سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(115) یتیم بچوں کا اپنے دادا کی جائیداد میں حق وراثت

  • 23867
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 820

سوال

(115) یتیم بچوں کا اپنے دادا کی جائیداد میں حق وراثت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم تین بھائی ہیں۔سب سے بڑے بھائی کی عمر صرف چودہ سال ہے۔میرے والد کا میرے دادا کی حیات ہی میں انتقال ہوگیا۔ان کی موت کے بعد ہمارے دادا نے ہماری کفالت کی۔پھر ان کا بھی انتقال ہوگیا۔جب وراثت کی تقسیم کا وقت آیا تو ہمارے چچاؤں نے ہمارے دادا کی جائیداد میں سے بطور وراثت کچھ بھی ہمیں نہیں دیا۔حالانکہ کہ ہم یتیم بھی ہیں اور تنگ دست بھی۔اور ہمارے چچا کافی مال دار ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اسلامی شریعت کی رو سے ہمیں اپنے دادا کی جائیداد میں سے بطور وراثت کچھ بھی نہیں مل سکتا۔کیا واقعی اسلامی شریعت کے لحاظ سے ہم اس وراثت سے محروم ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلامی شریعت میں وراثت کا اصول اور قاعدہ کلیہ ہی ہے کہ وراثت میں سب سے پہلا حق دار وہ ہے جو رشتہ میں میت کا سب سے قریبی ہو۔دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں۔کہ قریب کا رشتہ دار اپنے سے دور کے  رشتے دار کو وراثت سے محروم کردیتا ہے۔اس قاعدے کی رو سے،آپ کے چچا حضرات کی یہ بات صحیح ہے کہ آپ کے دادا کی وراثت میں آپ بچوں کا کوئی حق نہیں ہے۔کیوں کہ آپ کے چچا کا آپ کے دادا سے رشتہ زیادہ قریبی ہے۔وہ ان کے بیٹے ہیں اور آپ ان کے بیٹے کے بیٹے ہیں۔اس لیے میت سے رشتے میں زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے وراثت میں آپ کے چچا حضرات کا حق ہے۔آپ لوگوں کا نہیں۔

لیکن بچوں کا مسئلہ برقرار رہتا ہے اور یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ اسلام نے اس کاحل پیش نہ کیاہو۔اسلام نے مختلف طریقوں سے اس مسئلے کا حل پیش کیا ہے۔

1۔پہلا حل یہ ہے کہ دادا کو اپنے مرنے سے قبل اپنے پوتوں کے لیے وصیت کرنی چاہیے تھی۔دادا کو علم تھا کہ ہمارے پوتے یتیم ہیں اور وراثت میں سے بھی انہیں کچھ ملنے والا نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں دادا کو چاہیے تھا کہ اپنی جائیدادکا کچھ حصہ اپنے پوتوں کے نام کردیتے۔

اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿كُتِبَ عَلَيكُم إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ المَوتُ إِن تَرَكَ خَيرًا الوَصِيَّةُ لِلو‌ٰلِدَينِ وَالأَقرَبينَ بِالمَعروفِ حَقًّا عَلَى المُتَّقينَ ﴿١٨٠﴾... سورة البقرة

’’تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھائی کے ساتھ وصیت کرجائے، پرہیزگاروں پر یہ حق اورثابت ہے‘‘

بعض فقہاء کے نزدیک وصیت سنت اور مستحب ہے اور بعض فقہاء کے نزدیک یہ وصیت کرنا واجب ہے کیونکہ لفظ"کتب" وجوب پر دلالت کرتا ہے نہ کہ استحباب پر۔میرے نزدیک بھی یہ وصیت واجب ہے لیکن یہ وصیت مال کے تہائی حصے سے زائد کی نہیں ہونی چاہیے۔

بعض مسلم ممالک میں ایک قانون موجود ہے جسے واجبی وصیت کے نام سے جانا جاتا ہے۔یعنی دادا کے لیے واجب ہے کہ موت سے قبل وصیت کرجائے۔اگر وہ ایسا نہیں کرسکا تب بھی وصیت نافذالعمل تصور کی جائے گی۔

2۔دوسرا حل یہ ہے کہ وراثت کی تقسیم کے وقت چچاؤں کو چاہیے کہ مال وراثت میں سے  کچھ انہیں بھی دیں جوتنگ دست اور یتیم ہیں۔اللہ کاارشاد ہے:

﴿وَإِذا حَضَرَ القِسمَةَ أُولُوا القُربىٰ وَاليَتـٰمىٰ وَالمَسـٰكينُ فَارزُقوهُم مِنهُ وَقولوا لَهُم قَولًا مَعروفًا ﴿٨﴾... سورة النساء

’’اور جب تقیسم کے موقع پر کنبے کے لوگ اوریتیم اور مسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی کچھ دو اور ان کے ساتھ بھلے مانسوں کی سی بات کرو‘‘

چچاؤں کو سوچنا چاہیے کہ ان کے بھتیجے ان کے قریبی رشتے دار بھی ہیں۔یتیم بھی ہیں اورمسکین بھی ہیں۔اگرانہیں خدا کے حکم کا پاس ہے اور ان یتیموں کا خیال ہے تو ان یتیموں کو اس مال وراثت میں سے کچھ عطا کرنا چاہیے۔یہ ان کی مرضی اور سخاوت پر منحصر ہے کہ وہ کتنا عطا کرتے ہیں۔

3۔اس کا تیسرا حل یہ ہے کہ اسلامی شریعت نے واجبی نفقے کا تصور پیش کیا ہے۔یعنی اگر کوئی شخص مالدار ہے اور اس کاقریبی رشتے دار نہایت غریب ہے تو اس مال دار پر واجب ہے کہ اس غریب رشتے دار کے نان نفقے کی ذمے داری قبول کرے۔

اس واجبی نفقے کا قانون آپ کو دین اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب اور دین میں نہیں ملے گا۔اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام میں انسانی حقوق کی کس قدر اہمیت ہے۔

آپ لوگوں نے جو صورت حال پیش کی ہے کہ آپ کے چچا مال دار ہیں اور وراثت میں بھی ان کا حق ہے اور آپ یتیم اور مسکین ہیں تو آپ کے چچاؤں کے لیے اسلامی نقطہ نظر سے جائز نہیں ہے کہ وہ آپ کے بغیر نان نفقے کے چھوڑدیں۔اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو آپ بلاشبہ عدالت کادروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عورت اور خاندانی مسائل،جلد:1،صفحہ:271

محدث فتویٰ

تبصرے