سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(120) نکاح حلالہ

  • 23872
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-30
  • مشاہدات : 778

سوال

(120) نکاح حلالہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک خاتون جو چار بچوں کی ماں ہے اور اپنے شوہر سے بھی محبت کرتی ہے بعض شدید اختلافات کی بنا پر شوہر نے اسے تینوں طلاقیں دے ڈالیں۔کچھ مدت گزر جانے کے بعد ان دونوں نے از سر نو ازدواجی رشتے میں منسلک ہونے کا فیصلہ کیا۔لیکن حلالے کے بغیر ایسا ممکن نہیں تھا چنانچہ خاتون نے کسی مرد سے ایک ہفتہ کے لیے شادی کی اور اس سے طلاق لے کر دوبارہ اپنے سابق شوہر کی زوجیت میں چلی آئیں کیا شرعاً ایسا کرنا حلال ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دین اسلام نے ازدواجی زندگی کی تعمیر نہایت مضبوط بنیادوں پر کی ہے۔

اس لیے شادی شدہ زندگی میں داخلے کے لیے چند لازمی ارکان وشرائط ہیں اور اسی طرح اس سے نکلنے کے لیے بھی چند شرطیں ہیں جن کا پایا جانا ضروری ہے۔اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لا تُطَلِّقُوا النِّسَاءَ، إلا مِنْ رِيبَةٍ "

’’یعنی اپنی عورتوں کو صرف اس وقت طلاق دو،جب ان سے کوئی  بہت بڑی بد اخلاقی سرزد ہو‘‘

اور اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ " (ابوداؤد)

’’اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ حلال شے طلاق ہے‘‘

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ ناپسندیدگی کے باوجود اپنی بیویوں کو طلاق مت دو کیونکہ:

﴿فَإِن كَرِهتُموهُنَّ فَعَسىٰ أَن تَكرَهوا شَيـًٔا وَيَجعَلَ اللَّهُ فيهِ خَيرًا كَثيرًا ﴿١٩﴾... سورة النساء

’’اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہومگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں:

"الطَّلَاقُ عَنْ وَطَرٍ "

’’یعنی طلاق انتہائی ناگزیر حالت میں دی جاسکتی ہے‘‘

گزشتہ فتوے میں ذکر کرچکا ہوں کہ علماء مندرجہ ذیل حدیث کی بنا پر شدید غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کوکالعدم قراردیتے ہیں حدیث ہے:

"لاَ طَلاَقَ وَلاَ عَتَاقَ فِي إِغْلاَقٍ" (مسند احمد،ابوداؤد،حاکم)

’’اغلاق کی حالت میں نہ طلاق ہوتی ہے اورنہ غلام کی آزادی‘‘

اب میں ان خاتون کو مخاطب کرکے سوال کرتا ہوں،جنہیں ان کے شوہر نے تین طلاقیں دی ہیں،کیا آپ کے شوہر نے انتہائی غصے کی حالت میں طلاق دی؟اگر غصے کی حالت میں طلاق دی ہے تو یہ طلاق واقع نہیں ہوئی یا کیا آپ کے شوہر نے اس وقت طلاق دی جب آپ حیض کی حالت میں تھیں یا ایسی پاکی میں طلاق دی جس میں آپ کے شوہر نے آپ سے مباشرت بھی کی ہے تو ایسی طلاق طلاق بدعت کہلاتی ہے اور شریعت میں ایسی طلاق جائز نہیں ہے۔اس لیے یہ طلاق واقع نہیں ہوئی۔

اگر آپ کے شوہر نے آپ کو طلاق یوں دی ہے کہ اگر آپ نے فلاں کام کیا یا فلاں سے ملیں یافلاں کے گھر گئیں تو  آپ کو طلاق ہوجائے گی اور پھر اس کے بعد آپ نے وہ کام کرلیا تو اس صورت میں بھی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

طلاق واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ طلاق سوچ سمجھ کر اور کامل ارادے سے دی گئی ہو اور شوہر غصے یاجنون یانشے کی حالت میں نہ ہو۔

رہی حلالہ کی وہ شکل جو آپ نے لکھی ہے یاتو وہ یقیناً حرام ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس طرح حلالہ کرنے اورکروانے والے پرلعنت بھیجی ہے۔حلالہ کی جائز صورت یہ ہے کہ تین دفعہ کی مطلقہ عورت نہ کسی دوسرے مرد سے شادی اس غرض سے کی ہوکہ اب ہمیشہ اس کے پاس رہنا ہے۔اس غرض سے نہ کی ہو کہ چند دنوں کے بعد طلاق لے کر پہلے شوہر کے پاس واپس جانا ہے اب اگر اس شادی کے بعد کسی وجہ سے طلاق ہوجاتی ہے تو پھر وہ عورت پہلے شوہر کی زوجیت میں آسکتی ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عورت اور خاندانی مسائل،جلد:1،صفحہ:285

محدث فتویٰ

تبصرے