سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(18) مکھی کے ایک پر میں شفا

  • 23770
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3170

سوال

(18) مکھی کے ایک پر میں شفا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث نبوی ہے:

"إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَإِنَّ فِي أَحَدِ جَنَاحَيْهِ دَاءً ، وَفِي الْآخَرِ شِفَاءً"

’’جب تم میں سے کسی کے برتن میں مکھی پڑجائے توچاہیے کہ اسے دوبارہ ڈبو دے کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے میں شفا‘‘

کیا یہ صحیح اور متفق علیہ حدیث ہے؟اگر کسی نے اس حدیث کا انکار کیا تو ہو وہ خارج از اسلام تصور کیا جائے گا؟عصر حاضر میں بعض ڈاکٹر حضرات اس حدیث کی صحت پر کلام کرتے ہیں۔حتیٰ کہ بعض اس کا مذاق اڑاتے ہیں کیونکہ جدید طب کی رو سے مکھی وبائی امراض پھیلانے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ابھی تک کسی نے مکھی کو علاج کی خاطر استعمال نہیں کیا حالانکہ حدیث کہتی ہے کہ اس کے ایک پَر میں شفا ہے۔براہ کرم تسلی بخش جواب سے نوازیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میں ذیل میں اختصار کے ساتھ چند نکات میں جواب دینے کی کوشش کروں گا۔

1۔یہ حدیث صحیح تو ہے لیکن متفق علیہ نہیں ہے۔اصطلاحاً متفق علیہ اس حدیث کو کہتے ہیں جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں موجود ہو۔زیر نظر حدیث صرف بخاری شریف میں ہے اور بخاری شریف کی حیثیت یہ ہے کہ علماء کرام نے ہر دور میں اسے قرآن کےبعد سب سے معتبر کتاب مانا ہے۔

2۔دوسری بات یہ ہے کہ اس حدیث میں نہ تو کسی اصول دین کاتذکرہ ہے اور نہ اس میں عقیدے سے متعلق کوئی بات کہی گئی ہے ،نہ کسی فریضہ دین کا بیان ہے اور نہ حلال وحرام کا تذکرہ ہے،اگر کوئی مسلمان ساری عمر اس  حدیث سے بے خبر رہےتو یہ بے خبری اس کی دین داری میں کوئی نقص تصور نہیں کی جائے گی۔اور نہ اس کے عقیدے میں ہی کوئی خلل ہوگا۔اب ظاہر ہے اس حدیث کو بنیاد بنا کرپورے دین اسلام کو استہزاء وتمسخر کانشانہ بنانا کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا۔

3۔یہ حدیث گرچہ صحیح حدیث کے درجے میں ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کا شمار حدیث الاحاد میں ہوتا ہے ۔یعنی تواتر کے ساتھ اس حدیث کی روایت نہیں ہے بلکہ کسی ایک ہی راوی نے اس کی روایت کی ہے۔حدیث الاحاد کے متعلق علماء حدیث کا اختلاف ہے کہ اسے یقین اور حتمی بات کا درجہ حاصل ہے یا محض غالب گمان کی حد تک محدود ہے۔اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان حدیث الاحاد کا انکار کردے یا اس کے متعلق شک وشبہ میں مبتلا ہوجائے تو اسے خارج از اسلام تصور نہیں کیا جائے گا۔ہاں اگر کوئی مسلمان اس  حدیث کو بنیاد بنا کر پورے دین اسلام کا مذاق اُڑاتا ہے  تو اسے بلاشبہ خارج از اسلام تصور کیا جائے گا۔

4۔اب رہی یہ بات کہ طب اور میڈیکل سائنس کی رو،سے یہ حدیث قابل قبول ہے کہ نہیں تو آپ جان لیں کہ بے شمار ماہرین علم طب نے اس حدیث کی حمایت میں اپنی راویوں کا اظہار کیا ہے۔مثال کے طور پر میں ڈاکٹر امین رضا(اسکندریہ یونیورسٹی) کے ایک مقالے کا خلاصہ پیش کرتا ہوں۔یہ مقالہ میگزین"التوحید" میں سن 1977ء میں شائع ہوا تھا۔وہ  لکھتے ہیں:

1۔کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی حدیث نبوی کا محض اس بنیاد پر انکار کردے کہ  وہ جدید علوم سے مطابقت نہیں رکھتی۔کیونکہ جدید علوم تو ہنوز ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ترقی کے اس سفر میں جدید علوم اور جدید نظریات میں تبدیلیاں بھی ہوتی رہتی ہیں۔آج ایک نظریہ صحیح ہے تو کل اسے غلط قراردیا جاتا ہے۔

2۔اس حدیث یا کسی بھی حدیث کومحض اس بنیاد پر ماننے سے انکار کردینا کہ وہ عقل سلیم سے متصادم ہے سراسر غیر معقول سی بات ہے۔حدیث عقل سے متصادم ہورہی ہے تو اس میں ہماری عقل کا قصور ہے،حدیث کا نہیں۔ہماری عقل تو ہنوزناپختہ ہے اور ہمارا علم ابھی تک کافی محدود ہے۔اور جوباتیں ابھی تک ہمارے علم کے احاطے میں نہیں آسکی ہیں وہ بے شمار اور لامحدود ہیں۔اس کے مقابلے میں وہ باتیں جن تک ہمارے علم کی رسائی ہوسکی ہے،وہ تو بہت محدود ہیں۔اگر انسان یہ تصور کرلے کہ اب اس کا علم مکمل ہوچکا ہے اور تحقیق وجستجو کے سارے میدان سر کیے جاچکے ہیں۔تو یہ انسان کی علمی موت ہے۔اس لیے اگر حدیث عقل سے ٹکراتی ہے تو انصاف کی بات یہی ہے کہ قصور ہماری عقل کا ہے کیوں کہ ہماری عقل اور علم کو بہت سارے میدان سر کرنے ہیں۔

3۔یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ مکھیوں کے ذریعے علاج کرنے کا تصور میڈیکل سائنس میں بالکل مفقود ہے۔پُرانے زمانے میں بھی مکھیوں کے ذریعے مختلف علاج ہوتے رہے ہیں اور عصر حاضر میں بھی سرجری کے بعض شعبوں میں مکھیوں کے ذریعے علاج کیا گیا ہے۔رواں صدی کی پہلی تین دہائیوں میں تو مکھیاں اسی مقصد کے لیے پالی جاتی تھیں۔اس علاج کی بنیاد یہ ہے کہ مکھیوں میں کچھ ایسے بکٹیریا کا انکشاف ہوا ہے جو جراثم کُش ہیں۔انہیں جراثیم کی سرکوبی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

4۔اس حدیث میں اس بات سے خبردار کیاگیا ہے کہ مکھیوں میں بیماری کے جراثیم ہیں اور اس بات کا انکشاف جدید سائنس نے صرف دو صدی قبل کیا ہے۔

5۔اس حدیث میں اس بات کی بھی خبردی گئی ہے کہ مکھیوں میں شفا کا  پہلو بھی ہے۔یعنی کچھ ایسے مادے ہیں جو جراثیم کش ہیں اور اُس زہر کا اثر زائل کرنے والے ہیں جوزہر خود یہ مکھیاں لے کر آتی ہیں۔میڈیکل سائنس کے مطابق بکٹیریا جب ایک خاص تعداد میں ہوتے ہیں تو ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ان میں کا ہر ایک کچھ زہریلے مادوں کی پچکاری سے دوسرے کی جان کے درپے ہوتا ہے۔اس زہریلے مادوں کو علاج کی خاطر استعمال کیا جاتا ہے جسے ہم اصطلاح میں"مضاد حیوی"یعنی(Anti.Biotic) بھی کہتے ہیں۔فی زمانہ مضاد حیوی دواؤں کا استعمال زوروں پر ہے۔

6۔یہ حدیث اس بات کی تعلیم تو نہیں دیتی کہ ہم مکھیوں کا شکار کریں اور پھر زبردستی اپنے برتن میں ڈبوئیں تاکہ اس سے شفا حاصل کرسکیں اور نہ اس بات کی طرف آمادہ کرتی ہے کہ ہم ا پنے برتن کھلے ر کھیں یا گھر گندارکھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مکھیاں آئیں۔بلکہ اس کے برعکس بے شمار ایسی حدیثیں ہیں جو صفائی اور ستھرائی کی تعلیم دیتی ہیں بلکہ اس کی تائید کرتی ہیں۔

7۔اس حدیث سے یہ مفہوم بھی نہیں لیا جاسکتا کہ اگر کسی کے برتن میں مکھی گر جائے اور اسے اس پانی یا کھانے سے کراہت محسوس ہورہی ہے تو اسے زبردستی کھانے یا پینے پر مجبور کیا جائے۔اسے کراہت محسوس ہورہی ہوتو وہ شوق سے اس پانی یا کھانے سے ہاتھ ہٹالے۔

8۔یہ حدیث اس بات سے ہمیں نہیں روکتی ہے کہ ہم مکھیوں کے خاتمے کے لیے ہر ممکن تدبیر اختیار کریں۔اور یہ حدیث اس بات کی بھی تعلیم نہیں دیتی کہ ہم مکھیوں کی پرورش کریں اور پھر ان سے شفا حاصل کریں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

احاديث،جلد:1،صفحہ:64

محدث فتویٰ

تبصرے