السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مصری اخبار"الاخبار" میں شائع شدہ ایک عجیب وغریب واقعے پر نظر پڑی۔یہ واقعہ یوں ہے کہ شیخ محمد الجمل نے اپنی وفات سے قبل یہ وصیت کی کہ انہیں ان کے قصبے کے قبرستان سے تقریباً تین کلومیٹر دور ایک کھیت میں دفن کیاجائے۔یہ کھیت کسی اور کی ملکیت تھا۔چنانچہ قصبے کے لوگوں نے اس وصیت پر عمل کرنے سے انکارکردیا اور ان کا جنازہ قبرستان کی طرف لے جانے لگےحیرتناک بات یہ ہوئی کہ ان لوگوں نے جب بھی جنازے کو قبرستان کی طرف لے جانے کی کوشش کی جنازہ اٹھانے والوں کویہ محسوس ہواکہ گویا کوئی قوت انہیں قبرستان کے بجائے متذکرہ کھیت کی طرف گھسیٹ رہی ہے۔لوگوں نے پولیس کوخبر کی۔پولیس والوں نے بھی جنازہ قبرستان کی طرف لے جانے کی پوری کوشش کی لیکن بے سود۔ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔مجبوراً لوگوں نے شیخ کی وصیت کے مطابق انہیں متذکرہ کھیت میں دفن کردیا۔
سوال یہ ہے کہ دینی نقطہ نظر سے یہ واقعہ کہاں تک درست ہے؟کیا زمین کے مالک کی اجازت کے بغیر اس کی زمین پر قبریا مسجد بنائی جاسکتی ہے؟قبریا مسجد بنانے سے جو غلے کا نقصان ہوگا اس کی تلافی کون کرے گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قصبے کے لوگوں نے اس قسم کی وصیت پر عمل کرنے سے انکار کردیا،صحیح کیا۔کیونکہ اس قسم کی وصیت اصولی طور پر غلط اور غیر شرعی ہے اور متعدد اسباب کی بنا پر شریعت اور سنت کے خلاف ہے،مثلاً:
1۔پہلی وجہ یہ ہے کہ شیخ نے ایسی سرزمین میں دفن کرنے کی وصیت کی جو ان کی ملکیت نہیں تھی اور نہ وہ قبرستان ہی ہے۔اگر شیخ کوشریعت کا ذرا بھی علم ہوتاتو وہ ہرگز ایسی وصیت نہ کرتے۔
2۔دوسری وجہ یہ ہے کہ شیخ نے یہ وصیت کرکے اپنے آپ کو دوسروں کے مقابلے میں ایک امتیازی حیثیت عطا کرنی چاہی تھی۔قبرستان جہاں عوام وخواص سارے دفن کیے جاتے ہیں اسے چھوڑ کرکسی علیحدہ زمیں میں ان کو دفن کرنا انہیں دوسروں کے مقابلے میں امتیازی حیثیت عطا کرنا ہے،جو بعد میں شرک کاموجب بن سکتا ہے۔
3۔بغیر کسی فائدہ اور جواز کے خواہ مخواہ لوگوں کو یہ ایک ایسے کا کے لیے مجبور کرنا ہے جس کے لیے وہ مامور نہیں ہیں۔
رہی یہ عجیب وغریب بات کہ کہ کوئی ماورائی قوت انہیں ان کی مرضی کے خلاف قبرستان کے بجائے کھیت کی طرف زبردستی کھینچ رہی تھی یا تو اس طرح کی حکایتیں گاؤں یا قصبوں خصوصاً ضعیف الاعتقاد اور کم پڑھے لکھے لوگوں میں نہایت تیزی سے پھیلتی ہیں اور لوگ انہیں فوراً قبول کرلیتے ہیں۔خصوصاً اگر معاملہ کسی ایسے شیخ کا ہو جسے وہ اس کی زندگی میں ولی اللہ سمجھ بیٹھے ہوں۔اس طرح کے واقعات نہ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عہد میں ثابت ہیں نہ تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں،تو کیا آج کے مشائخ ان صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ سے افضل ہیں؟
رہی اس واقعے کی عقلی توجیہ تو وہ یوں کی جاسکتی ہے:
1۔ہوسکتا ہے کہ جنازہ اٹھانے والوں نے جان بوجھ کر یہ قصہ گھڑلیا ہو اور اس کی تشہیر بھی کردی تاکہ اس کے ذریعے سے شیخ کی کرامت اور ولی اللہ ثابت کی جاسکے۔
2۔ہوسکتا ہے کہ انہوں نے ایسا جان بوجھ کر نہ کیا ہو بلکہ کسی نفسیاتی دباؤ اور اثر کی وجہ سے انہیں ایسا محسوس ہوا ہو۔علم نفسیات کا طالب علم بہ آسانی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ نفسیاتی دباؤ کے تحت انسان وہ کچھ کربیٹھتا ہے،جس کا وہ ارادہ نہیں کرتا۔
3۔یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ بدمعاش قسم کے جنوں نے یہ گل کھلایا ہو تاکہ لوگوں کو شیخ کے ساتھ خوش اعتقادی میں مبتلا کرکے انہیں شرک کی طرف مائل کرسکیں۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرح کے متعدد واقعات نقل کیے ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ اس طرح کے واقعات عام طور پر کم پڑھے لکھے لوگوں،گاؤں،قصبوں یا ایسے علاقوں میں جنم لیتے ہیں جہاں ضعیف الاعتقاد لوگ رہتے سہتے ہیں۔ورنہ سعودی عرب یا قطر ایسے ملکوں میں ایسے واقعات کیوں نہیں جنم لیتے؟
رہا وہ نقصان جو قبر بنانے کی وجہ سے کھیت کے مالک کو اٹھاناپڑا تو اسے پورا حق حاصل ہے کہ وہ اسکی تلافی کا مطالبہ کرے اور ساتھ ہی اس قبر کو ہٹائے جانے کامطالبہ کرے جس کی وجہ سے اسے نقصان ہوا۔اس قبر کا وہاں سے ہٹانا یوں بھی ضروری ہے کہ اس طرح کی قبریں بہت جلد ضعیف الاعتقاد لوگوں کو شرک اورقبر پرستی کی طرف مائل کردیتی ہیں۔
رہ وہ مسجد جو اس مالک کی اجازت کے بغیر بنائی گئی اس میں نماز پڑھنا حرام ہے ۔کیونکہ:
1۔تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ غاصبانہ طریقے سے حاصل کی گئی زمین پر نماز پڑھناجائز نہیں۔
2۔متعدد احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر مسجد بنانے سے منع فرمایا ہے اور ایسا کرنے کی وجہ سے یہودونصاریٰ پر لعنت بھی فرمائی ہے۔
اسی لیے فقہاء کی رائے ہے کہ مسجد یاقبر میں سے جو چیز بعد میں بنائی گئی ہے اسے منہدم کردیاجائے۔اگر مسجد بعد میں بنی ہے تو مسجدمنہدم کردی جائے ورنہ قبر ہٹادی جائے۔اس کی مثال"مسجد ضرار" کی ہے جس کی بنیاد تقوے پر نہیں تھی بلکہ مسلمانوں میں تفرقہ اورفساد برپا کرنے کی خاطر بنائی گئی تھی۔غزوہ تبوک سے واپسی پر اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مسجد کے انہدام کاحکم دیا ۔مسجد ضرار کے واقعہ سے دو باتیں اخذ کی جاسکتی ہیں:
1۔اول یہ کہ ان عمارتوں اور جگہوں کو جلانا یامنہدم کرنا جائز ہے جہاں اللہ کی معصیت کاارتکاب ہورہا ہو۔
2۔دوم یہ ہے کہ وقف میں ایسی چیزیں بنانا صحیح نہیں ہے جن کی بنیاد اللہ کی معصیت اور نافرمانی پر ہو۔(1)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب