سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(42) دو وقت کی نمازوں کو ملا کر پڑھنا

  • 23794
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 719

سوال

(42) دو وقت کی نمازوں کو ملا کر پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایسی پارٹیوں میں شرکت کی وجہ سے جو عام طور پر ظہر سے مغرب تک منائی جاتی ہیں کیا ہمارے لیے جائز ہے کہ ہم ظہر اور عصر کی نمازوں کو ملا کر ایک ساتھ ادا کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حنبلی مسلک کے لحاظ سے کسی بھی عذر شرعی کی بنا پر دووقت کی نمازوں یعنی ظہر اور عصر یا مغرب اور عشاء کو یکجا کر کے ایک ساتھ ادا کرنا جائز ہے۔ اس میں نمازیوں کے لیے یقیناً آسانی ہے روایتوں میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے سفر اور بارش کے علاوہ بھی دو وقت کی نمازیں یکجا کر کے پڑھی ہیں ۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسا کیوں کیا؟ تو انھوں نے فرمایا کہ: تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی امت کو تنگی اور مشکلات پیش نہ آئیں ۔ یہ روایت صحیح مسلم میں موجود ہے۔

اس قسم کی روایتوں کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر واقعی کسی قسم کی پریشانی ہو تو دووقت کی نمازیں ملا کر پڑھی جاسکتی ہیں۔ بہ شرطے کہ یہ عادت نہ بن جائے کہ ہر دو تین دن کے بعد نمازیں ملا کر پڑھی جائیں۔ واقعی عذر کی مثال یہ ہے کہ ایک سپاہی ہے جس کی ڈیوٹی مغرب سے پہلے سے عشاء کے بعد تک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں نماز نہیں پڑھ سکتا ۔وہ چاہے تو مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھ سکتا ہے۔ یا ایک ڈاکٹر ہے جو دیر تک آپریشن میں مصروف رہتا ہے وہ چاہے تو دونمازیں ملا کر پڑھ سکتا ہے۔

لیکن میں نہیں سمجھتا کہ پارٹیوں میں شرکت کرنا کوئی عذر واقعی ہے اگر وہ واقعی سچا مسلمان ہے تو پارٹیوں کے درمیان بھی نماز ادا کر سکتا ہے۔ اس میں شرمانے اور جھکنے کی کوئی بات نہیں۔ بلکہ اسے علی الاعلان پارٹیوں کے دوران نماز ادا کرنی چاہیے تاکہ دوسرے بھی نصیحت حاصل کریں ۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

طہارت اور نماز،جلد:1،صفحہ:139

محدث فتویٰ

تبصرے