سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(13) احتیاط کی بنیاد پر وراثت کی تقسیم

  • 23735
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-03
  • مشاہدات : 2039

سوال

(13) احتیاط کی بنیاد پر وراثت کی تقسیم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

احتیاط کی بنیاد پر وراثت کی تقسیم


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میراث کے بارے میں پچھلے صفحات پر جو مسائل بیان کیے گئے ہیں ان کا تعلق ایسی صورتوں کے ساتھ ہے جن میں مورث(میت) کی موت یقینی اور واضح ہو۔اس طرح مورث کی موت کے وقت وارث کاوجود بھی یقینی ہو۔یہ تمام صورتیں واضح ہیں جن میں کسی قسم کا کوئی تردد اوراشکال نہیں۔

اب ان صورتوں کے احوال ذکر کرنامقصود ہے جن میں مورث کی موت یا مورث کی زندگی غیر یقینی اور غیر واضح ہو،چنانچہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مورث کی موت یاوارث کی زندگی کی صورت حال مشتبہ ہوتی ہے،مثلاً:پیٹ میں حمل کی صورت حال یا پانی میں ڈوبنے والے یا مکان ودیوار کے نیچے دب جانے والے افراد یا مفقود  الخبر شخص کی صورت حال یا کسی وارث کے مرد یا عورت ہونےمیں تردد ہوجائے جیسا کہ خنثی مشکل کہ اس کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل ہو کہ یہ مرد ہے یا عورت،اسی طرح پیٹ میں موجود حمل کا واضح نہ ہونا۔

مذکورہ اشخاص کی صورت حال میں تردد کی  بنا پر میں نے ذیل میں مستقل طور پر چند ابواب ذکر کیے ہیں تاکہ حقیقت حال اچھی طرح واضح ہوجائے۔

خنشٰی مشکل کا بیان

خنثيٰ كا كلمہ "انخناث" سے ماخوذ ہے جس کے معنی نرم ہونے،ٹوٹنے اور مڑجانے کے ہیں۔"خنث فم السقاء" تب کہا جاتاہے جب کوئی مشکیزے کا منہ توڑ کر اس سے پانی پیے۔

علم میراث کی اصطلاح میں خنثیٰ مشکل وہ ہے جس کا جسمانی معاملہ مشتبہ ہو،یعنی اس کا مردانہ عضو مخصوص بھی ہو اورزنانہ بھی یا سرے سے کوئی آلہ تناسل ہی نہ ہو نہ مؤنث والا اورنہ مذکر والا۔

خنثیٰ شخص  بنوة اخوة عمومة اور ولاء کی جہات میں سے کسی جہت سے ہوسکتاہے کیونکہ ہر جہت میں اس کے مذکر یامؤنث ہونے کا امکان ہے،البتہ وہ ابوة(باپ،ماں،دادا اور دادی) کی جہت سے نہیں ہوسکتا۔اگرایسا ہوتواس کا جسمانی معاملہ مشتبہ نہ ہوا،یعنی خنثیٰ مشکل نہ رہا۔نیز یہ بھی ممکن نہیں کہ خنثیٰ مشکل خاوند یا بیوی ہوکیونکہ جب وہ خنثیٰ مشکل ہے تواس کی شادی کرنا درست نہیں۔

(1)۔اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کومرد یا عورت پیدا کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ اتَّقوا رَبَّكُمُ الَّذى خَلَقَكُم مِن نَفسٍ و‌ٰحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنها زَوجَها وَبَثَّ مِنهُما رِجالًا كَثيرًا وَنِساءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذى تَساءَلونَ بِهِ وَالأَرحامَ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلَيكُم رَقيبًا ﴿١﴾... سورة النساء

"اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کرکے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں، اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو بے شک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے"[1]

اور سورۃ شوریٰ میں یوں فرمایا:

﴿لِلَّهِ مُلكُ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضِ يَخلُقُ ما يَشاءُ يَهَبُ لِمَن يَشاءُ إِنـٰثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشاءُ الذُّكورَ ﴿٤٩﴾... سورة الشورىٰ

"آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، وه جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے"[2]

پھر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میں سے ہر ایک کا حکم بیان فرمادیا لیکن ایسے کسی شخص کا حکم بیان نہیں کیا جو مرد بھی ہو اور عورت بھی۔تو یہ بات اس فیصلے کے حق میں دلیل ہے کہ یہ دونوں وصف(زنانہ ومردانہ) ایک ہی شخص میں جمع نہیں ہوسکتے اور یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دونوں صنفوں میں امتیاز کی ایسی علامات اورخصوصیات رکھی ہیں جن کی وجہ سے دونوں صنفوں میں واضح فرق نظر آتاہے؟لیکن اس کے باوجود کبھی اشتباہ اس لیے پیدا ہوجاتا ہے کہ اس کے جسم میں دونوں قسم کے آلے(مردانہ وزنانہ) موجود ہوتے ہیں۔

(2)۔اہل علم کااجماع ہے کہ خنثیٰ اپنی غالب علامات کی وجہ سے مذکر یا مؤنث کی جنس سے ملحق ہوگا۔مثلاً:اہل علم کی یہ رائے ہے کہ خنثیٰ مشکل کو وارث بنانے میں فیصلہ کن صورت اس کے پیشاب کرنے کی کیفیت ہے۔اگر وہ مرد کے مقام سے پیشاب کرتاہے تو اسے مرد شمار کیا جائے گا اور اگر عورت کےمقام سے پیشاب کرتا ہے تو اسے عورت سمجھا جائے گا کیونکہ عموماً یہی کیفیت ایک جنس کو دوسری سے ممتاز کرتی ہے۔[3]اورجس آلے سے اس کا پیشاب خارج نہیں ہوتا وہ ایک عیب ہے اور زائد عضو ہے۔اگر پیشاب دونوں راستوں سے آیا تو جس راستے سے زیادہ نکلا وہ معتبر ہوگا۔اگر ابتداء  میں ایک آلے سے پیشاب کرتا رہا،پھر دونوں  سے شروع ہوگیا تو پہلی کیفیت کا اعتبار ہوگا۔اگر پیشاب دونوں راستوں سے برابر نکلتاہے وقت اور مقدار میں بھی یکساں ہے تو اس کے بالغ ہونے تک دیگر علامات کے ظہور کا انتظار کیاجائے گا۔تب تک وہ خنثیٰ مشکل ہی متصور ہوگا۔

بلوغت کے وقت ظاہرہونے والی بعض علامات جومرد کے ساتھ خاص ہیں،مثلاً مونچھوں کااگنا،داڑھی کا ظاہر ہونا اور ذکر سے منی کا خارج ہونا وغیرہ۔اگر ان میں سے کوئی ایک علامت بھی ظاہر ہوجائے تو وہ مرد ہے جبکہ بعض علامات جو عورتوں کے ساتھ خاص ہیں،مثلاً:حیض کا آنا،حمل کا ظاہر ہونا اورپستانوں کا نمایاں ہونا۔اگر ان علامات میں سے کوئی ایک علامت بھی ظاہر ہوجائے تو وہ عورت ہے۔

(3)۔اگرمردانہ یا زنانہ علامت میں سے کوئی علامت بھی ظاہر نہ ہوتو وہ خنثیٰ مشکل ہے جس میں  کسی تبدیلی بدن کی کوئی امید نہیں تو اس کے ساتھ دیگرورثاء ہوں یانہ ہوں دونوں حالتوں میں تقسیم وراثت کے بارے میں علماء کی درج ذیل آراء ہیں:

1۔بعض علماء کی رائے ہے کہ خنثیٰ کو دونوں حصوں(مذکر ومؤنث) میں سے کم حصہ ملے گا اور دیگر ورثاء کو زیادہ اور اگروہ ایک  اعتبار سے وارث ہو اوردوسرے اعتبار سے وارث نہ ہوتو وہ غیر وارث قرار پائے گا۔

2۔بعض علماء کی یہ رائے ہے کہ اگر اس کی جسمانی حالت میں کسی تبدیلی کی امید ہوتو ایسے خنثیٰ مرجو(وضاحت کی امید ہو) کواور اسکے ساتھ شریک ورثاء کوکم حصہ دیا جائے گا اور باقی حصہ اس وقت تک محفوظ رہے گا جب تک اس کی جسمانی صورت حال واضح نہ ہوجائے یا ورثاء کسی مناسب صورت پر صلح کرلیں۔

