السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دبئی میونسپلٹی کے چیرمین کی طرف سے یہ سوال موصول ہوا ہے۔ اختصار کے ساتھ ان کا سوال پیش کررہا ہوں۔
ان کے سامنے پریشانی یہ ہے کہ دبئی شہر میں زمین کے اندر پانی کے پائپ لائنوں کے بچھانے کاکام زور و شور سے جاری ہے ۔ پائپ لائن کو اس مقام سے بھی گزرناناگزیر ہے جہاں پہلے کبھی قبرستان ہوا کرتی تھی اب وہاں کوئی قبرستان نہیں ہے اور نہ کوئی ایسی قبر ہے جس کی عمر پچیس سال سے کم ہو۔ بعض فنی مجبوریوں کی بنا پر اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ اس پرانی قبرستان میں پائپ لائن بچھانے کاکام ہو اور اس مقصد کے لیے زمین کھودی جائے۔ اس کام کی خاطر وہاں کی پرانی قبریں کھولنی پڑیں گی۔سوال یہ ہے کہ عوامی مصلحت کی خاطر اور مجبوری کی حالت میں قبروں کا کھولنا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کا خط ملا مزید اطمینان کے لیے میں نے انجینئروں کی وہ رپورٹ بھی پڑھی جس میں لکھا تھا کہ بعض فنی مجبوریوں اور عوامی مصلحتوں کے پیش نظر پائپ لائن کو قبرستان سے گزارنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ایسا نہ کیا گیا تو دوسری صورتیں شہر والوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔آپ کا خط انجینئروں کی رپورٹ اور اس معاملہ میں فقہ کی کتابوں کی طرف رجوع کرنے کے بعد میں جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ :
اسلامی شریعت کی روسے کسی قبر کو کھولنا اورمیت کو وہاں سے نکالنا اور اس زمین سے منفعت حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔الایہ کہ ایسا کرنے کے لیے کوئی شرعی عذر موجود ہو۔ شرعی عذر کیا ہو سکتے ہیں۔مختصراً ان کے بارے میں بتاتا چلوں۔
1۔قبر اتنی قدیم ہو چکی ہو۔ کہ اس بات کا یقین کامل ہو کہ اب اس کے اندر سب کچھ بوسیدہ ہو کر مٹی بن چکا ہے۔ اور اس بات کا تعین کہ سب کچھ مٹی بن چکا ہو گا تجربہ کار حضرات ہی کر سکتے ہیں۔
2۔قبر کے اندر میت کو اس قبر کی وجہ سے تکلیف پہنچ رہی ہو مثلاً یہ کہ قبر کی جگہ بہت گندگی ہو یا پانی سے بھر گئی ہو یا بہت خستہ حالت ہو۔ ایسی حالت میں میت کو قبر سے نکالنا جائز ہے تاکہ اسے کسی دوسری بہتر جگہ دفن کیا جا سکے۔
3۔کسی زندہ آدمی کا کوئی حق قبر کے اندر رہ جائے۔ مثلاً قبر کے اندر زندہ شخص کا مال وغیرہ رہ جائے تو دوبارہ اس قبر کو کھولنا ہے تاکہ اس مال کو برآمد کیا جا سکے ۔ فقہاء نے تو اس بات کو بھی جائز قراردیا ہے۔ کہ میت کا پیٹ چاک کیا جا سکتا ہے اس مال کو نکالنے کے لیے جو اس نے نگل لیا۔ تھا۔اگر کسی ایک زندہ آدمی کے حق کی خاطر قبر کھولی جاسکتی ہے۔تو عوام کے فائدے کے لیے بدرجہ اولیٰ کھولی جا سکتی ہے۔
احناف کے نزدیک قبر دوبارہ صرف اسی حالت میں کھولی جا سکتی ہے جب اس کے اندر کسی شخص کا مال رہ جائے چاہے اس کی مالیت ایک درہم ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح کسی نے حق شفعہ میں ایسی زمین خریدی جس میں قبر موجود ہے تو صاحب زمین کو اختیار ہے چاہے تو قبر کو برقرار رکھے اور چاہے قبر کھول کر میت کو دوسری جگہ منتقل کردے۔
4۔مسلمانوں کی اجتماعی مصلحت کے پیش نظر اگر قبر کھولنا اور میت کو وہاں سے منتقل کرنا ضروری ہوجائے تو اجتماعی مصلحت کی خاطر ایسا کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ اسلامی شریعت کا یہ اصول ہے کہ اجتماعی مصلحت کسی ایک شخص کی مصلحت پر مقدم ہے۔
اس توضیع کے بعد میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے جس قبر ستان کا تذکرہ کیا ہے وہاں قبروں کا کھولنا اوراموات کا دوسری جگہ منتقل کرنا دواسباب کی وجہ سے جائز ہے۔
1۔پہلا سبب یہ ہے کہ آس پاس کی زمینوں پر عمارتوں کی تعمیر کی وجہ سے وہاں کا بہت سارا گندا پانی قبرستان کی زمین کو متاثر کر رہا ہے جس سے گندگی اور بدبو پھیلنے کا قوی امکان ہے۔ مردوں کو اس سے تکلیف ہو سکتی ہے۔ ابن قدامہ اپنی کتاب "المغنی" میں لکھتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے قبر کھولنے اور میت کو ہاں سے منتقل کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو امام احمد نے جواب دیا کہ اگر میت کو وہاں تکلیف ہو رہی ہو تو ایسا کیا جاسکتا ہے۔مزید فرمایا کہ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایسا کیا تھا۔ امام احمد سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا جو گندی جگہ دفن کردئیے گئے تھے آپ نے انہیں منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا
بخاری شریف کی روایت ہے کہ جابر بن اللہ نے اپنے والد کو اُحد کی جنگ کے بعد کسی دوسرے صحابی کے ساتھ ایک ہی قبر میں دفن کردیا۔ لیکن انہیں یہ بات اچھی نہیں لگی چنانچہ چند مہینہ کے بعد حضرت جابر نے وہ قبر کھولی تاکہ اپنے والد کو دوسری جگہ دفن کر سکیں ۔ وہ فرماتے ہیں کہ وہ میت اسی حالت میں تھی جیسے آج ہی اسے دفن کیا گیا ہو۔ اس طرح طلحہ بن عبید اللہ جو کہ عشرۃ مبشرۃ میں سے ہیں ان کی بیٹی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خواب میں دیکھا کہ ان کے والد کو قبر میں تکلیف ہو رہی ہے۔ چنانچہ تیس سال کے بعد اپنے والد کی قبر کھولی اور انہیں دوسری جگہ دفن کردیا ۔
2۔دوسرا سبب یہ ہے کہ اجتماعی مصلحت اور عوام کو کسی نقصان سے محفوظ رکھنے کی خاطر قبروں کا کھولنا اور اموات کو منتقل کرنا ضروری ہوگیا ہو اور شرعی اعتبار سے اجتماعی مصلحت بہر حال مقدم ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فتاوی میں لکھا ہے کہ حضرت معاویہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں مدینہ منورہ میں نہر کھودنے کے لیے بعض شہداء کی قبریں کھلوائیں تھیں اور انہیں دوسرے مقام پر منتقل کردیا تھا۔ شہداء کے جسم بالکل تروتازہ تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس عمل پر کسی صحابی نے تنقید نہیں کی۔
ان دواسباب کی بنا پر آپ کا ان قبروں کا کھولنا اور مردوں کو وہاں سے منتقل کرنا جائز ہے۔ تاہم چند باتوں کا خیال رہے۔
1۔صرف وہی قبریں کھولی جائیں جن کی عمر25 سال سے زائد ہو۔ الایہ کہ ان سے کم عمر قبروں کا کھولنا ضروری ہو۔
2۔ کام کرنے والے اس بات کا پورا خیال رکھیں کہ کوئی ہڈی نہ ٹوٹے ۔ کیونکہ ابو داؤدکی روایت ہے:
"كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِ عَظْمِ الْحَيِّ "
’’میت کی ہڈی ٹوٹنا زندہ شخص کی ہڈی ٹوٹنے کی طرح ہے‘‘
3۔ جو ہڈیاں جمع ہوں انہیں پوری عزت وحترام کے ساتھ علماء ومشائخ کی زیر نگرانی کسی دوسری جگہ منتقل کر کے دفن کردیا جائے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب