سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(145) شہید کا اجر

  • 23897
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1737

سوال

(145) شہید کا اجر

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کوئی مسلمان فلسطین کی پاک سر زمین میں جا کر یہودیوں کے خلاف جنگ کرتا ہے اور مارا جاتا ہے تو کیا اسے شہید شمار کیا جائے گا؟ اور کیااس شہادت کی وجہ سے اس کے تمام چھوٹے بڑے گناہ معاف ہو جائیں گے خواہ اس نے فرائض کی ادائی میں کوتاہی کی ہو یا بعض حرام کام کئے ہوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہر وہ مسلمان جو کلمہ گوہے اور توحید ورسالت پر اس کا ایمان کامل ہے اور وہ اسلام کے متعلق کوئی ایسی بات بھی نہیں کہتا جو اسے دائرہ اسلام سے خارج کردے تو ایسا شخص اگر کفارو مشرکین یا یہودنصاریٰ کے خلاف جہاد کرتا ہوا مارا جائے تو اسے شہید شمار کیا جائے گا۔ اس پر شہیدوں کا حکم نافذ ہو گا چنانچہ اسے غسل نہیں دیا جائے گا اور نہ کفن ہی پہنایا جائے گا بلکہ انہیں کپڑوں میں دفن کر دیا جائے گا جو بوقت شہادت اس کے بدن پر تھے۔تاکہ قیامت کہ دن اس کے خون اور زخم اس کی شہادت کی گواہی دیں۔

رہی یہ بات کہ اس کی جنگ اللہ کی راہ میں شمار ہوگی یا نہیں ؟ تو اس کا تعلق اس کی نیت سے ہے کیونکہ دین اسلام میں ہر عمل کا دارومدار نیت اور اس مقصد وغایت پر ہوتا ہے جس کے لیے یہ عمل کیا جائے ۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:

"إِنَّ الله لا يَنْظُرُ إِلى أَجْسامِكْم، وَلا إِلى صُوَرِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ "

’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ تمھاری صورتیں نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمھارے دل دیکھتا ہے‘‘

بلا شبہ جہاد کوئی دنیوی کام نہیں ہے بلکہ یہ ایک عبادت اور تقرب الی اللہ کا عظیم ذریعہ ہے۔ اس لیے تمام عبادتوں کی طرح اس میں بھی ضروری ہے کہ یہ عبادت خالصۃً اللہ کے لیے ادا کی جائے۔ کسی دنیا وی غرض و غایت مثلاً شہرت کی خواہش یا جو ان مردی کے اظہار کے لیے یا کسی سے انتقام لینے کے لیے یہ کام انجام نہ دیا جائے۔ اگر کسی دنیوی غرض کے لیے کسی نے جہاد کیا تو یہ جہاد اللہ کی راہ میں نہیں ہے جس کا انعام جنت ہے بلکہ یہ ریا کاری ہے جس کا انجام جہنم ہے بخاری و مسلم کی صحیح حدیث ہے کہ ایک بدو نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کیا کہ ایک شخص مال غنیمت کے لیے لڑتا ہے ایک شخص تعریف و توصیف کے لیے لڑتا ہے اور ایک شخص اپنی حیثیت ظاہر کرنے کے لیے لڑتا ہے ان میں سے کون اللہ کی راہ میں شمار کیا جائے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"

"مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اَللَّهِ هِيَ اَلْعُلْيَا, فَهُوَ فِي سَبِيلِ اَللَّهِ "

جس نے اس مقصد کے لیے جنگ کی کہ اللہ کا دین غالب ہو وہی جنگ اللہ کی راہ میں ہے۔

رہا یہ سوال کہ شہید کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ گناہ کی دو قسمیں ہیں۔

1۔ایک وہ گناہ جن کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہو تا ہے مثلاً کسی کا مال چرالیا یا چھین لیا۔ یا کسی کا قرض باقی ہے تو اس قسم کے گناہ شہادت کی وجہ سے معاف نہیں ہوتے ہیں کیونکہ ان کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ یہ حق جب تک متعلقہ بندے کو ادا نہیں کر دیا جاتا تب تک گناہ معاف نہیں ہو تا۔ مسلم شریف کی حدیث ہے۔

"يُغْفَرُ لِلشَّهِيدِ كُلُّ ذَنْبٍ إِلاَّ الدَّيْنَ"

’’شہید کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں سوائے قرض کے‘‘

2۔ رہے وہ گناہ جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے مثلاً نماز ترک کرنا شراب پینا وغیرہ وغیرہ تو اس قسم کے گناہ بلا شبہ جہاد کی وجہ سے معاف ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے واضح حدیث یہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

" الْقَتْلى ثَلاثَةٌ : رَجُلٌ مُؤْمِنٌ قَاتَلَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى إِذَا لَقِيَ الْعَدُوَّ قَاتَلَهُمْ حَتَّى يُقْتَلَ , فَذَلِكَ الشَّهِيدُ الْمُمْتَحَنُ فِي خَيْمَةِ اللَّهِ تَحْتَ عَرْشِهِ , لا يَفْضُلُهُ النَّبِيُّونَ إِلا بِدَرَجَةِ النُّبُوَّةِ ، وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ قَرَفَ عَلَى نَفْسِهِ مِنْ الذُّنُوبِ وَالْخَطَايَا جَاهَدَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى إِذَا لَقِيَ الْعَدُوَّ قَاتَلَ حَتَّى يُقْتَلَ، مُحِيَتْ ذُنُوبُهُ وَخَطَايَاهُ , إِنَّ السَّيْفَ مَحَّاءُ الْخَطَايَا, وَأُدْخِلَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شَاءَ , فَإِنَّ لَهَا ثَمَانِيَةَ أَبْوَابٍ , وَلِجَهَنَّمَ سَبْعَةَ أَبْوَابٍ , وَبَعْضُهَا أَفْضَلُ مِنْ بَعْضٍ ، وَرَجُلٌ مُنَافِقٌ جَاهَدَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ حَتَّى إِذَا لَقِيَ الْعَدُوَّ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى يُقْتَلَ فَإِنَّ ذَلِكَ فِي النَّارِ , السَّيْفُ لا يَمْحُو النِّفَاقَ "

یعنی مقتولین تین طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ مومن و متقی بندہ جو اپنے نفس اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہوتا ہے۔ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہوتی ہے تو جنگ کرتا ہے حتی کہ مارا جاتا ہےتو وہ شہید ہے اور اس کا مقام انبیاء کے برابر ہے۔ دوسرا وہ مجاہد شخص ہے جس نے اچھے اور برے دونوں طرح کے عمل کیے ہوئے۔ وہ اپنے نفس اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہوتا ہے جب دشمن سےمڈبھیڑ ہوتی ہے تو جنگ کرتا ہے حتی کہ مارا جاتا ہے تو یہ شہادت اس کے گناہوں کا کفارہ ہے یعنی اس کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور وہ جنتی ہوتا ہے تیسرا وہ ہے جو منافق ہے جو اپنے نفس مال کے زریعہ سے جہاد کرتے ہوئے مارا جاتا ہے ایسا شخص جہنم میں جائے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس بیان کے بعد اس بات میں کسی قسم کے شک شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ شہادت تمام گناہوں کے لیے کفارہ ہے بعض فرائض میں کوتاہی ہو یا بعض حرام کام سر زد ہوئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے۔ البتہ لوگ جو اسلامی نام رکھتے ہیں اور مسلمان کہلائے جاتے ہیں لیکن حقیقتاًاسلام سے ان کا کوئی رشتہ نہیں ہے بلکہ وہ وقتاً فوقتاً اسلام کی شان میں گستاخیاں کرتے رہتے ہیں تو شہادت ان کے گناہوں کا کفارہ نہیں بن سکتی چاہے وہ یہودیوں کے خلاف جنگ کرتے ہوئے ہی کیوں نہ مارے جائیں۔ کیونکہ ایسے لوگ در حقیقت مرتد و ملحد ہو چکے ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:372

محدث فتویٰ

تبصرے