3۔بعض علماء کی رائے ہے کہ خنثیٰ مشکل کو مرد کانصف اورعورت کا نصف حصہ دیا جائے گا۔[4] جبکہ اس کے دونوں حصوں  میں فرق ہو۔اگر صرف ایک اعتبار (مذکر یا مؤنث) سے وارث ہوتو اس اعتبار کا نصف حصہ ملے گا۔یہ حکم دونوں صورتوں میں ہے خنثیٰ کی صورت حال بدلنے کی امید ہو یا نہ ہو۔

3۔بعض علماء کا یہ مسلک ہے کہ اگرا س میں تبدیلی ظاہر ہونے کی امید ہوتو خنثیٰ اور اس کے ساتھ شریک ورثاء سب کو کم حصہ دیا جائے گا کیونکہ وہ حصہ یقینی ہے اور باقی مال صورت حال واضح ہونے تک محفوظ رہے گا۔اور اگر اس میں تبدیلی کی امید نہ ہوتو اسے مرد اور عورت دونوں کا نصف نصف حصہ دیا جائے گا بشرط یہ کہ وہ دونوں حالتوں میں وارث ہو۔اگر صرف ایک حالت(مرد یا عورت) میں وارث ہوتو وہ اس میں نصف کا مستحق ہے۔واللہ اعلم۔

حمل کی میراث کا بیان

کبھی  ورثاء کی فہرست میں حمل بھی شامل ہوتا ہے البتہ اس کی حالت غیر یقینی ہوتی ہے کہ وہ زندہ پیدا ہو گا یا مردہ ایک ہے یا ایک سے زیادہ عورت ہے یا مرد۔ان مختلف احتمالات میں حکم بھی مختلف ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام نے حمل کے مسائل کو اہتمام سے بیان کیا ہے اور کتب میراث میں حمل کے عنوان سے ایک مستقل باب قائم کیا ہے۔

پیٹ میں جو بچہ ہوا سے "حمل " کہا جاتا ہے جب"مورث" فوت ہو جائے اور اس کے ورثاء میں حمل شامل ہو تو کبھی وہ ہر اعتبار سے وارث ہوتا ہے اور کبھی ہر اعتبار سے وارث ہوتا ہے اور کبھی ہر اعتبار سے محبوب کبھی بعض اعتبار سے وارث اور بعض اعتبار سے محجوب بشرطیکہ پیدائش کے وقت زندہ ہو۔

جو حمل بالا اجماع وارث ہوتا ہے اس میں دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے:

مورث کی موت کے وقت رحم میں اس کا موجود ہونا اگرچہ نطفہ ہی ہو۔

ولادت کے وقت اس میں زندگی کی واضح علامات کا ہونا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"إِذَا اسْتَهَلَّ الْمَوْلُودُ وَرِثَ "

"اگر بچہ چیخ مار کر رویا تو اسے وارث بنایا جائے گا۔"[5]

"استہبلال" کے ایک معنی تو وہ ہیں جو ہم نے ترجمے میں ظاہر کیے ہیں البتہ بعض علماء کے نزدیک اس کے معنی ہیں کہ اس میں زندگی کی کوئی بھی علامت ہو۔ رونا ضروری نہیں مثلاً:چھینک لینا یا حرکت کرنا وغیرہ یہ ایسی صورتیں ہیں جن سے کسی میں زندگی کے آثار معلوم ہوتے ہیں۔ یہ دوسری شرط ہے باقی رہی پہلی شرط کہ"مورث" کی موت کے وقت حمل موجود ہو تو اس کا تحقق تب ہو گا جب حاملہ حمل کو مقرر مدت کے دوران جنے جو مختلف احوال کے مطابق کم ازم مدت بھی ہو سکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ بھی۔ مورث کی وفات کے بعد وضع حمل کی تین حالتیں ممکن ہیں۔

1۔مورث کی موت کے وقت سے لے کر کم ازکم مدت کے دوران میں وضع حمل ہو۔ اس حالت میں حمل مطلقاً وراث ہو گا کیونکہ اس مدت میں وضع حمل اس امر کی دلیل ہے کہ مورث کی موت کے وقت رحم میں حمل موجود تھا۔

واضح رہے کہ کم ازکم مدت حمل چھ ماہ ہے اس پر علماء کا اجماع ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَحَملُهُ وَفِصـٰلُهُ ثَلـٰثونَ شَهرًا...﴿١٥﴾... سورة الاحقاف

"اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے[6]۔

نیز فرما ن الٰہی ہے:

﴿وَالو‌ٰلِد‌ٰتُ يُرضِعنَ أَولـٰدَهُنَّ حَولَينِ كامِلَينِ...﴿٢٣٣﴾... سورة البقرة

"مائیں اپنی اولاد کو دوسال کامل دودھ پلائیں۔"[7]

ان دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوا کہ اگر تیس مہینوں سے مدت رضاعت کے دو سال یعنی چوبیس ماہ نکال دیے جائیں تو باقی چھ ہی رہ جاتے ہیں جو حمل کی کم ازکم مدت ہو گی۔

2۔مورث کی موت کے وقت سے لے کر زیادہ سے زیادہ مدت حمل گزرنے کے بعد وضع حمل ہو۔ اس حالت میں حمل وارث نہ ہوگا کیونکہ اس قدر مدت کے بعد وضع حمل اس امر کی دلیل ہے کہ مورث کی موت کے وقت اس کا وجودنہ تھا بلکہ مورث کی موت کے بعد حمل ٹھہراہے۔

زیادہ سے زیادہ مدت حمل کی تعیین کے بارے میں علماء کے تین اقوال ہیں۔

1۔زیادہ سے زیادہ مدت حمل دو سال ہے جیسا کہ اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا قول ہے:" ماں کے رحم میں دو سال سے زیادہ عرصہ حمل نہیں رہتا ۔[8]اس قسم کے قول کا تعلق اجتہاد سے نہیں ہوتا اس لیے یہ"مرفوع حدیث" یعنی فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم میں ہے۔

2۔زیادہ سے زیادہ مدت حمل چار سال ہے۔

3۔اکثر مدت حمل پانچ برس ہے۔

ہمارے ہاں راجح قول یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ مدت حمل چار برس ہے کیونکہ قرآن سنت میں تحدید کی کوئی دلیل نہیں لہٰذا وقو ع پذیر واقعات کی طرف رجوع کریں گے۔ چنانچہ ایسے بہت سے واقعات موجود ہیں کہ حمل ماں کے پیٹ میں چار سال تک ٹھہرارہا۔

3۔کم مدت حمل (چھ ماہ) کے بعد اور اکثر مدت حمل سے پہلے وضع حمل ہو۔ اس حالت میں اگر اس کا خاوند یا آقا موجود ہو جو اس سے وطی کرتا رہا ہو تو وہ حمل میت کا وارث نہ ہو گا کیونکہ مورث کی موت کے وقت حمل کا وجود غیر یقینی ہے۔ ممکن ہے کہ مورث کی موت کے بعد کی وطی سے حمل ٹھہراہو۔ اور اگر اس دوران میں اس سے وطی نہ ہوئی ہو مثلاً: اس کا خاوند یا آقا نہ ہو یا اس سے غائب رہا ہو یا اس نے کسی عجز و امتناع کی وجہ سے وطی کرنا چھوڑ دیا ہو تو حمل وارث ہو گا کیونکہ میت سے اس کا وجود ثابت ہے۔

علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ جب بچہ ولادت کے بعد چیخ مارے تو اس سے زندگی ثابت ہو جاتی ہے۔ چیخ کے سوا دوسرے امور میں اختلاف ہے جن میں بچے کا حرکت کرنا دودھ پینا یا سانس لینا ہے علماء میں سے بعض تو صرف چیخ والے معنی کا اعتبار کرتے ہیں دوسرے کسی معاملے کو شامل نہیں کرتے۔ اور بعض علماء چیخ کے ساتھ ساتھ ہر اس امر معتبر سمجھتے ہیں جس سے زندگی کے آثار معلوم ہوں اور یہی مسلک راجح ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ"اسْتَهَلَّ"کے معنی صرف چیخ مارنا ہی نہیں بلکہ بعض علماء کے نزدیک اس میں حرکت وغیرہ بھی شامل ہے اگر بالفرض "اسْتَهَلَّ"کے معنی صرف چیخ یا آواز ہی ہو تو یہ دوسری علامات کے ذریعے سے استدلال سے مانع نہیں واللہ اعلم۔

حمل کو حصہ دینے کا طریقہ:

جب کسی کے ورثاء میں ایسا حمل شامل ہو جس کے وارث یا عدم ہونے کا علم نہ ہو اور ورثاء اس کی پیدائش سے قبل ہی ترکہ کی تقسیم کا مطالبہ کریں۔ اس صورت میں اختلاف سے نکلنے کے لیے مناسب یہ ہے کہ حمل کے وضع ہونے کا انتظار کیا جائے تاکہ کیفیت حمل واضح ہو جائے نیز تقسیم ترکہ ایک ہی بار ہو۔

اگر ورثاء تقسیم ترکہ میں تاخیر اور وضع حمل کے انتظار کرنے پر رضا مند نہ ہوں تو کیا ترکہ کی تقسیم کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اس بارے میں علمائے کرام کے دو قول ہیں۔

انھیں ترکہ تقسیم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حمل کی صورت حال مشکوک ہے نیز حمل ایک سے زائد بچے بھی ہو سکتے ہیں جس کی بنا پر حمل اور اس کے ساتھ شریک ورثاء کے حصوں کی مقدار میں فرق اور اختلاف ممکن ہے لہٰذا وہ وضع حمل کے بعد کی صورت حال کے واضح ہونے کا انتظار کریں۔

ورثاء تقسیم ترکہ کا مطالبہ کرنے کے مجاز ہیں انھیں وضع حمل کے انتظار کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں ان کا نقصان ہے۔ ممکن ہے وہ ایسے محتاج اور فقیرہوں جن کے لیے وضع حمل کی طویل مدت کا انتظار کرنا مشکل ہو۔ باقی رہا حمل تو بطور احتیاط اس کے لیے زیادہ سے زیادہ حصہ رکھا جا سکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ تقسیم ترکہ کی تاخیر کی کوئی وجہ نہیں۔

دوسرا قول راجح معلوم ہوتا ہے لیکن اس قول کے قائلین میں اختلاف ہے کہ حمل کے لیے کتنی مقدار میں ترکہ سے حصہ رکھا جائے کیونکہ اس کی حقیقت حال کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ۔اس میں بہت سے احتمالات ہیں مثلاً: وہ زندہ پیدا ہو گا یا مردہ ایک بچہ ہے یا ایک سے زیادہ لڑکا ہے یا لڑکی بلا شبہ یہ احتمالات ورثاء کے حقوق پر اثر انداز ہوتے ہیں حمل کے حصے کی مقدار میں جو اختلاف ہے اس میں تین اقوال مشہور ہیں۔

تعداد حمل کو مقرر کرنا مشکل ہے کیونکہ عورت کتنی (؟؟؟) کو پیٹ میں اٹھاتی ہے ان کی تعداد معلوم کرنا ممکن نہیں البتہ جو ورثاء حمل کے ساتھ حصول ترکہ میں شریک ہوں اگر کوئی ایک صورت میں وارث ہواوردوسری میں محجوب یا وہ عصبہ ہو۔ ایسے شخص کو ترکہ میں سے کچھ نہیں دیا جائے گا۔ اور جو شخص ہر صورت میں وارث ہو لیکن کسی میں کم اور کسی میں اسے زیادہ حصہ ملتا ہو تو اسے کم حصہ ملے گا اور جس کے حصے میں کسی صورت میں اختلاف نہیں ہوتا(حمل خواہ لڑکا ہو یا لڑکی) تو اسے کامل حصہ ملے گا۔ اس کے بعد باقی حصہ محفوظ کر لیا جائے گا حتی کہ حمل کی صورت حال واضح ہو جائے۔

2۔ترکہ میں سے حمل کے لیے زیادہ حصہ اور دیگر ورثاء کے لیے کم حصہ ہوگا ۔ حمل کے لیے دو لڑکوں یا دو لڑکیوں کا حصہ( جو زیادہ ہو)رکھا جائے گا اور اس کے ساتھ شریک وارث کو یقینی حصہ ملے گا۔ جب حمل کی ولادت ہو گی اور صورت حال واضح ہو جائےگی تو حمل اگر موقوف مال کے اکثر حصے کا حقدار ہو گا تو اسے مل جائے گا اور اگر موقوف حصہ کم ہوا تو ورثاء سے وصول کر کے حصے کی کمی پوری کی جائے گی۔

3۔حمل کے لیے ایک لڑکے یا ایک لڑکی کا حصہ(جو زیادہ ہو)رکھا جائے گا کیونکہ عام طور پر عورت ایک ہی بچہ جنتی ہے لہٰذا حکم غالب اور عام عادت پر محمول ہو گا۔

قاضی پر لازم ہے کہ ورثاء میں سے کسی کو حمل کا کفیل مقرر کرے کیونکہ حمل خود اپنے مفاد کا خیال رکھنے سے قاصر ہے۔ کفیل وضع حمل کے بعد حصص میں ردوبدل آنے کی صورت میں ہر حق والے کو اس کا حق پہنچانے کی ذمے داری پوری کرے گا۔

ہمارے نزدیک دوسرا قول احتیاط اور انصاف پر مبنی ہے کیونکہ دو بچوں کی ولادت کے واقعات کثرت سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ دو سے زائد بچوں کی ولادت کے واقعات شاذ و نادر ہیں۔

راجح قول کے مطابق حمل کی چھ حالتیں ہو سکتی ہیں۔

(1)زندہ بچہ ہو گا یا مراہوا(2)زندہ بچہ ہوا تو پھر لڑکا ہو گا۔(3)لڑکی ہو گی(4)ایک لڑکا ایک لڑکی(5) دونوں لڑکے (6)دونوں لڑکیاں۔

ہر صورت کا مسئلہ بنایا جائے گا اور حساب کے مطابق دیگر ورثاء میں سے ہر وارث کو اس کا حصہ دیا جائے گا۔جس وارث کا حصہ ہر صورت میں ایک جیسا ہو گا اسے کامل حصہ دے دیا جائے گا۔ جس کا حصہ ایک اعتبار سے کم اور دوسرے اعتبار سے زیادہ ہو گا تو اسے کم حصہ دیا جائے گا۔ اور جو ایک اعتبار سے وارث اور دوسرے اعتبار سے غیر وارث ہو گا اسے محروم رکھا جائے گا۔ باقی ترکہ موقوف اور محفوظ رہے گا حتی کہ حمل کی پیدائش سے صورت حال واضح ہو جائے جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے۔ واللہ اعلم۔

مفقود کی میراث کا بیان

مفقود کے لغوی معنی" معدوم یا گمشدہ شے" کے ہیں۔"فقدت الشئي"کے معنی ہیں:" میں نے شے تلاش کی لیکن نہ مل سکی۔" یہاں مفقود سے مراد وہ شخص ہے جو لاپتہ یعنی ایسا غائب ہو کہ اس کا اتاپتا نہ ہو کہ زندہ ہے یا فوت ہو چکا ہے۔ اس کی گمشدگی کے اسباب مختلف ہو سکتے ہیں۔مثلاً: کوئی سفر پر نکلایا لڑائی کے لیے گیا یا کشتی ٹوٹ گئی یا کفار نے اسے قیدی بنا لیا اور معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کہاں اور کدھر چلا گیا۔

گمشدگی کے دوران میں مفقود شخص کے بارے میں میں تردو ہو تا ہے کہ آیا وہ زندہ ہے یا مر چکا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں سے ہر صورت سے متعلق مخصوص احکام ہیں۔ مثلاً: اس کی بیوی کے احکام خود مفقود کا وارث ہونا دوسروں کا اس کے ساتھ شریک ہونا مفقود سے ورثہ پانا وغیرہ ۔ ان احتمالی صورتوں میں سے کسی ایک کو دوسری پر ترجیح بھی نہیں دے سکتے لہٰذا ضرورت اس امرکی ہے کہ ایک مدت کا تعین کیا جائے جس میں اس کی اصل صورت حال معلوم کی جاسکے۔ جب وہ مدت بیت جائے تو اسے مفقود کی موت پر دلیل قرار دیا جائے اس ضرورت کے پیش نظر علمائے کرام نے ایک مدت کے مقرر ہونے پر اتفاق کیا ہے لیکن اس کی مقدار میں اختلاف ہے۔ اس کے بار میں دو قول ہیں۔

1۔تعیین مدت میں حاکم کا اجتہاد معتبر ہے کیونکہ مفقود کی زندگی اصل ہے اور اس اصل کو کسی ایسی صورت کے ساتھ ہی چھوڑا جائے گا جو یقینی ہو یا یقین کے حکم میں ہو۔الغرض فیصلہ کن امر حاکم کا اجتہاد ہے خواہ اس کی سلامتی کی جانب غالب ہو یا ہلاکت کی۔ وہ نوے برس کی عمر سے پہلے گم ہوا ہو یا بعد میں۔ اس کا انتظار ہو گا حتی کہ اس کی موت پر کوئی دلیل مل جائے یا اس قدرمدت گزر جائے کہ اس میں گمان غالب ہو کہ اب اس کا زندہ رہنا ممکن نہیں۔ یہ جمہور کا قول ہے۔

2۔اس قول میں قدرے تفصیل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مفقود کی حالتیں ہیں۔

ایسی صورت ہو کہ جس میں مفقود کی ہلاکت کا پہلو غالب ہو۔ مثلاً ہلاکت کی جگہ میں گم ہو گیا ہو یا برسر پیکار صفوں میں گم ہو گیا یا کشتی ڈوب گئی جس کے بعض افراد ہلاک ہو گئے اور بعض سلامت رہے یا کوئی اپنے گھر شہر میں رہتے ہوئے نماز کے لیے نکلا لیکن واپس نہ آسکا ۔ ایسے شخص کا انتظار گمشدگی کے وقت سے لے کر چار سال تک کیا جائے گا۔[9]

کیونکہ یہ ایسی مدت ہے جس میں مسافروں ،تاجروں کا آنا جانا بار بار ہوتا ہے ۔اگر اس میں کوئی خبر نہ مل سکی تو غالب گمان یہی ہوگا کہ وہ زندہ نہیں ہے۔

مفقود کے بارے میں گمان غالب ہو کہ وہ زندہ اور سلامت ہے مثلاً: کوئی تجارت ،سیاحت  یا طلب علم کی خاطر سفر کے لیے نکلا پھر اس کے بارے میں کوئی خبرنہ ہوسکی ۔ ایسے شخص کا مدت ولادت سے لے کر نوے سال کی عمر تک کا انتظار کیا جائے گا کیونکہ عموماً اس قدر عمر کے بعد آدمی زندہ نہیں رہتا۔[10]

ہمارے نزدیک پہلا قول راجح اور معتبر ہے کہ مفقود کی مدت انتظار کی تحدید حاکم کے اجتہاد پر ہے کیونکہ شہر اشخاص اور احوال کے مختلف ہونے کی بنا پر صورت حال بھی مختلف  ہو جاتی ہے۔ نیز آج کے دور میں اطلاعات اور مواصلات کے ذرائع ووسائل وعام اور تیز ہیں حتی کہ ساراجہاں ایک شہر کی مانند چھوٹا ساہوگیا ہےاور اب پرانے دور والے حالات نہیں رہے۔

اگر مفقود کی مدت انتظار کے دوران میں اس کا کوئی مورث فوت ہو جائے تو ؟

1۔اگر مفقود کے سوااور کوئی وارث نہیں تو مدت انتظار مکمل ہونے تک یا صورت حال واضح ہونے تک تمام ترکہ محفوظ کر لیا جائے ۔

