سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(12) وراثت کے اسباب اور ورثاء کا بیان

  • 23734
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 11809

سوال

(12) وراثت کے اسباب اور ورثاء کا بیان
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وراثت کے اسباب اور ورثاء کا بیان


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرعاً وراثت یہ ہے کہ میت کا مال شریعت کے اصولوں کے مطابق زندہ شخص یا اشخاص کی طرف منتقل ہو جائے۔اسباب میراث درج ذیل ہیں۔

1۔رحم،یعنی قرابت نسبی ،وہ لوگ جو قرابت داری کی وجہ سے وارث بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

"وَأُولُو الأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ"

"اور رشتے ناتے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ اولیٰ ہیں اللہ کے حکم میں۔[1]

اصحاب قرابت میت سے قریب کا رشتہ رکھتے ہوں یا دورکا وہ وارث ہوں گے بشرطیکہ اس کے آگے کوئی رکاوٹ بننے والا نہ ہو۔ یعنی قریب کے رشتے دار کی موجود گی میں دور کا رشتے دار وارث نہ ہو گا۔

رشتے دار ورثاء تین قسم کے ہیں۔(1)اصول(2)فروع (3)اور حواشی۔

اصول سے مراد ہے باپ دادا پر دادا اوپر تک۔

فروع سے مراد ہے: اپنی صلبی اولاد اور بیٹیوں کی اولاد نیچے تک ۔

حواشی کا مطلب ہے: بہن بھائی اور بھائی کے بیٹے نیچے تک اور چچے (خواہ سگے ہوں یا باپ دادا کے) اوپر تک اور ان کے بیٹے نیچے تک۔

2۔نکاح: کسی مرد اور عورت کا شرعی طریقے سے عقد زوجیت میں منسلک ہونا اگرچہ خلوت کا موقع میسر نہ ہوا ہوکیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد عام ہے۔

﴿وَلَكُم نِصفُ ما تَرَكَ أَزو‌ٰجُكُم إِن لَم يَكُن لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِن كانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمّا تَرَكنَ مِن بَعدِ وَصِيَّةٍ يوصينَ بِها أَو دَينٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمّا تَرَكتُم إِن لَم يَكُن لَكُم وَلَدٌ فَإِن كانَ لَكُم وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمّا تَرَكتُم...﴿١٢﴾... سورةالنساء

"تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ مریں اور ان کی اولاد نہ ہو تو آدھوں آدھ تمہارا ہے اور اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے چھوڑے ہوئے مال میں سے تمہارے لئے چوتھائی حصہ ہے۔ اس وصیت کی ادائیگی کے بعد جو وه کر گئی ہوں یا قرض کے بعد۔ اور جو (ترکہ) تم چھوڑ جاؤ اس میں ان کے لئے چوتھائی ہے، اگر تمہاری اولاد نہ ہو اور اگر تمہاری اولاد ہو تو پھر انہیں تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا،" [2]

محض عقد نکاح کے سبب خاوند اور بیوی ایک دوسرے کے ترکہ کے وارث ہوں گے ۔ اسی طرح زوجین طلاق رجعی کی عدت میں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے کیونکہ طلاق رجعی کی عدت میں زوجیت قائم رہتی ہے۔ واضح رہے کہ نکاح کی تعریف میں شرعی کی قید لگانے سے غیر شرعی نکاح خارج ہو گیا جو فاسد ہے اور اس سے وارثت بھی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ ایسا نکاح کالعدم ہے۔

3۔ولاء:شرعاً ایسی میراث ہے جو مالک کو اپنے آزاد کردہ غلام کی موت کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ فقہاء کی اصطلاح میں اسے"عصوبة سببية "کہا جاتا ہے۔

ولاء کے سبب آازاد کرنے والا اپنے آزاد کردہ کا وارث ہوتا ہے اس کے برعکس نہیں۔ اور اگر"معتق"یعنی آزاد کرنے والا زندہ نہ ہو تو اس کے عصبات بالنفس (بیٹے ،باپ ،بھائی اور چچا) آزاد کردہ کی ولاء(ترکہ) لیں گے عصبہ بالغیر یا عصبہ مع الغیر وارث نہ ہوں گے۔

ولاء کے سبب وارث ہونے کی دلیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"الْوَلَاءُ لُحْمَةٌ كَلُحْمَةِ النَّسَبِ"

"ولاء کا تعلق نسبی تعلق کی طرح ہے۔[3]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"إِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ"

"ولاء صرف اسے ملتی ہے جو آزاد کرے۔[4]

جنس کے اعتبار سے ورثاء کی اقسام

جنس کے اعتبار سے ورثاء دو طرح کے ہوتے ہیں۔ مرد اور عورت ۔ مرد ورثاء درج ذیل ہیں:

1۔ بیٹا پوتا نیچے تک۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

﴿يوصيكُمُ اللَّهُ فى أَولـٰدِكُم لِلذَّكَرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثَيَينِ... ﴿١١﴾... سورة النساء

"اللہ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔"[5]

یاد رہے جب بیٹا موجود ہو تو پوتا اس کا قائم مقام ہوگا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے"يَا بَنِي آدَمَ "اے آدم کے بیٹو!

نیز فرمایا: "يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ "اے یعقوب کے بیٹو!

2۔باپ دادا اوپر تک یعنی جن کا تعلق میت سے محض مردوں کے ذریعے سے ہو (وارث اور میت کے درمیان عورت کا واسطہ نہ ہو۔)اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

﴿"وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ"﴾

"اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے۔[6]

داداباپ کے قائم مقام ہوتا ہے(جبکہ باپ زندہ ہو)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے میت کے دادا کو چھٹا حصہ دیا تھا۔

3۔بھائی ،بھائی تین قسم کے ہوتے ہیں(1) عینی ،یعنی ماں باپ دونوں کی طرف سے سگے ہوں۔(2) علاتی یعنی جو صرف باپ کی طرف سے سگے ہوں۔(3) اخیافی، یعنی جو صرف ماں کی طرف سے سگے ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے حق وراثت کو یوں بیان کیا ہے۔

﴿يَستَفتونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفتيكُم فِى الكَلـٰلَةِ إِنِ امرُؤٌا۟ هَلَكَ لَيسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُختٌ فَلَها نِصفُ ما تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُها إِن لَم يَكُن لَها وَلَدٌ فَإِن كانَتَا اثنَتَينِ فَلَهُمَا الثُّلُثانِ مِمّا تَرَكَ وَإِن كانوا إِخوَةً رِجالًا وَنِساءً فَلِلذَّكَرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثَيَينِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُم أَن تَضِلّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَىءٍ عَليمٌ ﴿١٧٦... سورة النساء

"آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لئے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وه بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس کے اولاد نہ ہو۔ پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا۔ اور اگر کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لئے حصہ ہے مثل دو عورتوں کے، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے"[7]

اس آیت میں عینی اور علاتی بھائیوں کا ذکر ہے اخیافی بھائی بہن کے بارے میں فرمان الٰہی ہے:

﴿وَإِن كانَ رَجُلٌ يورَثُ كَلـٰلَةً أَوِ امرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَو أُختٌ فَلِكُلِّ و‌ٰحِدٍ مِنهُمَا السُّدُسُ...﴿١٢﴾... سورة النساء

"اور جن کی میراث لی جاتی ہے وہ مرد یا عورت کلالہ ہو(اس کا باپ بیٹا نہ ہو)اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے۔[8]

4۔اسی طرح عینی اور علاتی بھتیجا بھی وارث ہے البتہ اخیافی بھتیجا وارث نہیں ہوتا کیونکہ ذوی الارحام میں شامل ہے۔

5۔عینی اور علاتی چچا اور ان کے بیٹے وغیرہ نیچے تک۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے۔

"أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ"

"اصحاب الفروض کوان کے حصے دو۔ پھر جو بچ جائے وہ قریبی مرد(عصبہ) کو دو۔"[9]

6۔خاوند:ارشاد الٰہی ہے:

﴿وَلَكُم نِصفُ ما تَرَكَ أَزو‌ٰجُكُم ...﴿١٢﴾... سورةالنساء

"تمھاری بیویاں  جوکو کچھ چھوڑ مریں اور ان کی اولاد نہ ہو تو آدھا حصہ تمھارا ہے۔"[10]

7۔صاحب ولاءآزاد کرنے والا یا اس کے عصبات آزاد کردہ کے وارث ہیں۔ ارشاد نبوی ہے۔

"الْوَلَاءُ لُحْمَةٌ كَلُحْمَةِ النَّسَبِ"

"ولاءبھی نسب کی طرح کا ایک تعلق ہے۔"[11]نیز فرمایا:

"إِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ"

"ولاء کا حقدار وہ ہے جو آزاد کرنے والا ہے۔"[12]

ورثاء عورتیں درج ذیل ہیں:

1۔بیٹی اور بیٹے کی بیٹی اگرچہ بیٹا نیچے تک ہو۔ فرمان الٰہی ہے:

﴿يوصيكُمُ اللَّهُ فى أَولـٰدِكُم لِلذَّكَرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثَيَينِ فَإِن كُنَّ نِساءً فَوقَ اثنَتَينِ فَلَهُنَّ ثُلُثا ما تَرَكَ وَإِن كانَت و‌ٰحِدَةً فَلَهَا النِّصفُ... ﴿١١﴾... سورة النساء

"اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیاده ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا۔ اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے"[13]

2۔ماں،دادی اور نانی: ارشاد الٰہی ہے:

﴿فَإِن لَم يَكُن لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِن كانَ لَهُ إِخوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ...﴿١١﴾... سورة النساء

"اور اگر اولادنہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے۔ ہاں اگر میت کے کئی بھائی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا (حصہ) ہے۔[14]

سیدنا بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لِلْجَدَّةِ السُّدُسَ إذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهَا أُمٌّ "

"دادی نانی کو صرف چھٹا حصہ ملتا ہے بشرطیکہ میت کی ماں زندہ نہ ہو۔"[15]

3۔عینی بہن ،علاتی بہن اور اخیافی بہن :ارشاد الٰہی ہے:

﴿وَإِن كانَ رَجُلٌ يورَثُ كَلـٰلَةً أَوِ امرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَو أُختٌ فَلِكُلِّ و‌ٰحِدٍ مِنهُمَا السُّدُسُ...﴿١٢﴾... سورة النساء

"اور جن کی میراث لی جاتی ہے وہ مرد یا عورت کلالہ ہو(اس کا باپ بیٹا نہ ہو)اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے۔[16]

نیز فرمان الٰہی ہے:

﴿يَستَفتونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفتيكُم فِى الكَلـٰلَةِ إِنِ امرُؤٌا۟ هَلَكَ لَيسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُختٌ فَلَها نِصفُ ما تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُها إِن لَم يَكُن لَها وَلَدٌ فَإِن كانَتَا اثنَتَينِ فَلَهُمَا الثُّلُثانِ مِمّا تَرَكَ وَإِن كانوا إِخوَةً رِجالًا وَنِساءً فَلِلذَّكَرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثَيَينِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُم أَن تَضِلّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَىءٍ عَليمٌ ﴿١٧٦... سورة النساء

"آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لئے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وه بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس کے اولاد نہ ہو۔ پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا۔ اور اگر کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لئے حصہ ہے مثل دو عورتوں کے، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے"[17]

4۔بیوی:ارشاد الٰہی ہے:

﴿وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمّا تَرَكتُم إِن لَم يَكُن لَكُم وَلَدٌ ...﴿١٢﴾... سورة النساء

"اور جو(ترکہ) تم چھوڑ جاؤ اس میں ان کے لیے چوتھائی ہے اگر تمھاری اولاد نہ ہو۔"[18]

5۔آزاد کرنے والی عورت : فرمان نبوی ہے:

"إِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ"

"ولاء کا حقدار وہ ہے جو آزاد کرنے والا ہے۔"[19]

یہ ہیں وہ مرد اور عورتیں جنھیں اسلام نے وارث قراردیا ہے۔ اگر ہم مزیدتفصیل میں جائیں تو مرد ورثاء کی تعداد پندرہ (15)جب کہ عورتوں کی تعداد دس(10) تک پہنچ جاتی ہے۔ تفصیل اس موضوع کی اہم اور بڑی کتب میں موجود ہے۔

وارث بننے کے اعتبار سے ورثاء کی اقسام

وراث بننے کے اعتبار سے ورثاء کی تین قسمیں ہیں۔"(1)اصحاب الفروض (2)عصبات(3)ذدوالارحام۔ ہر ایک کی تعریف درج ذیل ہے۔

1۔اصحاب الفروض :وہ ورثاء جن کا حصہ شریعت میں مقرر ہے۔ ان کے حصے میں اضافہ صرف رد کی صورت میں ہو سکتا ہےاور کمی صرف عول کی صورت میں ہو سکتی ہے۔

2۔عصبات : وہ ورثاء جو اصحاب الفرائض سے بچا ہوا ترکہ لیتے ہیں اگر وہ اکیلا ہو تو سارے مال کا حقدار ہوتا ہے۔

3۔ذودالارحام:وہ ورثاء جو اس وقت وارث ہوتے ہیں جب اصحاب الفرائض (زوجین کے علاوہ) اور عصبات نہ ہوں۔

اصحاب الفرائض ورثاء کی تعداد بارہ ہے جن میں چار مرد یعنی باپ دادا ،خاوند اور اخیافی بھائی ہیں اور آٹھ عورتیں ہیں۔ یعنی ماں ،دادی (دادی کے ساتھ نانی بھی شریک ہے) بیوی ، بیٹی پوتی ،اخیافی بہن ، عینی بہن اور علاتی بہن اب ہم ہر صاحب فرض کے حصے کی تفصیل سے آپ کو آگاہ کریں گے۔

