السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایسا دین دار شخص جو تمام فرائض وواجبات ادا کرتا ہے لیکن جھوٹ بولنے سے پرہیز نہیں کرتا ہے کیا اس کا شمار صالحین میں ہو گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جھوٹ بولنا انتہائی بری خصلت ہے۔ یہ مؤمنین و صالحین کے اوصاف میں سے نہیں ہے بلکہ یہ تو منافقین کے اوصاف میں سے ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلاثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ " (بخاری ،مسلم)
"منافق کی تین علامتیں ہیں۔ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اسے آمین بنایا جائے تو اس میں خیانت کرتا ہے۔‘‘
اسی مفہوم میں دوسری احادیث بھی ہیں۔ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ بولنا صالحین کی نہیں بلکہ منافقین کی عادت ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّما يَفتَرِى الكَذِبَ الَّذينَ لا يُؤمِنونَ بِـٔايـٰتِ اللَّهِ وَأُولـٰئِكَ هُمُ الكـٰذِبونَ ﴿١٠٥﴾... سورة النحل
’’جھوٹ وہ لوگ گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیات کو نہیں مانتے۔ وہی حقیقت میں جھوٹے ہیں۔حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ جَبَانًا ؟ فَقَالَ: ( نَعَمْ ) ، فَقِيلَ لَهُ: أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ بَخِيلًا؟ فَقَالَ: ( نَعَمْ ) ، فَقِيلَ لَهُ: أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ كَذَّابًا ؟ فَقَالَ:لَا" (موطا امام مالک)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں۔ پوچھا گیا کہ کیا مومن کنجوس ہو سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں۔ پوچھا گیا کیامومن جھوٹا ہو سکتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ نہیں۔‘‘
ایسا اس لیے کہ بزدلی اور کنجوسی ایک فطری عادت بھی ہو سکتی ہے لیکن جھوٹ بولنا فطری عادت نہیں بلکہ انسان ارادی طور پر جھوٹ بولتا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث میں ہے:
"وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ ، وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَكْذِبُ وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا " (بخاری ، مسلم )
’’جھوٹ سے بچو کیوں کہ جھوٹ فسق و فجور کی راہ دکھاتا ہے اور فسق و فجور جہنم تک لے جاتا ہے اور انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے حتی کہ اللہ کے یہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ جھوٹ بولنا ایک ایسی عادت ہے جو انسان خود اپنی کوشش سے اختیار کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کی ہے کہ اپنے بچوں کو شروع ہی سے سچ بولنے کا عادی بنایا جائے اور جھوٹ بولنے سے روکا جائے۔ حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے بچے سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ تمھیں فلا ں فلاں چیزدوں گا( وہ اپنے بچے کو بہلانا چاہتے تھے)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے سوال کیا کہ واقعی تم اپنے بچے کو یہ چیز یں دو گے؟ انھوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ یا تو اسے یہ چیزیں دو یا پھر سچ بولو۔ کیوں کہ اللہ نے جھوٹ بولنے سے منع فرمایا ہے۔ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یہ بھی کوئی جھوٹ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کہ بلا شبہ یہ جھوٹ ہے۔ بڑا جھوٹ بڑا جھوٹ لکھا جائے گا اور چھوٹا جھوٹ چھوٹا جھوٹ لکھا جائے گا۔(مسند احمد)
جھوٹ کے مختلف درجات ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یا نقصان ان جتنا ہو گا اس کا گناہ بھی اسی قدر بڑا ہو گا۔ اسی لیے بعض جھوٹ کا شمار گناہ صغیرہ میں ہوتا ہے اور بعض کا شمار گناہ کبیرہ میں اسی لیے حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس بادشاہ کی طرف نظر بھی نہیں کرے گا جو جھوٹا تھا اس لیے کہ بادشاہ کے بننے کے بعد اسے جھوٹ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس کے باوجود اس نے جھوٹ بولا یہ جانتے ہوئے کہ بادشاہ کے جھوٹ کا اثر عام لوگوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے بادشاہ کا قیامت کے دن یہ انجام ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھے گا نہیں اور اس کے لیے عذاب الیم ہے(مسلم )
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب