سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(92) عاشورا کا روزہ اور یہودیوں سے مخالفت کا حکم

  • 23844
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 875

سوال

(92) عاشورا کا روزہ اور یہودیوں سے مخالفت کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  جب مدینہ تشریف لائے اور انھوں نے یہودیوں کو عاشورا کا روزہ رکھتے دیکھا توآپ نے بھی اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو بھی روزہ رکھنے کی تاکید کی۔دوسری روایت یہ بھی ہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی امت کو یہودیوں کی مخالفت اور ان کی اقتدا نہ کرنے کی تلقین فرمائی ان دونوں روایتوں میں کیوں کر تطبیق ہو سکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس پہلی روایت کا آپ نے تذکرہ کیا ہے وہ بخاری و مسلم کی صحیح حدیث ہے۔حدیث یوں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ تشریف لائے اور یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے دیکھا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی۔ان لوگوں نے جواب دیاکہ  یہ ایک مبارک دن ہے اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام  اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی تھی۔ چنانچہ موسیٰ  علیہ السلام  نے اس دن روزہ رکھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’کہ ہم موسیٰ کے زیادہ حقدار ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود روزہ رکھا اور صحابہ کرام  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اس کی تاکید فرمائی۔

وہ حدیث بھی صحیح ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہودو نصاریٰ کی مخالفت اور ان کی اقتدا نہ کرنے اور ان سے مشابہت اختیار نہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے تاہم ان دونوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے عاشورا کا روزہ یہودیوں کی اقتدا میں نہیں رکھابلکہ روایتوں میں ہے کہ وہ ہجرت سے قبل بھی روزہ رکھتے تھے ، اہل عرب بھی دور جاہلیت میں اس دن روزے کا اہتمام کرتے تھے۔مکرمہ کی روایت ہے کہ دور جاہلیت میں قریش نے ایک بڑا گناہ کیا۔اس بات سے ان کے دل بوجھل ہو گئے ان سے کہا گیا کہ عاشورا کا روزہ رکھو تمھارے گناہ بخش دیے جائیں گے۔

آپ مذکورہ بالا حدیث پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو گی کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس دن روزہ یہودیوں کی اقتدا میں نہیں رکھا بلکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود اس کی وجہ بیان فرما دی کہ ہم موسیٰ علیہ السلام  کے زیادہ حق دار ہیں۔ یہودو نصاریٰ نے تو موسیٰ  علیہ السلام  کی تعلیمات کو فراموش کر دیا لیکن میں انہیں تعلیمات کو لے  کر آیا ہوں جنہیں موسیٰ لے کر آئے تھے۔اس لیے ہمارا رشتہ ان سے قریب و مضبوط تر ہے اور ہمارا حق بنتا ہے کہ موسیٰ کی اقتدا میں ہم بھی یہ روزہ رکھیں چنانچہ موسیٰ کی اقتدا میں( نہ کہ یہودیوں کی اقتدا میں) حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ روزہ رکھا اور صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین کو بھی اس کی تاکید فرمائی۔

مدینہ آنے کہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو اس دن روزہ رکھنے کی تاکید فرمائی اس میں یہ مصلحت پوشیدہ ہے کہ یہ اسلام کا ابتدائی  دور تھا۔اس دور میں یہودیوں کے تالیف قلب کے لیے اور انہیں اسلام اور مسلمانوں سے قریب کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پسند فرمایا کہ مسلمان بھی اسی دن روزہ رکھیں۔یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہودیوں سے مشابہت ایک ایسے کام میں کی گئی جو ایک پسندیدہ اور باعث ثواب کام ہے یعنی روزہ رکھنا۔ لیکن جب اسلام کو غلبہ نصیب ہو ااور یہودیوں کی دشمنی کھل کر سامنے آئی اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے بھی حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ایسا ہی سوال کیا کہ" اہل کتاب سے مخالفت کے حکم کے باوجود ہم ان کی اقتدا میں یہ روزہ کیوں رکھیں؟ تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:کہ اگلے سال سے ان شاء اللہ نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھا کریں گے۔ لیکن اگلا سال آنے سے قبل حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہو گئی۔اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہودیوں کی دشمنی کھل کر سامنے کے بعد حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بہر حال ان سے مخالفت کا ایک پہلو بیان کر دیا یعنی عاشورا سے قبل ایک روزہ یا عاشورا کے بعد ایک روزے کی تلقین کی تاکہ یہودیوں سے مشابہت کی صورت جاتی رہے۔ 

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

تیوہار اور عید،جلد:1،صفحہ:214

محدث فتویٰ

تبصرے