خاوند اور بیوی کی میراث کا بیان

خاوند نصف ترکہ کا حقدار ہے بشرطیکہ اس کی فوت شدہ بیوی کی اپنی اولاد نہ ہو یا بیٹے کی اولاد نہ ہواور وہ چوتھائی ترکہ کا حقدار ہے جب اس کی فوت شدہ بیوی کی اولاد ہو یا اس کے بیٹے کی اولاد ہو۔[20]اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَلَكُم نِصفُ ما تَرَكَ أَزو‌ٰجُكُم إِن لَم يَكُن لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِن كانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمّا تَرَكنَ مِن بَعدِ وَصِيَّةٍ يوصينَ بِها أَو دَينٍ...﴿١٢﴾... سورةالنساء

"تمھاری بیویاں  جوکو کچھ چھوڑ مریں اور ان کی اولاد نہ ہو تو آدھا (نصف) تمھارا ہے۔"اور اگر ان کی اولاد ہو تو ان کو چھوڑے ہوئے مال میں سے تمھارےلیے چوتھائی حصہ ہے اس وصیت کی ادائیگی کے بعد جو وہ کر گئی ہوں یا قرض کے بعد۔[21]

بیوی(ایک ہو یا زیادہ) کے لیے ترکہ کا چوتھائی حصہ ہے بشرطیکہ فوت شدہ شوہر کی اولاد یا اس کے بیٹے کی اولاد نہ ہواور وہ آٹھویں حصے کی حقدار ہے جب کہ اس کے فوت شدہ خاوند کی اپنی صلبی اولاد ہو یا بیٹے کی اولادہو۔[22]

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

﴿وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمّا تَرَكتُم إِن لَم يَكُن لَكُم وَلَدٌ فَإِن كانَ لَكُم وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمّا تَرَكتُم مِن بَعدِ وَصِيَّةٍ توصونَ بِها أَو دَينٍ ...﴿١٢﴾... سورةالنساء

"اور جو(ترکہ) تم چھوڑ جاؤ اس میں ان کے لیے چوتھائی ہے اگر تمھاری اولاد نہ ہو۔اور اگر تمھاری اولاد ہو انھیں تمھارےترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا اس وصیت کے بعد جو تم کر گئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد۔"[23]

باپ اور دادا کی میراث کا بیان

میت کا باپ وارث ہو تو دادا ترکہ سے محروم ہوجاتا ہے۔

باپ ہو یا دادا ذی فرض کی حیثیت سے اسے صرف چھٹا حصہ ملے گا بشرطیکہ میت کی مذکر اولاد ہو(خواہ مونث اولاد ہو یا نہ ہو) جیسے بیٹا اور پوتا وغیرہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ وَلِأَبَوَيهِ لِكُلِّ و‌ٰحِدٍ مِنهُمَا السُّدُسُ مِمّا تَرَكَ إِن كانَ لَهُ وَلَدٌ... ﴿١١﴾... سورة النساء

"اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے اس کے چھوڑے ہوئے مال  کا چھٹا حصہ ہے۔اگر اس (میت ) کی اولاد نہ ہو۔[24]

باپ ہو یا دادا اسے صرف عصبہ کی حیثیت سے باقی ترکہ ملے گا بشرطیکہ میت کی اولاد(بیٹا ،بیٹی ،پوتا اور پوتی ) نہ ہو۔ ارشاد الٰہی ہے:

﴿وَلَدٌ فَإِن لَم يَكُن لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ...﴿١١﴾... سورة النساء

 "اور اگرمیت کے لیے اولادنہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے۔"[25]

اس آیت میں میت کے ترکہ کا وارث والدین کو قراردیا۔ پھر ماں کا حصہ (ایک تہائی) مقرر کر دیا جبکہ باپ کا حصہ مقرر نہیں کیا لہٰذا ثابت ہوا کہ باپ عصبہ کی حیثیت سے باقی سارا ترکہ لے گا۔

باپ یا دادا کو ذی فرض اور عصبہ دونوں حیثیتوں سے حصہ ملے گا ۔ذی فرض کی حیثیت سے چھٹا اور مزید عصبہ کی حیثیت سے اصحاب الفرائض سے بچاہوا مال مل جاتا ہے بشرطیکہ میت کی صرف مونث  اولاد یعنی بیٹی یا پوتی ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کا فرمان ہے:

"أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ"

"اصحاب الفرائض کوان کے حصے اداکرو۔ پھر جومال بچ جائے وہ قریبی مرد(عصبہ) کو دو۔"[26]

واضح رہے بیٹے اور پوتے کے بعد باپ ہی میت کے قریب ترین ہے۔

مذکورہ بیان سے معلوم ہوا کہ باپ کی تین حالتیں ہیں(1)میت کے بیٹے یا پوتے کی موجودگی میں صرف صاحب فرض ہو گا۔(2)میت کے بیٹے یا پوتے کے نہ ہونے کی حالت میں صرف عصبہ ہو گا۔(3) صاحب فرض اور عصبہ ہو گا جبکہ میت کی اولاد میں بیٹی یا پوتی ہو۔

مذکورہ تین صورتوں میں داداباپ کی طرح ہے جبکہ باپ زندہ نہ ہو۔نصوص شرعیہ اس پر دلالت کرتی ہیں۔

دادا کے باب میں ایک چوتھی اضافی حالت بھی ہےوہ یہ کہ جب داداوارث بن رہا ہو اور اس کے ساتھ میت کے عینی (سگے) یا علاتی (پدری) بھائی یا بہنیں ہوں تو دادا انھیں محروم کردے گا جیسا کہ باپ انھیں محروم کر دیتا ہے یا دادا ایک بھائی کے برابر حصہ لے گا ۔ اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔

علماء کی ایک جماعت کی یہ رائے ہے کہ دادا بھائی کے برابرحصہ لے گا کیونکہ دونوں باپ کے واسطے سے میت کی قرابت میں برابر ہیں دادا باپ ہے جب کہ بھائی باپ کے بیٹے ہیں لہٰذا میراث میں بھی سب برابر ہوں گے۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں سے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی یہی رائے ہے۔ آئمہ کرام میں سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ۔امام ابو یوسف: اور امام محمد شیبانی رحمۃ اللہ علیہ  کی بھی یہی رائے ہے۔ ان حضرات  نے مختلف دلائل توجیہات اور قیاسات سے استدلال کیا ہے جو کتب مطولہ میں موجود ہیں۔

علمائےکرام  کےدوسرے فریق کی رائے یہ ہے کہ باپ کی طرح دادا بھی بھائی بہنوں کو ترکہ سے محروم کر دیتا ہے۔ یہ رائے سیدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ،سیدنا ابن زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سیدنا عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ہے۔امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کے علاوہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  سے بھی ایک روایت اسی کی تائید میں ملتی ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  اور شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ  کا بھی یہی مسلک ہے۔ اس مسلک کی تائید میں نہایت قوی اور کثیر دلائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نزدیک یہ رائے پہلی رائے سے قوی ترہے۔[27]

ماں کی میراث کا بیان

 ماں کے حصہ پانے کی تین صورتیں ہیں۔

1۔ دو حالتوں میں چھٹا حصہ لیتی ہے۔

1۔جب میت کی مذکر یا مونث اولاد ہو جو وراثت کی حقدار ہو یا بیٹے کی اولاد ہو۔

2۔جب میت کے کسی بھی قسم کے دو یا زیادہ بھائی بہنیں ہوں خواہ وہ وارث ہوں یا نہ ہوں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَلِأَبَوَيهِ لِكُلِّ و‌ٰحِدٍ مِنهُمَا السُّدُسُ مِمّا تَرَكَ إِن كانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِن لَم يَكُن لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِن كانَ لَهُ إِخوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ...﴿١١﴾... سورة النساء

"اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے اس کے چھوڑے ہوئے مال  کا چھٹا حصہ ہے۔اگر اس (میت ) کی اولادہو،اگر نہ ہو۔اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے۔ ہاں !اگر میت کے کئی بھائی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے۔[28]

2۔ماں کو کل مال کا ایک تہائی حصہ ملے گا جبکہ مندرجہ بالا دونوں حالتیں نہ ہو۔ یعنی نہ تو میت کی اپنی صلبی اولاد۔ اور نہ بیٹے کی اولاد ہے اور نہ ہی میت کے بھائی بہن ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

﴿فَإِن لَم يَكُن لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِن كانَ لَهُ إِخوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ...﴿١١﴾... سورة النساء

"پس اگراولادنہ ہو،اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے۔ہاں !اگر میت کے کئی بھائی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے۔[29]

3۔ماں کو باقی ماندہ ترکہ میں سے ایک تہائی ملے گا جبکہ دو صورتوں "عمر يتين"میں سے کوئی ایک صورت ہو جو یہ ہیں ۔

(ا)خاوند،ماں،اور باپ (یہ مسئلہ چھ کے عددے بنے گا۔)

 (ب)بیوی ،ماں اور باپ (یہ مسئلہ چار کے عددے بنے گا۔)

اس مسئلے کو"عمر يتين"اس لیے کہا جاتا ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس میں فیصلہ دیا کہ ماں کے لیے زوجین میں سے کسی ایک کی موجودگی میں"ثلث ما بقي"ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"ماں کے لیے "ثلث ما بقي"کا حصہ نہایت درست ہے کیونکہ صرف والدین  کے وارث ہونے کی صورت میں قرآن نے ماں کو تہائی حصہ دیا ہے۔ اگر زوجین میں سے کوئی شامل ہو تو اسے اس کا حصہ دے کر باقی والدین کا ہے تو اسے اصل کی طرح ہی تقسیم کریں گے جیسا کہ میت پر قرض ہو یا اس نے وصیت کی ہو تو پہلے اسے ادا کریں گے پھر باقی مال تین حصے کر کے تقسیم کریں گے کہ ماں کو ایک حصہ اور باپ کو دو حصے ملیں گے۔"[30]

جدہ صحیحہ (دادی نانی) کی میراث کا بیان

جدہ صحیحہ سے مراد وہ عورت ہے جس کی میت کے ساتھ قرابت بواسطہ جد فاسدہ [31]نہ ہو مثلاً:نانی پر نانی یا دادی پر دادی وغیرہ ۔ اور اگر کسی کی میت کے ساتھ قرابت بوسطہ جد فاسد ہو تو وہ جدہ فاسدہ ہے جو وارث نہ ہو گی کیونکہ وہ ذوی الاحارم میں شامل ہے۔ مثلاً:ماں کے باپ (نانا) کی ماں وغیرہ۔

جدہ جو وارث بن سکتی ہے اس کا ضابطہ یہ ہے کہ میت سے اس کی قرابت صرف مؤنثوں کے ذریعے سے ہو جیسے نانی پر نانی وغیرہ یا اس کی قرابت صرف مذکر کے ساتھ ہو جیسے دادی پر دادی وغیرہ۔

جدہ جو وارث نہیں بن سکتی اس کا ضابطہ یہ ہے کہ قرابت مذکر کے ذریعے سے ہو جیسے ماں کے باپ کی ماں(ماں کی دادی ) یا (دادی کی دادی) دوسرے الفاظ میں،وہ عورت جس کی میت کی طرف نسبت کرتے ہوئےدو مؤنثوں کے درمیان ایک مذکر ہو۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر جدہ صحیحہ وارث ہو گی جبکہ جدہ فاسدہ وارث نہ ہو گی۔

جدہ صحیحہ کے وارث ہونے کی دلیل سنت رسول اور اجماع ہے۔

حضرت قبیصہ بن ذویب رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے پاس کسی میت کی نانی حاضر ہوئی اور اس نے اپنے حق میراث کی مقدار پوچھی تو آپ نے فرمایا: کتاب اللہ میں تیرا حصہ کچھ نہیں ہے اور نہ میرے علم کے مطابق سنت رسول میں تیرا حصہ ہے ہاں تو واپس چلی جا میں لوگوں سے اس کے بارے میں دریافت کروں گا، جب لوگوں سے پوچھا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بتایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاں اس مجلس میں موجود تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے میت کی نانی کو چھٹا حصہ دیا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے پوچھا کیا تمھارے ساتھ کوئی اور بھی تھا؟ تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کھڑے ہو کر وہی بات کہی جو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہی تھی چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے یہ حکم جاری کر دیا۔

پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی خلافت میں ان کے پاس کسی اور میت کی وادی آئی جو اپنی میراث کے بارے میں پوچھنا چاہتی تھی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:تیرے لیے کتاب اللہ میں علیحدہ کوئی حصہ نہیں۔ اور جو پہلے فیصلہ کیا گیا ہے وہ تیری غیر کے لیے ہے اور میں وراثت میں اپنی طرف سے کوئی اضافہ نہیں کر سکتا۔ بس وہی چھٹا حصہ ہی ہے جو تم دونوں (نانی دادی) کو ملے گا اگر تم اکٹھی ہو اور اگر تم میں سے کوئی ایک اکیلی وارث ہو تو وہ حصہ اسی کو مل جائے گا۔[32]

اس طرح سیدنا بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جدہ کے لیے چھٹا حصہ مقرر کیا جب میت کی ماں نہ ہو۔[33]

ان دو روایتوں سے ثابت ہوا کہ جدہ صحیحہ کے لیے میراث میں سے چھٹا حصہ ہے جیسا کہ سیدنا ابو کر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا تھا کہ اس(جدہ) کے لیے کتاب اللہ میں کوئی حصہ نہیں ہے کیونکہ قرآن میں مذکورہ ماں کئی قیود کے ساتھ مقید ہے جو کہ قریبی ماں کے ساتھ حکم خاص کرتی ہے جدہ(دادی نانی)کو اگرچہ ماں کہا گیا ہے مگر وراثت میں مذکورہ جدہ ماں کے حکم میں داخل نہیں جبکہ قرآن میں مذکورہ "حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ"میں(دادی نانی) شریک ہیں۔[34]لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس (جدہ) کو سدس (چھٹا حصہ) دیا ہے۔

اسی طرح جدہ کی میراث علمائے امت کے اجماع سے ثابت ہے نانی دادی کے حق میراث میں تو کسی صاحب علم کا اختلاف نہیں البتہ ان دونوں کے علاوہ میں اختلاف ہے۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور علماء کی ایک جماعت کا فرمان ہے۔ایک درجہ کی جدہ صحیحہ ایک ہو یا زیادہ تمام کی تمام وارث ہوں گی البتہ ان کے نزدیک جدہ فاسدہ وارث نہیں مثلاً: نانا کی ماں، بعض علماء نے تین جدات کو وارث قراردیا ہے اور وہ ہیں نانی اور دادی اور دادا کی ماں۔

جدہ صحیحہ کے وارث ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ ماں زندہ نہ ہو کیو نکہ میت اور جدہ (نانی) کے درمیان ماں واسطہ ہے اور واسطہ دور کے رشتہ والے کو محروم کر دیتا ہے الایہ کہ شریعت نے جسے مستثنیٰ قراردیا ہو۔[35] اہل علم کا اجماع ہے کہ ماں ہر قسم کی جدات کو محروم کر دیتی ہے۔

جدات میں ترکہ کی تقسیم کا طریقہ:۔

جب جدہ ایک ہو اور میت کی ماں زندہ نہ ہوتو وہ چھٹا حصہ لے گی جیسا کہ اوپر گزرچکا ہے۔یاد رہے جدہ کا حصہ چھٹے سے زیادہ نہ ہوگا۔بعض علماء کی رائے ہے کہ جب میت کی اولاد نہ ہو اور دویا دو سے زیادہ بھائی بہن نہ ہوں تو جدہ کو(ماں کی طرح) ایک تہائی ترکہ ملےگا لیکن یہ قول شاذ اور ناقابل اعتماد ہے۔

(1)۔اگر ایک سے زیادہ جدات ہوں جو ایک درجے کی ہوں تو وہ سب چھٹے حصے میں برابر کی شریک ہوں گی کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے ایسا ہی فیصلہ دیا تھا،اس لیے کہ وہ ایک سے زیادہ تھیں اورکوئی مذکر ان کے ساتھ شریک نہیں تھا،لہذا(زیادہ) بیویوں کی طرح وہ بھی(ایک ہویا زیادہ) برابر ہیں اور پھر ترجیح دینے والا قرینہ بھی نہیں ہے۔

(2)۔اگر زیادہ جدات ہوں تو جو میت کے قریب تر ہوں گی وہ چھٹے حصے کی وارث ہوں گی۔وہ ماں کی جانب سے ہوں یا باپ کی جانب سے اور دور کےرشتے والی جدات محروم ہوں گی۔

(3)۔میت کی دادی میت کے باپ کی موجودگی میں وارث ہوگی۔اس طرح دادے کی ماں دادے کی موجودگی میں وارث ہوگی ساقط نہ ہوگی اور یہ عام قاعدے کے خلاف ہے۔قاعدہ یہ ہے کہ جو شخص کسی واسطے سے میت سے قرابت رکھے تو وہ واسطہ دوروالے کو محروم کردے گا،چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے باپ کی موجودگی میں دادی کے حصے کے بارے میں روایت ہے کہ"یہ پہلا واقعہ تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے میت کی دادی کو باپ کی موجودگی میں چھٹا حصہ دیا تھا۔[36]

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جدہ اپنے واسطے کی میراث نہیں سمیٹ رہی کہ اس کی موجودگی میں اسے محروم قراردیاجائے۔"[37]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"جس نے یہ کہا کہ جو شخص کسی کے واسطے سے وارث ہوگا وہ اس واسطے کی موجودگی میں ترکہ سے محروم ہوگا اس کا قول باطل ہے کیونکہ کبھی کوئی واسطے کی موجودگی میں اپناحصہ لیتا ہے جیسے اخیافی بھائی اور بہن ماں کی موجودگی میں وارث ہوتے ہیں حالانکہ یہ ماں ان کے اور میت کے درمیان واسطہ ہے ۔اسی طرح کبھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا،پھربھی محروم کردیتاہے جیسے پوتا اپنے چچے کو یا بھتیجا میت کے چچے کو محروم کردیتاہے۔تو اصل قائدہ کلیہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جوکسی کی میراث کا وارث ہو وہ اقرب شخص کے ہوتے ہوئے ساقط ہوجاتاہے۔۔۔جدہ ماں کے قائم مقام ہوتی ہے،لہذا اس کی موجودگی میں ساقط،یعنی محروم ہوگی اگرچہ وہ ماں کے واسطے سے حصہ نہیں لے رہی۔[38]

بیٹی اور پوتی کی میراث کابیان

جب بیٹی اکیلی ہوتووہ دوشرطوں کے ساتھ نصف ترکہ کی حقدار ہے۔

1۔اس کے ساتھ اس کی دوسری کوئی بہن نہ ہو۔

2۔اس کو عصبہ بنانے والا کوئی بھائی بھی نہ ہو۔دلیل اس کی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿يوصيكُمُ اللَّهُ فى أَولـٰدِكُم لِلذَّكَرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثَيَينِ فَإِن كُنَّ نِساءً فَوقَ اثنَتَينِ فَلَهُنَّ ثُلُثا ما تَرَكَ وَإِن كانَت و‌ٰحِدَةً فَلَهَا النِّصفُ... ﴿١١﴾... سورة النساء

"اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیاده ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا۔ اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے"[39]

الله تعالیٰ کے فرمان:( وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً) سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اکیلی ہونا شرط ہے۔

اور اللہ کے فرمان(لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ )سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی عاصب(کسی کو عصبہ بنانے والے) کا اس کے ساتھ نہ ہونا شرط ہے۔

پوتی کے نصف ترکہ لینے کی تین شرائط ہیں:

1۔اس کا عاصب کوئی نہ ہو جو اس  کا بھائی یا اس کے درجے کا چچے کا بیٹا ہوسکتا ہے۔

2۔اس کے ساتھ اس کی بہن یا اس کے درجے کی چچازاد بہن نہ ہو۔

3۔میت کاکوئی ایسا وارث فرع(اولاد یا اولاد کی اولاد وغیرہ) موجود نہ ہوجو پوتی(پر پوتی وغیرہ) کی نسبت میت سے قریب تر ہو،مثلاً،بیٹی وغیرہ۔

(1)۔جب دو یا زیادہ بیٹیاں ہوں تو وہ دو شرطوں کے ساتھ دوتہائی کی حقدار ہیں:

1۔دو یا دو سے زیادہ ہوں۔

2۔کوئی  عاصب نہ ہو اور وہ میت کا صلبی بیٹا ہے۔

درج بالا دونوں صورتوں کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿يوصيكُمُ اللَّهُ فى أَولـٰدِكُم لِلذَّكَرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثَيَينِ فَإِن كُنَّ نِساءً فَوقَ اثنَتَينِ فَلَهُنَّ ثُلُثا ما تَرَكَ... ﴿١١﴾... سورة النساء

"اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیاده ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا۔ "[40]

اللہ کے فرمان(لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ) سے بیٹیوں کی دو تہائی وراثت کے لیے کسی عصبے کا نہ ہونا شرط معلوم ہوتاہے۔

اور اللہ تعالیٰ کے فرمان:( فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ) سے معلوم ہوتا ہے کہ دو یا زیادہ لڑکیاں ہونا شرط ہے۔

کلمات آیت(فَوْقَ اثْنَتَيْنِ) کے ظاہری معنی یہ معلوم ہوتے ہیں کہ دو تہائی حصہ دو سے زیادہ بیٹیوں کا ہے دو کا نہیں جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا مسلک ہے لیکن جمہور کا مسلک یہ ہے کہ دو بیٹیوں کا  حصہ بھی دو تہائی ہے،چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ سعد بن ربیع کی بیوی اپنی دونوں بیٹیوں کو ساتھ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس حاضر ہوئی اورعرض کی:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ سعد کی بیٹیاں ہیں جو غزوہ احد میں آپ کے ساتھ شہید ہوگئے۔اب ان(بیٹیوں) کے چچا نے سارامال خود ہی سمیٹ لیا ہے۔مال کے بغیر ان کی شادی کیسے ہوگی؟آپ نے فرمایا:"اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کوئی حکم نازل کرے گا ،پھر آیت میراث:(يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) الایۃ نازل ہوئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نےان کے چچا کو بلوایا اور فرمایا:

"سعد  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ان دونوں بیٹیوں کو ترکہ کی دو تہائی دو اور ان کی والدہ(سعد کی بیوہ) کو آٹھواں حصہ ادا کرو  پھر جو باقی بچے گا وہ تمہارا ہے۔"[41]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ حدیث زیر بحث آیت کی تفسیر ہے،نیز یہ واقعہ اس آیت کی شان نزول ہے۔باقی رہا سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور ان کے ہم نواؤں کا مسلک مذکور کہ دو بیٹیوں کا حصہ دوتہائی نہیں تو اس کا ایک جواب یہ ہے کہ کلمہ (فَوْقَ اثْنَتَيْنِ) بعض کلمات کی بعض کے ساتھ مطابقت کے پیش نظر ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان:

﴿يوصيكُمُ اللَّهُ فى أَولـٰدِكُم لِلذَّكَرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثَيَينِ فَإِن كُنَّ نِساءً فَوقَ اثنَتَينِ فَلَهُنَّ ثُلُثا ما تَرَكَ... ﴿١١﴾... سورة النساء

میں تینوں کلمات،یعنی:(أَوْلَادِ) ،(كُنَّ)اور(نِسَاءً)جمع استعمال ہوئے ہیں،اس لیے یہاں (فَوْقَ اثْنَتَيْنِ)  ہی مناسب کلمات تھے جو استعمال کیے جاتے۔

ایک جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لڑکے کے حصہ دو لڑکیوں کے مساوی رکھا ہے۔جب ایک لڑکا دوتہائی لے لیتا ہے تو ایک لڑکی کے لیے ایک تہائی باقی بچتا ہے۔تو اس سے واضح ہوگیا کہ دو لڑکیوں کا حصہ دو تہائی ہے کیونکہ اگر ایک لڑکی بھائی کے ساتھ مل کر ایک تہائی لیتی ہے تو ایک بہن کے ساتھ ایک تہائی حصہ زیادہ لائق ہے۔اس میں ادنیٰ کے ساتھ اعلیٰ پر تنبیہ ہے۔جب اللہ تعالیٰ نے ایک لڑکی کی میراث نصاً ذکر کی تو دو لڑکیوں کی میراث تنبیہاً ذکر کردی۔کلمہ (فَوْقَ اثْنَتَيْنِ)  سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ بیٹیاں دو سے زیادہ بھی ہوجائیں تو ان کا حصہ نہیں بڑھتا۔

(2)۔دوپوتیاں دو بیٹیوں کی طرح دو تہائی کی مستحق ہیں۔وہ دو سگی بہنیں ہوں(یاسوتیلی بہنیں) یا ایک درجے کی دو چچازاد بہنیں۔ان کو حقیقی بیٹیوں پر قیاس کرتے ہوئے دو تہائی وراثت کا حصہ ملے گا کیونکہ پوتی بھی حقیقی(صلبی) بیٹی کی طرح ہے لیکن اس میں تین شرطیں ہیں:

1۔پوتیاں دو یا زیادہ ہوں۔

2۔کوئی عاصب نہ ہو،یعنی پوتا جو اس کا بھائی ہو یا ان کے چچا کا بیٹا جوان کے درجے کا ہو۔

3۔ان سےاعلیٰ درجےکی اولادنہ ہوجومیت کےقریب ہومثلاً:بیٹا،بیٹی،پوتا۔واللہ اعلم

عینی(سگی) اور علاتی(پدری) بہنوں کی میراث کابیان

اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء کے آخر میں عینی اور علاقی بہنوں کا حصہ وضاحت سے یوں بیان فرمایا ہے:

﴿يَستَفتونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفتيكُم فِى الكَلـٰلَةِ إِنِ امرُؤٌا۟ هَلَكَ لَيسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُختٌ فَلَها نِصفُ ما تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُها إِن لَم يَكُن لَها وَلَدٌ فَإِن كانَتَا اثنَتَينِ فَلَهُمَا الثُّلُثانِ مِمّا تَرَكَ وَإِن كانوا إِخوَةً رِجالًا وَنِساءً فَلِلذَّكَرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثَيَينِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُم أَن تَضِلّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَىءٍ عَليمٌ ﴿١٧٦... سورةالنساء

"آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لئے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وه بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس کے اولاد نہ ہو۔ پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا۔ اور اگر کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لئے حصہ ہے مثل دو عورتوں کے، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے"[42]

اور اخیافی بہنوں کی میراث کا ذکر شروع سورت میں ان الفاظ میں فرمایا:

﴿ إِنِ امرُؤٌا۟ هَلَكَ لَيسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُختٌ فَلَها نِصفُ ما تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُها إِن لَم يَكُن لَها وَلَدٌ فَإِن كانَتَا اثنَتَينِ فَلَهُمَا الثُّلُثانِ مِمّا تَرَكَ ... ﴿١٧٦﴾... سورة النساء

"اور جن کی میراث لی جاتی ہے وہ مرد یا عورت کلالہ ہو(اس کا باپ بیٹا نہ ہو)اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہےاور اس سے زیاده ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں"۔[43]

(3)۔سگی بہن نصف ترکہ کی حقدار ہے جب اس میں درج ذیل چارشرائط جمع ہوں:

1۔اس کے ساتھ عاصب،یعنی اس کا سگا بھائی نہ ہو۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ وَإِن كانوا إِخوَةً رِجالًا وَنِساءً فَلِلذَّكَرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثَيَينِ... ﴿١٧٦... سورة النساء

"اور اگر کئی بھائی بہن ،یعنی مرد بھی اور عورتیں بھی ہوں تو مرد کے لیے دو عورتوں کے مثل حصہ ہے۔[44]

2۔وہ اکیلی ہو اس کے ساتھ کوئی دوسری سگی بہن شریک نہ ہو۔ارشاد الٰہی ہے:

﴿ إِنِ امرُؤٌا۟ هَلَكَ لَيسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُختٌ فَلَها نِصفُ ما تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُها إِن لَم يَكُن لَها وَلَدٌ فَإِن كانَتَا اثنَتَينِ فَلَهُمَا الثُّلُثانِ مِمّا تَرَكَ ... ﴿١٧٦﴾... سورة النساء

"اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لئے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وه بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس کے اولاد نہ ہو۔ پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا"[45]

3۔میت کا باپ وارث نہ ہو اور صحیح قول کے مطابق دادا بھی وارث نہ ہو۔

4۔میت کی اولاد :بیٹا،بیٹی یا پوتا،پوتی وغیرہ(وارث) نہ ہو۔تیسری اورچوتھی شرط کی دلیل یہ ہے کہ یہاں بھائی اور بہن کلالہ کے وارث بن رہے ہیں اور کلالہ وہ ہوتا ہے جس کا والد اور اولاد موجود نہ ہو۔

(4)۔علاقی بہن نصف ترکہ کی حقدار ہے جب درج ذیل  پانچ شرائط موجود ہوں۔چارشرائط تو وہی ہیں جو سگی بہن کی میراث کے تحت ابھی بیان ہوئی ہیں اور پانچویں شرط یہ ہے کہ میت کا کوئی سگا بھائی یا سگی  بہن نہ ہو کیونکہ سگے بھائی بہن کا رشتہ علاتی بہنوں کی نسبت قوی تر ہے۔

(5)۔سگی بہنیں دو یا زیادہ ہوں تو ان کا حصہ دوتہائی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿فَإِن كانَتَا اثنَتَينِ فَلَهُمَا الثُّلُثانِ مِمّا تَرَكَ ... ﴿١٧٦﴾... سورة النساء

"پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا"[46]

دو تہائی ترکہ لینے کی چار شرائط ہیں:

1۔وہ تعداد میں دو یادو سے زیادہ ہوں۔آیت:( فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ) سے استدلال ہے۔

2۔ان کوعصبہ بنانے والا ان کا سگا بھائی موجود نہ ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَإِن كانوا إِخوَةً رِجالًا وَنِساءً فَلِلذَّكَرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثَيَينِ... ﴿١٧٦... سورة النساء

"اور اگر کئی بھائی بہن ،یعنی مرد بھی اور عورتیں بھی ہوں تو مرد کے لیے دو عورتوں کے مثل حصہ ہے۔[47]

3۔میت کی وارث اولاد(بیٹا،بیٹی یا پوتا،پوتی) موجود نہ ہو۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ إِنِ امرُؤٌا۟ هَلَكَ لَيسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُختٌ فَلَها نِصفُ ما تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُها إِن لَم يَكُن لَها وَلَدٌ فَإِن كانَتَا اثنَتَينِ فَلَهُمَا الثُّلُثانِ مِمّا تَرَكَ ... ﴿١٧٦﴾... سورة النساء

"اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لئے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وه بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس کے اولاد نہ ہو۔ پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا"[48]

4۔میت کا باپ اور دادا موجود نہ ہو یا وارث نہ ہو۔

(6)۔علاتی بہنیں دو یا دو سے زیادہ ہوں تو ان کا مجموعی حصہ دو تہائی ہے کیونکہ آیت کلالہ کے مفہوم عام میں وہ بھی بالاجماع شامل ہیں،چنانچہ فرمان الٰہی ہے:

﴿ إِنِ امرُؤٌا۟ هَلَكَ لَيسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُختٌ فَلَها نِصفُ ما تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُها إِن لَم يَكُن لَها وَلَدٌ فَإِن كانَتَا اثنَتَينِ فَلَهُمَا الثُّلُثانِ مِمّا تَرَكَ ... ﴿١٧٦﴾... سورة النساء

"اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لئے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وه بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس کے اولاد نہ ہو۔ پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا"[49]

یاد رہے ان کا دو تہائی حصہ تب ہے جب پانچ شرائط موجود ہوں۔چارشرائط تو وہی ہیں جو سگی بہنوں کے بیان میں گزرچکی ہیں اورپانچویں شرط یہ ہے کہ میت کے سگے بھائی یاسگی بہنیں موجود نہ ہوں۔ اگر سگا بھائی یا سگی بہنیں ایک ہوں یا زیادہ ہوں تو علاقتی بہنیں دوتہائی کی وارث نہ ہوں گی۔اگر ایک سگا بھائی یادوسگی بہنیں ہوں تو یہ محروم ہوجاتی ہیں الا یہ کہ علاتی بہنوں کے ساتھ علاتی بھائی ہو تو وہ عصبہ بن کر حصہ لیں گی(جوایک تہائی ہوگا)۔اگر سگی بہن ایک ہوتو وہ نصف ترکہ لےگی اگر اس کے ساتھ ایک یا زیادہ علاتی بہنیں ہوں تو ان کا حصہ چھٹا ہوگا تاکہ وہ تہائی مکمل ہو۔

(7)۔اگر ایک بیٹی ہو اور اس کے ساتھ ایک یا زیادہ تعداد میں پوتیاں ہوں تو بیٹی کو نصف اور پوتیوں کو(دوتہائی مکمل کرنے کے لیے) چھٹا حصہ ملے گا۔سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے یہی فیصلہ دیاتھا اورفرمایا:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فیصلہ کیاکہ بیٹی کے لیے نصف ہے اور پوتی کے لیے چھٹا حصہ ہے دوثلث مکمل کرتے ہوئے اور جو بچ جائے وہ بہن کا ہے۔"[50]

اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بیٹیاں ایک سے زائد ہوں تو ان کا حصہ دوتہائی ہی بنتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ إِنِ امرُؤٌا۟ هَلَكَ لَيسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُختٌ فَلَها نِصفُ ما تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُها إِن لَم يَكُن لَها وَلَدٌ فَإِن كانَتَا اثنَتَينِ فَلَهُمَا الثُّلُثانِ مِمّا تَرَكَ ... ﴿١٧٦﴾... سورة النساء

"اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لئے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وه بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس کے اولاد نہ ہو۔ پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا"[51]

﴿فَإِن كُنَّ نِساءً فَوقَ اثنَتَينِ فَلَهُنَّ ثُلُثا ما تَرَكَ...﴿١١﴾... سورةالنساء

"اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیاده ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا۔ "[52]

اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک بیٹی کا نصف اور پوتی کا چھٹا حصہ مجموعی طور پر دو تہائی بنتا ہے،البتہ اس میں دو شرطیں ہیں:

1۔میت کی پوتی کے ساتھ اس کے درجے کا پوتا نہ ہو۔

2۔اقرب اور اعلیٰ اولاد ،یعنی بیٹا نہ ہو۔

(8)۔علاتی بہن بھی ایک سگی بہن کی موجودگی میں(دوتہائی کی تکمیل کے لیے) چھٹا حصہ لیتی ہے۔اس پر علماء کااجماع ہے نیز علاتی بہن کو پوتی پر قیاس کیا گیا ہے،البتہ علاتی بہنیں چھٹا حصہ تب لیں گی جب دو شرطیں موجود ہوں۔

1۔علاتی بہن ایک سگی بہن کے ساتھ ترکہ میں شریک ہوجونصف لے رہی ہو۔اگر سگی بہنیں ایک سے زیادہ ہوں تو علاتی بہن محروم ہوجاتی ہے کیونکہ دو تہائی حصہ انھی پر مکمل ہوچکاہے۔

2۔میت کی علاتی بہن کے ساتھ علاتی بھائی نہ ہو جو اسے عصبہ بنادے۔اگر علاتی بہن کے ساتھ اس کا بھائی موجود ہوتو سگی بہن کو اس کا حصہ نصف ترکہ دے کر باقی نصف ترکہ ان میں(فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ) کے مطابق تقسیم ہوگا۔واللہ اعلم۔

بیٹیوں کی موجودگی میں بہنوں کا حصہ

اور

اخیافی بھائی بہن کی میراث کا بیان

جب میت کی ایک یا زیادہ بیٹیوں کے ساتھ ایک یا زیادہ سگی یاپدری بہنیں موجود ہوں توبیٹیاں اپنا مقررہ حصہ دو تہائی(3/2) لیں گی اورجو باقی بچے گا وہ جمہور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اورتابعین  رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک سگی بہنوں کو اگر وہ نہ ہوں تو علاتی(پدری) بہنوں کو بیٹیوں کے ساتھ عصبہ کی حیثیت سے ملے گا۔(فقہائے کرام اسے عصبہ مع الغیر کہتے ہیں۔) اس کی دلیل صحیح بخاری کی روایت ہے:

"سئل أبو موسى عن بنت وابنة ابن وأخت فقال للبنت النصف وللأخت النصف وأت ابن مسعود فسيتابعني فسئل ابن مسعود وأخبر بقول أبي موسى فقال لقد ضللت إذا وما أنا من المهتدين أقضي فيها بما قضى النبي صلى الله عليه وسلم للابنة النصف ولابنة ابن السدس تكملة الثلثين وما بقي فللأخت "

"سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے پوچھا گیا کہ بیٹی،پوتی اور بہن تینوں میں ترکہ تقسیم کیسے ہوگا؟انھوں نے فرمایا:بیٹی اور بہن دونوں کو نصف نصف ترکہ ملےگا اور پوتی محروم ہوگی،پھر سائل سے کہا تم یہی مسئلہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے پوچھو،نیز انھیں میرے فتوے سے بھی آگاہ کرنا،اُمید ہے وہ میری تائید فرمائیں گے،چنانچہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے یہ فتویٰ سن کر فرمایا:اگر میں بھی یہی فتویٰ دوں تو گمراہ ہوں گا ہدایت یافتہ نہ رہوں گا۔میں تو وہی فیصلہ دوں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دیا تھا کہ بیٹی کا حصہ نصف اور پوتی کا حصہ چھٹا ہے۔(تاکہ دوثلث مکمل ہو) جبکہ باقی ترکہ(ایک تہائی) بہن کا ہے۔"[53]

اس روایت سے واضح ہواکہ جب بیٹی اور پوتی اپنا مقرر حصہ وصول کرلیں گی تو باقی ترکہ عصبہ کی حیثیت سے بہن کو ملے گا۔

(1)۔ایک اخیافی(مادری) بھائی ہو یا ایک اخیافی بہن تو اس کا حصہ چھٹا ہے ۔اگر ایک سے زیادہ ہوں تو ان کا مجموعی حصہ ایک تہائی ہے جو مذکر ومؤنث میں برابر تقسیم ہوگا۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

﴿وَإِن كانَ رَجُلٌ يورَثُ كَلـٰلَةً أَوِ امرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَو أُختٌ فَلِكُلِّ و‌ٰحِدٍ مِنهُمَا السُّدُسُ فَإِن كانوا أَكثَرَ مِن ذ‌ٰلِكَ فَهُم شُرَكاءُ فِى الثُّلُثِ ...﴿١٢﴾... سورة النساء

"اور جن کی میراث لی جاتی ہے وہ مرد یا عورت کلالہ ہو(اس کا باپ بیٹا نہ ہو)اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہےاور اس سے زیاده ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں"۔[54]

علمائے کرام کااجماع ہے کہ اس آیت میں اخیافی بھائی بہن کا بیان ہے،نیز سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور سیدنا سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی قراءت بھی یوں ہے:

"وله أخ أو أخت من أم"

علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:یہی رائے دلالت قرآن کی رو سے قرین قیاس ہے کہ صورت مذکورہ میں مذکر ومؤنث برابرہوں۔

(2)۔اخیافی بھائی بہن چھٹا حصہ تب لیتے ہیں جب ان میں تین شرطیں پائی جاتی ہیں:

1۔وارث اولاد(فرع) موجود نہ ہو۔

2۔میت کا باپ دادا وغیرہ(اصول) نہ ہوں۔

3۔اخیافی بھائی یا بہن ایک ہو۔

(3)۔اخیافیوں کاتہائی ترکہ کا مستحق ہونادرج ذیل تین شرائط کے ساتھ ہے:

1۔اخیافی بھائی یااخیافی بہنیں دویادو سے زیادہ ہوں۔مرد ہوں یاعورتیں یا دونوں ہوں۔

2۔وارث اولاد یا بیٹے کی اولاد موجود نہ ہو۔

3۔میت کا باپ دادا نہ ہو۔

اخیافی بھائی بہنوں کےدرج ذیل خصوصی احکام ہیں:

