سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(144) ماسونی تنظیموں میں شرکت

  • 23896
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1123

سوال

(144) ماسونی تنظیموں میں شرکت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ماسونی تحریکوں اور تنظیموں میں حصہ لینے اور ان کا ممبر بننے کے سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے مختلف لوگوں سے اس موضوع پر گفتگو کی۔ بعض اس کے حق میں ہیں اور بعض شدید مخالف ہیں۔جو اس کے حق میں ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ تنظیمیں آزادی انسان انسانیت اور اخوت کی علم بردار ہیں اور جو مخالف ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ تحریریں یہودی تحریکیں ہیں۔جن کا مقصد خفیہ اور پوشیدہ طریقوں سے زمین میں فساد برپا کرنا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مختلف کاروائیاں کرنا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ آپ اپنی رائے سے مطلع کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میں بغیر کسی تردو اور پس و پیش کے مسلمانوں کو ان تنظیموں کی تباہ کاریوں اور پوشیدہ سر گرمیوں سے لوگوں کو باخبر کرنا چاہتا ہوں۔اس ضمن میں سب سے پہلے میں چند ایسے حقائق پیش کرنا چاہوں گا جن میں کسی شک کی گنجائش نہیں:

1۔ مسلمان واضح خیالات و حرکات کا حامل انسان ہوتا ہے۔ اس کی سر گرمیاں خفیہ اور مشکوک قسم کی نہیں ہوتی ہیں۔اس کی سر گرمیاں روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہیں جیسا کہ قرآن میں ہے۔

﴿قُل هـٰذِهِ سَبيلى أَدعوا إِلَى اللَّهِ عَلىٰ بَصيرَةٍ أَنا۠ وَمَنِ اتَّبَعَنى ...﴿١٠٨﴾... سورة يوسف

تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے متبعین بھی۔

اس آیت میں علی بصیرۃ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  یا کسی بھی مسلمان کی دعوتی سر گرمیاں بالکل واضح اور حقائق پر مبنی ہوتی ہیں۔ اس لیے کسی مسلمان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ ایسی تنظیم میں شامل ہو جس کی سرگرمیاں خفیہ اور جس کے اہداف و مقاصدمشکوک قسم کے ہوتے ہیں اور اکثر یہ سر گرمیاں دین اسلام کی نظر میں ممنوع اور تباہ کن ہوتی۔ ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسلمانوں کو اس بات کی تعلیم دی ہے کہ شک و شبہ والی چیزوں کو چھوڑ کر ان چیزوں کو اپنا ئیں جو شک و شبہ سے بالا تر ہوں ۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:

""دَعْ مَا يُرِيبُك إلَى مَا لَا يُرِيبُك"

’’جو چیز تمھارے لیے شک پیدا کرے اسے چھوڑ کر اس چیز کو اپناؤ جو تمھارے لیے شک پیدا نہ کرے۔‘‘

دوسری حدیث ہے:

"فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ"

’’جس نے شک و شبہ والی چیزوں سے اجتناب کیا تو اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کیا۔‘‘

2۔اگر واقعی  یہ تنظیمیں انسانیت اور اخوت کی علم بردار ہیں جیسا کہ دعوی کیا جا تا ہے تو ہم مسلمان ان مقاصد کے لیے کسی غیر اسلامی تنظیم کے محتاج نہیں ہیں۔ ہمارا دین تو خود ہی انسانیت اور اخوت و محبت کا سب سے بڑا علم بردار ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان مقاصد کے لیے دوسری تحریکوں میں شامل ہونے کے بجائے خود اپنے دین کی تحریکوں میں شامل ہوں۔

3۔ ان ماسونی تنظیموں کی ابتدا اور پیدائش اس علاقہ میں ہوتی ہے جو نہ اسلام کی سر زمین ہے اور نہ مسلمانوں کی بلکہ وہ سراسر اسلام دشمن علاقہ ہے اور ان تحریکوں کے بانی بھی اسلام دشمنی میں معروف و مشہور ہیں۔

4۔ ان ماسونی تنظیموں میں جو شامل ہوتا ہے اس پر لازم ہوتا ہے کہ ہائی کمان کی طرف سے جو حکم ملے اسے بلا چوں و چرابجا لائے۔ کسی بھی حکم کے سلسلے میں نہ وہ بحث کر سکتا ہے اور نہ اسے پس پشت ڈال سکتا ہے بلکہ اس کے برعکس اگر اس حکم کی تعمیل میں اس کی جان بھی جاتی ہو تب بھی اس کے لیے اس حکم کی تعمیل ضروری ہے۔اس طرح کی اندھی اطاعت اسلام کی نظر میں صرف اللہ کے لیے جائز ہے کسی انسان کی اندھی اطاعت جائز نہیں ہے۔کیونکہ انسان صحیح کام  کابھی  حکم دے سکتا ہے اور غلط کام کا بھی ۔ کسی انسان کی اندھی اطاعت کا مطلب یہ ہوا کہ اب اس کا حکم خدا کے حکم سے بھی برتر ہے اور خدا کے حکم کے مقابلہ میں اس کا حکم بجالانا ضروری ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ ان تنظیموں کے ہائی کمان کی طرف سے جو حکم صادر ہوتے ہیں اکثر ان کا مقصد معاشرے میں تحزیب کاری اور فساد برپا کرنا ہوتا ہے۔ اسلام کی نظر میں ان احکام کی تعمیل جائز نہیں ہے۔ صحیح حدیث ہے۔

"فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلاَ سَمْعَ وَلاَ طَاعَةَ ‏"‏

’’یعنی اگر وہ کسی گناہ کا حکم دے تو اس کی بات نہ سننی ہے اور نہ اس کی اطاعت کرنی ہے۔‘‘

5۔ ان تنظیموں کی بنیاد ہی سیکو لرز پر قائم ہے۔ یعنی ان کی نظر میں دین اور

سیاست دو الگ چیزیں ہیں اور سیاست کو دین سے علیحدہ رکھنا چاہیے ان کی نظر میں فیصلہ کرنے اور قانون بنانے کا اختیار عوام کو ہے۔یہ نظر یہ اسلام کے عین مخالف ہے۔ اسلام کی نظر میں قانون بنانا اور فیصلہ کرنا اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ بندوں کاکام ان قوانین اور فیصلوں کے مطابق عمل کرنا ہے۔

6۔ ان تنظیموں کی پالیسی کے مطابق ایک ممبر کا دوسرے ممبر سے تعلق محض تنظیمی بنیاد پر ہوتا ہے دوسرے معنوں میں یہ تنظیمیں مسلمانوں کے دینی اور اسلامی تعلق اور اخوت کی سخت مخالف ہیں۔ جب کہ اسلام مسلمانوں کو عقیدے اور دین کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ اسلام کی نظر میں دینی تعلق ہر قسم کے تعلقات مثلاً رنگ و نسل یا قومیت ووطنیت کے تعلق سے کہیں بالا تر ہے۔ قرآن کہتا ہے:

﴿إِنَّمَا المُؤمِنونَ إِخوَةٌ ... ﴿١٠﴾... سورةالحجرات

’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘‘

اس آیت کی روسے مسلمانوں میں تعلق اور اخوت کی بنیاد ان کا دین و ایمان ہے۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی باغیرت و باحمیت مسلمان یہ گوارا نہیں کر سکتا اس طرح کی تنظیموں میں شامل ہو اور اللہ کی نظر میں مبغوض قرار پائے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:369

محدث فتویٰ

تبصرے