سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(137) چھینک کے آداب اور حکمت

  • 23889
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3195

سوال

(137) چھینک کے آداب اور حکمت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مجھے اس بات پر یقین کامل ہے کہ اسلامی شریعت میں ہر قانون کسی حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ کبھی یہ حکمت بعض لوگوں پر واضح ہو جاتی ہے جب کہ بعض دوسرے اس حکمت سے بے خبر ہوتے ہیں اور کبھی یہ حکمت سبھوں پر پوشیدہ ہوتی ہے۔ اس کی پوشیدگی میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت ہوتی ہے اس کے باوجود میں اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ اگر کوئی حکمت ہم سے پوشیدہ ہے تو ہم اہل علم کی طرف رجوع کریں۔ اسی لیے آپ کی طرف رجوع کر رہا ہوں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ چھینکنے کے بعد الحمد اللہ کہنے میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ سننے والا یر حمک اللہ کیوں کہتا ہے؟ حالانکہ چھینک تو ایک ایسی فطری چیز ہے جو صحت مند اور بیمار ہر شخص کو آتی ہے۔ کیا الحمد اللہ اور یرحمک اللہ کہنا ضروری اور فرض ہے؟ یا ان کا تعلق اجتماعی آداب سے ہے کہ انہیں ترک بھی کیا جا سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کا یہ یقین لائق ستائش ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر قانون کسی نہ کسی حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ کے متعدد ناموں میں سے ایک نام حکیم ہے یعنی حکمت والا ۔یہ نام قرآن مجید میں بے شمار جگہوں میں مذکورہے۔ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اس لیے اس نے اس کائنات میں جو چیز بھی بنائی وہ حکمت سے خالی نہیں بنائی۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ اہل عقل جب کائنات پر نظر ڈالتے ہیں تو پکاراٹھتے ہیں کہ:

﴿رَبَّنا ما خَلَقتَ هـٰذا بـٰطِلًا ... ﴿١٩١﴾... سورة آل عمران

"اے ہمارے رب! تونے یہ سب کچھ یونہی بے کار نہیں پیدا کیا ہے:

علامہ ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں کہ قرآن اور حدیث متعدد احکام و قوانین کی علت و حکمت کے ذکر سے بھرے پڑے ہیں۔ اگر سود وسو جگہوں پر ان حکمتوں کا تذکرہ ہو تو تو ہم بیان کر دیتے ہیں۔ان کا تذکرہ تو ہزار سے زائد جگہوں پر ہے۔

آپ کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ بعض لوگوں پر پوشیدہ رہتی ہیں۔ اور بعض حکمتیں تمام لوگوں پر پوشیدہ رہتی ہیں۔ اس پوشیدگی میں یہ مصلحت ہے کہ یہ خدا کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے کہ کون حکمت جانے بغیر اللہ کے احکام پر عمل پیرا ہوتا ہے اور کون رو گردانی کرتا ہے اس پوشیدگی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بندے خود عقل سے کام لیں اور حکمت جاننے کی کوشش کریں۔

آپ کا یہ فعل بھی قابل تحسین ہے کہ اسلامی قوانین کی حکمت جاننے کے لیے آپ نے اہل علم کی طرف رجوع کیا۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ کے اندر علم حاصل کرنے کی لگن ہے۔ اب میں آپ کے سوال کی طرف آتا ہوں۔

چھینک میں الحمد اللہ کہنے اور سننے والے کو یرحمک اللہ کہنے کی حکمت بتانے سے پہلے میں چاہوں گا کہ چھینک کے اسلامی آداب بیان کردوں۔

1۔ چھینکنے والے کو الحمد للہ یا الحمد للہ رب العلمین کہنا چاہیے جیسا کہ متعدد احادیث میں آیا ہے۔

2۔ چھینکتے وقت حتی الامکان آواز پست کرنی چاہیے تاکہ آس پاس کے لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ البتہ الحمدللہ قدرے زور سے کہنا چاہیے تاکہ سبھی سن سکیں اور جواب دیں۔

3۔چھینکتے وقت چہرے پر ہاتھ رکھ لینا چاہیے تاکہ آس پاس کے لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں۔

" كَانَ رَسُول الله صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم إذَا عَطَسَ وَضَعَ يَدَهُ أوْ ثَوبَهُ عَلى فيهِ وَخَفَضَ أوْ غَضَّ بَها صَوْتَهُ" (ابو داؤد، ترمذی)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم  جب چھینکتے تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیتے تھے اور اپنی آواز پست رکھتے تھے۔‘‘

4۔ الحمد للہ سننے والوں کو جواب میں یرحمک اللہ کہنا چاہیے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ : الْحَمْدُ لِلَّهِ ، وَلْيَقُلْ لَهُ أَخُوهُ أَوْ صَاحِبُهُ : يَرْحَمُكَ اللَّهُ......." (مسند احمد)

’’جب تم میں سے کوئی چھینکتے تو الحمد للہ کہے اس کے پاس جو شخص ہواسے یرحمک اللہ کہنا چاہیے اور یہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے۔

الحمد للہ کہنا اور اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا واجب ہے یا نہیں اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ احناف اور حنابلہ کی رائے ہے کہ یہ فرض کفایہ ہے۔ مالکیہ اسے مستحب قراردیتے ہیں میری نظر میں راجح قول ہے۔ کہ یہ فرض عین ہے ۔ جیسا کہ احادیث کے الفاظ ظاہر کرتے  ہیں۔احادیث کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں۔"خَمْس تَجِب لِلْمُسْلِمِ" یعنی پانچ چیزیں مسلمان کے لیے واجب ہیں ان پانچ چیزوں میں ایک چھینک پر الحمد للہ کہنا اور جواب میں یرحمک اللہ کہنا ہے۔دوسری حدیث ہے"حقُّ الْمُسْلمِِ عَلَى الْمُسْلِمِ" ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق چھ ہیں اس میں سے ایک حق یہ ہے کہ الحمدللہ کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا چاہیے ۔ بعض احادیث میں واضح طور پر یہ ہے کہ"أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم   نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے۔ احادیث کے یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ فرض عین ہے ۔البتہ مندرجہ ذیل حالتوں میں یہ فرضیت ختم ہو جاتی ہے۔

الف ۔ جو شخص الحمد للہ نہ کہے اسے جواب میں یرحمک اللہ نہیں کہنا چاہیے کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسا ہی کیا ہے۔

ب۔زکام زدہ شخص اگر مستقل چھینکےتو اسے یرحمک اللہ کہنے کے بجائے اسے شفا کی دعا دینی چاہیے۔

ج۔غیر مسلم اشخاص کی چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ   نہیں کہنا چاہیے ۔

د۔جمعہ کے خطبے کے دوران الحمد للہ اور جواب میں یرحمک اللہ کہنا درست نہیں کیوں کہ خطبہ کے دوران کچھ بولنے سے منع کیا گیا ہے۔

یرحمک اللہ سننے کے بعد چھینکنے والے کو چاہیے کہ وہ بھی جواب میں "يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ" کہے بخاری شریف کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسا ہی کہنے کی ہدایت کی ہے۔

الحمدللہ و یرحمک اللہ کہنے کی حکمت

احکام بتانے کے بعد احکام کی حکمت و مصلحت بھی بتاتا چلوں۔

1۔دین اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے مختلف بہانوں سے بندے کا خدا سے تعلق کو مستحکم اور مضبوط تر بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس تعلق کے استحکام کے لیے جہاں اس نے نماز روزہ اور دوسرے عبادات کو فرض کیا ہے وہیں اس نے روزمرہ زندگی کی مختلف عادتوں اور ضرورتوں کو خدا کی یاد دلانے اور خدا سے تعلق کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ چنانچہ اسلام نے سونے سے پہلے اور سونے کے بعد کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد سواری پر چڑھتے وقت اور ان جیسی بے شمار مصروفیتوں اور ضرورتوں کے موقع پر ہمیں شرعی دعاؤں کی تعلیم دی ہے اور ان موقعوں پر ان دعاؤں کے ذریعہ سے خدا کو یاد کرنے کا انتظام کیا ہے تاکہ بندے کے دل میں خدا کی یاد ہمہ وقت تازہ ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی چھینک کے موقع پر الحمد للہ کہنا اور جواب میں یرحمک اللہ کہنا بھی ہے۔

چھینکنے والا الحمدللہ اس لیے کہتا ہے کہ چھینک انسان کے دماغ سے بعض کثافت اور بھاری پن کو دور کرتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں انسان کا دماغ ہلکا پھلکا ہو جاتا ہےاور انسانی ذہن پہلے سے زیادہ متحرک ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت کے لیے بندے کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

سننے والا یر حمک اللہ اس لیے کہتا ہے کہ چھینکتے وقت چھینکنے والا کا انگ انگ چھینک کی وجہ سے ہل کر رہ جاتا ہے۔ اسی لیے اس کے لیے رحمت کی دعا کی جاتی ہے ۔ ابن ابی جمرۃ اس موضوع پر لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ خدا کا عظیم فضل و کرم ہے کہ اس نے چھینک کے ذریعہ سے ایک تکلیف دور کی،پھر اس پر الحمدللہ کہنا واجب ہے تاکہ تکلیف دور ہونے کے بعد بندے کو ثواب بھی ملے ۔ پھر اس ثواب میں آس پاس کے لوگوں کو بھی شریک کیا۔ جب وہ یرحمک اللہ کہتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ایک لمحہ میں ہو جا تا ہے۔

2۔دین اسلام چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان زیادہ اخوت و محبت پروان چڑھے اور ہر اس عادت و خصلت کی اسلام نے نفی کی ہے جس میں انانیت غرور اور حسد وغیرہ جیسے رذائل اخلاق پوشیدہ ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چھینک پر الحمد للہ کہنا اور اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا اس اخوت و محبت کی عملی تربیت ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ دونوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے لیے غرور اور حسد سے پاک کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔

3۔اسلام نے چھینک کے آداب میں یا اس جیسے دوسرے موقعوں پر وہ چیزیں صرف فرض کی ہیں جو دور جاہلیت کے باطل عقیدوں کی نفی کرتی ہیں۔ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں لوگ چھینک کو بد شگونی کی علامت سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو اس نے اس باطل عقیدے کی نفی کی اور بتایا کہ چھینک بد شگونی کی علامت ہر گز نہیں ہے۔ اس کے برعکس اسلام نے اس موقع پر اللہ کا شکر ادا کرنے اور رحمت و ہدایت کی دعا کرنے کی تعلیم دی ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی معاملات،جلد:1،صفحہ:343

محدث فتویٰ

تبصرے