سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(89) قربانی سے متعلق چند دوسرے سوالات

  • 23841
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1838

سوال

(89) قربانی سے متعلق چند دوسرے سوالات

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قربانی کا وقت کون سا ہے؟ کس جانور کی قربانی کی جاسکتی ہے؟ گھر کے ہر فرد کی طرف سے ایک ایک قربانی ضروری ہے یا ایک قربانی تمام گھر والوں کی طرف سے کافی ہے؟ قربانی کرنا زیادہ افضل ہے یا قربانی کے پیسے کو صدقہ کردینا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قربانی حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت مؤکدہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے دو تندرست مینڈھے ذبح کیے تھے اور فرمایا تھا کہ ’’اے اللہ یہ میری طرف سے میرے گھر والوں کی طرف سے اور میری امت میں سے جن لوگوں نے قربانی نہیں کی ان لوگوں کی طرف سے ہے۔‘‘

قربانی کا وقت عید کی نماز کے فوراً بعد شروع ہو جا تا ہے۔اس سے قبل قربانی کرنا جائز نہیں ۔ اس سے قبل جو قربانی ہوگی اس کے بارے میں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"شَاتُكَ شَاةُ لَحْمٍ"

’’اس کی بکری گوشت کھانے کی بکری ہے‘‘

یعنی ایسی بکری محض گوشت کھانے کے لیے ہے۔یہ قربانی تصور نہیں کی جائےگی۔قربانی ایک عبادت ہے۔نماز کی طرح جس طرح نماز کا وقت متعین ہے اسی طرح قربانی کا وقت متعین ہے۔جس طرح ظہر کی نماز وقت سے قبل نہیں پڑھی جا سکتی اسی طرح وقت سے قبل قربانی نہیں ہو سکتی ۔

قربانی کا وقت عید کی نماز کے بعد سے شروع ہو کر عید کے تیسرے دن اور بعض فقہاء کے نزدیک عید کے چوتھے دن تک رہتا ہے۔قربانی کا افضل وقت زوال تک ہے۔

زوال تک قربانی نہ کی تو دوسرے دن قربانی کرنا چاہیے۔بعض فقہاء کے نزدیک رات اور دن میں کسی بھی وقت قربانی کرنا صحیح ہے۔میری رائے میں بہتر یہ ہو گا کہ ایک ہی دن سارے لوگ قربانی نہ کریں تاکہ ایک دم سے ضرورت سے زائد گوشت نہ جمع ہو جائے۔ بلکہ کچھ لوگ دوسرے دن اور کچھ تیسرے دن قربانی کریں تاکہ غریبوں کو ہر دن گوشت ملتا رہے۔

قربانی میں اونٹ گائے(2) اور بکرے کی قربانی کی جاسکتی ہے۔ کیوں کہ جانور چوپایوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ان میں سے کسی ایک کی قربانی کی جا سکتی ہے۔ایک بکرا ایک گھر والوں کی طرف سے کافی ہے۔اونٹ اور گائے میں سات حصے لگائے جائیں گے اور ہر ایک حصہ ایک مستقل قربانی تصور کی جائے گی اور ایک گھروالوں کی طرف سے کافی ہے۔

شرط یہ ہے کہ اونٹ پانچ سال سے کم کا نہ ہو۔گائے دو سال سے کم کی نہ ہو اور بکرا ایک سال سے کم کا نہ ہو۔قربانی کا جانور جتنا صحت مند اور تگڑا ہو اسی قدر افضل ہے۔کیوں کہ قربانی اللہ کی خدمت میں ہدیہ ہے اور مسلمان کو چاہیے کہ بہتر سے بہتر ہدیہ اللہ کی خدمت میں پیش کرے۔اسی لیے لاغر، لنگڑا اندھا کانا ٹوٹے سینگ والا۔کٹے کانوں والا یا کسی قسم کے عیب والا جانور قربانی کے لیے جائز نہیں ہے۔

رہا یہ مسئلہ کہ قربانی زیادہ افضل ہے یا قربانی کے روپے کو صدقہ کرنا۔تو میری رائے یہ ہے کہ بے شبہ قربانی کرنا زیادہ افضل ہے۔کیوں کہ قربانی ایک عبادت ہے جس کا مقصد حضرت ابراہیم علیہ السلام  کی سنت کو برقراراور زندہ رکھنا ہے۔یہ عبادات ہمیشہ اس عظیم الشان واقعے کی یاد دلاتی رہتی ہے۔جب ابراہیم علیہ السلام  اپنے جگر کے ٹکڑے کو اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں اسی کی بارگاہ میں قربانی کرنے چلے تھے۔اپنے رب سے محبت کی یہ ایسی مثال ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے پیارے بندے کو اس کا یہ صلہ دیا کہ اس کے اس فعل کو قیامت تک کے لیے یاد گار بنا دیا۔ہر قوم اپنے اہم دن مثلاًآزادی کا دن یا جنگ میں فتح کا دن وغیرہ کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ہر سال اس کا جشن مناتی ہے۔ہمیں بھی چاہیے کہ قربانی کر کے اس عظیم الشان واقعے کی یاد تازہ رکھیں۔اس لیے قربانی کرنا قربانی کی قیمت کو صدقہ کرنے کے مقابلے میں زیادہ افضل اور احسن ہے۔

البتہ اگر قربانی کسی میت کی طرف سے کی جا رہی ہے تو میری رائے یہ ہے کہ اگر قربانی کسی ایسے علاقے میں کی جائے جہاں لوگوں کو گوشت کی زیادہ ضرورت ہے تو وہاں قربانی کرنا زیادہ افضل ہے اور اگر قربانی کسی ایسے علاقے میں کی جائے جہاں پہلے سے کافی گوشت موجود ہو اور لوگوں کو پیسوں کی زیادہ ضرورت ہو تو وہاں قربانی کی قیمت کو صدقہ کرنا زیادہ افضل ہے۔

گھر کے تمام افراد کی طرف سے صرف ایک قربانی کا جانور کافی ہے۔کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب قربانی کی تو فرمایا: کہ اے اللہ یہ محمد اور اس کے گھر والوں کی طرف سے ہے۔

ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں ہم میں سے ہر شخص اپنی رائے اپنے گھر والوں کی طرف سے صرف ایک بکری ذبح کرتا تھا۔لیکن اس کے بعد لوگوں نے فخر و مباحات کے لیے زیادہ قربانیاں کرنی شروع کر دیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

تیوہار اور عید،جلد:1،صفحہ:210

محدث فتویٰ

تبصرے