مسجد کے جنوب میں مسجد کی ایک بڑی دوکان ہے، اس کو ایک چمار نے کرائے پر لے کر اس میں جوتوں کی فیکٹری لگا رکھی ہے، اس کے اوپر ایک تیسری منزل ہے اس میں وضو خانہ و غسل خانہ اور مؤذن کا حجرہ ہے، اس کے اوپر ایک تیسری منزل ہے، اس پر ایک مکان بنا ہوا ہے اس میں امام صاحب مع بیوی بچوں کے رہتے ہیں، ایک شخص امام صاحب کے سر ہو رہا ہے کہ آپ بیوی بچوں کو اس میں نہ رکھیں، اس جگہ گھر داری درست نہیں ہے، اما م صاحب فرماتے ہیں کہ یہ مسجد تھوڑی ہے کہ اس پر گھر داری منع ہو، لہٰذا آپ تحریر فرما دیں کہ آپ صاحب کا یہ کہنا درست ہے یا نہیں؟
______________________________________________________________________________
مسجد کی دوکان مسجد کے حکم سے خالی ہے جب چمار دکان کے اندر جوتے بناتا ہے اور اس کے اوپر غسل خانے میں لو گ نجاست دھوتے ہیں، تو اس کے اوپر امام صاحب گھر بار رکھ سکتے ہیں، ممانعت کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔
محمد یونس ، مدرس مدرسہ حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ، اہل حدیث گزٹ دہلی جلد نمبر ۸، ش نمبر ۲۰