السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے علاقے سلیم بلاک، اتفاق ٹاون، لاہور میں اہل حدیث حضرات کی ایک مسجدتھی، جسے گرا کراما م مسجد نے اپنا ذاتی گھر اور دکانیں تعمیر کر لی ہیں، اور مسجد کودوسری جگہ پرمنتقل کردیا ہے ۔اس مکان میں جو مسجد کی جگہ پر بنا ہے لیٹرین بھی ہے،جہاں پاخانہ پیشاب کیا جاتا ہے اور بیڈ روم بھی ہے،جہاں صحبت کی جاتی ہے۔اہل علاقہ نے ان کو سمجھایا مگر وہ نہ مانے۔وہ کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث نےمنع نہیں کیا،مگر قرآن نے تو چالیسویں ،عید میلاد،گیارویں ، ختم سے بھی منع نہیں کیا،کیاقرآن میں ایسی کوئی دلیل ہے، یا حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےایسا کیا ہو۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!مسجد میں پیشاب پاخانہ یا ہمبستری کرنا ایک حرام عمل ہے،کیونکہ مساجد اللہ کے ذکر اور نماز کے لئے بنائی جاتی ہیں،ایسے نا پسندیدہ امور کے لئے نہیں بنائی جاتی ہیں۔ لیکن اگر مسجد سے الگ کوئی رہائش بنائی گئی ہو ،خواہ وہ مسجد کے اوپر ہو یا مسجد کے نیچے ہو یا مسجد کے ساتھ ملی ہوئی ہو تو وہ جگہ مسجد شمار نہیں ہوگی اور نہ ہی اس پر مسجد کے احکام لاگو ہونگے ۔جیسا کہ مسجد کے ساتھ واش روم بھی بنائے جاتے ہیں اور عموماً امام کی رہائش بھی بنائی جاتی ہے،اور ان جگہوں پر مسجد کا اطلاق نہیں ہوتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرات کے دروازے بھی مسجد نبوی میں ہی کھلتے تھے،اور یہ بات ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے صحبت بھی فرمایا کرتے تھے۔ لہذا جو جگہ مسجد نہیں ہے اس میں پیشاب ،پاخانہ اور صحبت سب کچھ کیا جا سکتا ہے۔ باقی رہی آپ کی یہ بات کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیسویں ،عید میلاد،گیارویں ، ختم سے بھی منع نہیں کیا،تو یہ قیاس مع الفارق ہے۔یہ امور عبادات سے تعلق رکھتے ہیں اور عبادات میں فقہی اصول یہ ہے کہ تمام عبادات حرام ہیں الا یہ کہ کسی کی دلیل مل جائے۔لہذا ان امور کے ثبوت کے لئے دلیل چاہیے،جو کہ کہیں بھی موجود نہیں ہے۔دلیل نہ ہونے کی بنیاد پر ہی تو انہیں بدعت قرار دیا جاتا ہے۔ هذا ما عندي والله اعلم بالصواب فتاویٰ علمائے حدیثجلد 09 ص |