السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بیوہ عورت کے سلسلے میں ہمارے یہاں عجیب وغریب قسم کے رسم ورواج ہیں۔مثلاً یہ کہ ایام عدت میں وہ کسی مرد سے بات نہیں کرسکتی اور نہ کوئی اس سے بات کرسکتا ہے اور نہ اس کے پاس آسکتا ہے۔حتیٰ کہ بعض محروم مرد بھی اس کے پاس نہیں آسکتے۔ایام عدت میں وہ کسی مرد کی طرف ایک نظر بھی نہیں دیکھ سکتی اگر کسی پر نظر پڑ گئی تو اسے غسل کرنا پڑے گا۔ایام عدت میں وہ چاند کو نہیں دیکھ سکتی اور نہ کھانا پکاسکتی ہے۔جب اس کی عدت کی مدت ختم ہوجاتی ہے تو اسے سمندر کی طرف لے جایاجاتا ہے اس حالت میں کہ اس کی دونوں آنکھیں بند ہوتی ہیں۔اسی طرح کے متعدد رسم ورواج ہیں۔ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زمانہ قدیم ہی سے مختلف مذاہب وملل نے بیوہ عورت کے ساتھ مختلف سلوک کیا ہے۔ان میں بعض وہ ہیں جو بیوہ عورت کو اس کے شوہر کے ساتھ ہی زندہ جلا دیاکرتے تھے۔بعض نے بیوہ عورت کے لیے دوسری شادی کو تاحیات حرام قرار دے دیا۔خواہ بیوہ عورت جوان ہی کیوں نہ ہو۔عربوں نے بھی زمانہ جاہلیت میں بیواؤں کے ساتھ ظالمانہ سلوک روارکھا تھا۔چنانچہ ان کے نزدیک بیوہ عورت حق وراثت سے بالکل محروم ہوتی تھی۔اس کی قسمت کافیصلہ ان کے اولیاء اپنی مرضی سے کیاکرتے تھے۔ان کی مرضی ہوتی تو دوبارہ اس کی شادی ہوجاتی ورنہ نہیں۔بیوہ کی اپنی مرضی کوئی نہیں تھی۔بیوہ خواہ کتنی ہی مالی مشکلات میں ہو اپنے شوہر کی جائیداد میں سے ایک پیسے کی بھی حقدار نہیں تھی۔اس سے بڑھ کر یہ کہ بیوہ کو حکم دیاجاتا تھا کہ مکمل ایک سال تک وہ کوئی لباس زیب تن نہ کرے بلکہ خراب سے خراب تر لباس استعمال کرے۔مکمل ایک سال تک نہ خوشبو لگائے اور نہ کسی قسم کی سج دھج کرے اور سال مکمل ہونے کے بعد مختلف قسم کی بے معنی اور الٹی سیدھی حرکتیں اس سے کروائی جاتی تھیں۔
اس سارے خرافات اور ظلم وناانصافی سے ہٹ کر اسلام کا سلوک بیوہ عورتوں کے ساتھ مکمل انصاف اور حق پر مبنی ہے۔اسلام نے بیوہ عورتوں پر صرف تین چیزیں واجب کی ہیں:
1۔عدت:یعنی شوہر کی وفات سے لے کر چار مہینے دس دن تک وہ کسی اور سے شادی نہیں کرسکتی۔اس مدت کے گزر جانے کے بعد وہ آزاد ہے چاہے تو شادی کرے اور چاہے تو نہ کرے۔بیوہ اگر حاملہ ہے تو اس کی عدت بچے کی پیدائش تک ہے۔
مطلقہ عورت کے مقابلے میں بیوہ عورت کے عدت قدرے طویل ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ طلاق کے مقابلے میں شوہر کی وفات زیادہ تکلیف دہ اور باعث حزن وغم ہے۔اس کیفیت سے نکلنے کے لیے اور نارمل ہونے کے لیے قدرے طویل مدت درکار ہوتی ہے۔
2۔زینت وزیبائش سے پرہیز:عدت کی مدت تک بیوہ عورت ہر قسم کی سج دھج اور سامان زینت سے پرہیز کرے گی۔یہ غم کے اظہار کا موقع ہے۔غم کا اظہار اور سج دھج دو مختلف چیزیں ہیں۔بیوہ عورت کا حق ہے کہ اپنے غم کے اظہار کے لیے عدت کی مدت تک ہر قسم کی زیب وزینت کا استعمال ترک کردے۔بخاری اورمسلم شریف کی حدیث ہے:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری بیٹی کا شوہر انتقال کرگیا ہے۔میری بیٹی کی آنکھ میں تکلیف ہے۔کیا وہ سرمہ لگاسکتی ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔اس نے دو تین دفعہ یہی سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا۔پھر فرمایا کہ صرف چار مہینے دس دن کی بات ہے زمانہ جاہلیت میں تو عورتیں ایک سال تک ایسا کرتی تھیں۔
بخاری اور مسلم کی دوسری حدیث ہے:
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن عورت کے لیے جائز نہیں کہ کسی میت کاسوگ تین دن سے زیادہ منائے۔سوائے اپنے شوہر کے ۔اپنے شوہر کا سوگ وہ چار مہینے دس دن تک منائے گی۔
ابوداود اور نسائی کی حدیث ہے:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیوہ عورت نہ رنگین کپڑے پہنے،نہ زیور استعمال کرے،نہ خضاب لگائے اور نہ سرمہ لگائے۔
ابوداود کی دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوہ عورت کو عطر اور مہندی لگانے سے منع فرمایا ہے۔
3۔تیسری چیز یہ ہے کہ شوہر کی وفات کے بعد سے عدت کی مدت ختم ہونے تک بیوہ عورت اپنے شوہر کے گھر ہی میں رہے گی۔روایت میں ہے:
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن فریعۃ بنت مالک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور فرمایا کہ ان کے شوہر کو قتل کردیا گیا ہے۔کیا وہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ سکتی ہیں کیوں کہ ان کے شوہر نے کوئی ایسا گھر نہیں چھوڑا ہے جوان کی ملکیت میں ہو اور نہ نان نفقہ ہی چھوڑا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عدت کی مدت ختم ہونے تک تم اپنے شوہر کے گھر ہی میں رہو۔(ابوداود،ترمذی)
شوہر کے گھر پررہنا اس کے لیے ضروری ہے کیوں کہ اس طرح وہ ہر قسمکے شک وشبہ سے پاک رہے گی اور ذہنی طور پر بھی شوہر کے گھر میں وہ زیادہ سکون محسوس کرے گی۔البتہ وہ ضرورت کی خاطر گھر سے نکل سکتی ہے۔مثلاً علاج کی خاطر یا نوکری کی خاطر اگر وہ نوکری کرتی ہے۔لیکن وہ صرف دن میں نکل سکتی ہے رات بہرحال اسے اپنے شوہر کے گھر پر ہی گزارنی ہوگی۔روایت میں ہے کہ غزوہ احد کے موقع پر شہید ہونے والوں کی بیوائیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ رات کو ہمیں بڑی وحشت اور تنہائی کا احساس ہوتا ہےکیا ہم کسی دوسری عورت کے پاس جاکر سوجایا کریں؟صبح پھر اپنے گھر لوٹ آئیں گی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’کسی عورت کے پاس جا کر جتنی مرضی ہوباتیں کرو اور اپنی تنہائی ختم کرو لیکن رات کو سوتے وقت ہر عورت کو اپنے گھر واپس آجانا چاہیے۔‘‘
یہ اس لیے کہ رات کو کہیں اور سونا اس کے لیے شک ،تہمت اور بدنامی کا باعث بن سکتا ہے۔اس مدت میں وہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد بھی نہیں جاسکتی اور نہ کسی سفر پر نکل سکتی ہے چاہے حج یا عمرہ ہی کاسفر کیوں نہ ہو۔
صرف یہی تین چیزیں ہیں،جو اسلام نے بیوہ عورتوں پر واجب کی ہیں۔ان کے سلسلے میں دوسروں پر یہ واجب ہے کہ وہ عدت کی مدت تک انہیں شادی کا پیغام نہ دیں۔البتہ اشارے کنایے میں رشتے کی بات کرسکتے ہیں جیسا کہ قرآن میں ہے:
﴿وَلا جُناحَ عَلَيكُم فيما عَرَّضتُم بِهِ مِن خِطبَةِ النِّساءِ أَو أَكنَنتُم فى أَنفُسِكُم عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُم سَتَذكُرونَهُنَّ وَلـٰكِن لا تُواعِدوهُنَّ سِرًّا إِلّا أَن تَقولوا قَولًا مَعروفًا وَلا تَعزِموا عُقدَةَ النِّكاحِ حَتّىٰ يَبلُغَ الكِتـٰبُ أَجَلَهُ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ يَعلَمُ ما فى أَنفُسِكُم فَاحذَروهُ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ غَفورٌ حَليمٌ ﴿٢٣٥﴾... سورة البقرة
’’تم پر اس میں کوئی گناه نہیں کہ تم اشارةً کنایتہً ان عورتوں سے نکاح کی بابت کہو، یا اپنے دل میں پوشیده اراده کرو، اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ تم ضرور ان کو یاد کرو گے، لیکن تم ان سے پوشیده وعدے نہ کرلو ہاں یہ اور بات ہے کہ تم بھلی بات بولا کرو اور عقد نکاح جب تک کہ عدت ختم نہ ہوجائے پختہ نہ کرو، جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے دلوں کی باتوں کا بھی علم ہے، تم اس سے خوف کھاتے رہا کرو اور یہ بھی جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ بخشش اور علم والا ہے‘‘
’’عدت کی مُدت ختم ہونے کے بعد بیوہ عورت اپنے معاملے میں آزاد ہے،چاہے شادی کرے یا نہ کرے۔اس پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔اللہ کا ارشاد ہے:
﴿وَالَّذينَ يُتَوَفَّونَ مِنكُم وَيَذَرونَ أَزوٰجًا يَتَرَبَّصنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَربَعَةَ أَشهُرٍ وَعَشرًا فَإِذا بَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَلا جُناحَ عَلَيكُم فيما فَعَلنَ فى أَنفُسِهِنَّ بِالمَعروفِ وَاللَّهُ بِما تَعمَلونَ خَبيرٌ ﴿٢٣٤﴾... سورة البقرة
’’تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وه عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس (دن) عدت میں رکھیں، پھر جب مدت ختم کرلیں تو جو اچھائی کے ساتھ وه اپنے لئے کریں اس میں تم پر کوئی گناه نہیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل سے خبردار ہے‘‘
اسی طرح شریعت نے بیوہ کو مکمل حق وراثت دیا ہے۔چاہے اس کی اولاد ہویا نہ ہو۔کوئی شخص اس کا یہ حق سلب نہیں کرسکتا۔
رہا ان عادات وتقالید یا رسم ورواج کامسئلہ جن کا آپ نے تذکرہ کیا ہے اور بعض معاشروں میں رائج ہیں تو ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس لیے ان سب باتوں سے پرہیز ضروری ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب