سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(88) مسئلہ قربانی

  • 23840
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 942

سوال

(88) مسئلہ قربانی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قربانی کا شرعی حکم کیا ہے؟ قربانی کب کرنی چاہیے ؟ اگر کوئی صاحب حیثیت شخص قربانی نہ کرے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ اور قربانی کے گوشت کی تقسیم کس طرح ہوگی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمہور فقہاء کے نزدیک قربانی سنت مؤکدہ ہے۔ جبکہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کےنزدیک قربانی کرنا واجب ہے۔احناف کے یہاں واجب ہے۔ فرض اور سنت کے درمیان ہے۔ اور واجب کا ترک کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:

"مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا"(حاکم  عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ )

’’جو صاحب حیثیت ہے اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔‘‘

ایک دوسری حدیث ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے قربانی کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ"

’’تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے‘‘

ان دونوں حدیثوں کی بنیاد پر کسی نے قربانی کو صاحب حیثیت کے لیے واجب قراردیا اور کسی نے سنت قرار دیا۔ جنھوں نے اسے سنت قراردیا ہے ان کے نزدیک صاحب حیثیت کا قربانی نہ کرنا مکروہ ہے۔

قربانی کا وقت عید کی نماز کے بعد شروع ہوتا ہے۔عید کی نماز سے قبل قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔اگر پہلے دن قربانی کرنا ممکن نہ ہو تو دوسرے اورتیسرے دن بھی کی جا سکتی ہے۔

قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ایک حصہ اپنے لیے دوسرا پڑوسیوں کے لیے اور تیسرا حصہ فقراء و مساکین کے لیے۔اگر سارا کا سارا گوشت پڑوسیوں اور غریبوں میں تقسیم کر دے تو یہ اور بھی بہتر ہے۔ البتہ تھوڑا بہت گوشت بطور برکت خود بھی کھانا چاہیے۔

بے شبہ قربانی ایک عبادت ہے اور جیسا کہ ہم نے متعدد مقام پر کہا ہے کہ عبادت کے لیے ضروری ہے کہ اسی طریقے اور وقت پر ادا کی جائے جو اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے متعین کر دیا قربانی بھی ایک عبادت ہے۔ اس کا بھی ایک وقت اور طریقے متعین ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس طریقہ اور وقت کا پورا پورا خیال رکھیں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

تیوہار اور عید،جلد:1،صفحہ:209

محدث فتویٰ

تبصرے