سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(15) اختلاف دین کی بنا پر وراثت

  • 23737
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1905

سوال

(15) اختلاف دین کی بنا پر وراثت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اختلاف دین کی بنا پر وراثت


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اختلاف دین کا مطلب ہے کہ مورث اور وارث دونوں الگ الگ دین وملت کے متبع ہوں۔ اس بارے میں دو مسئلے نہایت اہم ہیں۔

1۔کافر کو مسلمان کا اور مسلمان کو کافر کا وارث بنانا۔ اس مسئلے میں علماء کے مختلف چار اقوال ہیں۔

مسلمان اور کافر دونوں ایک دوسرے کے مطلقاً وارث نہیں ہیں۔ یہ قول اکثر اہل علم  کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

" لا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَلا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ "

"مسلمان کافر شخص کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں۔"[1]

مسلمان اور کافر ایک دوسرے کے وارث نہیں مگر "ولاء "کی صورت میں وارث ہوں گے یعنی آزاد کرنے والے کو آزاد کردہ کی ولاء(مال ترکہ)ملے گی اگرچہ ایک فریق  کافر ہی کیوں نہ ہو۔حدیث شریف میں ہے۔

"لا يرث المسلم النصراني؛ إلا أن يكون عبده أو أمته"

"مسلمان نصرانی کا وارث نہ ہو گا الایہ کہ وہ (آزاد کردہ )اس کا غلام یا لونڈی ہو۔[2]اس حدیث شریف سے واضح ہوا کہ "ولاء" کی صورت میں معتق اپنے آزاد کردہ کا وارث ہوگا چاہے دونوں کا دین الگ الگ ہو۔

اگر کوئی کافر رشتے دار کسی مسلمان کی موت کے بعد اور اس کے ترکہ کی تقسیم سے پہلے پہلے مسلمان ہو گیا تو وہ وارث ہوگا چنانچہ حدیث میں ہے۔

"كُلُّ قَسْمٍ قُسِمَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَهُوَ عَلَى مَا قُسِمَ لَهُ وَكُلُّ قَسْمٍ أَدْرَكَهُ الإِسْلاَمُ فَهُوَ عَلَى قَسْمِ الإِسْلاَمِ "

"جو تقسیم جاہلیت میں ہوگی اسے قائم رکھا جائے گا اور جو تقسیم زمانہ اسلام میں ہوگی وہ اسلام کے قوانین کے مطابق ہو گی۔"[3]

  "مسلمان کافر  کاوارث ہوگا لیکن  کافر مسلمان کا وارث نہیں ہو گا۔کیونکہ حدیث میں ہے:

"الإسلام يزيد ولا ينقص"

"اسلام بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا۔"[4]

لہٰذا اگر مسلمان کو کافر کا ترکہ ملے تو فائدہ ہے اور حدیث کا تقاضا پورا ہوتا ہے جبکہ حصہ نہ ملنے میں نقصان ہے۔

ان مذکورہ اقوال میں سے پہلا قول راجح ہے کیونکہ دوسرے اقوال کی نسبت اس کی دلیل صحیح اور صریح ہے۔[5]

2۔کافر شخص کو کافر کا وارث بنانا:اس مسئلے کی دو حالتیں ہیں۔

مورث اور وارث ایک ہی مذہب پر ہوں مثلاً: دونوں یہودی ہوں یا دونوں عیسائی ہوں۔اس حالت میں وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اس میں علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔

مورث اور وارث دونوں کا مختلف مذہب ہو۔ مثلاً: ایک یہودی ہو اور دوسرا عیسائی یا اس کے برعکس یا ایک مجوسی ہو دوسرا بت پرست یا اس کے برکس صورت ہو۔ اس حالت میں حق میراث کے متعلق علماء میں اختلاف ہے۔ اس اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ کفر کو ایک ہی مذہب قرار دیا جائے یا مختلف مذاہب کو الگ الگ حیثیت دی جائے ۔ اس بارے میں اقوال آئمہ درج ذیل ہیں۔

1۔ کفر ایک ہی ملت ہے وہ یہودیت ہو یا نصرانیت یا مجوسیت  یا بت پرستی لہٰذا وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے بشرطیکہ وہ ایک ہی ملک میں رہتے ہوں۔[6] کیونکہ اس کے بارے میں وارد نصوص شرعیہ میں عموم ہے جن کی تخصیص بلا مخصص جائز نہیں الایہ کہ جسے شارع نے خود ہی مستثنیٰ کر دیا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

﴿وَالَّذينَ كَفَروا بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ ...﴿٧٣﴾... سورةالانفال

"کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔[7]

احناف اور شوافع کا یہی قول ہے۔ حنابلہ سے بھی ایک روایت اسی قول کے مطابق منقول ہے۔

2۔ کفر کی تین مختلف ملتیں ہیں۔یہودیت نصرانیت اور باقی دوسرے کفریہ  مذاہب تیسری ملت ہیں کیونکہ پہلی دو قسمیں اہل کتاب کی ہیں جبکہ تیسری قسم کے پاس کوئی کتاب  الٰہی نہیں لہٰذا یہودی نصرانی کا یا ان میں سے کوئی ایک کسی مجوسی یا بت پرست کا وارث نہ ہو گا۔

3۔کفر کی متعدد ملتیں ہیں۔ ایک ملت والا دوسری ملت والے کا وارث نہ ہو گا۔ اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمان ہے:

" لَا يَتَوَارَثُ أَهْلُ مِلَّتَيْنِ شَتَّى "

"دو مختلف ملتوں والے باہم وارث نہ ہوں گے۔"[8]

آخری قول راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس قول کی تائید میں پیش کردہ روایت محل نزاع میں نص صریح ہے نیز مختلف مذاہب والے آپس میں ایک دوسرے کے ایسے مخالف اور دشمن ہیں جیسا کہ مسلمان اور کافر لہٰذا جس طرح مسلمانوں اور کفار کے درمیان اختلاف دین حق میراث سے مانع ہے اسی طرح کفر کی دیگر ملتوں کے افراد میں بھی اختلاف دین مانع ہے۔

جن حضرات کی یہ رائے ہے کہ کفر ایک ہی ملت ہے تو ان حضرات کی رائے یہ بھی ہے کہ اختلاف دار کفار کے مابین حق میراث کی ادائیگی میں رکاوٹ ہے کیونکہ اختلاف دار کی وجہ سے وہ باہم ایک دوسرے کی مدداور تعاون نہیں کرتے۔ ہم کہیں گے کہ یہی سب اختلاف دین میں بھی موجود ہے لہٰذا ہمیں درست بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ نصرانی کسی یہودی یا مجوسی کسی بت پرست کا وارث نہ ہوگا ۔ اسی طرح بت پرست یہودی کا ترکہ نہ لے گا بلکہ نصاری کی نصاری میں اور یہودی کی یہود میں میراث تقسیم ہوگی اسی طرح باقی ملل کفر یہ کے لوگ باہم وارث ہوں گے۔

قاتل کی میراث کا حکم

کبھی ایک شخص میں مال میراث لینے کا سبب موجود ہوتا ہے لیکن وہ کسی مانع کی وجہ سے حق میراث سے محروم ہو جاتا ہے۔ موانع میراث متعدد ہیں ان میں سے ایک مانع قتل ہے یعنی اگر کوئی وارث اپنے مورث کو قتل کر دے گا تو قاتل کو اس کی میراث میں سے کچھ نہ ملے گا کیونکہ فرمان نبوی ہے۔

"لَيْسَ لِقَاتِلٍ مِيرَاثٌ "

"قاتل کے لیے میراث میں سے کچھ نہیں ۔"[9]

ایک اور روایت میں یوں ہے:

"لا يرث القاتل شيئا "

"قاتل (مقتول کی) کسی شے کا وارث نہ ہوگا۔"[10]

اس میں حکمت یہ ہے کہ شریعت نے اس حکم کے ذریعے سے ایک خطرناک دروازہ بند کیا ہے اور وہ یہ کہ کبھی دنیوی مال کی محبت وارث کو آمادہ کرتی ہے کہ اپنے مورث کا مال جلدی حاصل کرنے کی خاطر اسے قتل کر دے ایسی صورت میں شریعت نے اسے محروم قراردیا۔علاوہ ازیں قاعدہ مشہور ہے کہ جو شخص کسی چیز کو اس کے (مشروع) وقت سے پہلے (ناجائز طور پر) حاصل کرنے کی کوشش کرے اس کی سزا یہ ہے کہ اسے اسی سے محروم کر دیا جائے۔

قاتل کو میراث سے محروم رکھنے پر اہل علم کا اجماع ہے البتہ ان میں اختلاف یہ ہے کہ قتل کی وہ کون سی نوعیت اور صورت ہے جو مانع ہے اور کون سی مانع نہیں ہے۔

مذہب شافعی یہ ہے کہ قتل کی جو بھی نوعیت ہو بہر حال قاتل وارث نہ ہو گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان عام ہے۔

"لا يرث القاتل شيئا "

"قاتل کسی شے کا وارث نہ ہوگا۔"[11]

علاوہ ازیں قتل میراث سے اس لیے محروم کر دیتا ہے کہ مورث کے مال کو جلدی حاصل کرنے کے لیے قتل کو ذریعہ نہ بنایا جائے۔ چنانچہ قاتل کو ہر حال میں میراث سے محروم رکھنا واجب ہے تاکہ قتل کا دروازہ بندکیا جائے۔ لہٰذا اس امر کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر قسم کا قتل مانع میراث قرارپائے اگرچہ وہ قتل جائز ہی کیوں نہ ہو۔ مثلاً: کسی کو قصاص میں قتل کرنا یا قاضی کے فیصلے یا گواہ کی گواہی کے نتیجے میں کسی کا قتل ہونا۔ اسی طرح وہ قتل جس میں قصد وارادہ شامل نہ ہو۔ مثلاً: نیند کی حالت میں کسی کو قتل کرنا بچے یا مجنون کا کسی کو قتل کر دینا یا کسی کا کسی ایسے امر کے نتیجے میں قتل ہو جانا جس میں شرعاً اجازت ہو۔ مثلاً:کسی کو ادب و تمیز سکھانے کے خاطرسزادی یا کسی مریض کا علاج کیا جس کے نتیجے میں وہ مر گیا وغیرہ۔

مذہب حنابلہ یہ ہے کہ حق میراث سے مانع وہ قتل ہے جو ناحق ہو یعنی جس قتل سے قصاص یا دیت و کفار ہ لازم آئے۔ مثلاً: قتل عمدہ شبہ عمد یا قتل خطایا جو قتل ان صورتوں کے مشابہ ہو۔ مثلاً: قتل بچے ، مجنون یا سوئے ہوئے شخص کے ہاتھوں قتل ہو جانا ۔ اور جو قتل ایسا نہیں وہ مانع بھی نہیں ہو گا مثلاً: قصاص کے طور پر یا حد لگا کر کسی کو قتل کیا جائے یا کوئی اپنا دفاع کرتے ہوئے کسی کو قتل کر دے یا قاتل عادل ہو اور مقتول باغی یا کسی تادیب یا علاج کے دوران میں کوئی مر گیا۔

علمائے احناف کا بھی یہی مسلک ہے البتہ انھوں نے قتل سبب کو مانع میراث قرار نہیں دیا۔ مثلاً: کسی نے کنواں کھودا یا راستے میں پتھر رکھ دیا تو کنویں میں گر کر یا پتھر کی ٹھوکر لگنے سے اس کا مورث قتل ہوا۔

اسی طرح علمائے احناف کے نزدیک وہ قتل مانع ارث نہیں جو بچے اور مجنون سے صادر ہو۔

مالکیہ کے ہاں قتل کی دو حالتیں ہیں۔

1۔ مورث کو عمداً وظلماً قتل کیا گیا۔ اس صورت میں قاتل مورث کے مال اور دیت کا وارث نہ ہوگا۔

2۔ قتل خطا کی صورت میں قاتل اپنے مورث کے مال کا وارث ہوگا البتہ اس کی دیت کا وارث نہ ہو گا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے مقتول کے مال پر قبضہ کرنے کی خاطر جلدی نہیں کی۔ باقی رہی یہ بات کہ وہ دیت میں وارث نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ دیت کی ادائیگی اسی پر لازم تھی۔

ہمارے نزدیک حنابلہ اور احناف کا مسلک درست ہے کیونکہ جس فعل میں قاتل کا قصور ہے اور اس پر ضمان لازم آتا ہے اس میں میں اسے حق میراث سے محروم رکھنا درست ہے البتہ قتل کی جن صورتوں میں ضمان نہیں ان میں قاتل کو  معذور سمجھا جائے گا اور اس کی مسئولیت نہ ہوگی لہٰذا وہ قتل مانع میراث بھی نہ ہو گا۔

اگر شوافع کے قول پر عمل کرتے ہوئے ہر قاتل کو میراث سے محروم قراردیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حدیں نافذ نہیں کی جائیں گی اور حقدار کو حق نہیں ملے گا یعنی جب قصاص لینے والے کو معلوم ہوگا کہ قصاص لینے کہ وجہ سے وہ میراث سے محروم ہو جائے گا تو وہ قصاص نہیں لے گا۔ اس تفصیل کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان ہے۔

"لَيْسَ لِقَاتِلٍ مِيرَاثٌ " کے عموم کو اس صورت کے ساتھ خاص کیا جائے گا جب قتل ناحق ہوگا جس کی وجہ سے اسے قصاص یادیت دینی پڑے اور ضمان لازم آئے۔


[1] ۔صحیح البخاری الفرائض باب ولا یرث المسلم الکافر المسلم حدیث 6764۔وصحیح مسلم الفرائض باب یرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم حدیث1614۔

[2] ۔(ضعیف) سنن الدارقطنی 4/41۔حدیث 4036۔اور فرمایا کہ موقوف محفوظ ہے۔ارواء الغلیل 6/155۔حدیث 1715۔

[3] ۔سنن ابو داود الفرائض باب فیمن مسلم علی میراث حدیث:2014۔اس مسئلے کی تفصیل کے لیے دیکھیے "تفہیم الموارث"(صارم)

[4] ۔(ضعیف) سنن ابو داؤد الفرائض باب ھل یرث المسلم الکافر حدیث 2912۔

[5] ۔قول اول کی طرح قول ثانی بھی قابل عمل ہے کیونکہ اس کا تعلق خاص ترکہ یعنی "ولاء"سے ہے چنانچہ قول ثانی میں پیش کردہ روایت سے جس طرح قول اول کی تائید ہوتی ہے اسی طرح سے قول ثانی کی صحت بھی ثابت ہوتی ہے۔ الغرض روایت لایرث المسلم دونوں اقوال کی مؤید ہے۔(صارم)

[6] ۔یہ شرط محل نظر ہے۔

[7] ۔الانفال:8/73۔

[8]  ۔سنن ابو داؤد الفرائض باب ھل یرث المسلم الکافر ؟حدیث 2911۔ وجامع الترمذی الفرائض باب لا یتوارث اھل الملتین حدیث 2108وسنن ابن ماجہ الفرائض باب میراث اھل الاسلام من اھل الشرک حدیث 2731 ومسند احمد2/178۔195۔

[9] ۔سنن ابن ماجہ الدیات باب القاتل لایرث حدیث:2646۔

[10] ۔سنن ابو داود  الدیات باب دیات الاعضاء حدیث:4564۔

[11] ۔سنن ابو داود  الدیات باب دیات الاعضاء حدیث:4564۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

وراثت کے مسائل:جلد 02: صفحہ 241

تبصرے