سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(94) منت پوری کرنا

  • 23846
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2114

سوال

(94) منت پوری کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری شادی کو آٹھ سال ہوچکے ہیں۔اللہ کی مرضی کے اس طویل مدت میں اولاد کی نعمت سے محروم رہا۔بہت علاج معالجہ کرایا لیکن بےسود۔بظاہر ہم دونوں میں کوئی بیمار بھی نہیں تھا۔ایک دن میں اذان کی آواز سن کر گھر سے باہر آیا۔آسمان کی طرف نگاہ اُٹھائی اور اللہ کی طرف ہاتھ اُٹھا کر میں نے منت مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد کی نعمت سے نوازا تو میں اپنے دوستوں کو ایک شاندار دعوت دوں گا۔اللہ کی مرضی کہ اس کے بعد میرے گھرولادت ہوئی۔میں نے دعوت کرنی چاہی لیکن بعض وجوہ کی بنا پر میں ایسا نہ کرسکا۔حالانکہ دعوت کرنے کا میرا پکا ارادہ تھا اس کے بعد ایسا ہوا کہ میری بچی بیمار ہوئی اور کمزور ہوتی چلی گئی۔میں نے ہرقسم کا علاج کرایالیکن وہ ہمیں چھوڑ کر اللہ کے پاس چلی گئی۔

میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا نذر پوری نہ کرنے کی وجہ سے وہ انتقال کرگئی؟میں اب بھی یہ نذرپوری کرنا چاہتا ہوں تو کیا میں ایسا کرسکتا ہوں حالانکہ اب تو وہ انتقال کرچکی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب سے پہلے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ آپ کو اولاد کی نعمت سے نوازے اور متوفیہ کو آپ کے لیے آخرت کے دن باعث اجر بنائے۔آمین۔

آپ کی بچی کی موت اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی تقدیر تھی جسے کوئی انسان بدل نہیں سکتا ہے۔اس کی موت نذر پوری نہ کرنے کی وجہ سے نہیں ہوئی ہے۔کیوں کہ منت پوری نہ کرنا اور موت کا واقع ہونا ان دونوں میں کوئی تعلق نہیں ہے۔موت تو ایک فیصلہ ہے۔جب اس کا وقت آتا ہے تو کوئی طاقت اسے ٹال نہیں سکتی۔ہرانسان کی مدت عمر اس کی ولادت سے قبل لکھی جاچکی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَما يُعَمَّرُ مِن مُعَمَّرٍ وَلا يُنقَصُ مِن عُمُرِهِ إِلّا فى كِتـٰبٍ ...﴿١١﴾... سورة الفاطر

’’کوئی پانے والا عمر نہیں پاتا اور نہ کسی کی عمرمیں کچھ کمی ہوتی ہے مگر یہ سب ایک کتاب میں لکھا ہوتا ہے۔‘‘

البتہ آپ نے جو نذر مانی تھی اس کاپورا کرنا آپ پر فرض ہے ۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے نذر پوری کرنے کا حکم دیا ہے اور  ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو نذریں پوری کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَليوفوا نُذورَهُم...﴿٢٩﴾... سورة الحج

’’اور اپنی نذریں پوری کریں‘‘

﴿يوفونَ بِالنَّذرِ وَيَخافونَ يَومًا كانَ شَرُّهُ مُستَطيرًا ﴿٧﴾... سورة الدهر

’’یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتےہیں جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہوگی‘‘

سورہ توبہ کی آیت نمبر 75 اور 76 میں ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو نذریں پوری نہیں کرتے اور اللہ سے کیے گئے وعدے کوایفانہیں کرتے۔

ایک عورت نے منت مانی تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سرپر خوشی کے اظہار کے لیے دف بجائے گی اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس بات کا  تذکرہ کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اپنی نذر پوری کرو۔(ابوداؤد)

بچی کے انتقال کی وجہ سے آپ کی نذر ختم نہیں ہوگئی۔کیوں کہ آپ کی نذر اولاد کی ولادت کےساتھ مشروط تھی۔سو اللہ نے آپ کو اولاد عطا کی۔اب آپ پر فرض ہے کہ آپ اپنی نذر پوری کریں۔نذر کے سلسلے میں میں دوباتیں بتانا چاہتا ہوں:

1۔جمہور علماء کے نزدیک نذریں اورمنتیں ماننا مکروہ ہے۔گرچہ کسی اچھے کام مثلاً نفل نماز پڑھنا یا قربانی کرنے کی ہو۔اس کی دلیل حدیث نبویؐ ہے:

"نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّذْرِوَقَالَ: إِنَّهُ لَا يَرُدُّ شَيْئًا وَإِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ الْبَخِيلِ" (بخاری۔مسلم۔احمد)

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے نذر ماننے سے منع فرمایا ہے اور  فرمایا ہے کہ اس سے تقدیر نہیں بدلتی۔البتہ اس کے ذریعے سے کسی بخیل شخص سے کچھ مال نکالا جاسکتا ہے۔‘‘

اس کراہت کی وجہ سے یہ ہے کہ لوگ نذریں مان کر یہ اعتقاد کرنا شروع کردیں کہ نذر اور منت تقدیر کے فیصلے کو بدل سکتی ہے۔نذر ماننے میں ایک قباحت یہ بھی ہے کہ بندہ کسی اچھے کام کی منت اس شرط کے ساتھ مانتا ہے کہ اس کا ذاتی فائدہ پورا ہوجائے۔مثلاً اگر اللہ نے مجھے اولاد عطاکی تو میں ایک جانور ذبح کروں گا یا ایک مسجد بنواؤں گا۔گویاکہ آپ نے ایک اچھے کام کو اپنے ذاتی مفاد کے ساتھ مشروط کردیا۔اگر آپ کو یہ فائدہ نہ پہنچا تو آپ وہ اچھا کام بھی نہ کریں گے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی نیت اللہ کو خوش کرنا نہیں ہے بلکہ اپنا ذاتی فائدہ حاصل کرنا ہے۔اور ظاہر ہے کہ یہ ایک اچھی بات نہیں ہے۔

بہرحال نذر ماننا مکروہ ہی سہی لیکن نذر ماننے کے بعد اس کا پورا کرنا تمام علماء کے نزدیک فرض ہے۔

2۔دوسری بات یہ ہے کہ منت اگر ماننی ہو تو کسی ایسی چیز کی ماننی چاہیے جس میں اللہ کی عبادت اور اس کا تقرب مقصود ہو۔مثلاً نفل نماز پڑھنا،قربانی کرنا یا روزے رکھنا وغیرہ۔حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:

"لَا نَذْرَ إلَّا مَا اُبْتُغِيَ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ "

’’نذر نہیں ہے سوائے اس چیز میں جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہو‘‘

اسی لیے بعض علماء نے کہا ہے کہ اگر نذر کسی ایسے کام کی مانی جائے جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود نہ ہوتو وہ سرے سے نذر ہی نہیں ہے۔

اس حدیث کی رو سے آپ کو چاہیے تھا کہ دوستوں کو دعوت دینے یا تقریب منانے کی منت کی بجائے کسی ایسے کام کی منت مانتے جس سے اللہ کا تقرب مقصود ہو۔دوستوں کو دعوت دینا بھی اللہ کے تقرب کا ذریعہ ہوسکتا ہے اگر دوستی اللہ کے لیے ہو۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

قسموں اور منتوں کے مسائل،جلد:1،صفحہ:219

محدث فتویٰ

تبصرے