کرے اور دوسرے مسلک میں شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  یامالکی  رحمۃ اللہ علیہ مسلک کا؟اسکا جواب یہ ہے کہ بعض علمائے کرام نے اس سے منع فرمایا ہے اور بعض نے اس کی اجازت دی ہے۔میری اپنی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی شخص محض آرام پسندی اور آسان فتوے کے چکر میں ایسا کرتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے اور اسے اس بات سے کوئی مطلب نہ ہوکہ اس آسان فتوے کی دلیل مضبوط ہے بھی یا نہیں۔ایسا شخص گویا اپنے نفس کااتباع کرتا ہے،شریعت کی نہیں۔البتہ اگر کوئی شخص قرآن وسنت کی دلیل کی بنیاد پر کسی رائے کولائق ترجیح سمجھتا ہے اور اسے اجتہاد کرتا ہے  خواہ یہ رائے کسی بھی مسلک کے مطابق ہوتو اس کا یہ عمل نہ صرف جائز ہے بلکہ لائق ستائش ہے۔


[1]۔علمائے کرام اپنے علم کے باوجود کسی مسلک کی مکمل تقلید کریں تو ان کے حق میں یہ تقلید حرام کہی جاسکتی ہے۔لیکن عام لوگ جنھیں شریعت کاعلم نہیں ہوتا ہے وہ اگر کسی مسلک کی تقلید کریں تو یہ حرام نہیں ہوسکتا۔(مترجم)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اُصول فقہ،جلد:2،صفحہ:51

محدث فتویٰ

تبصرے