السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن کی طباعت املا کےمروجہ طریقوں سے قدرے مختلف ہوئی ہے۔ مثلاً لفظ "صلاۃ" قرآن میں واؤ کے اضافہ کے ساتھ "صلوٰۃ" لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح لفظ"ریاح"املا کے مروجہ طریقے سے ہٹ کر"ریح"لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح قرآن میں بے شمار الفاظ ایسے ہیں جو املا کے عام طریقے سے کسی قدر مختلف لکھے جاتے ہیں کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان تمام الفاظ کو املے کے مروجہ طریقے پر لکھا جائے تاکہ ان کا پڑھنا آسان ہو۔ ورنہ ایک عام قاری ان کے پڑھنے میں عموماً غلطی کر بیٹھتا ہے۔ کیا دوران تعلیم طلبہ کی آسانی کی خاطر بلیک بورڈ پر ان الفاظ کو املے کے عام طریقے پر لکھا جا سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن کریم کی بے شمار خصوصیتوں میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ضمانت خود اپنے ذمے لی ہے۔دوسری آسمانی کتابوں کی حفاظت اللہ نے انسانوں کے ذمے کی تھی اور وہ تمام کتابیں اپنی اصل حالت میں باقی نہ رہ سکیں۔قرآن کریم چونکہ آخری آسمانی کتاب ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے کسی قسم کی ادنی تحریف و تبدیلی سے محفوظ رکھنے کی ذمے دارے خود لے لی۔ ارشاد ہے۔
﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ﴿٩﴾... سورة الحجر
’’اس(قرآن) کریم کو ہم نے نازل کیا ہے اور اس کی حفاظت بھی خود ہم ہی کریں گے۔‘‘
اس حفاظت کی خاطر اللہ تعالیٰ نے کچھ خاص انتظامات کیے مثلاً یہ کہ اللہ نے قرآن کریم کو قیامت تک کے لیے سینہ بہ سینہ محفوظ رکھنے کا انتظام فرمادیا ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے لے کر آج تک ہر دور میں قرآن کو مکمل حفظ کرنے کا اہتمام کیا جا تا رہا ہے اور یہ سلسلہ ان شاء اللہ قیامت تک چلتا رہے گا۔ان میں ایک یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عہد ہی سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو الہامی تو فیق بخشی کہ وہ اس عظیم الشان کتاب کی کتابت ہمیشہ اسی رسم الخط میں کریں جس میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں کرائی تھی۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے متفقہ طور پر اس رسم الخط کو پسند فرمایا اور اپنی منظوری دی اس کے بعد اسی رسم الخط میں اس کی کتابت ہوتی چلی آرہی ہے۔اسی وجہ سے اس رسم الخط کو رسم عثمانی یا خط عثمانی کہا جاتاہے۔ مسلمانوں نے ہر دور میں قرآنی الفاظ و آیات کی کتابت میں اسی رسم عثمانی کی پابندی کی ہے تاکہ یہ الفاظ کی ظاہری شکل و صورت میں بھی قیامت تک اپنی اصل حالت میں محفوظ رہے۔ البتہ بعد کے دور میں اعراب کی ایجاد کے بعد آسانی کے لیے زبر، زیر، پیش اور نقطے لگائے گئے لیکن الفاظ کے رسم الخط میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
دور حاضر میں بعض حضرات اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ قارئین کی آسانی کے لیے قرآن کریم کی طباعت موجودہ دور کےرسم الخط پر ہو۔ لیکن میں اس رائے سے متفق نہیں ہوں۔میری اپنی رائے یہ ہے قرآن کو اسی خط عثمانی پر برقرار رکھا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا جو مکمل انتظام کر دیا ہے وہ قیامت تک برقرار رہے اور لوگ یہ جان لیں کہ آج بھی ہم قرآن کو اسی صورت و شکل میں پڑھتے ہیں جس شکل میں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہواتھا۔ البتہ اگر کوئی استاد طلبہ کی آسانی کے لیے قرآن کی بعض آیتوں کو بلیک بورڈ پر آج کے مروج طریقوں لکھتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ بہ شرطے کہ طلبہ پر یہ بات واضح کر دیا جائے کہ قرآن میں ان الفاظ کا املا اس سے مختلف ہے۔
نوٹ:اسی سوال سے ملتا جلتا دورسرا سوال ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم کی طباعت کسی دوسری زبان کے رسم الخط مثلاً لاطینی وغیرہ میں جائز ہے یا نہیں؟ تاکہ دوسری زبان والے بھی قرآن کی تلاوت آسانی سے کر سکیں پہلے سوال کے جواب کی طرح اس سوال کا جواب بھی یہی ہے کہ قرآن کریم کو کسی قسم کی تحریف و تبدیلی سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے خط عثمانی ہی میں لکھا جائے۔غور کریں کہ قرآن کوخط عثمانی کے علاوہ عربی کے دوسرے خط میں لکھنا مناسب نہیں ہے تو اسے کسی اور زبان میں لکھنا بدرجہ اولیٰ مناسب نہیں ہو گا۔قرآن اللہ نے عربی زبان میں نازل فرمایا ہے اور اس کی حفاظت کا تقاضا ہے کہ اسے ہمیشہ کے لیے عربی زبان ہی میں لکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
﴿إِنّا جَعَلنـٰهُ قُرءٰنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُم تَعقِلونَ ﴿٣﴾... سورة الزخرف
’’ہم نے اسے عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم اسے سمجھ سکو۔‘‘
مزید یہ کہ عربی زبان میں بے شمار ایسے الفاظ ہیں جنھیں اگر دوسری زبان میں لکھا جائے تو پڑھنے کے دوران ان کی صحیح ادائی ممکن نہیں ہو گی اور ظاہر ہے کہ قرآن کو الفاظ کی صحیح ادائی کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے البتہ تعلیم و تدریس کی خاطر اور وہ بھی شدید ضرورت کی بنا پر اسے کسی دوسری زبان میں لکھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب