سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(10) ہبہ اور عطیے کا حکم

  • 23732
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 5347

سوال

(10) ہبہ اور عطیے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہبہ اور عطیے کا حکم


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی عاقل بالغ جائز التصرف شخص کو کسی کو اپنی زندگی میں معلوم مال و متاع تبرعاً(اپنی خوشی سے)دے دینا "ہبہ" کہلاتا ہے جیسے ایک مسلمان کسی کومکان یا کچھ روپے دے دے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ہدیہ (عطیہ)دیتے اور لیتے تھے۔سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  میں ہدیہ و ہبہ کی نہایت رغبت دلائی گئی ہے کیونکہ اسلامی معاشرے پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے۔

"تهادَوْا تحابُّوا"

"ایک دوسرے کو تحفے دو اس سے باہمی محبت بڑھے گی۔"[1]

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے:

"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ يَقبَلُ الهَدِيَّةَ وَيُثِيبُ عَلَيهَا"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہدیہ قبول کرتے اور جوابی تحفہ دیا کرتے تھے۔"[2]

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"تهادوا فإن الهدية تسل السخيمة"

"تحفہ دیا کرو تحفہ دینے سے کینہ و بغض جاتا رہتا ہے۔"[3]

جب ہبہ لینے والا قبول کر کے اسے اپنے قبضہ میں لے لے تو واہب (ہبہ) کرنے والے) کے لیے جائز نہیں کہ اسے واپس لے البتہ قبضہ سے پہلے رجوع کر سکتا ہے جس کی دلیل سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی روایت ہے کہ"سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے"غابہ" جگہ میں موجود اپنے مال میں سے بیس وسق کھجوریں انھیں ہبہ کر دیں۔ جب بیمار ہو گئے (وفات کا وقت قریب آیا) تو فرمایا: میری پیاری بیٹی! میں نے تجھے بیس وسق کھجوریں ہبہ کی تھیں اگر تو انھیں قبضے میں لے لیتی تو وہ تیری ہوتیں چنانچہ قبضہ نہ کرنے کی وجہ سے آج وہ کھجوریں میں اپنے تمام ورثاء کا مشترکہ مال قرار دیتا ہوں لہٰذا تم اسے کتاب اللہ کی تعلیم کی روشنی میں تقسیم کر دینا۔"[4]

اگر کوئی چیز کسی کے پاس امانت تھی یا اس نے رعایتاً لی ہوئی تھی پھر مالک نے اسے ہبہ کر دی تو اس چیز کا اس کے پاس رہنا ہی قبضہ شمار ہو گا۔

اگر کسی کے ذمے قرض تھا تو قرض خواہ نے اسے ہبہ کر دیا تو مقروض بری الذمہ ہو جائے گا۔اور ہر وہ شے ہبہ ہو سکتی ہے جسے فروخت کرنا جائز ہو۔

ہبہ کو مستقبل کی شرط سے مشروط کرنا جائز نہیں۔ مثلاً:کوئی کہے :"میں نے تجھے یہ چیز ہبہ کر دی بشرطیکہ مجھے اس قدر مال حاصل ہو گیا۔"

ہبہ میں مدت متعین کرنا درست نہیں مثلاً: کوئی کہے:"میں نے تجھے فلاں چیز ایک مہینہ یا ایک سال کے لیے ہبہ کر دی۔"اس کی وجہ یہ ہے کہ ہبہ سے  مراد چیز کا مالک بنانا ہے لہٰذا اس میں وقت کی تعیین قبول نہ ہو گی جیسا کہ "بیع" میں وقت کی تعیین نہیں ہو تی۔

اگر ہبہ میں موت کی شرط عائد کی جائے تو ایسا کرنا درست ہے مثلاً: کوئی کہے:" جب میں فوت ہو جاؤں گا تو تجھے فلاں فلاں چیز ہبہ کرتا ہوں،" یہ کام وصیت کے حکم میں ہو گا اور وصیت کے احکام اس پر لاگو ہوں گے۔

کسی انسان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی اولاد میں سے کسی کو عطیہ دے اور کسی کو نہ دے یا ایک کو دوسرے سے زیادہ دے بلکہ اسے چاہیے کہ سب کو برابر برابر دے اور عدل و مساوات قائم رکھے۔ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث میں ہے کہ میرے والد نے مجھے غلام بطور عطیہ دیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس آئے اور اس ہبہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو گواہ بنانا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَ مِثْلَهُ ؟ قَالَ: لَا، قَالَ رسولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم: فَارْجِعْهُ "

"کیا تو نے ایسا عطیہ اپنے تمام بچوں کو دیا ہے؟انھوں نے کہا: نہیں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: "اپنا عطیہ واپس لے لو۔[5]

پھر فرمایا:

"اتَّقُوا اللَّهَ، وَاعْدِلُوا فِي أَوْلَادِكُمْ "

"اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرو۔"[6]

اس روایت سے ثابت ہوا کہ عطیے کے مسئلے میں اپنی اولاد میں عدل و انصاف اور مساوات کا لحاظ کیا جائے گا ورنہ ظلم ہوگا۔ اگر کوئی شخص اپنی اولاد میں سے کسی کو کچھ ہبہ کرتا ہے اور کسی کو نہیں یا بعض کو زیادہ دیتا ہے اور بعض کوکم اگر کسی کو اس صورت حال کا علم ہو تو اس کے لیے اس معاملے پر گواہ بننا حرام ہے۔

جب کوئی انسان کسی شے کو ہبہ کر دے اور موہوب لہ (جسے ہبہ کی گئی ) اس پر قبضہ کر لے تو اسے واپس لینا حرام ہے ۔چنانچہ سیدنا ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"الْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَقِيءُ ثُمَّ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ "

"ہبہ واپس لینے والا کتے کی مانند ہے جو قے کرتا ہے اور پھر اپنی قے کھا لیتا ہے۔"[7]

یہ حدیث ہبہ دے کر واپس لینے کی حرمت کی دلیل ہے سوائے اس ہبہ کے جسے شارع نے مستثنیٰ قراردیا ہو چنانچہ والد اپنی اولاد کو ہبہ کر کے واپس لے سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً ثُمَّ يَرْجِعُ فِيهَا إِلَّا الوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ"

کسی آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی کوعطیہ تحفہ دے کر واپس لے سوائے والد کے جو وہ اپنی اولاد کو دیتا ہے۔"[8]

والد کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی اولاد کے مال میں سے مال لے بشرطیکہ اولاد کو اس کی ضرورت نہ ہو اور اولاد کو نقصان نہ ہو۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إنّ أطْيَبَ مَا أكْلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ. وإنّ أوْلاَدَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ"

"بہترین مال جو تم کھاؤ وہ تمھاری کمائی کا مال ہے اور بے شک تمھاری اولاد بھی تمھاری کمائی ہے۔"[9]

اس حدیث کے کئی شواہد بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ باپ کے لیے اپنے بیٹےکے مال سے لینا اپنی ملکیت بنانا یا اس سے کھانا جائز ہے بشرطیکہ اس سے بیٹے کو نقصان نہ ہوتا ہو اور نہ ہی اسے اس کی ضرورت ہو بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان :

"أنت ومالُك لأبيك"

"تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔[10]

تقاضا کرتا ہے اس کے مال کی طرح اس کی جان کی اباحت کا لہٰذا اولاد پر واجب ہے کہ وہ اپنے باپ کی خدمت اپنی جان اور مال دونوں سے کرے البتہ والد کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی اولاد کے مال اپنی ملکیت بنالے جس سے اولاد کو نقصان ہو یا اس سے ان کی ضرورت وابستہ ہو۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"لا ضرر ولا ضرار"

"نہ کوئی نقصان اٹھائے اور نہ نقصان پہنچائے۔"[11]

اولاد کے لیے قطعاً جائز نہیں باپ کو قرض دے کر اس کی واپسی کا مطالبہ کرے۔ حدیث میں ہے کہ ایک شخص اپنے باپ کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا اور آپ کی موجودگی میں باپ سے قرض کی واپسی کا تقاضا کرنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"أنت ومالُك لأبيك"

"تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔[12]

اس روایت سے ثابت ہوا کہ باپ سے قرض کا مطالبہ کرنا اولاد کا حق نہیں ہے نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾

"اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔"[13]

اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا ہے اور احسان میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ اگر والدین کے ذمے اولاد کا کوئی حق (قرض وغیرہ) ہو تو اولادان سے اس کا مطالبہ نہ کرے مگر والدین کے ذمے اولاد کے جو لازمی اخراجات ہیں۔ (نان و نفقہ وغیرہ) ان کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ بچہ کمانے کے قابل نہ ہو کیونکہ زندگی کی حفاظت ضروری ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدہ ہندہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے فرمایا:

"خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ "

"اتنا مال (خاوند کی اجازت کے بغیر )لے سکتی ہو جو دستور کے مطابق تمھیں اور تمھاری اولاد کو کافی ہو۔"[14]

ہدیہ بغض و کینہ کو ختم کرتا ہے اور الفت و محبت پیدا کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"تَهَادَوْا فَإِنَّ الْهَدِيَّةَ تُذْهِبُ وَحرَ الصَّدْرِ"

"ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو کیونکہ ہدیہ سینوں کی کدورت ختم کر دیتا ہے۔"[15]

ہدیہ کو رد نہیں کرنا چاہیے اگرچہ معمولی ہی کیوں نہ ہو۔ نیز اس کا مناسب بدلہ دینا مسنون ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بارے میں مروی ہے۔

"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ يَقبَلُ الهَدِيَّةَ وَيُثِيبُ عَلَيهَا"

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہدیہ قبول کرتے اور اس کے بدلے میں دیا کرتے تھے۔"[16]

اور یہ دین اسلام کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے اور بلندی اخلاق کا مظہر ہے۔


[1] ۔صحیح البخاری الھیۃ باب من رای الھیۃ الغالبۃ جائزۃ حدیث2585۔

[2] ۔صحیح البخاری الھیۃ باب المکافاۃ فی الھیۃ حدیث 2585۔

[3] ۔(ضعیف) جامع الولاء والھیۃ باب فی النبی صلی اللہ علیہ وسلم  علی الھیۃ حدیث 2130وارواء الغلیل 6/المعجم الاوسط 1/416۔حدیث 1526واللفظ لہ۔

[4] ۔الموطا للامام مالک 1444 والد اپنی اولاد کو کوئی شے ہبہ کر کے واپس لے سکتا ہے اگرچہ اولاد نے اس پر قبضہ کر لیا ہو۔ اس لیے کہ اولاد اور اس کا مال والد ہی کا تو ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً ثُمَّ يَرْجِعُ فِيهَا إِلَّا الوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ"

کسی آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ کوئی شے ہبہ کر کے واپس لے سوائے والد کے جو وہ اپنی اولاد کو دیتا ہے۔(جامع الترمذی الولاء اولھیۃ باب ماجاء فی کراھیۃ الرجوع فی الھیۃ حدیث : 2132)لہٰذا مذکورہ اثر سے استدلال جامع نہیں ہے۔

[5] ۔صحیح البخاری الھیۃ باب الھیۃ للولد حدیث 2586۔وصحیح مسلم الھیات باب کراھیہ تفضیل بعض الاولاد فی الھیہ حدیث 1623۔1623واللفظ لہ

[6] ۔صحیح البخاری الھیہ باب الاشہاد فی الھیہ حدیث 2587وصحیح مسلم الھیات باب کراھۃ تفضیل بعض الاولاد فی الھیۃ حدیث 1623۔

[7] ۔صحیح البخاری الھیۃ باب حۃ الرجل لامراتہ لزوجہا حدیث 2589۔ وصحیح مسلم الھیات باب تحریم الرجوع فی الصدقۃ حدیث 1622۔

[8] ۔سنن ابی داؤد البیوع باب الرجوع فی الھیۃ حدیث 3539 ومسند احمد1/237۔وجامع الترمذی الولاء والھیۃ باب ماجاء فی کراھیۃ الرجوع فی الھیۃ حدیث 2132۔

[9] ۔۔جامع الترمذی الاحکام باب ماجاء ان الوالد یاخذ من مال ولدہ حدیث 1358۔

[10] ۔سنن ابی داؤد البیوع باب الرجل یا کل من مال ولدہ حدیث 3530 وسنن ابن ماجہ التجارات باب ماللرجل من مال ولدہ حدیث 2291 واللفظ لہ۔

[11] ۔سنن ابن ماجہ الاحکام باب من بنی فی حقہ ما یضر بجارہ حدیث 2340۔

[12] ۔سنن ابی داؤد البیوع باب الرجل یا کل من مال ولدہ حدیث 3530 وسنن ابن ماجہ التجارات باب ماللرجل من مال ولدہ حدیث 2291 واللفظ لہ۔

[13] ۔۔الانعام:15۔16۔

[14] ۔صحیح البخاری الفقات باب اذا لم ینفق الرجل فللمراہ ان تاخذ بغیر علمہ۔حدیث 5364۔

[15] ۔جامع الترمذی الولاء والھیۃ باب فی حث النبی صلی اللہ علیہ وسلم  علی الھدیۃ حدیث 2130۔

[16] ۔صحیح البخاری الھیۃ المکافاۃ باب المکافاۃ فی الھیۃ حدیث 2585۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

غیر آباد زمین کو آباد کرنے کے احکام:جلد 02: صفحہ 162

تبصرے