سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(23) نشہ کرنے والے کی سزا کا بیان

  • 23745
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 7235

سوال

(23) نشہ کرنے والے کی سزا کا بیان
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نشہ کرنے والے کی سزا کا بیان


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

"مسكرُ ‘اسكر" اس سے اسم فاعل ہے۔ مسكرُ وہ ہے جو اپنے پینے والے کو "سكران"(بے ہوش) بنادے۔اصطلاح میں سُکر عقل کے"خلط ملط ہونے کو کہتے ہیں(مسکر خمر ہو یاکوئی اور شے۔)"

خمر،یعنی نشہ دینے والی اشیاء کااستعمال حرام ہے۔اس کی دلیل کتاب اللہ اور سنت رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  میں موجود ہے،نیز اس کے حرام ہونے پر علمائے امت کااجماع ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا الخَمرُ وَالمَيسِرُ وَالأَنصابُ وَالأَزلـٰمُ رِجسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطـٰنِ فَاجتَنِبوهُ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٩٠ إِنَّما يُريدُ الشَّيطـٰنُ أَن يوقِعَ بَينَكُمُ العَد‌ٰوَةَ وَالبَغضاءَ فِى الخَمرِ وَالمَيسِرِ وَيَصُدَّكُم عَن ذِكرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلو‌ٰةِ فَهَل أَنتُم مُنتَهونَ ﴿٩١﴾... سورة المائدة

"اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر، یہ سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو (90)شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے سواب بھی باز آجاؤ "[1]

خمر ہراس شے کو کہتے ہیں جو عقل کو ڈھانپ لے،خواہ وہ کسی بھی شے سے بنی ہو۔

احادیث نبویہ میں خمر کے بارے میں حکم ہے:

"كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ"

"ہر نشہ آور شے خمر ہے اور ہر خمر حرام ہے۔"[2]

ایک اور مقام پر فرمایا:

"كُلُّ شَرَابٍ أَسْكَرَ فَهُوَ حَرَامٌ"

"جو بھی مشروب نشہ دے وہ حرام ہے۔"[3]

نیز سنن ابو داود کی روایت میں ہے:

"مَا أَسْكَرَ كَثِيرُهُ فَقَلِيلُهُ حَرَامٌ"

" ہر وہ شے جس کی زیادہ مقدار نشہ دے اس کی معمولی مقدار بھی حرام ہے۔"[4]

اور ہو"خمر" (شراب) ہے۔خمر جس شکل میں بھی ہو،انگوروں سے ماخوذ ہو یاکسی اور چیز سے بنائی گئی ہو،حرام ہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے فرمایا:

"أَنَّ الْخَمْرَ مَا خَامَرَ الْعَقْلَ"

"جو شے عقل کو ڈھانپ لے اس کانام"خمر" ہے۔[5]" جمہور اہل لغت کا یہی قول ہے۔

شیخ الاسلام تقی الدین ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:"صحیح بات یہ ہے کہ"حشیش"نجس شے ہے اور وہ حرام ہے،خواہ اس سے نشہ ہو یا نہ ہو۔اگر وہ نشہ دے تو اس کے حرام ہونے میں تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے۔مزید برآں بعض لحاظ سے اس کے نقصانات"خمر" سے بڑھ کر ہیں۔واضح رہے"حشیش" اور اس کے خواص کا علم چھٹی صدی میں ہوا۔"[6]

(1)۔حشیش،ہیروئن اور دیگر اقسام کی نشہ آور اشیاء کے استعمال سے مسلمانوں کی نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے۔ہمارے دشمن انھیں ایک ہتھیار کے طور پر ہمارے خلاف استعمال کررہے ہیں۔یہود اور ان کے ایجنٹ ان اشیاء کو مسلمانوں میں پھیلانے میں خاص کردار ادا کررہے ہیں تاکہ مسلمان کمزور ہوں،نوجوان نسل برباد ہوجائے اور وہ معاشرے میں تعمیری کام کرنے کے قابل نہ رہیں۔اپنے دین کے لیے جہاد نہ کرسکیں اور اس قدر ناکارہ ہوجائیں کہ وہ قوم اور وطن کے فسادیوں اور دشمنوں سے مقابلہ نہ کرسکیں۔

مقام افسوس ہے کہ کافر دشمنوں کی چالوں سے صورت حال اس قدر گھمبیر ہوچکی ہے کہ نوجوانوں کی بہت بڑی مقدار نشے کی عادی ہوچکی ہے اور وہ معاشرے پر ایک بوجھ ہے یا وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی کے باقی دن کاٹ رہی ہے۔یہ اثرات مسلمان ممالک میں نشہ آوراشیاء کے پھیلنے کی وجہ سے ہیں۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس  جیسی تمام اشیاء سے بچائے جو انسان کی تباہی کا موجب ہیں۔لا حول وال قوۃ الا باللہ۔

(2)۔شراب(خمر) ہرحال میں حرام ہے ،اس کا استعمال لذت ،دوا یا پیاس بجھانے کے لیے یا کسی بھی مقصد کے لیے ہو،حرام ہے۔

(3)۔علاج کی خاطر  شراب یا نشہ آور اشیاء کا استعمال حرام ہے،اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"إِنَّهُ لَيْسَ بِدَوَاءٍ وَلَكِنَّهُ دَاءٌ"

"خمر دوا نہیں بلکہ داء(بیماری) ہے۔"[7]

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کا فتویٰ ہے:

" إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَجْعَلْ شِفَاءَكُمْ فِيمَا حُرِّمَ عَلَيْكُمْ "

"اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اس شے میں شفا نہیں رکھی جو حرام ہے۔"[8]

(4)۔اسی طرح سے پیاس بجھانے کے لیے بھی استعمال کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے مقصد حاصل نہیں ہوتا بلکہ وہ پیاس کی شدت اور حرارت کو مزید بھڑکاتی ہے۔

(5)۔جب کوئی مسلمان نشہ آور شے"یوڈی کلون" یا"الکحل"ملا مشروب پی لے اور اسے اس کے نشہ آور ہونے کا علم بھی ہوتو اس پر حد قائم کرنا لازم ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجْلِدُوهُ "

"جو شخص شراب وغیرہ پیے اسے کوڑے لگاؤ۔"[9]

(6)۔ حد خمر کی مقدار اسی(80) کوڑے ہیں کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے جب لوگوں سے شراب کی حد کے بارے میں مشورہ لیا تو سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے کہا کہ اس کی کم از کم مقدار(80) کوڑے ہونی چاہیے،چنانچہ انھوں نے اسی(80) کوڑے مقرر کیے،پھر یہی حکم لکھ کر خالد اور ابوعبیدہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی طرف روانہ کیا جو ملک شام میں تھے۔[10]

اس تعزیر کی مقدار کا تعین مہاجرین وانصار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی موجودگی  میں ہوا تھا جس کی کسی نے مخالفت نہیں کی۔علامہ ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ   کا بھی یہی نقطہ نظر ہے،چنانچہ موصوف فرماتے ہیں:" سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے شراب کی حد کو حد قذف کے برابر قراردیا اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے اس کی تائید کی۔"[11]

شیخ الاسلام  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:" شراب کی حد سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم  اور اجماع سے چالیس کوڑے واضح ہوتی ہے،البتہ اگر لوگ شراب پینے سے باز نہ آئیں اور انھیں  روکنے کے لیے حاکم وقت سزا کو بڑھا دے تو اس کا اقدام درست ہے۔"[12]

(7)۔شراب وغیرہ کی حد لگانے کے لیے لازم ہے کہ مجرم خود اقرار کرے یا دو معتبر آدمیوں کی شہادت مل جائے۔

(8)۔علماء کے درمیان یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ اگر کسی شخص کے منہ سے شراب وغیرہ کی بدبوآرہی ہوتو اس پر  حد لگائی جائےگی یانہیں؟اس کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ اس پر حد نہیں لگائی جائے گی بلکہ تعزیر ہوگی دوسرا قول یہ ہے کہ اسے حد لگائی جائےگی بشرط یہ کہ کوئی شک وشبہ نہ ہو۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ   سے بھی یہی مروی ہے ،نیز امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ   اور ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ   نے اس دوسرے قول ہی کو پسند کیا ہے۔

ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے اس شخص پر حد جاری کرنےکا فیصلہ کیا تھا جس کے منہ سے شراب کی بدبوآرہی تھی۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں سے کسی نے اس فیصلے سے اختلاف نہیں کیا۔

(9)۔نشہ آور اشیاء کے استعمال میں بہت سے خطرات ہیں ۔یہ ایک ایسا شیطانی ہتھیار ہے جس کے ذریعے سے وہ مسلمانوں کو انتہائی نقصان پہنچارہاہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿إِنَّما يُريدُ الشَّيطـٰنُ أَن يوقِعَ بَينَكُمُ العَد‌ٰوَةَ وَالبَغضاءَ فِى الخَمرِ وَالمَيسِرِ وَيَصُدَّكُم عَن ذِكرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلو‌ٰةِ فَهَل أَنتُم مُنتَهونَ ﴿٩١﴾...سورة المائدة

"شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے سواب بھی باز آجاؤ "[13]

(10)۔خمرام الخبائث ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے بارے میں دس اشخاص پر لعنت کی ہے ،چنانچہ ارشاد ہے:

"لَعَنَ اللَّهُ الْخَمْرَ وَشَارِبَهَا وَسَاقِيَهَا وَبَائِعَهَا وَمُبْتَاعَهَا وَعَاصِرَهَا وَمُعْتَصِرَهَا وَحَامِلَهَا وَالْمَحْمُولَةَ إِلَيْهِ "

"بے شک اللہ تعالیٰ نے شراب،اس کو کشید کرنےوالے،جس کے لیے کشیدگی کی گئی،اسے پینے والے،پلانے والے،اسے اٹھانے والے،جس کے لیے اٹھائی گئی ہو،اسے بیچنے والے،خریدنے والے اور اس کی قیمت کھانے والے(سب) پر لعنت کی ہے۔"[14]

مسلمانوں کو چاہیئے کہ شراب وغیرہ نشہ آور اشیاء کی حقیقت کوسمجھیں، اس کے استعمال سے بچیں،احتیاط کریں اور دلیری کا مظاہرہ کریں اور جو شخص مسلمانوں میں اسے پھیلائے اس کا مقابلہ کریں بلکہ اسے سخت سزا دیں کیونکہ اس کے نتیجے میں ہر برائی آسان ہوجاتی ہے۔آدمی رذالت کے گڑھے میں گرجاتاہے اور اس سے خیر کی توقع ختم ہوجاتی ہے۔اللہ تعالیٰ اس کے شر اور جملہ خطرات سے مسلمانوں کو محفوظ رکھے۔

حدیث میں ہے کہ قیامت کے قریب بعض لوگ شراب کو حلال سمجھیں گے اور اس کا نام بدل کر اسے پئیں گے،لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسے بدمعاشوں سے ہوشیار رہیں۔

تعزیر کے احکام

تعزیر کے لغوی معنی" روکنے" کے ہیں اور اس میں"مدد کرنے" اور"ادب کرنے" کے معنی بھی پائے جاتے ہیں کیونکہ اس سے ظلم کرنے والے کو ایزارسانی سے روکاجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿وَتُعَزِّروهُ وَتُوَقِّروهُ ...﴿٩﴾... سورة الفتح

"(تاکہ) تم اس(نبی) کی مدد کرو اور اس کاادب کرو۔"[15]

لہذا تعزیر کے معنی عزت وتوقیر کرنا  اور اسی طرح تعزیر کے معنی سزا دینا بھی ہیں،یعنی یہ لفظ دو متضاد معنی والے الفاظ میں سے ہے۔فقہی اصطلاح میں تعزیر سے مراد" ادب سکھانا" ہے۔اس باب میں تعزیر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ سزا سے انسان ناجائز کام کرنے سے رک جاتا ہے،مزید برآں تعزیر  توقیر کا سب بھی ہے کیونکہ جب کوئی شخص سزا کے سبب نامناسب اعمال وحرکات سے باز آجاتا ہے  تو اسے پھر سے وقار اور عزت حاصل ہوجاتی ہے۔

(1)۔دین اسلام میں تعزیر ہر اس معصیت پر واجب ہوتی ہے جس کے ارتکاب سے حد اور کفارہ لازم نہیں آتا۔وہ کسی حرام کام کرنے کے سبب ہو یا اس سے واجبات کاترک لازم ہو۔تعزیر میں مظلوم کی طرف سے سزا کا مطالبہ ضروری نہیں۔حاکم اس کے مطالبے کے بغیر بھی ظالم کو سزا دے سکتا ہے۔تعزیر کا نفاذ یااس میں کمی وبیشی حاکم کی صوابدید پر ہوگی کیونکہ جرائم کی نوعیت مختلف ہوتی ہے،کوئی جرم بڑا ہوگا تو کوئی چھوٹا۔

(2)۔درست بات یہی ہے کہ تعزیر میں کوئی متعین حد بندی نہیں ہوتی لیکن جب معصیت اس قسم کی ہو جس کی شریعت نے سزا مقرر کی ہے،مثلاً: زنا اور چوری تو اس میں حد سے کم درجے کے جرم کی تعزیر حد تک نہیں پہنچے گی۔

(3)۔اگر کسی مصلحت کا تقاضا ہوتو تعزیر میں قتل کی سزا بھی دی جاسکتی ہے،مثلاً:جاسوس کو قتل کرنا یا ایسے شخص کو قتل کرنا جو مسلمانوں کی جماعت میں انتشار وافتراق کا سبب بن رہا ہو یا کوئی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سوا کسی اور کی طرف لوگوں کو دعوت دےرہا ہو یاکوئی اور جرم ہو جس کا علاج قتل کیے بغیر نہ ہوسکے تو اس صورت میں تعزیر کے طور پر قتل کرنا درست ہوگا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتےہیں:"یہ قول عدل وانصاف پر مبنی ہے۔اس پر سنت رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  اور خلفائے راشدین  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی سنت دلالت کرتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس شخص کو سو کوڑے مارنے کا حکم دیا جس نے اپنی بیوی کی لونڈی سے بیوی کی اجازت سے جماع کیا تھا۔[16]

سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے ایک مرد اور ایک عورت کو سوسو کوڑے مارنے کا حکم دیا تھا جو ایک ہی لحاف اوڑھے ہوئے پائے گئے تھے۔سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے صبیغ کی سخت پٹائی کی تھی(واضح رہے صبیغ ایک شخص تھا جو قرآن کے متشابہات کے بارے میں  باتیں کرکے لوگوں میں دین کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرتا تھا۔"[17]

شیخ الاسلام  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:" جب فساد کو روکنا مقصود ہو اوروہ قتل ہی سے ممکن ہوتو قتل کرنا جائز ہےمثلاً:اگر کوئی شخص ایک قسم کے بگاڑ وفساد کا موجب بن رہا ہو حتیٰ کہ مقررہ حدود کے لگانے سے بھی باز نہیں آرہا تو اس کی سزا قتل ہی ہے ،جیسے حملہ آور کواگر قتل کیے بغیر  روکنا ممکن نہ ہوتو اسے قتل کرنا جائز ہوتا ہے۔"[18]

(4)۔کم از کم تعزیر کی کوئی حد بندی نہیں کیونکہ جرائم کی نوعیت احوال واوقات کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے،کوئی جرم شدید ہوتا ہے کوئی کم درجے کا،لہذا ایسے جرائم کی سزا کا تعین حاکم اپنے اجتہاد سے ضرورت اور مصلحت کے  مطابق کرے گا،البتہ تعزیر کی متعدد صورتیں ہیں،مثلاً:کسی کو مارپیٹ کی سزا دینا یاقید میں ڈالنا ،تھپڑ مارنا،ڈانٹ پلانا یا سرکاری عہدے سے معزول کردینا وغیرہ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:" کبھی تعزیر بے عزتی کرنے کی صورت میں بھی ہوتی ہے،مثلاً:کسی جرم کے مرتکب شخص کو کہنا:اے ظالم!یا اسے زیادتی کرنے والے !یا اسے مجلس سے اٹھا دینا،یا ڈانٹ ڈپٹ کرنا۔"[19]

(5)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"لا يجلد أحد فوق عشرة أسواط إلا في حد من حدود الله "

"کسی کو دس کوڑوں سے زیادہ نہ مارے جائیں الا یہ کہ وہ حدود الٰہی میں سے کوئی حد پامال کرنے والا ہو۔"[20]

جن حضرات نےتعزیر کے لیے ان دس کوڑوں سے زیادہ مارنے کی اجازت دی ہے انھوں نے مذکورہ بالادس کوڑوں والی حدیث کا یہ جواب دیا ہے کہ یہاں معصیت کی سزا کا ذکر ہے شرعی حدود کا نہیں اس باب میں محرمات کاارتکاب مراد ہے جس کی سزا مصلحت کے مطابق اور جرم کی مقدار کے پیش نظر ہوگی۔

(6)۔تعزیر میں مجرم کا کوئی عضو کاٹ دینا یا اسے زخم لگانا یا اس کی ڈاڑھی مونڈ دینا جائز نہیں  کیونکہ یہ مثلہ ہے جو ممنوع ہے۔اسی طرح تعزیر میں حرام طریقے اختیار کرنا بھی جائز نہیں،مثلاً:شراب پلانا وغیرہ۔

(7)۔جو شخص لوگوں کو مسلسل تکلیف دینے یا ان کے اموال کو نقصان پہنچانے میں شہرت پاچکا ہوتو اسے جیل میں بند کردیا جائے حتیٰ کہ وہیں مرجائے یاتوبہ کرلے۔

ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:"ایسے مجرم کو لازمی طور پر قید کیا جائے۔اس مسئلے کے بارے میں متعدد علمائے کرام کی یہی رائے ہے،لہذا اس میں اختلاف کرنا جائز نہیں۔اس میں مسلمانوں کی خیر خواہی ہے کہ ظالم کےظلم سے لوگوں کو بچایاگیا ہے۔"

امام موصوف آگے چل کر فرماتے ہیں:"نظام سلطنت کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اسے احتیاط اور دانش مندی سے چلایاجائے۔اس کے لیے ایسے حکمرانوں کی ضرورت ہےجو شرعی احکام کو نافذ کرنے والے ہوں،ان کی مخالفت کرنے والے نہ ہوں۔جب کسی مملکت میں عدل وانصاف کی علامات ظاہر ہوجائیں توسمجھو وہاں شریعت الٰہی کا اتمام ہوگیا ہے ۔یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ"سیاست عادلہ" شریعت کے ارشادات اور منشا کے منافی ہے بلکہ وہ شریعت کے مطابق ہے بلکہ اس کے اجزاء میں سے ایک جز ہے،اسے سیاست کا نام اس لیے دیتے ہیں کہ موجودہ دور کی یہ اصطلاح ہے ورنہ یہ شریعت ہی ہے۔[21]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک مشکوک شخص کو قید میں رکھا اور شک کی بنیاد پر ایک شخص کو سزا دی کیونکہ وہ قرائن سے مجرم ثابت ہورہاتھا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ   شعبدہ باز لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں:"سانپ پکڑنے والا یا آگ میں داخل ہونےوالا یاجو شخص اس قسم کی شعبدہ بازی کرتا ہے،قابل تعزیر ہے۔"[22]

(8)۔جو شخص کسی مسلمان کو "مُسلا" کہہ کر تکلیف دیتا ہے یا کسی ذمی کوکہتاہے :حاجی صاحب!یا جو شخص کسی مزار اور عرس وغیرہ سے آنے والے کو حاجی کہتا اور سمجھتا ہے تو وہ قابل تعزیر ہے۔

(9)۔اگر کسی مدعی نےاپنے دعوے کے ذریعے سے مدعاعلیہ کوتکلیف پہنچائی،پھر معلوم ہوا کہ مدعی جھوٹا تھا تووہ تعزیر کے لائق ہے،نیز  اس نے ظلم کرکے جو کچھ لیا تھا وہ شے یا اس کے عوض اسے تاوان دیناہوگا کیونکہ وہ ظلم کاسبب بنا ہے۔

چوری کی حد کا بیان

کسی مال کا خفیہ طور پر اس طرح اٹھانا کہ مالک یا اس کے نائب کو خبر تک نہ ہو۔ اگر مال اٹھانے والااسلامی احکا2017-11-30م کا تابع مسلمان(یا ذمی) ہو اور وہ مال اس قدر ہو کہ مقرر نصاب تک  پہنچ جائے اور وہ مال کسی محفوظ جگہ سے اٹھایاگیا ہو،یعنی شارع عام پر پڑا نہ ہو اور مالک ایسا ہو کہ اس کامال اٹھانے والے کو اس میں اپنے استحقاق کاشبہ نہ ہو۔یہ شرائط  جمع ہوں تو یہ چوری ہوگی جس کی بناپر ہاتھ کاٹاجائےگا۔

اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿وَالسّارِقُ وَالسّارِقَةُ فَاقطَعوا أَيدِيَهُما جَزاءً بِما كَسَبا نَكـٰلًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزيزٌ حَكيمٌ ﴿٣٨﴾... سورةالمائدة

"چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دیاکرو۔یہ بدلہ ہے اس کا جو انھوں نے کیا(اور) عذاب اللہ کی طرف سے(ہے) اور اللہ قوت وحکمت والاہے۔"[23]

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"لَا تُقْطَعُ يَدُ السَّارِقِ إِلَّا فِي رُبْعِ دِينَارٍ فَصَاعِدًا"

"چور کا ہاتھ دینار کے چوتھائی حصے یا اس سے زیادہ چوری کرنے پرکاٹا جائے گا۔"[24]

مختصر بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ چور کاہاتھ وجوبی طور پر کاٹا جائے گا۔

(1)۔چورانسانی معاشرے میں ایک فاسد عنصر ہے۔اگراسے آزاد چھوڑ دیاجائے تو اس کابگاڑ قوم کےجسم میں دھیرے دھیرے سرایت کرتا جائے گا،لہذا مناسب سزا کے ذریعے سے اسے روکنا نہایت ضروری ہے۔بنابریں اللہ تعالیٰ نے اس کاہاتھ کاٹنا مشروع قراردیاہے ۔یہ ظالم ہاتھ اس چیز کی طرف بڑھا ہے جس کی طرف بڑھنا اس کے لیے جائز نہ تھا۔یہ ہاتھ تخریب کا سبب بناہے،تعمیر کا نہیں اور یہ ہاتھ اشیاء اٹھانے(چوری کرنے) والاہے،کسی کو دینے والا نہیں۔

(2)۔اب ہم قدرے تفصیل سے بتائیں گے کہ چوری کااطلاق کب ہوتا ہے اور اس کے مرتکب کاہاتھ کن صورتوں میں کاٹا جائے گا۔اگر ان میں سے ایک بھی صورت نہ ہوتو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا،وہ صورتیں یہ ہیں:

1۔آدمی نے مال خفیہ طریقے سے اٹھایا ہو۔اگر اس نے اسے خفیہ طریقے سے نہیں اٹھایا تو اسکا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔جیسا کہ کوئی شخص ڈاکہ ڈالے اور کسی کامال زبردستی چھین کر یاسرعام اٹھا کرلے جائے تو یہ چوری نہ ہوگی کیونکہ مال کامالک غاصب کاہاتھ پکڑ سکتاتھا یااس کےخلاف دوسروں سے مدد لے سکتاتھا(ڈاکے کی حد کاتذکرہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔)

امام ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:" ہاتھ کاٹنے کا شرعی حکم چور سے متعلق ہے،غاصب یالوٹ مار کرنے والے سے متعلق نہیں کیونکہ چور سے مال بچانا ممکن نہیں،اس لیے کہ وہ گھروں میں نقب زنی کرتا ہے،محفوظ مقام میں ناجائز دخل اندازی کرتاہے اور لگے ہوئے بند تالوں کوتوڑتاہے۔اگر ایسےشخص کاہاتھ نہ کاٹاجائے تو دیگر لوگ بھی ایک دوسرے کامال چوری کرنے لگ جائیں گے ،نقصانات بڑھ جائیں گے اورپریشانیوں میں شدت آجائےگی۔"

"الافصاح" کے مصنف نے لکھاہے:"علماء کااتفاق ہے کہ لوٹ مار اورغصب کرنے والوں کاجرم بڑاہونے کے باوجود ان کاہاتھ نہیں کاٹا جاتا۔"ان لوگوں کو ظلم وزیادتی سے روکنے کےلیے وہ مارے جائیں ،لمبی قید یا عبرت ناک سزا دی جائے۔

2۔ہاتھ کاٹنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ چوری کردہ مال حرمت والا اور جائز ہو۔اگر وہ جائز مال نہیں تو قابل ِ حرمت نہیں،اس میں ہاتھ کے کاٹنے کا حکم بھی نہیں،مثلاً:لہوولعب کے آلات ،شراب ،خنزیر اور مردار وغیرہ۔اگر وہ جائز مال ہے لیکن قابل حرمت نہیں تو اس میں بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم نہیں،مثلاً:حربی کافر کامال ،ایسے شخص کے مال پر قبضہ کرنا بلکہ اسے قتل کردینا بھی جائز ہے۔

3۔چوری کردہ مال مقررہ نصاب کے برابر ہوجو اسلامی تین درہم یا اسلامی دینار کاچوتھا حصہ ہے یااس کی قیمت کے برابر موجودہ کرنسی ہو یاچوری کردہ ایسا سامان چیز ہوجس کی قیمت مذکورہ نصاب کے برابر ہوکیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"لا تقطع اليد إلا في ربع دينار فما فوقه"

"دینار کے چوتھے حصے سے کم چوری میں کسی کاہاتھ نہ کاٹا جائے۔"[25]

واضح رہے اس وقت(عہد نبوی میں) دینار کی چوتھائی  تین درہم کے برابرتھی۔

(3)۔ چور کاہاتھ کاٹنے کے لیے درج بالا نصاب مقرر کرنے میں یہ حکمت ہے کہ مال کی یہ مقدار ایک دن گزارنے کے لیے درمیانے درجے کی معیشت والے شخص اور جن افراد کانان ونفقہ اس کے ذمے ہے ان کی کفالت کے لیے یہ رقم ایک وقت کے لیے کفایت کرجاتی ہے۔

(4)۔ذراغور کریں! جس ہاتھ کی قیمت پانچ سودینارتھی وہ ہاتھ دینار کے چوتھے حصے کے بدلے میں کاٹ دیا گیا۔اس کیوجہ یہ ہے کہ جب وہ امین تھاتو قیمتی تھا، جب وہ خیانت کا مرتکب ہوا تو بےوقعت ہوگیا۔یہی وجہ ہے کہ بعض  ملحد لوگوں،جیسے معری وغیرہ نے چور کی سزا پر اعتراض کرتے ہوئے کہاہے:

يدٌ بِخَمْسِ مِئِين عَسجد فُديت
ما بالها قُطّعت في ربع دينارِ

"جس ہاتھ کی قیمت(بصورت دیت) پانچ سو دینار تھی تعجب ہے کہ وہ دینار کے چوتھے حصے کے عوض کاٹ دیا گیا۔

بعض علماء نے اس اعتراض کا یوں جواب دیا ہے:

عز الأمانة أغلاها وأرخصها
ذل الخيانة فأفهم حكمة الباري

"نادان! باری تعالیٰ کی حکمت کو سمجھ! دیانتداری کی عزت نے اسے نہایت قیمتی بنایا تھا لیکن خیانت کی رسوائی نے اسے سستا اور بے وقعت کردیا۔"

4۔جس چوری کے نتیجے میں ہاتھ کاٹا جائے گا اس کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ چوری کردہ مال محفوظ جگہ سے اٹھایا گیا ہو مثلاً:چوری کردہ شے کسی گھر میں ،دوکان میں یا کسی محفوظ عمارت کے بند دروازوں کے پیچھے یاتالا لگے ہوئے کمرے کے اندر ہو۔یاد رہے شے کے محفوظ کرنےکے طریقے مختلف علاقوں کے اعتبار سےمختلف ہیں۔اگرمال ایسی جگہ سے اٹھایا گیا جوچار دیواری میں یا کسی محفوظ جگہ میں پڑا ہوا نہ تھا تو اس کی وجہ سےہاتھ نہیں کاٹا جائےگا۔

5۔اگر کسی کاخیال ہو کہ فلاں مال میں اس کا استحقاق ہے،پھر اسی شبے میں وہ مال اٹھا لے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"ادْرَءُوا الْحُدُودَ عَنْ الْمُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ"

"جہاں تک ہوسکے مسلمانوں پر شبہات کی بنا پر حدود نافذ نہ کرو۔"[26]

لہذا اگر بیٹا باپ کے مال سے کچھ چرا لے یاباپ بیٹے کے مال سے کچھ حصہ خفیہ طور پر لے لےتو کسی کاہاتھ کاٹا نہیں جائے گا کیونکہ ہر ایک کے مال میں دوسرے کا  حق موجود ہےیہ شبہ حد کوزائل کردیتاہے۔اسی طرح اگر کسی شخص کادوسرے کےمال میں کوئی حق ہے تو اس مال کو بلااجازت اٹھالینے سے چور قرار نہیں پائےگا اور اس کاہاتھ نہ کاٹاجائےگا لیکن یہ فعل ناجائز ضرور ہے جس کی وجہ سے وہ تعزیر کے لائق ہے اور اس سے مال واپس لیا جائےگا۔

6۔مذکورہ بالاشرائط کے ساتھ ساتھ چوری کے ثبوت کےلیے دو معتبر آدمیوں کی شہادت کا ہونا بھی ضروری ہے جو چوری کی کیفیت اور چوری کردہ مال کی صورت حال اچھی طرح واضح کریں کہ واقعے کی سچائی میں کوئی شک وشبہ باقی نہ رہے یا پھر مجرم خود ہی چوری کادو مرتبہ اقرار واعتراف کرلے،چنانچہ سنن ابوداودمیں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں ایک چور کو پیش کیاگیا جس نےچوری کاایک مرتبہ اعتراف کیا جبکہ چوری شدہ مال اس کےپاس نہ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"مَا إِخَالُكَ سَرَقْتَ ؟ قَالَ بَلَى. فَأَعَادَ عَلَيْهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا فَأَمَرَ بِهِ فَقُطِعَ " 

"میرا خیال ہے کہ تم نے چوری نہیں کی ہوگی۔اس نے کہا:کیوں نہیں!(مجھ سے یہ کام یقیناً سرزد ہوا ہے۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دو یاتین مرتبہ اپنی اسی بات کو دہرایا تو بالآخر آپ نے حکم دیا اور اس کا ہاتھ کاٹ دیاگیا۔"[27]

مجرم کاہاتھ کاٹنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس کا اعتراف صاف اورواضح الفاظ میں ہو،حتیٰ کہ اس میں کوئی شک وشبہ اور احتمال باقی نہ رہے۔ممکن ہے اس نے جس صورت میں مال اٹھایا ہو اس کے بارے میں وہ سمجھتا ہو کہ اس سے اس کاہاتھ کاٹنا لازمی ہے اور وہ ہاتھ کاٹنے والی صورت نہ ہو،نیز حاکم کو مذکورہ شرائط کی موجودگی یاعدم موجودگی کا علم بھی ہونا چاہیے۔

جس شخص کا مال چوری ہو اس پر لازم ہے کہ معلوم ہونے کے بعد چور سے اپنےمال کی واپسی کا مطالبہ کرے۔اگر وہ ایسا نہ کرے گا توچور کا ہاتھ کاٹنا لازمی نہ ہوگا کیونکہ وہ مالک کےمباح کردینے سے ملزم پر مباح ہوجائے گا۔جب اس سے مطالبہ ہی نہ ہوگا تو احتمال ہوگا کہ اس نے چور کووہ مال لے لینے کی اجازت دے دی ہے اور یہ شبہ حد کے نفاذ سے مانع ہے۔

(5)۔جب مذکورہ شرائط اور تقاضے مکمل ہوجائیں تو مجرم کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے  گا کیونکہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی قراءت میں ہے:

"فَاقْطَعُوا أَيْمَانهمَا"

دونوں(مرد یا عورت) کے دائیں ہاتھ کاٹو۔"[28]

دایاں ہاتھ کلائی کے جوڑ سے کاٹا جائے گا کیونکہ یہی حصہ چوری کے لیے آلہ ثابت ہواتھا،لہذا اس کی سزا یہی ہے کہ اسے ختم کردیا جائے۔کلائی کےجوڑے سے کاٹنے پر اکتفا اس لیے کیا گیا ہے کہ کلمہ"ید" کو جب مطلق طور پر استعمال کیا جائے تو ہاتھ اسی حد تک مراد ہوتا ہے۔ہاتھ کاٹنے کے بعد زخم کامناسب علاج کیا جائے گا تاکہ خون بند ہوجائے۔ایسا نہ ہوکہ اس کے سبب موت واقع ہوجائے۔

ڈاکہ زنی کی حد کا بیان

اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی زمین پر مسلمان اپنے باہمی مصالح اور منافع کے تبادلے،اموال میں اضافے،ایک دوسرے سے صلہ رحمی ،نیکی اور تقوے میں مل کر تعاون کرنے کے لیے امن وسکون سے چلیں پھریں،بالخصوص حج کے سفر میں ایک دوسرے کی مصلحتوں کا خیال رکھیں۔محبت وپیار سے رہیں تاکہ حج اورعمرے جیسی اہم عبادات کو بہتر انداز سے ادا کرسکیں۔

جوشخص مسلمانوں کی زندگی میں مشکلیں پیدا کرتا ہے ،ان کی راہیں مسدود کرتا ہے،سفروں میں خوف وہراس  پھیلاتا ہے تو ایسے شخص کو روکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے سخت سزا(حد) مقرر کی ہے،چنانچہ ارشاد ہے:

﴿إِنَّما جَز‌ٰؤُا۟ الَّذينَ يُحارِبونَ اللَّهَ وَرَسولَهُ وَيَسعَونَ فِى الأَرضِ فَسادًا أَن يُقَتَّلوا أَو يُصَلَّبوا أَو تُقَطَّعَ أَيديهِم وَأَرجُلُهُم مِن خِلـٰفٍ أَو يُنفَوا مِنَ الأَرضِ ذ‌ٰلِكَ لَهُم خِزىٌ فِى الدُّنيا وَلَهُم فِى الءاخِرَةِ عَذابٌ عَظيمٌ ﴿٣٣ إِلَّا الَّذينَ تابوا مِن قَبلِ أَن تَقدِروا عَلَيهِم فَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿٣٤﴾... سورة المائدة

"جو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وه قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاوں کاٹ دیئے جائیں، یا انہیں جلاوطن کر دیا جائے، یہ تو ہوئی ان کی دنیوی ذلت اور خواری، اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے (33) ہاں جو لوگ اس سے پہلے توبہ کر لیں کہ تم ان پر قابو پالو تو یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ بہت بڑی بخشش اور رحم و کر م والاہے"[29]

(1)۔آیت میں مذکور محاربین سے مراد وہ لوگ ہیں جو زمین میں فساد وبگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔راستوں میں ناکے لگاکر لوگوں کولوٹتے ہیں۔صحراؤں یاشہروں میں لوگوں کے آڑے آتے ہیں۔چوری نہیں بلکہ علی الاعلان لوگوں کا مال اٹھاتے اورچھینتے ہیں۔

(2)۔ایسے شخص پر حد تب لگے گی جب بقدر نصاب سرقہ مال چھین لے یا اسے محفوظ جگہ سے ا ٹھالے یا کسی قافلے  میں موجود آدمی سے مال چھین لے،نیز اس کی ڈاکہ زنی اس کے اقرار سے ثابت ہویادو قابل اعتماد آدمیوں کی گواہی مل جائے۔

(3)۔ڈاکہ زنی کرنے والوں کی سزا ان کے جرائم کی نوعیت کے مختلف ہونے کے سبب مختلف ہے:

1۔جس نے ڈاکہ زنی میں قتل کیا اور مال اٹھایا اسے لازماً قتل کیا جائے گا اور صلیب پر سرعام لٹکایا جائےگا تاکہ لوگوں کو عبرت حاصل ہو۔اس سے درگزر قطعاً جائز نہیں۔علامہ ابن منذر  رحمۃ اللہ علیہ   کے قول کے مطابق اس مسئلے پر علماء کا اتفاق ہے۔

2۔جس نے محض قتل کیا  اور مال نہ اٹھایا اسے صرف قتل کیا جائے گا صلیب پر لٹکانے کی ضرورت نہیں۔

3۔جس نے صرف مال اٹھایا لیکن مال کے مالک کو قتل نہیں کیا اس کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کا ٹا جائے گا اور پھر اس کا خون بند کرنے کے لیے مرہم پٹی کرکے اسے چھوڑ دیا جائے گا۔

4۔جس نے صرف راستے  میں خوف وہراس پیدا کیا،اس نے قتل کیا نہ کسی کا مال چھینا،اسے علاقہ بدر کیا جائےگا اور اسے کسی جگہ دیر تک ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

الغرض جرائم کے مختلف ہونے سے سزائیں بھی مختلف ہو جایا کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿إِنَّما جَز‌ٰؤُا۟ الَّذينَ يُحارِبونَ اللَّهَ وَرَسولَهُ وَيَسعَونَ فِى الأَرضِ فَسادًا أَن يُقَتَّلوا أَو يُصَلَّبوا أَو تُقَطَّعَ أَيديهِم وَأَرجُلُهُم مِن خِلـٰفٍ أَو يُنفَوا مِنَ الأَرضِ ...﴿٣٣... سورة المائدة

"ان کی سزا جو اللہ سے اور اس کےرسول سے لڑیں اورزمین میں فساد کرتے پھریں یہی ہے کہ وہ قتل کردیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یامخالف جانب سے ان  کےہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں یا جلاوطن کردیا جائے۔"[30]

سلف صالحین کی اکثریت کی یہ رائے ہے کہ یہ آیت ڈاکہ زنی کرنے والوں کے بارے  میں نازل ہوئی ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   فرماتے ہیں:" ڈاکو جب قتل کریں اور مال لوٹ لیں تو قتل کیا جائے گا اور سولی چڑھایا جائےگا،اگر صرف قتل کریں مال نہ لوٹیں تو قتل کیا جائے مگر سولی نہ دیاجائے۔جب وہ مال چھین لیں اور قتل نہ کریں تو ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمت میں کاٹ دیے جائیں۔اوراگر  صرف خوف وہراس پیدا کریں،مال وغیرہ نہ لوٹیں تو علاقہ بدر کیا جائے گا۔"[31]

(4)۔اگرڈاکہ زنی کرنے والوں میں سے بعض نے قتل کیا تو سب کو قتل کیا جائے گا۔اگر کچھ افراد نے قتل کیا اور کچھ نے مال چھین لیا تو بھی سب کو قتل کیا جائے گا اور سولی پر لٹکایا جائے گا۔

(5)۔اگر ڈاکو گرفتار ہونے سے قبل ہی توبہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے جو سزا مقرر ہے وہ معاف ہوجائے گی(یعنی علاقہ بدرکرنا یا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کا کاٹنا یا سزائے موت جو اس پر واجب تھی)،البتہ بندوں کے حقوق(جان،مال کا نقصان) معاف نہ ہوں گے الا یہ کہ جن کو معاف کرنے کا حق ہے وہ معاف کردیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿إِلَّا الَّذينَ تابوا مِن قَبلِ أَن تَقدِروا عَلَيهِم فَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿٣٤﴾... سورةالمائدة

"ہاں! جو لوگ اس سے پہلے توبہ کرلیں کہ تم ان پر قابو پالو تو یقین مانو کہ بے شک اللہ بہت بڑی بخشش اور رحم کرنے والا ہے۔"[32]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:" اہل علم کا اتفاق ہے کہ ڈاکو،چوروغیرہ کا معاملہ جب قاضی کے پاس پہنچ جائے  پھر اس کے بعد وہ توبہ کرلیں تو ان پر حد ضرور نافذ ہوگی،ساقط نہ ہوگی۔اگروہ توبہ کرنے میں سچے اور مخلص ہوں گے تو سزا ان کے لیے کفارہ ہوگی۔[33]

ان کی توبہ صرف  اس وقت تسلیم ہوگی جب وہ گرفتار ہونے سے پہلے پہلے توبہ کرلیں کیونکہ قرآن مجید میں یہی حکم ہے تاکہ حدود الٰہی کامعطل ہونا لازم نہ آئے کیونکہ اگر توبہ کرنے سے سزا معاف ہوجائے تو ہرمجرم سزا سے بچنے کے لیے توبہ کے الفاظ کہہ کرجان چھڑاسکتا ہے۔

(6)۔جس شخص کی ذات پر قاتلانہ حملہ ہوا یا اس کی حرمت ماں،بیٹی،بہن یا بیوی پر ہتک عزت کے لیے حملہ ہوا یا کسی نے اس کے مال  پر قبضہ کرنے کے لیے یا اسے تلف کرنے کے لیے اقدام کیا تو مظلوم کو دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔حملہ آور آدمی ہو یا کوئی چوپایہ،البتہ وہ دفاع اس انداز سے کرے جو اس کے غالب گمان کے مطابق کم سے کم نقصان کا باعث ہو۔اگرمظلوم شخص کو دفاع کرنے کا حق نہ دیا جائے تو اس سے اس کی جان ،حرمت یا مال کے ضائع ہونے کاخطرہ ہے۔اگر اس کی اجازت نہ ہوتو ظالم لوگ دوسروں پرمسلط ہوجائیں گے۔اگر حملہ آور کودفاع میں قتل کرنا ناگزیر ہوتواس کو قتل کرنا بھی درست ہے،اس میں کوئی ضمان نہ ہوگا کیونکہ اس نے شر سے بچنے کے لیے مجبوراً ایسا قدم اٹھایاہے۔اگرکوئی اپنا دفاع کرتے ہوئے قتل ہوگیا تو وہ شہید ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"مَنْ أُرِيدَ مَالُهُ بِغَيْرِ حَقٍّ فَقَاتَلَ فَقُتِلَ فَهُوَ شَهِيدٌ"

"جس شخص کامال ناحق لینے کی کوشش کی گئی تو وہ دفاع کرتے ہوئے لڑا جس سے وہ مارا گیا تو وہ شہید ہے۔"[34]

امام مسلم  رحمۃ اللہ علیہ   نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے روایت کیا ہے کہ:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَرَأَيْتَ إِنْ جَاءَ رَجُلٌ يُرِيدُ أَخْذَ مَالِي ؟ قَالَ : فَلَا تُعْطِهِ مَالَكَ . قَالَ : أَرَأَيْتَ إِنْ قَاتَلَنِي ؟ قَالَ : قَاتِلْهُ ؟ قَالَ : أَرَأَيْتَ إِنْ قَتَلَنِي ؟ قَالَ : فَأَنْتَ شَهِيدٌ . قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ قَتَلْتُهُ ؟ قَالَ هُوَ فِي النَّارِ "

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !بتائیے!اگر کوئی شخص میرا مال(ناحق) لینا چاہے تو؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:اسے مت دو۔اس نے کہا:اگر وہ مجھ سے لڑے تو؟آپ نے فرمایا:تو بھی اس سے لڑائی کر۔اس نے کہا:اگر وہ مجھے قتل کردے تو؟آپ نےفرمایا:تو شہید ہوگا ۔اس نے کہا:اگر میں اسے قتل کردوتو؟آپ نے فرمایا:وہ جہنم میں جائے گا۔"[35]

یاد رہے ا پنی ذات یا عزت کا دفاع تب لازم ہے جب یہ دفاع کسی بڑی خرابی کاموجب نہ بنے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿وَلا تُلقوا بِأَيديكُم إِلَى التَّهلُكَةِ ...﴿١٩٥﴾... سورة البقرة

"اوراپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔"[36]

اگر کسی مسلمان شخص کی ذات یا اس کی عزت پرحملہ ہوتواس کی طرف سے دفاع کرنا یادفاع میں تعاون کرنا لازم ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاارشاد ہے:

"انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا"

"اپنے بھائی کی مدد کرو وہ ظالم ہو یا مظلوم۔"[37]

واضح رہے ظالم کے ساتھ تعاون اس کو ظلم سے روکنا ہے۔

(7)۔جب کوئی چور کسی کے گھر داخل ہوجائے تو وہ بھی حملہ آور کے حکم میں ہے جس کا مناسب اور کم نقصان دہ طریقے سے دفاع کیا جانا چاہیے۔

(8)۔جو شخص دروازے کے سوراخ سے یا کھڑکی سے یا اپنی چھت پر چڑھ کر کسی کے گھر میں دیکھے تو اسے روکا جائے۔اگر اس نے دیکھنے والے کی آنکھ کوئی چیز مار کر  پھوڑدی تو اس پر ضمان وتاوان نہ ہوگا کیونکہ حدیث میں ہے:

"من اطَّلعَ في بيتِ قومٍ بغيرِ أذنِهم ففقأوا عينَه ، فلا ديةَ له ، ولا قصاصَ"

"جس نے کسی غیر کے گھر میں ان کی اجازت کے بغیر جھانک کردیکھا،اگر انھوں نے اس کی آنکھ پھوڑدی تواس کے لیے نہ دیت ہے اور نہ قصاص۔"[38]

یہ مذکورہ شرعی احکام مسلمان کی ذات ،اس کے مال کی حرمت اور اللہ کے نزدیک اس کی عزت وکرامت کے سبب ہیں۔یہ اسلام کاعدل وانصاف ہے جس میں معاشرے کی حفاظت اور اس کی مصلحتوں کی حفاظت مقصود ہے تاکہ شہر آباد رہیں،بندوں کے لیے امن وسکون قائم رہے اور دن ہو یا رات لوگ امن وآشتی سے زمین پر چلیں پھریں۔

انسانیت کی اصلاح اس حکیمانہ شریعت کے نفاذ ہی سے ممکن ہے کیونکہ انسان کے خود ساختہ تمام قوانین اور مادی طاقتیں مطلوبہ امن کے حصول میں بالکل ناکام ہوچکی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:

﴿أَفَحُكمَ الجـٰهِلِيَّةِ يَبغونَ وَمَن أَحسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكمًا لِقَومٍ يوقِنونَ ﴿٥٠﴾... سورة المائدة

"کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں،یقین رکھنےوالے لوگوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہوسکتاہے؟"[39]


[1]۔المائدۃ 5/90۔91۔

[2]۔صحیح البخاری المغازی باب بعث ابی موسیٰ ومعاذ الی الیمن۔۔۔حدیث 4344،6124 وصحیح مسلم الاشربۃ باب بیان ان کل مسکر خمر وان کل خمر حرام،حدیث (75) 2003 واللفظ لہ۔

[3]۔صحیح البخاری الوضوء باب لا یجوز الوضوء بالنبیذ ولا المسکر حدیث 242 وصحیح مسلم الاشربۃ باب بیان ان کل مسکر خمر وان کل خمر حرام حدیث 2001۔

[4]۔سنن ابی داود الاشربۃ باب ماجاء فی السکر حدیث 3581۔

[5]۔صحیح البخاری التفسیر باب قولہ "إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ" (المائدۃ 5/90) حدیث 4619۔

[6]۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ 34/198۔ بتصرف۔

[7]۔صحیح مسلم الاشربۃ باب تحریم التداوی بالخمر وبیان انھالیست بدواء حدیث 1984۔

[8]۔صحیح البخاری الاشربۃ باب شراب الحلواء والعسل بعد حدیث 5613 معلقاً جبکہ حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ   نے اسےموصولاً ذکر کیا ہے۔دیکھئے تغلیق التعلیق 5/29۔

[9]۔(ضعیف) سنن ابی داود الحدود باب اذا  تتابع فی شرب الخمر:4485۔

[10]۔صحیح مسلم الحدود باب حد الخمر حدیث 1706 وسن ابی داود الحدود باب فی حدالخمر حدیث 4479۔

[11]۔اعلام الموقعین 1/161۔

[12]۔مجموع الفتاوی 28/336 بتغیر۔

[13]۔المائدۃ 5/91۔

[14]۔مسند احمد 2/71 والمستدرک  للحاکم 4/144۔145۔حدیث 7228 واللفظ لہ۔

[15]۔الفتح 9/48۔

[16]۔دیکھئے سنن ابی داود الحدود باب فی الرجل یزنی بجاریۃ امراتہ حدیث 4451 وجامع الترمذی الحدود باب ماجاء فی الرجل یقع علی جاریۃ امراتہ حدیث 1451۔

[17]۔مجموع الفتاویٰ 28/108۔

[18]۔الفتاویٰ الکبریٰ الاختیارات العلمیۃ الحدود 5/530۔

[19]۔الفتاویٰ الکبریٰ الاختیارات العلمیۃ الحدود 5/530۔

[20]۔صحیح البخاری الحدود باب کم التعزیر والادب؟حدیث 6848۔6850 وصحیح مسلم الحدود باب قدر اسواط التعزیر حدیث 1708 واللفظ لہ۔

[21]۔ اعلام الموقعین 4/349۔350 بتصرف۔

[22]۔الفتاویٰ الکبریٰ الاختیارات العلمیۃ الحدود 5/534۔

[23]۔المائدۃ:5/38۔

[24]۔صحیح البخاری الحدود باب قول اللہ تعالیٰ(وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا) (المائدۃ 5/38) حدیث 6789،6790۔

[25]۔صحیح مسلم الحدود باب حد السرقۃ ونصابھا حدیث 1684۔

[26]۔(ضعیف) جامع الترمذی الحدود باب ماجاء فی درء الحدود حدیث 1424 وسنن ابن ماجہ الحدود باب الستر علی المؤمن ودفع الحدود بالشبھات حدیث 2545۔

[27]۔ (ضعیف) سنن ابی داود الحدود باب فی التلقین فی الحد حدیث 4380۔

[28]۔تفسیر الطبری المائدۃ 5/38۔رقم 9308۔

[29]۔المائدۃ 5/33۔34۔

[30]۔المائدۃ 5/33۔

[31]۔کتاب الام للامام الشافعی 8/80۔

[32]۔المائدۃ:5/34۔

[33]۔مجموع الفتاویٰ 28/300۔

[34]۔سنن ابی داود السنۃ باب فی قتال اللصوص حدیث 4771۔

[35]۔صحیح مسلم الایمان باب الدلیل علی من قصد اخذ مال غیرہ بغیر حق حدیث 140۔

[36]۔البقرۃ:2/195۔

[37]۔صحیح البخاری المظالم باب اعن اخاک ظالما او مظلوما حدیث 2443۔

[38]۔سنن النسائی القسامۃ باب من اقتص واخذ حقہ دون السلطان حدیث 4864۔

[39]۔المائدۃ 5/50۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

حدود و تعزیرات کے مسائل:جلد 02: صفحہ430

تبصرے