سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(44) نماز میں خشوع وخضوع کی اہمیت

  • 23796
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2355

سوال

(44) نماز میں خشوع وخضوع کی اہمیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز میں خشوع و خضوع کی کیا اہمیت ہے؟ کیا اس کے بغیر نماز قبول نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلی صورت یہ ہے کہ نماز کے دوران ایسی حرکتیں کچھ زیادہ سر زد ہوں جو نماز کے منافی ہیں۔ مثلاً بدن کھجانا، ادھر اُدھر دیکھنا، بار بار اپنے کپڑوں کو درست کرنا وغیرہ غیرہ ۔ اس طرح حرکتیں اگر کثرت سے سر زد ہوں تو نماز باطل کر دیتی ہیں یعنی نماز ادا نہیں ہوتی۔

2۔دوسری صورت یہ ہے کہ نماز کے دوران ذہن کہیں اور مشغول ہو، نماز کی طرف دل حاضر نہ ہو یا چھوٹی موٹی نماز کے منافی حرکتیں بہت کم مقدار میں سر زد ہوں تو ان کی وجہ سے نماز اگرچہ باطل نہیں ہوتی لیکن نماز کا مقصد جاتا رہتا ہے اور نماز کی روح مفقود ہوجاتی ہے۔ نماز کی روح یہ ہے کہ نمازی زیادہ سے زیادہ خشوع و خضوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہو۔ اللہ فرماتا ہے:

﴿قَد أَفلَحَ المُؤمِنونَ ﴿١ الَّذينَ هُم فى صَلاتِهِم خـٰشِعونَ ﴿٢﴾... سورة المؤمنون

’’یقیناًفلاح پائی ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔

خشوع و خضوع کی دو قسمیں ہیں: دل کا خشوع اور جسم کا خشوع ۔

دل کا خشوع یہ ہے کہ نمازی کو اس بات کا احساس ہو کہ وہ اللہ کے سامنے کھڑا ہے اور اللہ اسے دیکھ رہا ہے دل میں اللہ کی عظمت و کبریائی کا خیال ہو، جو کچھ پڑھ رہا ہو اس کے مفہوم و معانی پر غور کرے۔ قرآن کی آیتوں کو سمجھ سمجھ کر پڑھے ۔ نماز کے ارکان کی حکمت و غایت سمجھ کر انہیں ادا کرے۔ اور جسم کا خشوع یہ ہے کہ نماز کے دوران ادھر اُدھرنگاہ نہ دوڑائے ، بچوں جیسی حرکتیں نہ کرے، ایسی حرکتیں نہ کرے جو نماز کے منافی ہیں، بلکہ نہایت باوقار انداز میں اور عاجزانہ کیفیت کے ساتھ اللہ کے حضور کھڑا ہو۔جسم کا خشوع اسی وقت ممکن ہے جب دل کا خشوع موجود ہو۔

ایک بزرگ عالم حاتم الاصم سے دریافت کیا گیا کہ آپ نماز کس طرح ادا کرتے ہیں؟انھوں نے فرمایا:"میں تکبیر کہتا ہوں پھر ٹھہر ٹھہر کر قرآءت کرتا ہوں۔ خشوع کے ساتھ رکوع کرتا ہوں عاجزانہ انداز میں سجدے کرتا ہوں جنت کو اپنے دائیں طرف اور دوزخ کو بائیں طرف محسوس کرتا ہوں ۔کعبے کو اپنی پیشانی کے سامنے تصور کرتا ہوں۔ ملک الموت کو اپنے سر کے اوپر تصور کرتا ہوں۔ اپنے آپ کو گناہوں میں گھراہوا سمجھتا ہوں۔ اس حال میں کہ اللہ کی آنکھیں مجھے دیکھ رہی ہیں۔ یہ سمجھتا ہوں کہ میری عمر کی یہ آخری نماز ہے۔ اس لیے حتی الامکان خلوص کے ساتھ نماز ادا کرتا ہوں۔ اس کے بعد سلام پھیرتا ہوں۔اس کے باوجود مجھے اندیشہ ہے کہ میری نماز قبول بھی ہوئی یا نہیں۔"

ایسی ہوتی ہے ایک مؤمن کی نماز اور یہی وہ نماز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿إِنَّ الصَّلو‌ٰةَ تَنهىٰ عَنِ الفَحشاءِ وَالمُنكَرِ ...﴿٤٥﴾... سورة العنكبوت

’’بے شک نماز فحش باتوں سے اور گناہ سے روکتی ہے‘‘

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

طہارت اور نماز،جلد:1،صفحہ:142

محدث فتویٰ

تبصرے