کیا مسجد کی تعمیر میں غیر مسلم کا روپیہ لگانا جائز ہے؟
______________________________________________
اگر غیر مسلم حلال اور پاکیزہ کمائی سے مسجد کی تعمیر میں امداد کرے تو اس کے حلال پیسے کا مسجد میں لگانا درست ہے چونکہ یہ تعاون علی البر والتقویٰ ہے اور مشرکین مکہ نے بیت اللہ شریف کی تعمیر اپنے حلال پیسے سے کی تھی، جس کا نمونہ اب تک موجود ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد اس کو منہدم نہیں کرایا، بلکہ اس کو باقی رکھا، گو تعمیر کا حق مسلمان ہی کو ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔
﴿ مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّـهِ شَاهِدِينَ عَلَىٰ أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ ۚ أُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ﴾
تعمیر اور تعاون کرنے پر مشرک کو ثواب نہیں ملے گا، کیوں کہ ایمان نہیں ہے اور بغیر ایمان کے کوئی خدا کے نزدیک مقبول نہیں ہے، حافظ عینی، عمدۃ القاری شرح بخاری جلد سوم ص۳ سے ۷ میں اسی آیت کریمہ کے تحت فرماتے ہیں:
ان التعاون فی بناء المسجد المعتبر الذی فیه الاجر إنما کان للمومنین ولم یکن ذالك للکافرین" (الی آخرہ)
’’یعنی مسجدوں کی تعمیر میں تعاون کرنے پر اجر صرف مومنوں کو ملتا ہے، کافروںکو نہیں ملتا ۔‘‘
اگرچہ وہ ایسی مسجد بنائیں جس مین عبادت باطلہ کی جائے، چنانچہ حضرت عباس کو جنگ بدر کے موقعہ پر گرفتار کیا گیا اور انہیں کفر پر عار دلائی گئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان پر سختی بھی کی، تو حضرت عباس نے سرخروئی کے طور پر کہا کہ ہم لوگوں نے بیت اللہ کو بنایا ہے (پھر کیوں ہم پر سختی کرتے ہو) اس پر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت اتار دی کہ ’’مشرکین کو مسجد تعمیر کا حق نہیں پہنچتا اور جن لوگوں نے کفر کی حالت میں مسجد کی تعمیر کی حصہ لیا ہے ان کا یہ عمل رائیگاں گیا، پھر مسلمانوں کے حق میں یہ آیت اتار ی
﴿إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّـهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ ﴾الایة
’’یعنی قابل اعتبار وہ مسجد ہے جس کو ایمان والوں نے بنایا ہے۔‘‘
اور جو غیر مسلم بنائیں وہ کسی گنتی اور شمار میں نہیں ہے۔ وانتھیٰ کلام عمدۃ القاری،
(مولانا) عبد السلام بستوی ، ترجمان دھلی جلد نمبر ۶، ش نمبر ۱۴)