1۔مذکر اور مؤنث تقسیم میں برابر برابر حصہ لیتے ہیں،یعنی ان میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔ایک ہونے کی صورت میں فرمان الٰہی یہ ہے:

﴿وَإِن كانَ رَجُلٌ يورَثُ كَلـٰلَةً أَوِ امرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَو أُختٌ فَلِكُلِّ و‌ٰحِدٍ مِنهُمَا السُّدُسُ...﴿١٢﴾... سورة النساء

"اور جن کی میراث لی جاتی ہے وہ مرد یا عورت کلالہ ہو(اس کا باپ بیٹا نہ ہو)اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے "۔[55]

اور ايك سے زیادہ ہونے کی صورت میں ارشاد الٰہی یہ ہے:

﴿فَإِن كانوا أَكثَرَ مِن ذ‌ٰلِكَ فَهُم شُرَكاءُ فِى الثُّلُثِ ...﴿١٢﴾... سورة النساء

"اور اگر اس سے زیاده ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں"۔[56]

یاد رہے کہ جمہور کے ہاں"کلالہ شخص وہ ہے جس کی اولاد نہ ہو اورباپ بھی موجود نہ ہوتو گویا کہ اخیافیوں کے لیے میراث لینے کی یہ شرط ہوئی کہ میت کی اولاد اور باپ نہ ہو۔یہ بھی یاد رہے کہ اولاد سے مراد مذکر ومؤنث دونوں ہیں۔اسی طرح والد سے مرادباپ دادا ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿فَإِن كانوا أَكثَرَ مِن ذ‌ٰلِكَ فَهُم شُرَكاءُ فِى الثُّلُثِ ...﴿١٢﴾... سورة النساء

"اور اگر اس سے زیاده ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں"۔[57]

اس فرمان میں دلیل ہے کہ بھائیوں کو بہنوں پر حصے میں ترجیح نہ ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ترکہ کے بارے میں سب کی شراکت بیان کی ہے اور شراکت کا اطلاق مساوات کا متقاضی ہے۔

شاید اس میں حکمت یہ ہے کہ وہ محض ایک عورت(والدہ) کی قرابت کی بنیاد پر وارث ہورہے ہیں اور یہ قرابت ان کے مذکر ومؤنث میں برابر ہے،لہذا حصے میں  ترجیح کا کوئی معنی نہیں بخلاف باپ کی قرابت کے۔

2۔یہ سب ماں کی موجودگی میں اپنا مقررہ حصہ لیتے ہیں جس کے واسطے سے ان کی میت سے قرابت ہے اوریہ بات قاعدہ عامہ کے خلاف ہے۔قاعدہ عامہ یہ ہے کہ جب کوئی کسی واسطے سے میت سے تعلق رکھتاہے تووہ اس واسطے کی موجودگی میں وارث نہیں ہوتا جیسےنواسا۔

3۔یہ جس کے واسطے سے حصہ لیتے ہیں اس کا حصہ کم کردیتے ہیں،یعنی ان کیوجہ سے ماں کاحصہ تہائی سے کم ہوکر چھٹا رہا جاتاہے اور یہ اس قاعدہ عامہ کے خلاف ہے جس میں ہے کہ واسطے کے ہوتے ہوئے وارث کو کچھ نہیں ملتا۔واضح رہے دو یا زیادہ بھائی بہن ماں کا حصہ کم کرتے ہیں۔ایک بھائی ہویا ایک بہن وہ ماں کے حصے پر اثر انداز نہیں ہوتے۔

4۔یہ جس واسطے سے میت کے قرابت دار بنتے ہیں اس کی موجودگی میں وارث بنتے ہیں،یعنی وہ اپنی ماں کے ساتھ وارث ہوں گے جس کے واسطے سے وہ میت کے قریبی ہوئے ہیں۔ان کے سوا دوسرے وارث اپنے رشتے دار کے ہوتے ہوئے وارث نہیں ہوتے جیسے پوتا میت کے بیٹے کی موجودگی میں وارث نہیں بنتا۔اور اسی مسئلہ میں دادی اور دادے کی ماں بھی شریک ہے کیونکہ وہ بھی اپنے بیٹے کیوجہ سے میت کی رشتہ دار بنتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ واسطہ اس قرابت دار کو محروم نہیں کرتا جس کیوجہ سے وہ قرابت داربنا ہے مگر اس وقت جب وہ نیابتاً اس کا حصہ لیتا ہو۔

اور اگر وہ رشتے دار اپنے قریبی کا نیابتاً حصہ نہ لے تو وہ محروم نہ ہوگا جیسا کہ اخیافی بھائیوں کا معاملہ ہے کیونکہ وہ ماں کی عدم موجودگی میں ماں کا حصہ نہیں لیتے۔اس کے برعکس دادی اور دادے کی ماں نائب بن کر ماں کےحصے کی وارث بنتی ہیں۔

عصبات کا بیان

"عصبہ"عصب سے ماخوذ ہےجس کے لغوی معنی"باندھنے گھیرنے اور تقویت پہنچانے کے ہیں۔"پگڑیوں کو "عصائب"اس لیے کہاجاتا ہے کہ وہ سر کا احاطہ کرتی ہیں۔عصبہ کا واحد"عاصب"ہے۔عصبہ کا اطلاق واحد،تثنیہ،جمع،مذکر اورمؤنث سب پر یکساں ہوتا ہے۔کسی شخص کے باپ کی جانب سے قرابت دارعصبات کہلاتے ہیں۔اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ انھوں نے اس کا احاطہ کیا ہواہوتاہے۔

علمائے فرائض کی اصطلاح میں "عاصب" وہ وارث  ہے جس کا حصہ ترکہ میں مقرر نہ ہو۔اوراگر وہ اکیلا ہوتو سارا مال لے لیتا ہے،اگر صاحب فرض کے ساتھ ہوتو صاحب فرض کا بچا ہوا مال لیتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ"

"اصحاب الفروض کوان کے حصے دو۔ پھر جو بچ جائے وہ قریبی مرد(عصبہ) کو دو۔"[58]

(1)۔عصبہ بنفسہ:اس قسم میں خاوند اور اخیافی بھائی کے سوا وہ مرد شامل ہیں جن کامیراث میں سے حصہ لینے پر علماء کا اجماع ہے اور وہ چودہ افراد ہیں جو یہ ہیں:بیٹا،پوتا اگرچہ نیچے ہو،باپ ،دادا،سگا بھائی،سگے بھتیجے ،علاتی بھائی ،علاتی بھتیجے،سگا چچا،سگے چچے کے بیٹے،علاتی چچا،علاتی چچے کے بیٹے،آزاد کرنے والا اور آزاد کرنے والی۔

(2)۔عصبہ بغیرہ،ہروہ ذی فرض عورت ہے جو اپنے عصبہ بھائی کے ساتھ مل کرعصبہ بن جاتی ہے اور یہ چار عورتیں ہیں:

1۔بیٹی،میت کے بیٹے کے ساتھ مل کر عصبہ بن جاتی ہے۔

2۔پوتی،اپنے درجے کے پوتے کے ساتھ عصبہ بن جاتی ہے۔وہ اس کا سگا بھائی ہویا اس کے چچاکا بیٹا یا اس کے نیچے کے درجے کا بیٹا۔دونوں قسموں کی دلیل میں ارشاد ہے:

﴿يوصيكُمُ اللَّهُ فى أَولـٰدِكُم لِلذَّكَرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثَيَينِ...﴿١١﴾... سورة النساء

"اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے" "[59]

یہ آیت صلبی اولاد اور پوتوں کو شامل ہے۔

3۔سگی بہن،جب اپنے سگے بھائی کے ساتھ ہو۔

4۔علاتی بہن،جب اپنے علاتی بھائی کے ساتھ ہو۔

دونوں کی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَإِن كانوا إِخوَةً رِجالًا وَنِساءً فَلِلذَّكَرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثَيَينِ... ﴿١٧٦... سورة النساء

"اور اگر کئی بھائی بہن ،یعنی مرد بھی اور عورتیں بھی ہوں تو مرد کے لیے دو عورتوں کے مثل حصہ ہے۔[60]

یہ آیت سگے بھائیوں اور علاتی(پدری)بھائیوں کو شامل ہے۔

الغرض یہ چار مرد:بیٹا،پوتا،سگا بھائی اور علاتی بھائی ان کے ساتھ ان کی بہنیں ان کےساتھ عصبہ بننے کیوجہ سے میراث لیتی ہیں۔ان کے علاوہ جومرد ہیں ان کی بہنیں ان کے ساتھ عصبہ نہیں بنتیں،مثلاً:بھتیجا ،چچا اورچچے کا  بیٹا۔

(2)۔عصبہ مع غیرہ:یہ دو عورتیں ہیں:

1۔سگی بہن۔

2۔اور علاتی بہن۔

1۔سگی بہن جب میت  کی بیٹی یاپوتی کے ساتھ ترکہ لیتے وقت شریک ہو،اسی طرح علاتی بہن جب میت کی بیٹی یا پوتی کے ساتھ ترکہ لیتے وقت شریک ہو بشرط یہ کہ سگی بہن یا سگا بھائی نہ ہو۔اس کی دلیل سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا وہ فیصلہ ہے جو صحیح بخاری میں مذکور ہے اور یہی جمہورصحابہ وتابعین  رضوان اللہ عنھم اجمعین اور ان کے بعد آنے والےعلماء کا فتویٰ ہے کہ سگی بہنیں یا علاتی بہنیں بیٹی یا پوتی کے ساتھ مل کر عصبہ بن جاتی ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے:

"سئل أبو موسى عن بنت وابنة ابن وأخت فقال للبنت النصف وللأخت النصف وأت ابن مسعود فسيتابعني فسئل ابن مسعود وأخبر بقول أبي موسى فقال لقد ضللت إذا وما أنا من المهتدين أقضي فيها بما قضى النبي صلى الله عليه وسلم للابنة النصف ولابنة ابن السدس تكملة الثلثين وما بقي فللأخت "

"سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے پوچھا گیا کہ بیٹی،پوتی اور بہن تینوں میں ترکہ تقسیم کیسے ہوگا؟انھوں نے فرمایا:بیٹی اور بہن دونوں کو نصف نصف ترکہ ملےگا اور پوتی محروم ہوگی،پھر سائل سے کہا تم یہی مسئلہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے پوچھو،نیز انھیں میرے فتوے سے بھی آگاہ کرنا،اُمید ہے وہ میری تائید فرمائیں گے،چنانچہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے یہ فتویٰ سن کر فرمایا:اگر میں بھی یہی فتویٰ دوں تو گمراہ ہوں گا ہدایت یافتہ نہ رہوں گا۔میں تو وہی فیصلہ دوں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دیا تھا کہ بیٹی کا حصہ نصف اور پوتی کا حصہ چھٹا ہے۔(تاکہ دوثلث مکمل ہو) جبکہ باقی ترکہ(ایک تہائی) بہن کا ہے۔"[61]

(3)۔عصبہ بنفسہ میں سے اگر کوئی اکیلا ہوگا تو وہ سارا مال لے گا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

"وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ "

"اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس کی اولاد نہ ہو۔"[62]

اس آیت میں بھائی کو بہن کے سارے مال کاوارث قراردیاہے اور یہ حکم تب ہے جب وہ اکیلا ہو۔

(4)۔اگر اس کے ساتھ کوئی صاحب فرض ہوتو اصحاب الفرائض کو دے کر بچا ہوامال عصبہ کو ملے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ"

"اصحاب الفروض کوان کے حصے دو۔ پھر جو بچ جائے وہ قریبی مرد(عصبہ) کو دو۔"[63]

ياد رہے اگر اصحاب الفرائض کو دے کر مال باقی کچھ نہ بچے تو عصبات محروم ہوجاتے ہیں۔

(5)۔عصبات کی پانچ جہات ہیں:

1۔" بنـوة "یعنی بیٹا،پوتا ،پر پوتا وغیرہ۔

2۔"ابوة"یعنی باپ،دادا،پردادا وغیرہ۔

3۔"اخوة"یعنی سگابھائی ،علاتی بھائی،سگے بھائی کا بیٹا،علاتی بھائی کا بیٹا۔

4۔"عمومة"یعنی سگا چچا،علاتی چچا،سگے چچے کا بیٹا،علاتی چچے کا  بیٹا۔

5۔"ولاء"یعنی آزاد کرنے کے سبب آزاد کرنے والا شخص عتیق کاعصبہ ہوتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"إِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ"

"ولاء اسے ملے گی جو آزاد کرے گا۔"[64]

(6)۔اگر دو یا زیادہ عصبات جمع ہوں تو ان کی چار صورتیں ہیں:

1۔دونوں اشخاص جہت،درجہ اور قوت میں برابر ہوں تو میراث میں دونوں  شریک ہوں گے:بیتے یاسگے بھائی یا چچے۔

2۔اگر جہت میں مختلف ہوں تو قوی جہت والے کو دوسرے پر ترجیح ہوگی،لہذا بیٹا،باپ سے عصبے کی حیثیت میں مقدم ہوگا۔

3۔جہت میں متحد ہوں لیکن درجے میں مختلف ہوں،مثلاً:بیٹا اور پوتا دونوں جمع ہوں توترکہ بیٹے کو ملے گا پوتے کو نہیں کیونکہ بیٹا درجے میں قریب تر ہے۔

4۔اگر جہت اور درجے میں دونوں متحد ہوں لیکن قوت درجے میں مختلف ہوں کہ ایک دوسرے سے قوی ہوتو قوی کو ترجیح ہوگی،مثلاً:سگا بھائی اور علاتی بھائی دونوں ہوں تو سگا بھائی مقدم ہوگا کیونکہ اس کی نسبت ماں باپ دونوں کی طرف  ہے جب کہ علاتی کی نسبت صرف باپ کی طرف ہے۔

حجب کابیان

علم میراث میں"حجب" کا باب بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس باب کی تفصیلی معرفت حاصل ہونے ہی سے حق والے کو اس کا حق دیا جاسکتاہے۔اور اس سے عدم  واقفیت خطرے کا موجب ہے کیونکہ ممکن ہے کہ وارث کو غیر وارث یا غیر وارث کو وارث قراردے دیاجائے۔یہی وجہ ہے کہ بعض ماہرین علم میراث کا کہنا ہے کہ جو شخص حجب کے بارے میں علم نہیں رکھتا اس کے لیے میراث کے مسائل میں فتویٰ دینا حرام ہے۔

"حجب" کے لغوی معنی"منع کرنے اور روکنے"کے ہیں۔حجاب[65](پردہ) اورحاجب بمعنی مانع ہے،بادشاہ کے دربان کو اسی وجہ سے حاجب کہتے ہیں۔

علمائےمیراث کی اصطلاح میں حجب سے مرادیہ ہے:"کوئی وارث کسی دوسرے کی وجہ سے اپنے کل حصے سے یا زیادہ حصے سے محروم ہوجائے۔"

(1)۔علم میراث میں حجب کی دو قسمیں ہیں:

1۔حجب اوصاف:جس شخص کو میراث کے تین موانع:غلامی،قتل اور اختلاف دین میں سے کوئی ایک مانع لاحق ہو۔ایسا شخص وارث نہیں قرار پاتا۔اس کا موجود نہ ہونے کے مترادف ہے۔

2۔حجب اشخاص:کوئی وارث دوسرے وارث کی وجہ سے  ترکہ سے بالکل محروم ہوجائے تو اسے"حجب"حرمان کہا جاتا ہے۔اوراگر کسی وارث کو دوسرے وارث کی وجہ سے کم حصہ ملے تو یہ حجب نقصان ہے۔چونکہ ان قسموں میں مانع شخص ہوتا ہے ،اس لیے اسے حجب اشخاص کا نام دیا گیا ہے۔

حجب اشخاص کی سات صورتیں ہیں۔تین صورتوں میں کسی شخص کی وجہ سے وارث کا حصہ زیادہ کے بجائے کم ہوجاتاہےاور چار صورتوں میں افراد کی تعداد بڑھ جانے سے ان کا حصہ کم ہوجاتا ہے۔تفصیل یہ ہے:

1۔کوئی وارث دوسرے کی وجہ سے صاحب فرض کی حیثیت سے زیادہ کے بجائے کم حصہ لے،مثلاً:اولاد کی وجہ سے خاوند نصف کے بجائے چوتھائی ترکہ کا حقدار ہے۔

2۔کوئی وارث دوسرے وارث کی وجہ سے بحیثیت عصبہ زیادہ کے بجائے کم حصہ لے ،مثلاً:بہن عصبہ مع الغیر کی بجائے عصبہ بالغیر بن جائے۔

3۔کوئی صاحب فرض کسی دوسرے کی وجہ سے عصبہ بن کر کم حصہ لے ،مثلاً بیٹی نصف کی بجائے(اپنے بھائی کے ساتھ) عصبہ بالغیر بن کر کم حصہ لے۔

4۔کوئی عصبہ کے بجائے صاحب فرض بن کر کم حصہ لے،مثلاً:اولاد کی موجودگی میں میت کا باپ عصبہ کی بجائے صاحب فرض ہوجائے۔

5۔ایک مقرر فرض حصے میں شرکاء کی تعداد بڑھ جائے،مثلاً:میت کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو چوتھائی یا آٹھواں حصہ سب میں برابر تقسیم ہوجائے۔

6۔عصبہ کی حیثیت سے لینے والے شرکاء کی تعداد بڑھ جائے،مثلاً:میت کے بیٹے زیادہ ہوں اولاد کاحصہ سب میں بٹ جائے گا اور ہر ایک کا حصہ کم ہوجائےگا۔

7۔عول کے سبب ورثاء کا حصہ کم ہوجائے۔اس صورت میں ہر ایک کو اس کے مقررہ حصے سے کم ملتا ہے۔

(2)۔حجب کا دارومدارچند قواعد پر ہے:

(3)۔جو بھی میت سے رشتہ کسی دوسرے وارث کے واسطے سے رکھتا ہوتو وہ شخص اس واسطے کی موجودگی میں محجوب(محروم) ہوگا،مثلاً:پوتا بیٹے کی موجودگی میں دادی،نانی ماں کی موجودگی میں دادا،باپ کی موجودگی میں اور بھائی،باپ کی موجودگی میں محروم ہوں گے۔

(4)۔الاقرب فالاقرب،یعنی جب دو یا زیادہ عصبات جمع ہوجائیں تو جو جہت کے اعتبار سے مقدم ہوگا وہ وارث ہوگا،مثلاً:بیٹا بحیثیت عصبہ باپ سے مقدم ہوگا۔اگر جہت میں دونوں مقدم ہوں تو قریب تر مقدم ہوگا،مثلاً:بیٹا اور دوسرے بیٹے کا بیٹا(پوتا) جمع ہوں تو بیٹا پوتے سے مقدم ہوگا کیونکہ وہ میت کے قریب تر ہے۔سگا بھائی اور دوسرے بھائی کا بیٹا(بھتیجا) اکھٹے ہوں تو سگا بھائی مقدم ہوگا۔

اگر جہت اور قرابت میں برابر ہوں تو قوی تررشتہ رکھنے والے کو  ترجیح ہوگی،مثلاً:سگا بھائی علاتی بھائی سے مقدم ہوگا کیونکہ سگے بھائی کی میت سے قرابت علاتی بھائی سے دوگنا  ہے۔

(5)۔اس قاعدے کا تعلق حجب حرمان سے ہے اور وہ یہ ہے کہ اصول اصول ہی کی وجہ سے محجوب ہوتے ہیں،مثلاً:دادا میت کے باپ کی وجہ سے محجوب ہوجاتا ہے ،دادی اورنانی میت کی ماں کی موجودگی میں محجوب ہوتی ہیں۔اسی طرح قریب کا دادا بعید کے دادے کو اور قریب کی دادی بعید کی دادی کومحروم کردیتی ہے۔

اسی طرح فروع فروع ہی کی وجہ محجوب ہوتے ہیں،مثلاً:پوتامیت کے بیٹے کی موجودگی میں اور پوتا پوتے کی موجودگی میں محروم ہوتا ہے۔حواشی:بھائی،بھتیجے،چچے اور ان کے بیٹے میت کے اصول،فروع اور حواشی کی وجہ سے محجوب ہوجاتے ہیں،مثلاً:چچا میت کے باپ،بیٹے یابھائی کی موجودگی میں محجوب(محروم) ہوجاتا ہے۔اور علاتی بھائی بیٹے،پوتے اور باپ کی موجودگی میں محجوب ہوجاتاہے۔اور صحیح قول کے مطابق دادے کی وجہ سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔اسی طرح سگے بھائی اور بہن،جب وہ عصبہ مع الغیر ہو،کی موجودگی کے مطابق دادے کی وجہ سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔اسی طرح سگے بھائی اور بہن،جب وہ عصبہ مع الغیر ہو،کی موجودگی میں بھی محروم ہوگا۔خلاصہ کلام یہ کہ علاتی بھائی اصول ،فروع اور حواشی کے سبب محروم ہوجاتاہے۔

(5)۔آخر میں ہم پھر ایک بار تلقین وتاکید کریں گے کہ علم میراث میں حجب کاباب نہایت اہمیت کاحامل ہے۔میراث کے مسائل میں فتویٰ دینے والے شخص پر لازم ہے کہ وہ اس باب کے قواعد وضوابط کو اچھی طرح ذہن نشین کرے اس کی باریکیوں کو سمجھے تاکہ فتویٰ میں غلطی کا امکان نہ رہے اور میراث کے شرعی مسائل کاحلیہ اور حقیقت بدل نہ جائے جس کانتیجہ یہ نکلے کہ مستحق محروم ہوجائے اور محروم وارث بن جائے۔

دادا کے ساتھ بھائیوں کی وارث بنانے کے احکام

 اگر میت کے دادے کے ساتھ ایک یا زیادہ بھائی بہن موجود ہوں تو مشہور ائمہ کرام،یعنی امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ ،امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  اورامام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  نے انھیں وارث قراردینے کے بارے میں سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کامسلک اختیار کیا ہے۔ان کے علاوہ ابویوسف اورمحمد بن حسن شیبانی  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ اہل علم کا بھی یہی مسلک ہے۔

اس مسلک کا حاصل یہ ہے کہ دادے کے ساتھ شریک ہونے والے بھائی صرف عینی ہوں گے یا صرف علاتی یا دونوں قسم کے۔اگر صرف ایک قسم کے بھائی ہوں تودادے کی  دو حالتیں ہوں گی:

1۔دادے اور بھائی کے ساتھ کوئی صاحب فرض شریک نہ ہو،چنانچہ اس کی پھر تین حالتیں ہیں ان میں سے جو حالت بہتر ہوگی اس کی روشنی میں اسے حصہ ملے گا۔

(1)۔تہائی مال کے بجائے مقاسمت(دادے کو بھائیوں کی طرح ایک بھائی فرض کرکے مال تقسیم کرنا مقاسمت کہلاتاہے) کی صورت میں اسے حصہ دیا جائےگا۔اس کا ضابطہ یہ ہے کہ بھائی دادے سے نصف یا نصف سے کم مال لیں۔اس کی پانچ صورتیں ہیں:

پہلی صورت :دادا اور بہن۔۔۔اس صورت میں مقاسمت کےساتھ دادے کاحصہ دو تہائی ہے کیونکہ بہن کے لیے تہائی ہے۔

دوسری صورت :دادا اور بھائی۔۔۔اس صورت میں دادے کے لیے نصف ترکہ ہے۔

تیسری صورت :دادا اور دو بہنیں۔۔۔اس صورت میں بھی دادے کا حصہ نصف ہے۔

چوتھی صورت:دادا اور تین بہنیں۔۔۔اس صورت میں دادےکے لیے 2/5 حصہ ہے جو تہائی سے زائد ہی ہے۔

پانچویں صورت:دادا،ایک بھائی اور ایک بہن۔۔۔اس صورت میں بھی ارادے کا وہی حصہ ہے جو ابھی چوتھی صورت میں بیان ہواہے۔

(2)۔دادے کو مقاسمت سے دیا جائے یا کل ترکہ کا تہائی،دونوں صورتوں میں اس کا یکساں حصہ ہے۔اس حالت میں بھائیوں کو دادے سے دوگنا ملتا ہے اس کی تین صورتیں ہیں:

پہلی صورت:دادا اور دو بھائی۔

دوسری صورت:دادا،بھائی اور دو بہنیں۔

تیسری صورت:دادا اور چاربہنیں۔

ان صورتوں میں دادے کے لیے مقاسمت اور ثلث برابر ہیں،یعنی دونوں  حالتوں میں ایک تہائی ہی ملے گا۔

اہل علم کے درمیان اختلاف ہے کہ گذشتہ حالت میں  مقاسمت کا اعتبار کرتے ہوئے دادے کو عصبہ قراردیں گے یاتہائی کااعتبار کرتے ہوئے صاحب فرض کہیں گے یا مقاسمت اور تہائی دونوں کا اعتبار کرتے ہوئے عصبہ یافرض کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔بعض علماء نے تہائی کا اعتبار کرتے ہوئے اسے صاحب فرض تسلیم کیا ہے نہ کہ مقاسمت کا اعتبار کرتے ہوئے عصبہ کیونکہ صاحب فرض کی حیثیت سے ترکہ لینا اگر ممکن ہوتو عصبہ کی نسبت قوی تر ہے کیونکہ صاحب فرض عصبہ پر مقدم ہوتا ہے۔واللہ اعلم۔

(3)۔دادے کے لیے تہائی ترکہ مقاسمت کی نسبت بہتر ہو تو وہ صاحب فرض کی حیثیت سے لے گا۔اس میں بھائیوں کا حصہ دادے سے دوگنا ہوتا ہے۔اس حالت کی صورتیں پچھلی دو حالتوں کی طرح محدود نہیں ہیں۔

اس حالت میں جس قدر صورتیں ہیں ان میں بھائیوں کی تعداد کم از کم یوں ہوسکتی ہے:دادا ،دو بھائی اور ایک بہن یا دادا اور پانچ بہنیں یا دادا،ایک بھائی اور تین بہنیں،جبکہ باقی صورتوں میں بہن بھائیوں کی تعداد اس سے بڑھ کر ہے اور وہ غیرمحدود صورتیں ہیں۔

2۔دادا اور بھائیوں کے ساتھ کوئی صاحب فرض ہو۔

اس حالت کی روشنی میں  بھائیوں ساتھ دادے کی سات حالتیں ہین جو اجمالاً یہ ہیں:

1۔تعین مقاسمت۔

2۔تعین باقی مال کا ثلث، یعنی صاحب فرض کو مقررہ حصہ دے کر جو باقی بچے اس کی تہائی۔

3۔کل مال کاچھٹا حصہ۔

4۔مقاسمت یا ثلث مابقی دونوں کا یکساں ہونا۔

5۔مقاسمت یاکل مال کا چھٹا حصہ دونوں کا یکساں ہونا۔

6۔ثلث ما بقی ہو یا کل مال کا چھٹا حصہ دونوں کا یکساں ہونا۔

7۔مقاسمت،کل مال کا چھٹا حصہ اور ثلث باقی تینوں کایکساں ہونا۔اب ہرایک کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔

پہلی حالت:۔

دادے کے حق میں ثلث الباقی ہو یا کل مال کا چھٹا دونوں کی نسبت مقاسمت بہترہو۔مثلا:خاوند ،دادا اور بھائی اس صورت میں فرض حصے کی مقدار نصف کے برابر ہوتی ہے،نیز بھائیوں کی تعداد دادے کے دوگنا سے کم ہوتی ہے۔اس حالت میں مقاسمت کی تعین کیوجہ یہ ہے کہ اولاً خاوند کو نصف مالملے گا۔پھر باقی نصف مال دادے اور بھائی میں تقسیم ہوگا۔جب مقاسمت کی بنا پر دادے کو ایک بھائی فرض کیا تو اس طرح سے کل مال کا چوتھا حصہ ملا جو(خاوند کو اس کا مقررہ حصہ دینے کے بعد) ثلث الباقی اور کل مال کے چھٹے حصے سے زیادہ ہے۔

صورت مسئلہ میں جب صاحب فرض کو دو میں سے ایک سہم دیا تو ایک سہم باقی بچ گیا جودادے اوربھائی دونوں پر بلاکسر(پورا پورا) تقسیم نہیں ہوتا،لہذا تصیح کی غرض سے دوکو اصل مسئلہ،یعنی دو سے ضرب دی گئی حاصل ضرب چار ہوئے خاوند کو اولاً دو میں سے ایک ملاتھا تو اسے جب دو سے ضرب دی تو اسکے چار میں سے دو سہام ہوگئے جبکہ دادےاور بھائی دونوں کو پہلے صرف ایک سہم ملا تھا جب اسے بھی دو سے ضرب دی تو اب دونوں کے مجموعی طور پر دو ہوگئے۔اب ہر ایک کو ایک ایک سہم مل گیا۔الغرض اس صورت میں دادے کو مقاسمت سےچوتھائی حصہ ملا جوکل مال کے چھٹے اور باقی کے ثلث سے زیادہ ہے۔اصل مسئلہ 2سے جبکہ تصیح 4 سے ہوگی۔

حل:2*2=4

خاوند۔۔۔1/2۔    دادا۔1    بھائی۔1

دوسری حالت:۔

باقی مال کا ثلث دونوں صورتوں،یعنی مقاسمت اورکل مال کے چھٹے حصے سے بہترہو۔

مثال:ماں،دادا اورپانچ بھائی۔اس صورت میں فرض حصے کی مقدار نصف سے کم ہوتی ہے ،نیز بھائیوں کی تعداد دادے کے دوگنا سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔اس حالت میں ثلث الباقی کی تعیین کی وجہ یہ ہے کہ اولاً ماں کو چھٹا حصہ ملے گا،پھر باقی پانچ حصے دادے اور پانچ بھائیوں میں تقسیم ہوں گے۔دادے کو ثلث الباقی،یعنی 1صحیح 2بٹا 3 ملاجو مقاسمت اور چھٹے حصے سے زیادہ ہے،البتہ صاحب فرض کا حصہ ادا کرکے باقی مال کاتہائی بلاکسر حاصل نہیں ہوتا،لہذا تہائی کے مخرج ،یعنی تین کو اصل مسئلہ،یعنی چھ سے ضرب دی تو حاصل ضرب اٹھارہ ہوئے۔ماں کو اصل مسئلہ سے ایک ملا تھاجب سےتین سے ضرب دی تو اس کے تین حصے ہوگئے۔اس طرح دادے کوپانچ مل گئے جوکہ باقی مال کی تہائی ہے اور باقی دس حصے پانچ بھائیوں میں یوں تقسیم کیے کہ ہر ایک کو دو دو مل گئے۔الغرض اس صورت میں باقی کاثلث مقاسمت اور کل مال کے چھٹے حصے سے بہترثابت ہوتا ہے۔

حل:3*6=18

ماں ۔1۔3۔دادا۔1صحیح 2بٹا 3۔5۔5بھائی ۔3صحیح 1بٹا 3 ۔2/10۔

تیسری حالت:۔

کل مال کا چھٹا حصہ دونوں صورتوں،یعنی مقاسمت اور ثلث الباقی سے بہتر ہو۔

مثال:خاوند،ماں،دادا اور دو بھائی۔اس صورت میں فرض حصہ دو تہائی ہوتا ہے نیز بھائیوں کی تعداد دادے سے زیادہ ہوتی ہے اگرچہ ایک بہن ہی کا اضافہ کیوں نہ ہو۔اس حالت میں مال کے چھٹے حصے کی تعین کی وجہ یہ ہے کہ خاوند کو نصف اور ماں کو چھٹا حصہ دینے کے بعد دادے اور بھائیوں کے لیے مجموعی طور پر دو حصے بچتے ہیں۔یہاں بلاشبہ چھٹا حصہ باقی ثلث اور مقاسمت سے زیادہ ہے لیکن ایک حصہ دو بھائیوں پور پورا پورا تقسیم نہیں ہوتا،لہذا دو (تعداد افراد) کو اصل مسئلہ چھ سے ضرب دی تو حاصل ضرب بارہ(12) ہوئے۔اسی عدد سے مسئلے کی تصیح ہوگی۔

خاوند کے پاس پہلے تین تھے جب دو سے  ضرب دی تو کل چھ سہام ہوگئے۔ماں کو اصل مسئلے سے ایک ملا تھا اب اس کے دو سہام ہوگئے۔اس طرح دادے کے بھی دو ہوئے جبکہ دونوں بھائیوں کو اصل مسئلے سے مجموعی طور پر ایک سہم (حصہ) ملاتھا اب دو ہوگئے۔گویاہر ایک کوایک ایک سہم مل گیا۔الغرض اس مثال میں کل مال کا چھٹا حصہ باقی دونوں صورتوں،یعنی مقاسمت اور ثلث باقی سے بہترہے۔

حل:2*6=12۔۔۔خاوند 3۔6۔ماں۔1۔2۔دادا۔1۔2۔2بھائی۔1۔1بٹا 2۔

چوتھائی حالت:۔

مقاسمت ہو یا ثلث باقی دونوں صورتیں کل مال کے چھٹے حصے سے بہتر ہیں۔

مثال:ماں،دادا اور دو بھائی۔اس صورت میں فرض حصہ نصف سے کم ہوتا ہے،نیز بھائیوں کی تعداد دادے سے دوگناہوتی ہے۔اس حالت میں مقاسمت اور ثلث الباقی کے یکساں ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ماں کو چھٹا حصہ دینے کے بعد باقی پانچ حصے دادے اور دو بھائیوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔اس میں ثلث الباقی 1صحیح 2بٹا3 حصہ ہے۔جو مقاسمت کے مساوی ہے لیکن ثلث الباقی بلا کسر حاصل نہیں ہوتا،لہذا تہائی کےمخرج،یعنی تین کو اصل مسئلہ چھ سے ضرب دی۔اس طرح حاصل ضرب اٹھارہ ہوئے۔ماں کو اصل مسئلے سے ایک ملا تھا اسے تین سےضرب دی تو تین ہوگئے۔باقی پندرہ بچ گئے۔دادا کو مقاسمت یا ثلث الباقی کو بنیادی پر پانچ مل گئے جبکہ دونوں بھائیوں کو مجموعی طور پردس ملے۔ہر ایک کو پانچ پانچ مل گئے۔

حل:3*6=18

ماں:1۔3۔دادا: 1صحیح 2بٹا3۔5۔2بھائی:3صحیح 1بٹا 3۔5/10۔

اس مثال میں چھٹا حصہ دینے کے بجائے مقاسمت اور ثلث باقی دینا ادارے کے حق میں زیادہ بہتر ہے،نیز دونوں صورتوں میں حصہ یکساں ہے۔

پانچویں حالت:۔

مقاسمت ہو یا کل مال کاچھٹا حصہ ادارے کے لیے یہ دونوں ثلث باقی سے بہتر ہوں۔

مثال:خاوند ،دادی ،دادا اور بھائی۔اس صورت میں فرض حصہ دو تہائی کے برابر ہوتا ہے،نیز دادے کے ساتھ بھائی ایک ہی ہوتا ہے۔اس حالت میں مقاسمت اور کل مال کے چھٹے کے یکساں ہونے کی وجہ یہ ہے کہ خاوند کو نصف اور دادی یانانی کو چھٹا حصہ دینے کے بعد دادا اور بھائی کے لیے دو سہام بچتے ہیں۔اب دادے کو مقاسمت سے دیں یا کل مال کا چھٹا حصہ دونوں صورتوں میں ایک ہی سہم ملتا ہے اسی طرح بھائی کے لیے بھی ایک ہی سہم ہے۔

حل:ٹوٹل:6۔خاوند۔3۔دادی۔1۔دادا۔1۔بھائی۔1۔

اس صورت میں دادے کو مقاسمت یا کل مال کا چھٹا دیں دونوں صورتوں میں یکساں ہے جو باقی کے تہائی سے زیادہ ہے۔

چھٹی حالت:۔

کل مال کاچھٹا حصہ دیا جائے یا باقی کا تہائی دونوں اعتبار سے دادےکو یکساں اور مقاسمت سےزیادہ حصہ ملتا ہو۔

مثال:خاوند ،دادا اور تین بھائی۔اس صورت میں فرض حصہ نصف ملتا ہے،نیز بھائیوں کی تعداد دادے کے دوگنا سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔اس حالت میں کل مال کا چھٹا اور ثلث الباقی کے یکساں ہونے کیوجہ یہ ہے کہ خاوند کو نصف دینے کے بعد باقی نصف دادے اور تین بھائیوں میں تقسیم کیاجائے گا۔اس صورت میں کل مال کا چھٹا اورثلث الباقی دونوں برابر ہوں گے،البتہ باقی مال میں سے ثلث الباقی بلاکسر حاصل نہیں ہوتا،لہذا ثلث کے مخرج ،یعنی تین کو اصل مسئلہ ،یعنی دو سے ضرب دی۔حاصل ضرب چھ ہوئے۔اسی عدد سے مسئلے کی تصیح ہوگی۔خاوند کو اصل مسئلے سے ایک سہم ملا تھا جب اسے تین سے ضرب دی تو خاوند کو تین سہام ملے ۔تین سہام باقی بچ گئے۔دادے کو ایک مل گیا جوثلث الباقی ہے  اور یہی کل مال کا چھٹا حصہ بھی ہے۔بھائیوں کو دو سہام ملے جبکہ ان کی تعداد تین ہے۔یہ پورے پورے  تقسیم نہیں ہوتے،لہذا تصیح کرتے ہوئے تین کوچھ سے ضرب دی گئی تو حاصل ضرب اٹھارہ ہوئی جو تصیح ثانی کہلائی۔خاوند کو پہلے تین ملے تھے اب تین سے ضرب دی تو اس کے نوسہام ہوگئے۔دادے کوایک ملا تھا تو اس کے تین جبکہ تینوں بھائیوں کے مجموعی سہام چھ ہوئے اس طرح ہر ایک کو دودو آگئے۔

حل:۔3*3=3*6=18۔

خاوند:1۔3۔9۔دادا۔1۔1۔3۔3بھائی۔2۔6/2۔

اس  حالت میں دادے کو کل مال کا چھٹا دیا جائے یا باقی کا تہائی دونوں صورتوں میں یکساں حصہ ملتا ہے جو مقاسمت سے زیادہ ہے۔

ساتویں حالت:۔

تینوں امور مقاسمت باقی مال کاتہائی اورکل مال کا چھٹا حصہ برابرہوں۔

مثال:خاوند،دادا اور دو بھائی۔اس صورت میں فرض حصہ نصف کے برابر ہوتاہے نیز بھائیوں کی تعداد دادے سے دوگنا ہوتی ہے۔

حل:۔2*3=6

خاوند:1۔3۔دادا:1بٹا3۔1۔2بھائی:2بٹا3۔2/1۔

اس حالت میں تینوں امور کے برابرہونے کی وجہ یہ ہے کہ خاوند کو نصف دینے کے بعدباقی نصف دادا اور دو بھائیوں میں تقسیم ہوتاہے۔اس میں ثلث الباقی،مقاسمت اور کل مال کا چھٹا حصہ سبھی امور برابر ہوتے ہیں لیکن ثلث الباقی بلاکسر حاصل نہیں ہوتا،لہذا اصل مسئلے کو ثلث کے مخرج،یعنی تین کو اصل مسئلہ دو سے ضرب دی جائےگی تو حاصل ضرب چھ ہوں گے۔خاوند کو پہلے ایک ملا تھا جب تین سے ضرب دی توتین سہام ہوئے۔باقی تین بچ گئے۔دادا کو ہر حال میں ایک سہم ملا جبکہ باقی دو دونوں بھائیوں میں تقسیم ہوں گے۔ہر ایک کو ایک ایک سہم ملےگا۔

مُعادہ کا بیان

پچھلے باب میں اس موضوع پر بحث کی گئی تھی کہ دادے کا اس وقت کیاحصہ ہے جب میت کے عینی یا صرف علاتی بھائی موجود ہوں۔اب ہم اس باب میں بتائیں گے کہ اگرمیت کے دادے کے ساتھ اس کے دونوں قسم کے بھائی عینی اور علاتی جمع ہوں توعینی بھائی دادے کا حصہ کم کرنے کی خاطر اور اپنی تعداد بڑھانے کے لیے علاتی بھائیوں کواپنے ساتھ شامل کرلیں۔جب دادا ترکہ میں سے اپنا حصہ وصول کرلے تو عینی بھائی اپنے علاتی بھائیوں کی طرف رجوع کریں اورجو کچھ مال ترکہ ان کے ہاتھوں میں آیا عینی بھائی اسے بھی سمیٹ لیں،البتہ اگرایک عینی بہن ہوئی تو وہ اپنا کامل حصہ،یعنی نصف ترکہ لے گی اورجو باقی بچے گا وہ علاتیوں کو ملے گا۔

دادے کےمقابلے میں عینی اور علاتی بھائی متحد ہوں گے کیونکہ دونوں باپ کی  جہت میں مشترک ہیں۔عینی بھائیوں میں ماں کی جہت زائد ہے جو دادے کی وجہ سے محجوب ہوتی ہے(جیسا کہ دادے کی موجودگی میں اخیافی بالاتفاق محروم ہیں)،لہذا دادے کے مقابلے میں علاتی بھائی بھی تقسیم ترکہ میں شامل ہوں گے تاکہ دادے کے حصے میں کمی کرنے کے لیے مقاسمت کے بجائے اسے تہائی یا باقی مال کی تہائی یا کل مال کا چھٹا حصہ دیاجائے۔

(1)۔عینی بھائی اپنے علاتی بھائیوں کو اپنے ساتھ شامل کریں گے،پھر دادے کو کہیں گے کہ آپ کے مقابلے میں ہم دونوں(عینی اور علاتی) ایک مرتبہ رکھتے ہیں ،لہذاتقسیم کے وقت علاتی ہمارے ساتھ شریک ہوں گے اور ہم ساتھ ملا کرتمہاری مزاحمت کریں گے،پھر وہ علاتی بہن بھائیوں کو کہتے ہیں تم ہمارے وارث نہیں ہو ہم نے تمھیں مقاسمت میں اپنے ساتھ صرف اس لیے شامل کیا تھا کہ دادے کا حصہ کم ہوجائے۔اب تمہارا حصہ بھی ہمارا ہے گویا ہمارے ساتھ دادا موجود ہی نہیں[66]

مُعادہ کی ضرورت کب ہوتی ہے؟

معادہ کی ضرورت تب ہوتی ہے جب عینی بھائیوں کا حصہ دادے سے دوگنا نہ ہو۔اورصاحب فرض کو دے کر چوتھائی ترکہ سے  زیادہ بچ جائے۔اگر ان کا حصہ دادے سے دوگنا یا زیادہ ہوتو معادہ کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

مُعادہ کی صورتیں

مُعادہ کی کل اڑسٹھ صورتیں ہیں جن کی تفصیل کتب مطولہ میں موجود ہے۔

کیامُعادہ کی کسی صورت میں عینی کے ساتھ علاتی کاحصہ ہے؟

جب ایک عینی بھائی یا دو عینی بہنیں ہوں یا زیادہ ہوں تو علاتیوں کے لیے باقی بچا ہوا حصہ لینے کا کوئی تصور ہی نہیں۔اگر ایک عینی بہن ہوتو اسے اس کا مقرر نصف ترکہ ملے گا اگر بچ گیا تو علاتیوں کو مل جائے گا(ورنہ نہیں۔)

جن صورتوں میں علاتیوں کے لیے کچھ بچتاہے وہ چار صورتیں ہیں جو سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے زیدیات اربع کہلاتی ہیں۔[67]چار صورتیں یہ ہیں:

(2)۔"عشرية"اس صورت مسئلہ میں ارکان یہ ہیں:دادا،ایک عینی بہن اور ایک علاتی بھائی۔

حل:2*5=10

دادا:2۔4۔عینی بہن:2صحیح 1بٹا 2۔5۔علاتی بھائی:1بٹا 2۔1۔

وضاحت:۔

اس صورت کا اصل مسئلہ 5 سے بنتاہے ۔عینی بہن کاحصہ نصف ہے جس کی وجہ سے عینی بہن کےحصے میں کسر واقع ہوئی ہے ،اس لیے اس کسر کے مخرج دو(2) کو اصل مسئلہ،یعنی پانچ(5) سے  ضرب دی تو تصیح دس(10) سے ہوئی۔اسی لیے اس مسئلے کو"عشرية" کہاجاتاہے۔دادے کو دو خمس(چار) ملے۔عینی بہن کو نصف حصہ(پانچ) ملے۔باقی ایک بچاوہ علاتی بھائی کو مل جائےگا۔

"عشرينیة"اس صورت مسئلہ میں ارکان یہ ہیں:دادا عینی بہن اور دوعلاتی بہنیں۔

حل: 2*5=10*2=20۔

دادا:2۔4۔8 عینی بہن:2صحیح 1بٹا2۔5۔10۔علاتی بھائی:1بٹا 2۔1۔2۔

وضاحت:۔

اس صورت مسئلہ کی تصحیح پہلے دس پھر بیس کے ساتھ ہوئی،اس لیے اس کو "عشرينیة"کہتے ہیں۔

(3)۔مختصرۃزید:ارکان مسئلہ یہ ہیں:ماں ،دادا،عینی بہن ،ایک علاتی بھائی اور ایک علاتی بہن۔

حل:6*6=36*3=108/2=54۔

ماں:1۔6۔18۔9۔

دادا:5۔10۔30۔15۔

عینی بہن:5۔18۔54۔27۔

علاتی بھائی:5۔2۔4۔2۔

علاتی بہن:5۔2۔2۔1۔

وضاحت اس مسئلہ کی تصحیح پہلے36 سے ہوئی،پھر 108 کے ساتھ ہوئی،پھر اختصار کی خاطر 54 کے ساتھ ہوئی اسی لیے اسے مختصر زید کہا جاتاہے۔

(4)۔"تسعينية زيد":اركان مسئلہ یہ ہیں:ماں ،دادا عینی بہن،دو علاتی بھائی اور ایک علاتی بہن۔

حل:3*6=18*5=90۔

ماں:1۔3۔15۔

دادا:5۔5۔25۔

عینی بہن:5۔9۔45۔2

علاتی بھائی:5۔9۔4۔

ایک علاتی بہن:5۔1۔1۔

وضاحت:۔

اس مسئلے کی تصحیح اول  18 اور تصحیح ثانی 90 کے ساتھ ہوئی،اس لیے اس مسئلے کو"تسعينية" کہا جاتا ہے۔

نوٹ:۔دامن کتاب تنگ ہونے کی وجہ سے ہم نے حساب ،مناسخات اور تقسیم ترکہ کے ابواب چھوڑدیے ہیں۔اس کے لیے آپ علم الفرائض کی کتب کی طرف رجوع فرمائیں۔[68]


[1] ۔الانفال:8/75۔

[2] ۔النساء:4/12۔

[3]۔صحیح ابن حبان (الاحسان ) 7/4929والمستدرک للحاکم 4/379۔حدیث 7990۔7991۔

[4] ۔صحیح البخای الزکاۃ باب الصدقۃ علی مولیٰ ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم  حدیث 1493۔وصحیح مسلم العتق باب بیان ان الولاء اعتق حدیث1504۔واضح رہے آزاد کردہ شخص کی ولاء اس کو آزاد کرنے والے یا اس کے عصبات کو تب ملتی ہے جب آزاد کردہ کا اپنا کوئی نسبی عصبہ نہ ہو۔اس مسئلے کی تفصیل کے لیے دیکھئے تفہیم المواریث۔(صارم)

[5] ۔النساء:4/11۔

[6] ۔النساء:4/11۔

[7] ۔النساء 4۔176۔

[8] ۔النساء:4/12۔

[9] ۔صحیح البخاری،الفرائض باب میراث الولد ایہ وامہ حدیث6732۔وصحیح مسلم الفرائض باب الحفوالفرائض بالھلھا فما بقی فلاولیٰ رجل ذکر حدیث 1615۔

[10] ۔النساء:4۔12۔

[11] ۔صحیح ابن حبان (الاحسان ) 7/4929والمستدرک للحاکم 4/379۔حدیث 7990۔7991۔

[12] ۔صحیح البخای الزکاۃ باب الصدقۃ علی مولیٰ ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم  حدیث 1493۔وصحیح مسلم العتق باب بیان ان الولاء اعتق حدیث1504۔

[13] ۔النساء:4/11۔

[14] ۔ النساء:4/11۔

[15] ۔سنن ابی داؤد الفرائض باب فی الحدۃ حدیث:2895۔

[16] ۔النساء:4/12۔

[17] ۔ النساء:4/176۔

[18] ۔ النساء:4/12۔

[19] ۔صحیح البخای الزکاۃ باب الصدقۃ علی مولیٰ ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم  حدیث 1493۔وصحیح مسلم العتق باب بیان ان الولاء اعتق حدیث1504۔

[20] ۔بیوی کی اولاد ،خواہ موجود شوہر سے ہو یا سابق شوہر سے ہو۔

[21] ۔النساء:4۔12۔

[22] ۔خاوند کی اولاد موجود ہ بیوی سے ہو یا کسی اور بیوی سے جو زندہ ہویا فوت ہوگئی ہو۔(صارم)

[23] ۔ النساء:4/11۔

[24] ۔النساء:4/11۔

[25] ۔النساء:4/11۔

[26] ۔صحیح البخاری،الفرائض باب میراث الولد ایہ وامہ حدیث6732۔وصحیح مسلم الفرائض باب الحفوالفرائض بالھلھا فما بقی فلاولیٰ رجل ذکر حدیث 1615۔

[27] ۔جو صاحب علم اس مسئلے میں تفصیل کا طالب ہو وہ تفہیم المواریث "کا مطالعہ کرے۔(صارم)

[28] ۔النساء:4/11۔

[29] ۔النساء:4/11۔

[30] ۔مجموع الفتاوی :16/197۔198۔بتصرف۔

[31] ۔جد فاسد وہ ہے جس کے اور میت کے درمیان واسطہ عورت ہو مثلاً:نانا یا دادی کا باپ وغیرہ۔(صارم)

[32] ۔(ضعیف ) سنن ابی داؤد الفرائض باب فی الجدۃ حدیث2894وجامع الترمذی الفرائض باب ماجاء فی المیراث الجدہ حدیث 2101۔سنن ابن ماجہ الفرائض باب فی الجدۃ حدیث2724۔ومسند احمد 2254۔226۔

[33] ۔(ضعیف ) سنن ابی داؤد الفرائض باب فی الجدۃ حدیث2895۔

[34] ۔مجموع الفتاوی :31/352۔

[35] ۔مثلاً: اخیاتی بھائی اور اخیاتی بہنیں ماں کی موجدگی میں بھی حالانکہ وہ واسطہ ہے وارث ہو جاتے ہیں۔(صارم)

[36]۔(ضعیف) جامع الترمذی الفرائض باب ماجاء فی میراث الجدۃ مع ابنھا،حدیث 2102۔

[37]۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور زید بن ثابت  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے منقول ہے کہ وہ داوی کو اس کے بیٹے(میت کے باپ) کی موجودگی میں وارث نہیں بناتے تھے۔(صارم)

[38]۔مجموع الفتاویٰ 16/204۔

[39] ۔النساء:4/11۔

[40] ۔النساء:4/11۔

[41]۔جامع الترمذی الفرائض باب ماجاء فی میراث البنات،حدیث :2092 وسنن ابی داود الفرائض باب ماجاء فی میراث الصلب حدیث 2891،2892۔وسنن ابن ماجہ،الفرائض ،باب فرائض الصلب،حدیث :2720،ومسند احمد:3/352۔

[42] ۔ النساء:4/176۔

[43] ۔النساء:4/12۔

[44] النساء:4۔176۔

[45] ۔النساء 4۔176۔

[46] ۔ النساء:4/176۔

[47] النساء:4۔176۔

[48] ۔النساء 4۔176۔

[49] ۔النساء 4۔176۔

[50]۔صحیح البخاری الفرائض باب میراث ابنتہ ابن مع ابنتہ حدیث :6736۔

[51] ۔النساء 4۔176۔

[52] ۔النساء:4/11۔

[53]۔صحیح البخاری الفرائض باب میراث ابنتہ ابن مع ابنۃ حدیث 6736۔

[54] ۔النساء:4/12۔

[55] ۔النساء:4/12۔

[56] ۔النساء:4/12۔

[57] ۔النساء:4/12۔

[58] ۔صحیح البخاری،الفرائض باب میراث الولد ایہ وامہ حدیث6732۔وصحیح مسلم الفرائض باب الحفوالفرائض بالھلھا فما بقی فلاولیٰ رجل ذکر حدیث 1615۔

[59] ۔النساء:4/11۔

[60] النساء:4۔176۔

[61]۔صحیح البخاری الفرائض باب میراث ابنتہ ابن مع ابنۃ حدیث 6736۔

[62]۔النساء:176:4

[63] ۔صحیح البخاری،الفرائض باب میراث الولد ایہ وامہ حدیث6732۔وصحیح مسلم الفرائض باب الحفوالفرائض بالھلھا فما بقی فلاولیٰ رجل ذکر حدیث 1615۔

[64]۔صحیح البخاری ،البیوع ، باب الشراء والبیع مع النساء حدیث:2155،وصحیح مسلم،العتق ،باب بیان ان الولاء لمن اعتق ،حدیث :1504۔

[65]۔ قرآن مجیدمیں ہے:"كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ" (المطففین:15:83)"ہرگز نہیں! یہ لوگ اس دن اپنے رب سے اوٹ(پردے) میں رکھے جائیں گے۔"

[66]۔العذاب الفائض:114/1۔

[67]۔یہ تقسیم موصوف کے مسلک کے مطابق ہے۔

[68]۔ان ابواب کو سمجھنے کے لیے عربی کتاب"فقہ المواریث" جس کا اردو ترجمہ"تفہیم المواریث" کے نام سے مارکیٹ میں دستیاب ہے۔(صارم)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

وراثت کے مسائل:جلد 02: صفحہ 188

تبصرے