سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(86) ماہ رجب کی فضیلت

  • 23838
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2901

سوال

(86) ماہ رجب کی فضیلت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جمعے کے خطبوں کے موقع پر اکثر ہم ماہ رجب کی فضیلت کے سلسلے میں مختلف احادیث سنتے ہیں اور یہ کہ اللہ نے اس شخص کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے جو اس مہینے میں خواہ ایک دن ہی سہی روزہ رکھے۔(1)ان حدیثوں میں سے ایک حدیث جو اکثر سننے میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ"رجب اللہ کا مہینہ ہے۔ شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔"ان احادیث کے سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا یہ صحیح ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح احادیث میں اس مہینے کی فضیلت سے متعلق جو کچھ آیا ہے وہ یہ کہ یہ مہینہ چار حرام مہینوں میں سے ایک ہے۔ چار حرام مہینے یہ ہیں۔ رجب ذوالقعد،ذوالحجہ اور محرم اور بے شبہ یہ چاروں مہینے اہمیت و فضیلت کے حامل ہیں۔ کوئی ایسی صحیح حدیث نہیں ہے جس میں خاص طور پر صرف ماہ رجب کی فضیلت بیان کی گئی ہو۔ رہی وہ حدیث جس کا تذکرہ آپ نے کیا ہے یعنی’’رجب اللہ کا مہینہ ہے۔ شعبان میرا مہینہ اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے‘‘ تو حدیث نہ صرف ضعیف ہے بلکہ علماء حدیث نے اسے موضوع یعنی گھڑی ہوئی قراردیا ہے۔ اسی طرح ہر وہ حدیث جو اس مہینے کی فضیلت کے سلسلے میں مروی ہے کہ جس نے اس مہینے میں نماز پڑھی یا روزہ رکھایا استغفار کیا تو اسے یہ اجر ملے گا ۔اور وہ اجر ملے گا یہ سب گھڑی ہوئی احادیث ہیں ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ ان احادیث کے بے سند ہونے کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ ان میں مبالغے کی حد تک ثواب یا عذاب کا وعدہ ہوتا ہے۔ علماء کرام کہتے ہیں کہ اگر کسی چھوٹی نیکی پر عظیم اجر کا وعدہ ہو یا کسی چھوٹے گناہ پر بڑے عذاب کی دھمکی ہو تو یہ علامت ہے اس بات کی کہ یہ حدیث گھڑی ہوئی ہے ماہ رجب سے متعلق وارد احادیث بھی اسی قبیل سے ہیں۔

علماء و خطباء کا فرض ہے کہ وہ عوام الناس کو ان موضوع اور گھڑی ہوئی احادیث سے متنبہ کریں۔کسی حدیث کو بیان کرنے سے قبل خود انہیں بھی اس حدیث کے صحیح ضعیف یا موضوع ہونے کا علم ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں حدیث کی متعدد کتابوں سے مدد لے سکتے ہیں۔۔خاص کر ان کتابوں سے جو موضوع احادیث کے سلسلے میں تصنیف کی گئی ہیں۔

امت مسلمہ کی یہ بد قسمتی ہے کہ ضعیف اور موضوع احادیث کے سہارے بہت ساری ایسی روایات ہماری ثقافت کا حصہ بن گئی ہیں۔جن کا دیناسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مزید مصیبت کی بات یہ ہے کہ یہی غلط روایات اہم تر ہو کر لو گوں کی توجہ اور اہتمام کا مرکز بن گئی ہیں۔اور جو بنیادی اسلامی تعلیمات وروایات ہیں انہیں یا تو لوگوں نے بھلا رکھا ہے یا پھر انہیں ثانوی حیثیت عطا کر رکھی ہے۔ ہماری بہتری اور بھلائی اسی میں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا اتباع کریں اور جو باتیں بعد کے زمانوں میں غلط طور پر ترویج پا چکی ہیں ان سے اپنے دامن کو بچائے رکھیں۔

رہی بات اسی مہینے میں روزہ رکھنے کی تو کوئی ایسی روایت نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں۔ بعض لوگ پورے رجب شعبان اور رمضان اور اس کے علاوہ شوال کے چھ دن روزے رکھتے ہیں۔صرف یکم شوال کے علاوہ، اس طرح کا روزہ رکھنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم   سے ثابت نہیں ہے جو شخص نیکی اور اجر کا طالب ہے اسے چاہیے کہ رسوم کو چھوڑ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا اتباع کرے۔ اسی میں اس کی بھلائی ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

تیوہار اور عید،جلد:1،صفحہ:206

محدث فتویٰ

تبصرے