السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث نبوی ہے کہ بھلی بات کہو یا خاموش رہو۔توکیا اس حدیث کی روشنی میں زیادہ بولنا حرام ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار حدیثوں میں زبان کی تباہ کاریوں سے خبردار کیا ہے۔ان میں ایک حدیث یہ بھی ہے:
"مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ"
’’جوشخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے‘‘
ایک دوسری حدیث ہے۔
"رَحِمَ اللَّهُ عَبْدًا قَالَ خَيْرًا فَغَنِمَ ، أَوْ سَكَتَ عَنْ سُوءٍ فَسَلِمَ"
’’اللہ کی رحمت ہو اس شخص پر جس نے بھلی بات کہی اور اجرونعمت کا حقدار ہوا یا خاموش رہا تو محفوظ رہا‘‘
بے شبہ زیادہ بولنا اور بے وجہ بولتے رہنا انسان کے لیے باعث تباہی اور گناہوں کا سبب ہے۔امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ان گناہوں کی تعداد بیس بتائی ہے،جو زبان کے غلط استعمال سے سرزد ہوتے ہیں۔شیخ عبدالغنی نابلسی رحمۃ اللہ علیہ نے اس تعداد کو 72 تک پہنچادیا ہے۔ان میں سے اکثر گناہ کبیرہ کے قبیل سے ہیں۔مثلاً جھوٹ،غیبت،چغلی،جھوٹی گواہی،جھوٹی قسم ،لوگوں کی عزت کے بارے میں کلام کرنا اور دوسروں کا مذاق اڑانا وغیرہ وغیرہ۔
اس لیے بہتر یہی ہے کہ انسان حتی المقدور خاموشی کا راستہ اختیار کرے تاکہ ان گناہوں سے محفوظ رہے ۔خاموش رہنے کامطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ا پنے ہونٹوں کو سی لے اور زبان پر تالا ڈال لے۔بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو اس بات کی زیادہ سے زیادہ سے کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو کسی بھلی اور معروف بات کے لیے کھولے ورنہ اسے بند رکھے۔
جولوگ زیادہ بولتے ہیں ان سے اکثر خطائیں سرزد ہوجاتی ہیں اور ان خطاؤں کے سبب وہ لوگوں میں مذاق اور استہزاء کا نشانہ بن جاتے ہیں۔اس لیے بندہ مومن جب بھی کوئی بات کرے اسے اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ خدا کے فرشتے اس کی ہر بات نوٹ کررہے ہیں۔اللہ فرماتا ہے:
﴿ما يَلفِظُ مِن قَولٍ إِلّا لَدَيهِ رَقيبٌ عَتيدٌ ﴿١٨﴾... سورة ق
’’کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکالتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو‘‘
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب