سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(7) آیت "إِنَّ الْمُلُوك"........

  • 23759
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1811

سوال

(7) آیت "إِنَّ الْمُلُوك"........

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

درج ذیل آیت کی توضیح وتشریح مطلوب ہے:

﴿إِنَّ المُلوكَ إِذا دَخَلوا قَريَةً أَفسَدوها وَجَعَلوا أَعِزَّةَ أَهلِها أَذِلَّةً وَكَذ‌ٰلِكَ يَفعَلونَ ﴿٣٤﴾... سورة النمل

’’بادشاہ جب کسی ملک میں گھس آتے ہیں تو اسے خراب اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔یہی کچھ وہ کیا کرتے ہیں‘‘


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر اس آیت کا یہ مفہوم لیا جائے کہ بادشاہ،خواہ کوئی بھی ہو بادشاہ ہو،جب کبھی کسی بستی میں فاتح ہوکرداخل ہوتا ہے تو وہ اسے تباہ برباد کردیتا ہے اور شرفاء کو ذلیل وخوار کرتاہے،تو یہ ایک غلط مفہوم ہوگا۔

اس آیت کے سیاق وسباق پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ آیت ملکہ سبا بلقیس کے قصے کے ضمن میں نازل ہوئی ہے۔ھد ھد نے حضرت سلیمان علیہ السلام  کو جب یہ خبردی کہ:

﴿إِنّى وَجَدتُ امرَأَةً تَملِكُهُم وَأوتِيَت مِن كُلِّ شَىءٍ وَلَها عَرشٌ عَظيمٌ ﴿٢٣﴾... سورة النمل

’’میں نے وہاں ایک عورت دیکھی جو اس قوم کی حکمراں ہے۔اس کو ہرطرح کا سروسامان بخشا گیا ہے اور اس کاتخت توحضرت سلیمان  علیہ السلام  نے بلقیس کے پاس ایک خط روانہ کیا ،جس میں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور بغیر کسی سرکشی کے مکمل اطاعت قبول کرلینے کا حکم دیا۔چنانچہ ملکہ بلقیس نے اپنی مملکت کے اکابرین کو مشورے کی خاطر جمع کیا کہ سلیمان علیہ السلام  کو کیا جواب دینا چاہیے۔ان لوگوں نے کہا کہ ہمارے پاس زبردست طاقت موجود ہے۔ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور اس سلسلے میں جو بھی اقدام کریں گی وہ سب کے لیے قابل قبول ہوگا۔اس پر ملکہ سبا نے کہا:

﴿إِنَّ المُلوكَ إِذا دَخَلوا قَريَةً ...﴿٣٤﴾... سورة النمل

ملکہ سبا ان لوگوں پریہ واضح کردیناچاہ رہی تھی کہ بادشاہ جب کسی دوسری مملکت میں فاتح وغالب کی حیثیت سے داخل ہوتاہے تو اس بستی کا یہ انجام ہوتا ہے کہ فاتح بادشاہ اسکی اینٹ سے اینٹ بجادیتا ہے،اسے تباہ برباد کرڈالتا ہے اور مملکت کے شریف شہریوں کی عزت کو خاک میں ملادیتاہے۔

تاریخ شاہد ہےکہ واقعتاً جب کبھی استعماری قوتیں کسی ملک میں داخل ہوئیں تو انہوں نے اسے زیر وزبر کرڈالا اور وہی انجام کیاجس کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے۔

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سارے بادشاہ ایسے ہی ہوتے ہیں اور فتح ونصرت کے بعد وہ دشمن ملکوں کے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں۔کیوں کہ بادشاہوں میں اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی۔بادشاہت جب اچھوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے تو تعمیر واصلاح فی الارض کا ذریعہ بنتی ہے اور جب بُروں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے تو تباہی وبربادی کا سبب بن جاتی ہے۔

قرآن میں ان دونوں قسم کے  بادشاہوں کا تذکرہ ہے۔اچھے بادشاہوں میں قرآن نے طالوت،حضرت داود علیہ السلام  اور حضرت سلیمان  علیہ السلام  کا تذکرہ کیاہے۔یوسف علیہ السلام  کو جب خدا کی طرف سے بادشاہت عطا ہوئی تو انہوں نے یوں شکرادا کیا:

﴿رَبِّ قَد ءاتَيتَنى مِنَ المُلكِ وَعَلَّمتَنى مِن تَأويلِ الأَحاديثِ...﴿١٠١﴾... سورة يوسف

’’اے میرے رب!تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھایا‘‘

سورۃ الکہف میں بادشاہ ذوالقرنین کا تذکرہ موجود ہے جو ایک نیک سیرت بادشاہ تھا۔بادشاہ حکمراں اگر صالح ہوتو وہ بلاشبہ افضل الناس ہوتاہے،جیساکہ حدیث نبوی ہے:

"يَوْمٌ مِنْ إِمَامٍ عَادِلٍ أَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ سِتِّينَ سَنَةً"(طبرانی)

’’انصاف پسند حکمراں کاایک دن ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر اور افضل ہے‘‘

قرآن میں ان بادشاہوں کا بھی تذکرہ ہے جنھوں نے زمین میں فسادات برپاکیے۔مثلاًنمرود بادشاہ جو ابراہیم علیہ السلام  کا ہم عصر تھا اور اپنے آپ کو خدا کہلواتاتھا،اس نے ابراہیم علیہ السلام  کے لائے ہوئے دین اسلام کی راہ روکنے کے لیے جو کچھ کیا اور ابراہیم علیہ السلام  پر جو ظلم وستم کیے تاریخ کی کتابیں اس پر شاہد ہیں۔اسی طرح موسیٰ علیہ السلام  کا ہم عصر بادشاہ فرعون جس کا تذکرہ قرآن میں بار بار آیاہے وہ برملا کہتا تھا:

﴿يـٰأَيُّهَا المَلَأُ ما عَلِمتُ لَكُم مِن إِلـٰهٍ غَيرى...﴿٣٨﴾... سورة لقصص

’’اے اہل دربار!میں تو اپنے سوا تمہارے کسی خدا کو نہیں جانتا‘‘

اسی طرح سورۃ الکہف میں اس ظالم بادشاہ کا تذکرہ موجود ہے جو ہر اجنبی کی کشتی پر غاصبانہ قبضہ کرلیتا تھا:

﴿وَكانَ وَراءَهُم مَلِكٌ يَأخُذُ كُلَّ سَفينَةٍ غَصبًا ﴿٧٩﴾... سورة الكهف

’’اور آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا‘‘

بادشاہت اور حکمرانی فی نفسہ بری چیز نہیں ہے۔اسکے بھلے یا بُرے ہونے کا انحصار اس شخص پر ہے جس کے ہاتھوں میں یہ نعمت آئی ہے۔اگر اس نے اس نعمت کو نعمت جان کر تعمیر وترقی اور اصلاح کے لیے استعمال کیا تو یہ سب کے لیے باعث نعمت ہے جیسا کہ حدیث ہے:

"نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحِ لِلْمَرْءِ الصَّالِحِ " (احمد)

’’پاک مال اگر نیک آدمی کی ملکیت میں ہوتوکیا ہی بھلی چیز ہے‘‘

ورنہ یہی نعمت سب کے لیے باعث عذاب بن جاتی ہے اور یہی اس آیت کا مقصود ہے جس کی تشریح وتوضیح آپ نے پوچھی ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

قرآنی آیات،جلد:1،صفحہ:41

محدث فتویٰ

تبصرے