سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(101) برقعے اور پردے کا مسئلہ

  • 23853
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 729

سوال

(101) برقعے اور پردے کا مسئلہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پردے کے سلسلے میں ہمارے یہاں زبردست بحث چھڑی ہوئی ہے۔خاص کرعورت کے چہرے کے سلسلے میں کہ اسے چھپانا ضروری ہے یانہیں؟امید کہ آپ اس مسئلے پرخاطر خواہ روشنی ڈالیں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دین اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جس معاشرے کی طرف دعوت دیتا ہے اس کی بنیاد ایمان ویقین کے ساتھ ساتھ شرافت،نجابت،اخلاق فاضلہ اور مردوعورت کے مابین پاک صاف رشتے پر استوار ہوتی ہے۔اس کی خاطر اسلام نے ہر اس امکانی ذریعے اوردروازہ کو بندکردیاہے جو اباحیت،بد اخلاقی اور جنسی بے راہ روی کی طرف لےجاتا ہو۔عورتوں کےلیے پردے کا حکم،عورتوں  اور مردوں کونگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کا حکم اور ان جیسے دوسرے احکام کا مقصود بھی تو یہی ہے کہ معاشرہ جنسی بےراہ روی کی آغوش میں نہ چلا جائے۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿قُل لِلمُؤمِنينَ يَغُضّوا مِن أَبصـٰرِهِم وَيَحفَظوا فُروجَهُم ...﴿٣٠﴾... سورة النور

’’اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )!مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں‘‘

آگے چل کر مزید فرمایا گیا ہے:

﴿وَقُل لِلمُؤمِنـٰتِ يَغضُضنَ مِن أَبصـٰرِهِنَّ وَيَحفَظنَ فُروجَهُنَّ وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا ما ظَهَرَ مِنها وَليَضرِبنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلىٰ جُيوبِهِنَّ...﴿٣١﴾... سورة النور

’’اور اے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم )! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اوراپنابناؤ سنگھارن دکھائیں بجز اس کے جوخود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں‘‘

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   فرماتے ہیں کہ""سے مراد ہتھیلی،انگوٹھی اور چہرہ ہے۔ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے نزدیک اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلی ہے۔عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے یہ مراد ہے ۔بعد کے فقہاء میں امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک بھی اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلی ہے۔امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  کے دو اقوال ہیں۔ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد صرف چہرہ ہے۔نیل الاوطار میں امام شوکانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فقہاء کے تمام اقوال بالتفصیل درج کیے ہیں۔

چہرہ پردے میں شامل نہیں ہے:

جمہور فقہاء نے چہرہ کو پردے کے حدود سے خارج شمار کیا ہے۔امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  کاایک قول یہ ہے کہ چہرہ پردے میں شامل ہے۔بعض شافعیہ بھی یہی کہتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ چند فقہاء کے علاوہ تمام فقہاء کے نزدیک چہرہ پردے میں شامل نہیں ہے۔قرآن وحدیث کے نصوص بھی اسی قول کی حمایت کرتے ہیں۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   اور دیگر اکابرصحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی بھی یہی رائے ہے۔

بخاری شریف کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی عید کے موقع پر خطبہ دیا۔پھر عورتوں کی طرف آئے۔ان کے ساتھ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بھی تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان عورتوں کو نصیحت کی،وعظ فرمایا اور صدقہ کرنے کی تاکید کی کیوں کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جو اس حدیث کے راوی ہیں کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ عورتیں اپنے ہاتھوں سے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے کپڑے میں مال ودولت ڈالتی جاتی تھیں۔اس حدیث سے  ثابت ہوتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے عورتوں کے ہاتھوں کو دیکھا۔یعنی ہاتھ پردے میں شامل نہیں ہے۔

ایک دوسری حدیث بخاری ومسلم میں درج ہے کہ ایک نہایت خوبصورت عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کچھ سوال کررہی تھی اور فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بار بار مڑ کر اس عورت کو دیکھ رہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  بار بار ان کا چہرہ دوسری طرف پھیردیتے تھے۔عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے سوال کیا کہ اے نبی کریم( صلی اللہ علیہ وسلم )!آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فضل کا چہرہ بار بار دوسری طرف کیوں پھیر رہے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ میں نے ایک نوجوان مرد اور ایک نوجوان عورت کو اس حال میں دیکھاکہ شیطان انہیں بہکانے کی کوشش کررہا ہے۔

اس حدیث سے جمہور فقہاء نے یہ استدلال کیا ہے کہ اس عورت کا چہرہ کھلا ہوا تھا تب ہی تو پتا چلا کہ وہ خوبصورت عورت تھی اور فضل  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بار بار ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی اسے چہرہ چھپانے کا حکم نہیں دیا تھا حالانکہ وہ مسلم عورت تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صرف یہ کیا کہ فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا چہرہ دوسری طرف کردیا تاکہ ان کی نظر اس کے چہرے سے دور رہے۔یہ واقعہ حجۃ الوداع کے موقع کا ہے جب کہ پردے کا حکم نازل ہوئے پانچ سال گزر چکے تھے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عورت اور خاندانی مسائل،جلد:1،صفحہ:232

محدث فتویٰ

تبصرے