اگر مفقود کے ساتھ میت کے دیگر ورثاء بھی ہوں تو ترکہ کے طریقہ تقسیم کے بارے میں علمائےکرام کے مختلف اقوال ہیں۔ ان میں راجح قول (جس پر علماء کی کثرت متفق ہے) یہ ہے کہ دیگر شریک ورثاء کو کم حصہ دیا جائے گا جو یقینی ہے اور باقی ترکہ محفوظ ہو گا۔ اس میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ مسئلے کی تصحیح مفقود کو زندہ سمجھ کر ہوگی پھر دوسری مرتبہ مسئلے کی تصحیح اس کو میت سمجھ کر ہو گی تو جو دونوں مسئلوں میں وارث ہے لیکن ایک میں اس کا حصہ کم ہے اور دوسرے میں زیادہ تو اسے کم حصہ دیا جائے گا اور جس کو دو مسئلوں میں مساوی حصہ ملتا ہے اسے اس کا کامل حصہ ملے گا اور جسے صرف ایک مسئلے میں حصہ ملتا ہے اور دوسرے میں نہیں ملتا تو اسے کچھ نہ ملے گا باقی ترکہ صورت حال واضح ہونے تک محفوظ رہے گا۔

سابقہ صورت توایسی تھی جس میں مفقود خود وارث بن رہا تھا۔ اگر مفقود خود مورث ہو تو جب اس کی مدت انتظار گزر جائے اور کوئی خبر نہ مل سکے تو قاضی اس کے بارے میں موت کا فیصلہ صادر کرے گا پھر اس کا ذاتی مال ہو یا دوران گمشدگی میں کسی سے بطور وراثت اسے ملا ہو اور محفوظ ہو اس تمام مال کو ان ورثاء پر تقسیم کیا جائے گا جو قاضی کے حکم موت صادر کرنے کے وقت زندہ ہوں۔ اور جو مدت انتظار کے دوران میں فوت ہو گئے وہ اشخاص وارث نہ ہوں گے کیونکہ قاضی کا فیصلہ مدت انتظار میں مرنے والوں کے بعد جاری ہوا ہے۔

میراث  لینے کے لیے مورث کی وفات کے بعد وارث کا زندہ ہونا شرط ہے۔


[1]۔النساء:1۔

[2]۔الشوریٰ 49:42۔

[3]۔سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے پوچھاگیا کہ ایک شخص جو مردانہ اور زنانہ دونوں عضو رکھتا ہے اسے کون سی میراث دی جائے ،یعنی مرد کا حصہ یا عورت کا؟توانھوں نے جواب دیا جس عضو سے وہ پیشاب کرتا ہے۔ایسی ہی روایات سیدنا عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اورجابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی مروی ہیں۔بیہقی(صارم)

[4]۔مثلاً:مرد کا حصہ ایک روپیہ ہو اور عورت کا حصہ پچاس پیسے تو خنثیٰ کو پچھتر حصہ ملے گا۔(صارم)

[5] ۔سنن ابی داؤد الفرائض باب فی المولود یستھل ثم یموت ،حدیث2920۔

[6] ۔الاحقاف:46۔15۔

[7] ۔البقرۃ:2/233۔

[8] ۔السنن الکبری للبیہقی :7/443۔

[9] ۔دلیل سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کاوہ فیصلہ ہے جس میں انھوں نے فرمایا کہ جس عورت کا خاوند گم ہو جائے اور اس کا اتاپتا نہ ہوتو وہ چار سال تک انتظار کرے۔پھر چار ماہ اور دس دن عدت وفات گزارے الموطا للامام مالک الطلاق باب عدۃالتی تفقد زوجہا 2/119۔

[10] ۔یوم ولادت سے لے کر نوے سال تعیین جس طرح غیر معقول ہے اسی طرح یہ غیر منقول بھی ہےبھی ہے کیونکہ گمشدگی کے وقت اگر ایک شخص کی عمر نوے سال سے ایک یا دودن کم تھی تو اس کا ایک یا دودن انتظار کرنا کسی اعتبار سے بھی درست نہیں بلکہ امر فاسد ہے۔ کیونکہ بحث و تلاش کے لیے اتنی مدت کا کوئی بھی قائل نہیں۔(صارم)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

وراثت کے مسائل:جلد 02: صفحہ 224

تبصرے