سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(140) ٹی وی دیکھنا

  • 23892
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1005

سوال

(140) ٹی وی دیکھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں اٹھارہ سال کا نوجوان ہوں۔ میرے چھوٹے چھوٹے بھائی بھی ہیں وہ ہر روز پڑوسیوں کے گھر جا کر ٹی وی دیکھتے ہیں۔ میں نے اپنے والد سے فرمائش کی کہ وہ بھی ایک ٹی وی سیٹ خرید کر گھر لے آئیں تاکہ بچے اپنے گھر میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھ سکیں۔میرے والد نے جواب دیا کہ ٹی وی دیکھنا حرام ہے۔اورحرام شے کو وہ اپنے گھر نہیں لا سکتے۔کیا واقعی یہ حرام ہے؟ تسلی بخش جواب مطلوب ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میں اس سے قبل بھی مختلف موقعوں پر اس سوال کا جواب دے چکا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیلی ویژن دیگر ذرائع ابلاغ مثلاً ریڈیو اور اخبارات کی طرح کچھ مقاصد کی تکمیل کے لیے بطور وسائل استعمال کیا جا سکتا ہے۔یہ بہ ذات خود نہ بھلا ہے نہ برا۔نہ حلال نہ حرام ۔ اس کے حلال یا حرام ہونے کا انحصار ان مقاصد پر ہے جن کی تکمیل کے لیے ٹی وی استعمال کیا جاتا ہے۔ یا بالفاظ دیگر ٹی وی کی حلت و حرمت ان پرو گراموں پر منحصر ہے جو اس پر نشر کیے جاتے ہیں۔ اگر پروگرام اچھی اور مفید باتوں پر مشتمل ہے اور مقصد بھی نیک ہے تو ٹی وی دیکھنا بے شبہ حلال ہے۔ بہ صورت دیگر حرام ہے۔ اس کی مثال تلوار کی ہے۔ تلوار جہاد جیسی عظیم نیکی کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہے اور ڈکیتی اور قتل و خون ریزی جیسی بھیانک برائیوں کے لیے بھی۔ تلوار بذات خود نہ حرام ہے اور نہ حلال، اس کی حلت و حرمت کا انحصار اس مقصد کے لیے اس کا استعمال کیا جائے۔

معاشرے کی تعمیر و ترقی اور لوگوں کی اخلاقی و فکری تربیت کے لیے ٹی وی کو ایک زبردست اور مؤثر وسیلے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور اسی ٹی وی کو معاشرے کی اخلاقی و فکری تباہی کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ہر مسلمان کا ضمیر خود اس بات کا فیصلہ کر سکتا ہے کہ کون سے پروگرام اسے دیکھنے چاہئیں اور کون سے نہیں۔ مثلاً خبریں تعلیمی پرو گرام ثقافتی پرو گرام یا جائز قسم کے تفریحی پرو گرام دیکھے جا سکتے ہیں یا بچے کار ٹونی فلمیں دیکھ سکتے ہیں رہے وہ پروگرام جو فحش ہیں اخلاق کے لیے تباہ کن ہیں یا ان میں کوئی ایسی بات ہو جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے تو ان کا دیکھنا کسی صورت بھی جائز نہیں ہو سکتا۔ مثلاً فلمیں ۔ ان فلموں کے مخرب اخلاق ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں کیا جا سکتا۔

چونکہ آج کل ٹی وی پر نشر کیے جانے والے پرو گرام زیادہ تر فلموں ، ڈراموں اور دوسرے غیر اخلاقی مواد پر مشتمل ہوتے ہیں اس لیے بعض دین دار طبقے سرے سے ٹی وی دیکھنے کے خلاف ہیں اور اسے ناجائز قراردیتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے۔

تاہم اس زمانہ میں ٹی وی اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اس سے مفرنہیں اور اس پر ایسے پرو گرام بھی دکھائے جاتے ہیں جو مفید اور معلوماتی ہوتے ہیں۔ اس لیے میں یہی کہوں گا کہ ٹی وی پر صرف وہی پرو گرام دیکھے جائیں جو مفید ہوں۔ جیسے ہی کوئی برا اور ناشائستہ پروگرام شروع ہو ٹی وی بند کر دیا جائے۔ بالکل اس طرح جیسے میگزین پڑھتے وقت کوئی ننگی تصویر آجائے تو اس صفحے کو پلٹ دینا چاہیے۔ لیکن اگر کسی کو یہ اندیشہ ہے کہ اپنے گھر میں وہ یہ احتیاط قائم نہیں رکھ سکتا تو بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے گھر میں ٹی وی نہ لائے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:360

محدث فتویٰ

تبصرے