السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا وضو کے دوران پیروں کو دھونے کے بجائے موزوں پر مسح کرنا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
موزوں پر مسح کرنا جائز ہے بہ شرطے کہ وضو کر کے انہیں پہنا ہو۔ دوبارہ وضو کرنے کی صورت میں ان پر مسح کر لینا جائز ہے۔اگر حالت سفر میں ہے تو تین دنوں تک ایسا کر سکتا ہے اور اگر مقیم ہے یعنی حالت سفر میں نہیں ہے تو ایک دن تک۔موزوں پر مسح کی اجازت لوگوں کی آسانی کے لیے ہے۔ خاص طور سے جاڑے کے دنوں میں جب کہ سردی سخت ہوتی ہے اور ہر وضو کے وقت موزوں کا اتارنا اور پیر دھونا بڑا مشکل کام ہوتا ہے اور جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ دین اسلام آسانیوں کا دین ہے۔پریشانیوں اور تنگیوں کا نہیں۔
متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے منقول ہے کہ انھوں نے موزوں پر مسح کے جواز کا فتوی دیا ہے۔بعض فقہاء چند مشکل شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دیتے ہیں۔ مثلاً یہ شرط کہ موزہ کافی موٹا ہو کہ اسے پہن کر بآسانی چلا جا سکتا ہو۔ اس میں کوئی بڑا سوراخ نہ ہو وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ان شرطوں کا کہیں تذکرہ نہیں ہے۔ موزوں پر مسح کی اجازت کا مقصد ہی یہ ہے کہ وضو کرنے والوں کے لیے آسانی اور رخصت کی صورت پیدا ہو۔ جب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس کے جواز کا فتوی دیا ہے تو ہر مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ اس رخصت سے فائدہ اٹھائے۔ بسااوقات سخت سردی کے موسم میں موزوں کو اتار کر پیر دھونا طبیعت پر گراں گزرتا ہے یا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص سوٹ پر جوتا پہنے ہوئے ہے اور جوتے موزے کا اتارنا اسے سخت مشکل کام نظر آتا ہے۔ نتیجۃً نہ وہ وضو کرتا ہے اور نہ نماز پڑھتا ہے۔اس قسم کے واقعات کا میں نے بہ ذات خود مشاہدہ کیا ہے۔ ان حالات میں اگر ان سے کہا جائے کہ موزے پر مسح کرنا جائز ہے تو وہ وضو بھی کرتے ہیں اور نماز بھی ادا کرتے ہیں۔ ورنہ محض موزے اتار کر پیر دھونے کی مصیبت سے بچنے کے چکر میں وہ نماز بھی چھوڑ دیتے ہیں اور خاص کروہ حضرات جن کا ایمان قدرے کمزورہوتا ہے۔
اسلامی شریعت کا اصول ہے کہ جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے لیے آسانی پیدا کی جائے۔ زمانے اور حالات کی رعایت ہو۔یہ دور مختلف فتنوں اور مشکلات و مصائب کا دور ہے۔ خواہ مخواہ کی سختیاں پیدا کرنا لوگوں کے لیے باعث فتنہ اور دین سے دوری کا سبب بن جاتا ہے۔ اس لیے تمام مسلمانوں سے میری اپیل ہے کہ دینی معاملات میں خواہ مخواہ اور بے بنیاد سختیاں نہ پیدا کریں ۔ جہاں تک گنجائش ہو لوگوں کے سامنے شریعت کے آسان اور نرم پہلو اجاگر کیے جائیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿يُريدُ اللَّهُ بِكُمُ اليُسرَ وَلا يُريدُ بِكُمُ العُسرَ ... ﴿١٨٥﴾... سورة البقرة
’’اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے۔سختی کرنا نہیں چاہتا ۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب