رہن (گروی شے) کے احکام
رہن کے لغوی معنی" ثابت اور پختہ" کے ہیں جبکہ شرعی مفہوم یہ ہے کہ"قرض کی پختگی کے لیے کوئی چیز قرض خواہ کے پاس رکھنا تاکہ وہ عدم ادائیگی کی صورت میں اس چیز سے یا اس کی قیمت سے اپنا قرض مہیا کر سکے۔"
رہن کا جواز قرآن و سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو کوئی چیز گروی (رہن کے طور پر ) قبضے میں رکھ لی جائے۔"[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ ایک یہودی کے پاس(قرض کے عوض میں) گروی تھی۔
سفر میں رہن کے جواز پر علماء کا اجماع ہے جب کہ جمہور علماء نے حضر میں بھی رہن کو جائز قراردیا ہے۔[2]
رہن کی مشروعیت میں شاید حکمت یہ ہے کہ لوگوں کے اموال کو ضائع ہونے سے محفوظ رکھنا اور بچانا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرض کی توثیق کے لیے اولاً لکھنے کا حکم دیا اور کاتب کے میسر نہ آنے کی صورت میں رہن رکھنے کی تاکید کی جیسا کہ ارشاد بانی ہے۔
"اے ایمان والو! جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرر پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور لکھنے والے کو چاہئے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے، کاتب کو چاہئے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے اسے سکھایا ہے، پس اسے بھی لکھ دینا چاہئے اور جس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اور اپنے اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور حق میں سے کچھ گھٹائے نہیں، ہاں جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ اگر نادان ہو یا کمزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوا دے اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کر لو تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے اور گواہوں کو چاہئے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی اور شق و شبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ معاملہ نقد تجارت کی شکل میں ہو جو آپس میں تم لین دین کر رہے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں۔ خرید و فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کر لیا کرو اور (یاد رکھو کہ) نہ تو لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو اور اگر تم یہ کرو تو یہ تمہاری کھلی نافرمانی ہے، اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو،"[3]
بلا شبہ اس حکم کے نزول میں بندوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت و شفقت ہے۔ اور ایسی راہنمائی ہے جس میں لوگوں کی سراسر بھلائی ہے۔
رہن کی شے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی مقدار جنس اور صفت کا علم ہو۔ نیز راہن (رہن رکھنے والا) عاقل بالغ اور آزاد انسان ہو۔ اس شے کا مالک ہو یا اسے اس کے تصرف کی مکمل اجازت ہو۔ ہر انسان کے لیے جائز ہے۔کہ اپنی ذاتی چیز رہن رکھ کر کسی دوسرے کو قرض دلوادے۔
رہن کی شے ایسی ہونی چاہیے جو فروخت ہو سکے تاکہ اگر مرتہن (جس کے ہاں گروی شے موجود ہے) کو قت مقرر پر قرضہ واپس نہ مل سکے تو اسے فروخت کر کے اپنے قرض کی رقم پوری کر لے۔
رہن رکھنے کی شرط دوران عقد ہو یا عقد کے بعد دونوں صورتیں درست ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
"اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو کوئی چیز گروی (رہن کے طور پر) قبضے میں رکھ لی جائے۔"[4]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رہن کو کتابت کا متبادل قراردیا ہے اور کتابت تو حق واجب ہونے کے بعد ہی ہوتی ہے۔
رہن صرف راہن کی جانب سے لازم ہوتا ہے کیونکہ اس میں حق و فائدہ مرتہن کا ہو تا ہے( جس کی حفاظت کے لیے رہن رکھا جاتا ہے)مرتہن کی طرف سے رہن لازم نہیں ہوتا بلکہ اسے شرط رہن فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہے کیونکہ رہن میں صرف اس کا فائدہ ملحوظ ہوتا ہے اور اسے اپنے فائدے سے دست بردارہونے کا حق حاصل ہے۔
اگر راہن کے پاس کوئی مشترک چیز ہو جس میں غیر کا حق ہو تو اس چیز میں اپنا حصہ مرتہن کے پاس بطور رہن رکھ سکتا ہے۔ اس لیے کہ وصولی قرضہ کے وقت مرتہن اس چیز میں راہن کا حصہ فروخت کرکے اپنے قرضے کی رقم وصول کر سکتا ہے۔
ادھار خریدی ہوئی شے اپنی طے شدہ قیمت کے بدلے بطور رہن رکھی جا سکتی ہے کیونکہ اس کی قیمت مشتری کے ذمے ہے اور اسے اس چیز کی ملکیت حاصل ہو چکی ہے لہٰذا اسے اپنی قیمت کے بدلے گروی رکھنا جائز ہے: مثلاً: کسی نے مکان یا کار ادھار خریدی یا نقد خریدی لیکن پیسے ابھی وصول نہیں کیے تو وہ قیمت کی ادائیگی تک رہن کے طور پر رکھی جا سکتی ہے۔
راہن اور مرتہن میں سے کسی ایک کے لیے بھی جائز نہیں کہ دوسرے کی اجازت کے بغیر شے میں تصرف کرے کیونکہ اگر راہن (مقروض)اس میں کوئی تصرف کرے گا تو مرتہن قرض خواہ) کا حق توثیق واعتماد متاثر ہو گا۔اور اگر مرتہن (قرض خواہ)اس میں تصرف کرے گا تو یہ دوسرے کی مملوکہ چیز میں تصرف ہو گا(جو جائز نہیں)
جہاں تک رہن سے فائدہ حاصل کرنے کا تعلق ہے تو راہن اور مرتہن جس بات پر متفق ہو جائیں درست ہے مثلاً: اگر دونوں اسے کرایہ دینے پر متفق ہوں تو ٹھیک ورنہ وہ شے بے کار پڑی رہے گی حتی کہ راہن ادھار ادا کر دے۔ البتہ اگر رہن کی شے کو صحیح رکھنے کے لیے کسی عمل دخل کی ضرورت ہوتو راہن کو اس کی اجازت ضرور ملنی چاہیے مثلاً: درختوں کو پانی دینا اس کی کانٹ چھانٹ کرنا یا رہن شدہ جانور کا علاج معالجہ کرنا وغیرہ راہن کی ذمے داری ہے کیونکہ اس میں رہن کی اصلاح و مصلحت ہے۔
رہن کی متصل بڑھو تری مثلاً:کسی جانورکا موٹا ہونا یا غلام کا کوئی صنعت سیکھنا اور اس کی منفصل بڑھوتری مثلاً: بچوں کی پیدائش درخت کا پھل دینا حیوان کی ادن ،غلام کی کمائی وغیرہ رہن کے ساتھ ملحق ہو گی لہٰذا قرضہ پورا کرنےکےلیے رہن کے ساتھ اسے بھی بیع میں شامل کیا جائے گا۔ اسی طرح شےکی اجرت یا کوئی فائدہ حاصل ہو تو وہ اس کے تابع ہو گا۔ اور غلام پر زیادتی ہو جانے کی صورت میں ملنے والا تاوان یا دیت رہن کے ذمے ہے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس نے کوئی شے "رہن" رکھی ہو وہ اس کے مالک سے نہ روکی جائے اس کا فائدہ بھی اسی کے لیے ہے اور اسی پر اس کا تاوان (نقصان ) بھی ہے۔[5]
اس کی وجہ یہ ہے کہ راہن گروی شے کا مالک ہے لہٰذا اس کا خرچ اسی کے ذمہ ہے۔ اسی طرح اگر رہن کا مال کسی سیف (الماری)یا کمرے میں رکھا گیا ہو تو اس کا کرایہ اس کی حفاظت و نگرانی پر مامور شخص کی اجرت مرہون ریوڑ کے چروانے کی اجرت یہ سب کچھ راہن (مقروض) کے ذمے ہے کیونکہ اس شے پر ہونے والے اخراجات میں یہ خرچ بھی شامل ہے۔
اگر رہن کا کچھ حصہ تلف ہو گیا اور کچھ بچ گیا تو باقی حصہ ہی(قرض کے عوض میں) بطور رہن ہوگا۔ واضح رہے کہ رہن کا کل قرضہ رہن کے کل اجزاء سے متعلق ہے۔ جب رہن کا کچھ حصہ ضائع ہو گیا تو رہن کا باقی حصہ کل قرضہ کے عوض میں ہو گیا۔
اگر رہن نے قرض کا کچھ حصہ ادا کیا اور کچھ باقی ہے تو وہ رہن کی شے اس وقت تک واپس نہیں لے سکتا جب تک تمام قرض ادا نہ کر دے۔
رہن کے عوض لے ہوئے قرض کی ادائیگی کا مقرر وقت آجائے تو مقروض پر لازم ہے کہ فوراً قرض ادا کرے جیسے بلا رہن قرض وقت پر ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ یہی عقد کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
"جسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کر دے اور اللہ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے۔[6]
اگر اس نے قرض ادا نہ کیا تو سمجھا جائے گا کہ وہ ٹال مٹول کر رہا ہے اس وقت قاضی اسے قرض ادا کرنے پر مجبور کرے گا۔ اگر وہ بھی آمادہ نہ ہوا تو اسے قید یا کوئی اور سزا دی جائے گی حتی کہ وہ مکمل قرض ادا کر دے یا رہن کی شے کو فروخت کر کے مرتہن کو اس کے قرض کی رقم کے مطابق دے دے۔ یہ قرض خواہ کا حق ہے کیونکہ رہن کا مقصد بھی یہی تھا کہ قرض محفوظ ہواور بوقت ضرورت رہن کو فروخت کر کے قرض کی رقم ادا کی جا سکے ۔ اگر قرض کی رقم ادا کرکے کچھ مال بچ گیا تو وہ راہن (مقروض) کو لوٹا دیا جائے گا کیونکہ وہ اس کا مالک ہے۔ اور اگر فروخت شدہ رہن سے قرض پورا نہ ہو سکا تو باقی قرض کی ادائیگی راہن کے ذمے رہے گی۔
"مرتہن "(قرض خواہ ) رہن رکھے ہوئے جانور پر خرچہ کرنے کے بدلے میں اس پر سواری کرسکتا ہے بشرطیکہ وہ سواری کے قابل ہو اور اس کا دودھ پی سکتا ہے نفقہ کے بدلے میں۔ اس بارے میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"مرہون " جانور پر خرچ کے عوض سواری کی جا سکتی ہے اور اس دودھ دینے والے "مرہون" جانور کا دودھ پیا جا سکتا ہے اور جو سوار ہو گا اور دودھ پیے گا وہ خرچ ادا کرے گا۔"[7]
واضح رہے کہ اگر مرتہن خرچ سے زائد نفع حاصل کرے گا تو یہ درست نہیں بلکہ اس کا کرایہ یا اجرت راہن کو واپس کرے۔
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔"درست بات جو شریعت کے اصولوں سے ثابت اور حدیث اس پر دلالت کرتی ہے وہ ہے کہ بے شک گروی جانور اللہ کے حق کی بنا پر بذات خود محترم ہے جبکہ مالک کے لیے اس میں حق ملکیت ہے اور مرتہن (قرض خواہ) کے لیے اس میں حق تو ثیق و اعتماد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے گروی شے قرض خواہ (مرتہن) کے قبضے میں رکھی ہے۔جب گروی شے قرض خواہ کے پاس رہے اور وہ اس کا دودھ نہ دوہے تو اس کا فائدہ ضائع ہو گیا۔ عدل و انصاف اور قیاس اور راہن و مرتہن اور (گروی ) حیوان کے ساتھ خیر خواہی کا تقاضا یہی ہے کہ قرض خواہ سواری اور دودھ کا فائدہ حاصل کرے۔ یہ فائدہ اس کے عوض میں ہو گا جو اس نے چارہ وغیرہ ڈالا ہے اس میں راہن اور مرتہن دونوں کی مصلحتوں کو جمع کیا گیا ہے اور دونوں کو ان کا حق پہنچادیا گیا ہے۔"[8]
بعض فقہائے کرام کی رائے ہے کہ رہن شے دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک وہ قسم جس پر خرچ ہوتا ہے اور دوسری وہ قسم جس پر خرچ نہیں ہوتا۔ جن اشیاء پر خرچ ہوتا ہے اس کی بھی دو قسمیں ہیں۔
1۔ جاندار جو دودھ دوہنے اور سواری کرنے کے قابل ہو اس کا حکم تو اوپر بیان ہو چکا ہے۔
2۔جو دودھ دوہنے اور سواری کے لائق نہ ہو مثلاً:غلام یا لونڈی یہ نوع ایسی ہے جس سے انتقاع واستفادہ مالک کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہاں اگر مالک اجازت دے کہ اس پر خرچ کیا جائے اور اس کے عوض فائدہ اٹھائے تو مرتہن فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
رہن اشیاء کی دوسری قسم کہ جس پر کچھ خرچ نہیں آتا مثلاً: مکان ، سامان وغیرہ اس میں بھی راہن کی اجازت کے بغیر فائدہ اٹھانا جائز نہیں ۔ البتہ جب رہن کی شے قرض کی رقم کے عوض میں لی گئی ہو تو انتقاع بالکل جائز نہ ہو گا جیسا کہ پچھلے باب میں گزر چکا ہے تاکہ وہ ایسا قرض نہ بن جائے جو نفع لانے والا ہو اور وہ سود بن جائے۔
ضمان (ضمانت) قرض کی شرعی توثیق کی ایک صورت ہے۔ ضمان کا شرعی معنی" کسی دوسرے پر ثابت شدہ حق کی ذمے داری قبول کر لینا"ہے مثلاً ضامن کہے:" جو کچھ تم نے فلاں شخص سے لینا ہے وہ میں تمھیں ادا کروں گا۔"
ضمان کے باوجود اگر ضامن ادائیگی نہیں کرتا تو مضمون عنہ (جس شخص کی طرف سے ذمے داری قبول کی گئی ہے)ادائیگی کا ذمے دار ہو گا۔
قرآن مجید ،سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع امت سے ضمان کا جواز ثابت ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔
"جو اسے لے آئے اسے ایک اونٹ کے بوجھ کا غلہ ملے گا اور اس (وعدے) کا میں ضامن ہوں۔[9]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے "الزَّعِيْمُ غَارِمٌ" ضامن ادائیگی کرے گا۔"[10]
علاوہ ازیں ضمان کے جواز میں علماء کا اجماع ہے کیونکہ مصلحت اسی کی متقاضی ہے اور لوگوں کو اس کی اشد حاجت اور ضرورت پڑتی ہے نیز اس کا تعلق نیکی اور تقوی میں تعاون کرنے مسلمان کی ضرورت پوری کرنے اور اسے مشکل سے نکالنے سے ہے۔
ضامن کے لیے عاقل و بالغ ہونا ضروری ہے لہٰذا بے وقوف اور بچے کا ضمان درست نہ ہو گا نیز ضامن کا ضمانت پر رضا مند ہونا ضروری ہے جبر واکراہ کی صورت میں ضمان صحیح نہ ہو گا کیونکہ ضمان تبرع اور احسان کے ساتھ کسی کا حق قبول کرنے کا نام ہے اور تبرع میں رضا مندی ضروری ہوتی ہے۔
ضمان ایک ایسا عقد ہے جس میں مضمون عنہ کے ساتھ تعاون کرنا مقصود ہوتا ہے لہٰذا اس کام میں معاوضہ لینا جائز نہیں۔ ضمان کے عوض معاوضہ لینا ایسے ہی حرام ہے جیسے قرض دے کر نفع حاصل کرنا لہٰذا ضامن کو چاہیے کہ قرض خواہ کے مطالبے پر اس کی رقم یا مال ادا کردے اور معاوضہ لینے سے بہر صورت اجتناب کرے۔لوگوں کے ساتھ تعاون و ہمدردی کرے۔ ظلم و زیادتی کر کے محتاج کو مشکل میں ڈالنا نیکی اور اعانت نہیں۔
ضمانت قبول کرتے وقت کوئی بھی کلمات کہے جا سکتے ہیں جن سے ضمانت کا مفہوم ادا ہو جائے، مثلاً:
"انا قبيل‘انا حميل‘يا انازعيم" میں ضامن ہوں یا میں قبول کرتا ہوں یا میں(اس کو) اٹھاتا ہوں یا میں (اس کا)ذمے دار ہوں۔" یا یوں کہے کہ میں تیرے قرض کو اٹھاتا ہوں یا وہ میرے پاس ہے وغیرہ الغرض جس لفظ سےبھی ضمانت کا مفہوم ادا ہوتا ہو جائز ہے کیونکہ کسی حدیث میں کوئی مخصوص اور متعین کلمات وارد نہیں ہوئے لہٰذا اس میں عرف کا اعتبار ہو گا۔
صاحب حق اپنے حق کا مطالبہ ضامن یا مضمون عنہ کسی سے بھی کر سکتا ہے کیونکہ اس کا حق دونوں کے ذمے ہے لہٰذا جس سے چاہے اپنا حق طلب کرے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔"الزَّعِيْمُ غَارِمٌ" "ضامن حق ادا کرے گا۔"[11]"زعیم" ضامن کو کہتے ہیں اور"عازم" جس کے ذمے کوئی حق لازم ہو۔ اور یہی جمہور کا قول ہے۔
بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ صاحب حق کا ضامن سے مطالبہ کرنا جائز نہیں الایہ کہ مضمون عنہ سے مطالبہ کرنے میں کوئی مشکل ہو کیونکہ ضمان فرع ہے اصل نہیں اور فرع کو تب اختیار کیا جاتا ہے جب اصل تک رسائی مشکل ہو نیز ضمان کسی کے حق کی توثیق کے لیے ہوتا ہے جیسا کہ رہن ہے۔ اور رہن سے اپنا حق تبھی پورا کیا جائے گا جب راہن سے مال ملنا مشکل ہو۔ یہی صورت ضمان میں ہو گی مزید یہ کہ مضمون عنہ کی موجودگی میں اور اس سے مال ملنے کی صورت میں ضامن سے مطالبہ کرنا لوگوں کے ہاں بھی بری چیز ہے کیونکہ لوگوں کے ہاں معروف یہی ہے کہ ضامن سے مطالبہ تب ہو جب مضمون عنہ سے مال حاصل کرنا دشوار ہو۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی یہی رائے ہے اس کے بارے میں انھوں نے فرمایا: یہ قول کافی قوی ہے۔
اگر" مضمون عنہ"ادائیگی یا معافی کے ذریعے سے بری ہو گیا تو ضامن بھی ضمان سے بری ہو گا کیونکہ ضامن کی ذمہ داری مضمون عنہ کی ذمہ داری کے تابع ہے۔
ایک ہی چیز میں دویا زیادہ افراد بھی ضامن ہو سکتے ہیں یعنی یہ بھی جائز ہے کہ دو افراد مکمل چیز کے ضامن بن جائیں یا اس کے جز کے ضامن بن جائیں ۔ اس صورت میں کوئی ایک تب بری ہو گا جب دوسرا بری ہو گا مضمون عنہ کے بری ہونے کی صورت میں سب بری ہو جائیں گے۔
صحت ضمان کے لیے مضمون لہ کی پہچان اور تعارف شرط نہیں کہ جس کو ایک شخص جانتا نہیں اس کی ضمان نہیں دے سکتا۔
ضمان کا مال معلوم ہو یا مجہول دونوں صورتوں میں ضمان درست ہے بشرطیکہ مجہول بعد میں معلوم کی حیثیت اختیار کرنے والا ہو۔ قرآن مجید میں ہے:
"جو اسے لے آئے اسے اونٹ کے بوجھ غلہ ملے گا اور اس(وعدے) کا میں ضامن ہوں۔"[12]
ایک اونٹ کا بوجھ غلہ اگرچہ اس کی مقدار مجہول ہے لیکن نتیجۃً اس کا علم حاصل ہو جائے گا لہٰذا آیت اس کے جواز کی دلیل ہے۔
فروخت شدہ چیز کے صحیح ہونے کی ضمانت دینا درست ہے یعنی اگر بعد میں ثابت ہو کہ فروخت کرنے والا اس چیز کا جائز مالک نہیں تھا تو قیمت واپس کرنے کا میں ضامن ہوں۔
کسی شخص پر مستقبل میں واجب الایہ ہونے والے قرض کی پیشگی ضمانت دینا جائز ہے۔
کفالت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے آدمی کے بارے میں یہ ذمہ داری اٹھائے کہ اپنے آپ پر یہ لازم کر لے کہ اگر فلاں پر کوئی مالی حق ثابت ہو گیا تو میں اسے عدالت میں پیش کردوں گا۔اسے آج کل کے عرف میں "شخصی ضمانت"کہا جاتا ہے۔
"عقد کفالت" مکفول (جس کی شخصی ضمانت دی جائے) کے وجود سے متعلق ہوتا ہے لہٰذا ہر اس انسان کی کفالت درست ہے جس پر کوئی مالی حق ہو یا اسے کسی عدالت میں حاضر کرنا ہو مثلاً:قرض وغیرہ کی ادائیگی میں کفالت ۔
جس شخص پر کسی جرم کی وجہ سے حد لگائی جانی ہو اس کے بدن کی کفالت صحیح نہیں کیونکہ کفالت کا مقصد مطلوب شخص کی حاضری کو یقینی بنانے ہے اور حدودشبہے کی وجہ سے ساقط ہو جاتی ہیں لہٰذا ان میں حاضری کو یقینی بنانا ممکن نہیں۔ اسی طرح ایسے بدن کی کفالت بھی درست نہیں جس پر قصاص دینا لازم ہو کیونکہ قصور وار کے علاوہ کسی دوسرے شخص سے قصاص نہیں لیا جا سکتا ۔ اسی طرح اگرکفیل مجرم کو حاضر نہ کر سکے تو مجرم کے جرم کی سزا کفیل کو نہیں دی جا سکتی۔
کفالت کے درست ہونے کے لیے کفیل کا رضا مند ہونا شرط ہے کیونکہ اس کی رضا کے بغیر اس پر کوئی حق مسلط نہیں کیا جا سکتا۔
اگر کسی کو حاضر کرنے کی کفالت میں"مکفول"مرجائے تو اس پر کچھ لازم نہیں آتا کیونکہ اس صورت میں وہ اسے عدالت میں حاضر کرنے سے معذور ہے۔
اسی طرح اگر مکفول نے اپنے آپ کو خود ہی مالک کے حوالے کر دیا تو کفیل بری ہو گا کیونکہ کفیل نے جس کی ذمے داری اٹھائی تھی وہ موقع پر خود ہی حاضر ہو گیا ہے۔
مالی کفالت کی صورت میں اگر مکفول زندہ ہے اور اس کے حاضر ہونے کا وقت آگیا لیکن اس کو حاضر کرنا مشکل ہےیا وہ کہیں غائب ہو گیا ہے اور ایک عرصہ بیت گیا تو کفیل اپنے مکفول کے قرض کا ضامن ہو گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:" ضامن ادائیگی کرے گا۔"[13]
کفالت کے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کسی شخص کی جان پہچان کی ضمانت دینا جائز ہے مثلاً: کوئی شخص کسی کے پاس قرض لینے کے لیے آیا تو اس نے کہا:"میں تجھے جانتا نہیں ہو ں اس لیے تجھے قرض نہیں دے سکتا۔" تو ایک دوسرے شخص نے کہا:اس کی جان پہچان کی ضمانت میں دیتا ہوں اور اس کا نام اور اس کی جائے رہائش کی پہچان کرادوں گا۔ چنانچہ اس کے کہنے پر اس شخص کو قرض دے دیا گیا۔ اب اگر مقروض غائب ہو گیا اور اس نے وقت پر قرض نہ لوٹایا تو کفیل کی ذمہ داری ہے کہ اسے حاضر کرے محض اس کا نام پتہ بتا دینا کافی نہ ہوگا اور اگر وہ مقروض کو(زندہ ہونے کی صورت میں) حاضر نہ کر سکا تو ضامن اس کے قرض کا ذمہ دارہو گا کیونکہ اس کے تعارف کروانے کی وجہ ہی سے اسے قرض دیا گیا تھا گویا وہ پہچان کروانے سے مقروض کا ضامن و کفیل قرارپا گیا۔
ایک شخص کے ذمے سے قرض تبدیل کر کے دوسرے کے ذمے کر دینا حوالہ ہے مثلاً:ایک شخص نے قرضہ دینا ہے اور اس نے کسی سے قرضہ لینا بھی ہے تو قرض کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ کہتا ہے میں نے فلاں سے قرض لینا ہے تو اس سے وصول کر لے۔ اگر یہ تسلیم کر لے تو مقروض بری الذمہ ہو جائے گا۔[14]
"حوالہ"سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
"جب تم میں سے کسی (کے قرض)کو غنی کے حوالے کیا جائے تو وہ اسے قبول کرے۔"[15]
متعدد علماء کرام نے" حوالہ " کے جواز و ثبوت پر اجماع نقل کیا ہے۔
"حوالہ " میں لوگوں کے ساتھ نرمی ہے اور ان کے معاملات میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ہے۔ اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے میں تعاون کی ایک آسان اور اچھی صورت ہے تاکہ ان کے قرضے ادا ہوں اور انھیں راحت و سکون حاصل ہو۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ"حوالہ"خلاف قیاس ہے کیونکہ یہ قرض کی قرض کے ساتھ بیع ہے جو کہ ممنوع ہے لیکن حوالہ میں یہ خلاف قیاس جائز ہے۔ لیکن علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے ان لوگوں کا رد کیا ہے اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ حوالہ قیاس سے موافقت اور مناسبت رکھتا ہے کیونکہ اس کا تعلق بیع کے مسائل سے نہیں بلکہ اس کا تعلق حق کی ادائیگی سے ہے۔
نیز وہ فرماتے ہیں۔ "اگر اسے (حوالہ کو) قرض کی قرض کے ساتھ بیع مان بھی لیا جائے تو یہ قسم ممنوع صورت میں شامل نہیں کیونکہ قواعد شرعیہ اس کے جواز کا تقاضا کرتے ہیں کہ ایک شخص کا قرضہ تبدیل کر کے دوسرے کے ذمے کیا جائے تاکہ اسے اپنا مال کسی صورت میں مل جائے۔"[16]
درج ذیل شرائط کے بغیر"حوالہ"درست نہیں۔
1۔مقروض اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے جس شخص کا حوالہ دے اس پر قرضہ ثابت شدہ ہوکیونکہ حوالے کا تقاضا محال علیہ پر قرض کو لازم کرنا ہے اور جب قرض محال علیہ کے ذمہ ثابت شدہ نہ ہو تو اس کا ساقط ہونا ممکن ہو گا لہٰذا "حوالہ" اس کے ذمے ثابت نہیں ہو گا لہٰذا کسی ایسی فروخت شدہ چیز کی قیمت پر حوالہ درست نہیں جو مدت خیار میں ہو۔ اسی طرح بیٹے کا باپ کی طرف حوالہ درست نہیں الایہ کہ باپ راضی ہو۔
2۔ محال (قرض خواہ) اور محال علیہ ( جس سے قرض وصول کرنے کے لیے کہا گیا ہے)دونوں کے قرضے جنس تعداد و مقدار ، صفت اور ادائیگی کی میعاد میں برابر متماثل جیسے دونوں قرضے دراہم کی صورت میں ہوں تعداد و مقدار میں مماثلت کہ دونوں قرضوں کی رقم یکساں ہو سوریال کے قرض کا حوالہ نوے ریال کے قرض پر جائز نہیں کیونکہ حوالہ قرض کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور ہمدردی ہے۔ کمی بیشی کی صورت میں حوالہ کا مقصد فوت ہو جاتا ہے بلکہ یہ زیادہ رقم طلب کرنے کی صورت ہے جو قرض میں نفع حاصل کرنے کی طرح حرام ہے البتہ اگر کسی نے ایک شخص کو جسے سوریال قرض لوٹانا تھا ایسے شخص کے حوالےکیا جس سے اس نے دوسو ریال قرض واپس لینا تھا تو یہ صورت جائز ہے باقی سوریال صاحب حق خود وصول کر لے گا۔ صفت میں یکسا نیت جیسے دونوں طرف سے سعودی عرب کی کرنسی کا ہونا ہے۔ وقت میں مطابقت جیسے ایک قرض کی مدت ایک ماہ ہو تو دوسرے کی بھی ایک ماہ مدت ہو ۔کمی بیشی نہ ہو۔
3۔محیل (حوالہ کرنے والا) رضا ہو۔ اس لیے کہ حوالہ کرنے والے نے اگرچہ قرض دینا ہے مگر اس پر یہ لازم نہیں کہ حوالہ ہی کی صورت میں ادا کرے۔ محال علیہ کی رضا مندی شرط نہیں جیسا کہ محال (جس کے حوالے کیا جا رہا ہے) کا راضی ہو نا شرط نہیں جبکہ اسے ایسے غنی کے حوالے کیا جا رہا ہو جو ٹال مٹول نہیں کرتا بلکہ اسے حوالہ کو قبول کرنے پر مجبور کیا جائے گا کہ وہ محال علیہ سے اپنا حق خود طلب کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
"قرض کی ادائیگی میں غنی کا تاخیر کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی (کے قرض) کو غنی کے حوالے کیا جائے تو وہ اسے قبول کر لے۔"[17]
ایک روایت کے الفاظ ہیں:
"جس کو کسی مال دار کے حوالے کیا جائے تو وہ اس حوالے کو قبول کر لے۔"[18]
اگر محال علیہ مالدار نہیں تو محال پر لازم نہیں کہ وہ حوالہ کو ضرور قبول کر لے اور نہ اسے مجبور کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں اس کا نقصان ہے۔
جن حضرات کے ذمے لوگوں کے حقوق ہیں اور ان میں انھیں ادا کرنے کی قدرت بھی ہے تو چاہیے کہ وہ حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے انھیں جلد ادا کریں۔ اگر کسی حوالہ کو قبول کریں تو ٹال مٹول کیے بغیر اسے پورا کریں۔
حدیث کے لفظ: ملیء سے مراد ہے جو قرض ادا کرنے پر قادر ہواور ٹال مٹول سے کام نہ لیتا ہو۔ بعض لوگ ادائیگی حقوق میں قدرت و طاقت کے باوجود بغیر کسی شرعی عذر کے تاخیر اور سستی کر جاتے ہیں ۔ محال کو ٹال مٹول کے ذریعے سے اس قدر پریشان کرتے ہیں کہ لوگ حوالہ کو خوفناک یا بے کار شے سمجھنے لگے ہیں بلکہ لوگوں کے ظلم کے سبب اس سے نفرت کرنے لگے ہیں۔
جب حوالہ درست ہو۔ یعنی اس میں مذکورہ تمام شرائط موجود ہوں تو محیل کا ذمہ محال علیہ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور محیل اس حق کی ادائیگی سے بری ہو جاتا ہےلہٰذا محال کے لیے مناسب نہیں کہ وہ محیل کی طرف دوبارہ رجوع کرے کیونکہ اس کا حق دوسرے شخص کی طرف منتقل ہو چکا ہے وہ محال علیہ سے مطالبہ کرتا رہے حتی کہ اس سے اپنی رقم حاصل کر لے یا وصولی کے لیے کسی مناسب صورت پر اس سے صلح و مصالحت کر لے۔
شرعی حوالہ اپنا مال واپس لینے کا آسان اور صحیح طریقہ ہے اس میں لوگوں کے لیے نہایت سہولت ہے بشرطیکہ اس کا استعمال صحیح اور اچھی طرح ہو اور اس میں کسی قسم کا فریب اور دھوکا شامل نہ ہو۔
وکالت کے لغوی معنی سپرد کرنے"کے ہیں جیسے "وكلت أمري إلى الله"کے معنی ہیں۔"میں نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا۔"
اور شرعی معنی ہیں۔" کسی ایسے معاملے میں جس میں شرعاً نیابت ہو سکتی ہو۔ کسی جائز التصرف شخص کا اپنے جیسے شخص کا نائب ہو نا۔"
کتاب و سنت اور اجماع سے وکالت کا جواز ثابت ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
"چنانچہ اب تم اپنے میں سے کسی کو اپنی یہ چاندی (کے سکے) دے کر شہر بھیجو۔"[19]
اور فرمان الٰہی ہے:
"(یوسف نے) کہا: آپ مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجئے۔"[20]
ایک اور مقام پر فرمان الٰہی ہے:
"اور ان (صدقات ) کو وصول کرنے والوں کے لیے۔"[21]
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کی خریداری کے لیے سیدنا عروہ بن جعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وکیل بنایا۔[22]نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے غلام ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجا جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کیا۔[23]
علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم زکاۃ وصول کرنے والے عمال کو اپنا وکیل بنا کرروانہ کیا کرتے تھے۔[24]
وکالت کے جواز پر امت کا اجماع ہے نیز لوگوں کی حاجت و ضرورت اس کے جواز کی متقاضی ہے کیونکہ ہر شخص اپنی ضروریات کا ہر کام نہیں کر سکتا۔
جس لفظ کے ذریعے سے کسی کام کے کرنے کی اجازت معلوم ہو اس سے "وکالت " کا انعقاد ہو جاتا ہے۔"مثلاً:" فلاں کام کردو۔" یا" میں تمھیں فلاں کام کرنے کی اجازت دیتا ہو۔"الغرض اس کے لیے کسی مخصوص لفظ کی ضرورت نہیں ہے۔
وکالت کو قبول کرنا فوراً یا تاخیر سے درست ہے ہر اس فعل اور قول کے ذریعے سے جو قبولیت پر دلالت کرے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وکلاء کا وکالت قبول کرنا ان کے وکیل بنائے جانے کے بعد ہو تا تھا۔
وکالت میں وقت کی تعیین کرنا یا کسی شرط کا مقرر کرنا بھی درست ہے مثلاً: کوئی کہے:" تم ایک ماہ تک میرے وکیل ہو۔"
"یا کوئی کہے:" جب میرےاس مکان کے کرایہ کی مدت پوری ہو جائے تو تم میرا یہ مکان فروخت کر دینا۔"
وکیل کی تعیین اور تخصیص ضروری ہے۔ اگر کوئی کہے کہ میں نے ان دو شخصوں میں سے ایک کو وکیل مقرر کیا یا کوئی ایسے شخص کو وکیل بنادےجسے وہ جانتا پہچانتا نہیں تو یہ درست نہ ہو گا۔
جن شخصی حقوق میں کسی کی نیابت ہو سکتی ہو۔ ان میں وکالت درست ہے چنانچہ کسی امر کے انقادمثلا:بیع خریداری اجارہ قرض ،مضاربت وغیرہ یا فسخ مثلاً: طلاق ، خلع ، عتق اور اقالہ وغیرہ اسی طرح عبادات میں سے اللہ تعالیٰ کے جن حقوق میں نہایت ہو سکتی ہے ان میں وکالت درست ہے مثلاً:صدقہ کی تقسیم زکاۃ نکالنا نذر ، کفارہ ،حج اور عمرہ کی ادائیگی کیونکہ اس کے بارے میں شرعی دلائل موجود ہیں۔
عبادات میں سے اللہ تعالیٰ کے جن حقوق میں نیابت نہیں ہو سکتی مثلاً: عبادات بدنیہ ، جیسے نماز، روزہ، اور طہارت وغیرہ میں کوئی شخص اپنا وکیل مقرر نہیں کر سکتا کیونکہ یہ عبادات اسی کے بدن سے متعلق ہیں جس پر فرض ہیں۔
حدود ثابت کرنے اور اس کے نفاذ میں بھی وکالت درست ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا تھا:
"اس شخص کی عورت کے پاس جاؤ اگر وہ اعتراف جرم کر لے تو اسے سنگسار کر دینا۔"[25]
اگر کسی کو وکیل مقرر کیا گیا ہو تو وہ وکیل ان امور میں کسی دوسرے شخص کو وکیل نہ بنائے مگر چند صورتوں میں جو درج ذیل ہیں۔
1۔ اگر مؤکل خود اجازت دے دے تو وکیل آگے کسی اور کوبھی اپنا وکیل مقرر کر سکتا ہے ۔مثلاً: مؤکل وکیل کو اجازت دیتے وقت کہے:" تم چاہو تو کسی کو وکیل مقرر کر سکتے ہو۔" یا وکیل کو کہے ۔" جو چاہو کرو۔"
2۔جب کوئی کام وکیل کے شایان شان نہ ہو مثلاً: وکیل کا شمار ان معززین میں ہوتا ہو جو اس جیسے معمولی کام کرنے سے بالا تر ہیں۔
3۔وکیل مؤکل کا مذکورہ کام کرنے سے عاجز ہو۔
4۔ جب وکیل مؤکل کے کام کو بہتر انداز سے نہ کر سکتا ہو۔
ان مذکورہ احوال میں وکیل کو چاہیے کہ کسی دوسرے امانت دار شخص کو وکیل مقرر کرے کیونکہ اسے غیر امین شخص کو وکیل مقرر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
وکیل مقرر کرنا اور وکیل بننا دونوں جائز ہیں کیونکہ وکالت مؤکل کی طرف سے اجازت کانام ہے اور وکیل کی طرف سے نفع پہنچانے کانام ہے اور یہ دونوں لازم نہیں لہٰذا وکیل اور مؤکل میں سے جو بھی چاہے وکالت فسخ کر سکتا ہے۔
وکیل یا مؤکل کوئی بھی وکالت فسخ قراردے سکتا ہے یا دونوں میں سے ایک کی موت سے یا جنون سے وکالت ختم ہو جاتی ہے کیونکہ وکالت کا دارومدار زندگی اور عقل پر ہوتا ہے۔ جب دونوں نہ رہیں تو وکالت بھی قائم نہ رہی۔ اسی طرح مؤکل وکیل کو معزول کر دے تو وکالت ختم ہو جاتی ہے۔ کسی شخص کو اس کی عقل کی کمزوری کی وجہ سے مالی تصرفات سے روک دیا گیا ہو۔ وہ وکیل ہو یا مؤکل تو وکالت ختم ہو جائے گی کیونکہ اس میں تصرف کی اہلیت باقی نہیں رہی۔
جو شخص ایک کام کرنے کا قانونی اختیار رکھتا ہو وہی وکیل بنا سکتا ہے یا بن سکتا ہے۔ جس شخص کے لیے خود تصرف جائز نہیں اس کے نائب کے لیے بالاولیٰ جائز نہیں۔
وکیل درج ذیل افراد سے خریدو فروخت نہیں کر سکتا۔
1۔وہ اپنے آپ سے کوئی شے خرید سکتا ہے نہ فروخت کر سکتا ہے کیونکہ عرف میں بیع اسے کہتے ہیں جب کسی غیر کو شے فروخت کی جائے۔ مزید یہ کہ اس طرح اس پر الزام بھی لگنے کا اندیشہ ہے۔
2۔اسی طرح وہ اپنی اولاد ، باپ ، بیوی کو اور ان افراد کو جن کی اس کے حق میں شہادت معتبر نہیں کوئی شے فروخت کر سکتا ہے نہ خرید سکتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اس پر قرابت داروں کو نواز نے کی تہمت لگ سکتی ہے جس طرح کہ اپنی ذات کے حق میں بیع کرنے سے وہ مہتم ہو سکتا ہے۔
1۔شے کی قیمت ادا کرنا۔
2۔ خریدی ہوئی شے کو قبضے میں لینا۔
3۔شے میں عیب ہو تو اسے واپس کرنا اور اس کے تاوان کو پورا کرنا۔
وکیل بیع کے وقت (خریدار کو) فروخت شدہ شے حوالے کر دے گا لیکن مؤکل کی اجازت یا اجازت کے قرینے کے بغیر اس کی قیمت وصول نہیں کرے گا۔ اگر اس نے کسی ایسی جگہ شے فروخت کی کہ اگر اس پر قبضہ نہ کرے گا تو قیمت ضائع ہو سکتی ہے تو اس صورت میں وہ مؤکل کی اجازت کے بغیر اسے وصول کر سکتا ہے جبکہ وکیل خریداری کے وقت قیمت ادا کرے گا کیونکہ یہ وکیل کے حقوق میں شامل ہے۔
جس شخص کو کسی متنازعہ فیہ شے کے بارے میں بحث و مجادلہ کے لیے وکیل بنایا گیا ہو۔ اسے وہ چیز قبضے میں لینے کا اختیار نہیں لیکن جسے قبضہ اور وصولی کے لیے وکیل بنایا گیا ہے۔وہ بحث و تکرار کرنے کا حق رکھتا ہے کیونکہ اس (بحث و تکرار ) کے بغیر وہ قبضہ نہیں لے سکتا۔
وکیل امین ہوتا ہے۔ وکیل سے اگر نقصان ہو جائے اور اس میں کوتاہی نہ ہو تو وہ "ضامن" نہیں ہے یعنی نقصان میں اس کی سستی یا زیادتی کو دخل ہو یا اس سے مال طلب کیا جو اس نے بلا عذر نہ دیا تو وہ ذمہ دار ہو گا۔
بیع اور اجارہ وغیرہ میں قیمت اور اجرت کی وصولی یا ان کے نقصان یا ان کی مقدار سے متعلق کی بات قابل قبول ہو گی واللہ اعلم۔
دین اسلام لوگوں کے اموال اور ان کے حقوق کا محافظ ہے اسی لیے اس میں پابندی کے مستحق شخص پرحجر (تصرفات پر پابندی) کو مشروع قراردیا گیا ہے۔
حجر (حاء کے کسرہ کے ساتھ) کے لغوی معنی" روکنا" ہیں ۔حرام شے کو"حجر" کہتے ہیں کیونکہ وہ ممنوع ہوتی ہے۔ارشاد بانی ہے۔
"اور وہ (فرشتے) کہیں گے (تم پر جنت) ممنوع ہے حرام کی گئی ہے۔"[26]
"حجر" عقل کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ انسان کو برے اور ضرررساں کاموں سے روکتی ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
"یقیناً ان(چیزوں) میں عقل مند کے لیے معتبر قسم ہے۔[27]
"حجر" کے شرعی معنی ہیں:" کسی انسان کو( کم عمری کم عقلی ، جنون یا افلاس کی وجہ سے) تصرفات مالی سے روک دینا۔"
قرآن مجید میں حجر کی دلیل میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
"بے عقل لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو جس مال کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے، ہاں انہیں اس مال سے کھلاؤ پلاؤ، پہناؤ، اوڑھاؤ اور انہیں معقولیت سے نرم بات کہو (5) اور یتیموں کو ان کے بالغ ہو جانے تک سدھارتے اور آزماتے رہو پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حسن تدبیر پاؤ تو انہیں ان کے مال سونپ دو اور ان کے بڑے ہو جانے کے ڈر سے ان کے مالوں کو جلدی جلدی فضول خرچیوں میں تباه نہ کر دو، مال داروں کو چاہئے کہ (ان کے مال سے) بچتے رہیں، ہاں مسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق واجبی طور سے کھالے، پھر جب انہیں ان کے مال سونپو تو گواه بنا لو، دراصل حساب لینے والااللہ تعالیٰ ہی کافی ہے"[28]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کرام پر ان کے قرضہ جات کی ادائیگی کے لیے مالی تصرف کی پابندی لگا دی تھی جب وہ مقروض ہو گئے تھے۔[29]
حجر کی دوقسمیں ہیں:
1۔کسی انسان کو مالی تصرف سے اس لیے روک دینا کہ اس کے مال میں کسی دوسرے کا حق ہے جیسے مفلس کے مال کو اس کے قرض خواہوں کی وجہ سے روکنا یا کسی مریض کو( اس کے مال میں ورثاء کے حق کی وجہ سے)تہائی مال سے زائد کی وصیت کرنے سے روکنا۔
2۔کسی انسان کو خود اس کی ذاتی مصلحت اور فائدے کے لیے مالی تصرفات سے روکنا تاکہ وہ اپنا مال ضائع اور بربادنہ کر لے جیسے کوئی کم عمر یا کم عقل یا مجنون ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ " "بے عقل لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو۔"[30]
بعض علمائے کرام کے نزدیک"السُّفَهَاءَ" سے مراد بچے اور عورتیں ہیں۔ اور علماء کے نزدیک بے وقوف چھوٹے بچے اور دیوانے (پاگل)مراد ہیں۔ ان کو مال نہ دیا تاکہ مال خراب نہ ہو۔ آیت میں یہ حکم ولی اور سر پرست کو دیا ہے کیونکہ وہی ان کی نگرانی کرنے والے ہیں اور وہی ان کے محافظ ہیں۔
پہلی قسم کا تعلق مفلس کے ساتھ ہے۔ مفلس وہ ہے جس پر فوری ادائیگی والا قرض اتنا ہو کہ اس کی ملکیت کی تمام اشیاء دے دی جائیں تو بھی سارے قرض ادا نہ ہو سکیں ۔ ایسے شخص کو مالی تصرف سے روک دیا جائے گا تاکہ قرض خواہوں کا نقصان نہ ہو۔
تنگ دست مقروض جو اپنا قرض اتارنے پر قادر نہیں ،قرض خواہ وصولی قرض کے لیے اس سے شدید مطالبہ نہ کرے بلکہ وہ اسے ضرور مہلت دے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہیے۔"[31]
تنگ دست مقروض کو مہلت دینے کی فضیلت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
"جسے یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس دن سائے میں رکھے جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا تو اسے چاہیے کہ وہ تنگ دست پر آسانی کرے۔[32]
افضل یہ ہے کہ تنگدست مقروض کا قرض معاف کر دیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اور تمھارا صدقہ کرنا(قرض معاف کر دینا) تو تمھارے لیے بہت ہی بہتر ہے، اگر تم علم رکھتے ہو۔"[33]
جو شخص قرض ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہو، اسے مالی تصرفات سے روکنا درست نہیں ہے کیونکہ یہاں حجر کی ضرورت نہیں ۔البتہ جب قرض خواہ اس سے اپنے قرض کی واپسی کا مطالبہ کرے۔ تب اسے ادائیگی کا حکم دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"غنی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔"[34]
اس کی وجہ یہ ہے کہ جن حقوق العباد کی ادائیگی اس پر لازم تھی وہ ان میں بلا وجہ تاخیر کر رہا ہے اگر وہ باز نہ آئے تو اسے جیل کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں " جو شخص اپنا قرض ادا کرنے پر قادر ہو لیکن ادا نہ کرے تو اس کو مارپیٹ کر یا قید کر کے ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ اصحاب مالک شافعی اور احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصریح کی ہے۔ "شیخ موصوف فرماتے ہیں کہ مجھے اس میں کوئی نزاع معلوم نہیں ہے۔"[35]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"مالدار شخص کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ ایسے شخص کی بے عزتی کرنا (اس کی شکایت کرنا) اور اسے سزا دینا (قید کرنا ) جائز ہے۔"[36]
چنانچہ مقروض مالدار شخص جب ٹال مٹول کا رویہ اپنائے رکھے گا تو اسے جیل وغیرہ میں بند رکھا جائے حتی کہ وہ تمام قرض ادا کردے۔اور اگر تاخیری حربوں پر مصر ہو تو حاکم وقت دخل اندازی کرکے اس کا مال فروخت کرے اور اس کے قرضے ادا کرے ۔ اس کاروائی میں حاکم انکار کرنے والے مقروض کا قائم مقام ہو گا تاکہ قرض خواہوں کو نقصان سے بچایا جا سکے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"نہ نقصان پہنچایا جائے اور نہ نقصان اٹھایا جائے۔[37]
گزشتہ بحث سے واضح ہوا کہ مقروض کی دوحالتیں ہیں:
1۔جس کے قرض کی مدت باقی ہو۔ اس شخص سے مدت مقررہ سے قبل ادائیگی قرض کا مطالبہ نہ کیا جائے گا کیونکہ وقت سے پہلے اس کی ادائیگی اس پر واجب نہیں اور اگر اس کا مال قرض کی رقم سے کم ہے تو مدت سے پہلے اسے مال میں تصرف کرنے سے روکانہیں جائے گا۔
2۔جب قرض کی مدت پوری ہو چکی ہو اور اس کی ادائیگی کا وقت ہو تو ایسے مقروض کی دو صورتیں ہیں۔
اس کے قرض کی نسبت موجود مال بہت زیادہ ہو۔ ایسے شخص کے مال پر تصرف کی پابندی نہیں لگائی جائےگی البتہ اسے حکم دیا جائے گا کہ وہ قرض خواہ کا قرض ادا کرے ۔ اگر وہ قرض ادا نہ کرے تو اسے قید کیا جائے گا۔اور سزا دی جائے گی حتی کہ اس کے مال سے قرضوں کی ادائیگی ہو جائے اگر وہ قید اور سزا برداشت کر جائے اور قرض ادا نہ کرے تو حاکم دخل اندازی کر کے اس کا سامان فروخت کرکے ادائیگی کرے گا۔
اس کے قرض کی نسبت موجود مال بہت کم ہو۔ ایسے شخص کو قرض خواہوں کے مطالبے کی صورت میں مالی تصرف سے روک دیا جائے گا تاکہ ان کا نقصان نہ ہو جیسا کہ کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر مال میں تصرف نہ کرنے کی پابندی لگا دی تھی پھر ان کامال فروخت کر کے پورا قرض ادا کیا۔"[38]امام ابن صلاح فرماتے ہیں۔یہ حدیث ثابت ہے۔
جب کسی شخص پر مال میں تصرف نہ کرنے کی پابندی عائد کی جائے تو اسے مشتہر کیا جائے یعنی اس کا اعلان کیا جائے کہ "فلاں شخص پر اس کے مال میں تصرف پر پابندی لگا دی گئی ہے۔" تاکہ لوگ دھوکا نہ کھائیں اور اس سے مالی معاملہ کر کے نقصان نہ اٹھائیں۔
محجور مال سے متعلق چاراحکام ہیں:
کسی مفلس شخص کے پاس مالی تصرف کی پابندی لگنے سے پہلے جو مال موجود تھا اس پر قرض خواہوں کا حق ہے نیز اگر کچھ مال مذکورہ پابندی کے بعد وراثت دیت ،ہبہ یا وصیت وغیرہ کے سبب حاصل ہوا تو پابندی کا اطلاق اس مال پر بھی ہو گا لہٰذا محجور علیہ کے لیے اجازت نہیں کہ وہ پابندی لگنے کے بعد حاصل ہونے والے مال میں کسی قسم کا تصرف کرے۔ اسی طرح اپنے مال میں کسی اور شخص کے حق کا اقرارکرے گا تو اس کا قرار تسلیم نہ ہو گا کیونکہ قرض خواہوں کے حقوق اس کے سارے مال سے متعلق ہیں لہٰذا کسی اور شخص کے حق کے بارے میں اس کاقول و اقرار معتبر نہ ہو گا۔ الغرض سارے مال میں کسی قسم کا مالی تصرف کرنا اس پر حرام ہے تاکہ قرض خواہوں کا تقصان نہ ہو۔
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اگر اس کا سارا مال قرض میں گھر ہو تو اپنا خرچ نہ کرے کیونکہ اس سے قرض خواہوں کو ضرر پہنچتا ہے خواہ قاضی نے اس پر مال خرچ کرنے کی پابندی لگائی ہو یا نہ لگائی ہو۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب بھی یہی ہے اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے باقی آئمہ ثلاثہ کے نزدیک ایسا شخص حاکم کی پابندی سے قبل مال میں تصرف کر سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک پہلا قول اصول شرع کے موافق ہونے کی وجہ سے زیادہ راجح اور صحیح ہے اس لیے کہ اس مال کے ساتھ قرض خواہوں کا حق وابستہ ہے تبھی تو قاضی اس پر پابندی لگائے گا اور اگر اس کے مال کے ساتھ قرض خواہوں کا حق وابستہ نہ ہو تو قاضی اس پر پابندی نہیں لگا سکتا تھا اس قسم کے قرض خواہ کی مثال اس مریض کی سی ہے جو قریب المرگ ہو کہ جب اس کے مال کے ساتھ وارثوں کا حق وابستہ ہے تو شریعت نے اسے تہائی مال سے زیادہ خرچ کرنے سے روک دیا ہے کیونکہ اگر اس کو مال میں تصرف کا حق دے دیا جائے تو اس سے ورثاء کی حق تلفی ہو گی۔ اسی طرح اس مقروض کو اس کے اپنے مال میں تصرف کا حق دینے سے قرض خواہوں کے حقوق تلف ہوتے ہیں۔شریعت نے اس طرح حقوق پامال نہیں کیے بلکہ شریعت تو دوسروں کے حقوق کی پاسداری اور مال کے ضیاع کا سد باب کرنے کا درس دیتی ہے۔[39]
اگر کسی نے محجور علیہ کے پاس اپنا وہ سامان بعینہ موجود پایا جو اس نے پابندی لگنے سے پہلے اسے فروخت کیا تھا یا بطور قرض یا اجرت پر دیا تھا تو اسے وہ مال یا سامان لینے کا حق حاصل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"جس نے مفلس کے ہاں اپنا مال(سامان )بعینہ موجود پایا وہی اسے واپس لینے کا دوسرے کی نسبت زیادہ حقدار ہے۔"[40]
جس کا مال مفلس کے پاس ہواسے بعینہ واپس لینے کے بارے میں فقہائے کرام نے چھ شرائط مقرر کی ہیں جو درج ذیل ہیں:
1۔مال واپس لیتے وقت مفلس زندہ ہو یعنی فوت نہ ہو چکا ہو۔ چنانچہ ابو داؤد کی روایت میں ہے:
"اگر (مفلس ) مشتری فوت ہو گیا تو سامان کا مالک دوسرے قرض خواہوں کی طرح ہو گا۔"[41]
2۔اس شے کی پوری قیمت مفلس کے ذمے ہو۔ اگر صاحب مال نے اپنی شے کی کچھ قیمت وصول کر لی تو اب اپنی شے واپس لینے کا مستحق نہیں۔
3۔متعین شے مکمل طور پر مفلس کی ملکیت میں ہو۔ اگر اس کا کچھ حصہ مفلس کے پاس ہے اور باقی حصہ اس کے پاس نہیں تو وہ اسے واپس نہ لے گا کیونکہ مالک نے اپنی مکمل شے اس کے پاس نہیں پائی۔
4۔وہ شے اپنی سابقہ حالت میں قائم ہو یعنی اس کی کوئی صفت تبدیل نہ ہوئی ہو۔
5۔اس شے کے ساتھ کسی دوسرے شخص کا حق وابستہ نہ ہو مثلاً:مفلس نے اسے کسی کے پاس گروی نہ رکھ دیا ہو۔
6۔ اس شے میں کوئی متصل اضافہ نہ ہو چکا ہو۔ مثلاً شے کا ہونا یا بڑا ہو جانا۔
جب یہ چھ شرائط کسی شے میں موجود ہوں تو درج بالا روایت کے مطابق صاحب سامان اپنی شے مفلس سے واپس لے سکتا ہے۔
کسی نے مفلس شخص پر پابندی لگنے سے لے کر پابندی اٹھنے تک کی مدت کے دوران میں مفلس کوکوئی شے فروخت کی یا اسے بطور قرض دی تو وہ پابندی اٹھنے سے پہلے اس سے کوئی مطالبہ نہیں کر سکتا بلکہ پابندی اٹھنے کے بعد اپنی شے کا مطالبہ کرے گا یعنی وہ پابندی لگنے سے پہلے کے قرض خواہوں میں شامل ہو گا۔
حاکم مفلس کا موجود مال فروخت کرے گا اور اس کی قیمت قرض خواہوں کے درمیان ان کے فوری واجب الادا قرضوں کے تناسب سے تقسیم کرے گا کیونکہ حجر کا مقصد یہی تھا اس میں تاخیر کرنا یا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے البتہ حاکم مفلس کی بنیادی ضروریات کا سامان یعنی گھر ، برتن اور آلات وغیرہ فروخت نہیں کرے گا۔ وہ قرض جس کی ادائیگی کچھ مدت کے بعد ہونی ہے ولوالیہ قرار پانے کی صورت میں اس کی فوری ادائیگی کے مطالبے پر عمل نہ ہو گا یعنی وہ ان قرضوں کے حکم میں نہیں ہو گا جن کی ادائیگی کا وقت آچکا ہے کیونکہ مقررہ مدت تک مہلت مفلس کا حق ہے جو دوسرے حقوق کی طرح ساقط نہ ہو گا۔ مفلس کا روکاہوا مال موجود قرض خواہوں پر تقسیم ہو گا اگر قرضے مکمل طور پر ادا ہو جائیں تو حاکم کے حکم کے بغیر ہی" حجر" کی پابندی ختم ہو جائے گی کیونکہ حجر کی پابندی کا سبب ختم ہو گیا ہے۔ اگر قرضے مکمل ادانہ ہوں بلکہ مفلس پر کچھ قرضے باقی رہیں تو حجر قائم رہے گا۔البتہ حاکم چاہیے تو حجر ختم کر سکتا ہے کیونکہ حجر کا حکم اسی نے جاری کیا تھا۔
دوسری قسم یعنی کسی انسان کو اس کے اپنے فائدے کے لیے مالی تصرف سے روک دینا تاکہ اس کامال محفوظ رہے۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ہمارا دین دینِ رحمت ہے۔اس نے ہر اس چیز کو اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں انسان کی کوئی مصلحت ہو۔اور ہر وہ کام جس میں کسی کا نقصان تھا اس پر تنبیہ کردی اور منع فرمادیاہے۔علاوہ ازیں جس انسان میں جائز اور کسب حلال کی حدود کے اندر رہ کر مالی تصرف اور تجارت کرنے کی اہلیت ہے،اس کے لیے معاشی میدان کھلاچھوڑ دیا ہے کیونکہ اس میں انفرادی اور اجتماعی مصلحت پنہاں ہے۔اوراگر کسی انسان میں کم عمری،بے وقوفی یا فقدان عقل کیوجہ سے مالی تصرف اور تجارت کرنے کی اہلیت نہیں تو اسلام انھیں ہر قسم کے مالی تصرفات سے روکتا ہے اور اس پر ایسا نگران مقررکرنے کی تلقین کرتاہے جو اس کے مال کی حفاظت کرے اور اسے بڑھانے کی منصوبہ بندی کرتے حتیٰ کہ جب اس میں اہلیت پیدا ہوجائے تو نگران اسے سارا مال لوٹا دے۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"بےعقل لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو جس مال کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے، ہاں انہیں اس مال سے کھلاؤ پلاؤ، پہناؤ، اوڑھاؤ اور انہیں معقولیت سے نرم بات کہو (5) اور یتیموں کو ان کے بالغ ہو جانے تک سدھارتے اور آزماتے رہو پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حسن تدبیر پاؤ تو انہیں ان کے مال سونپ دو"[42]
پابندی کی اس قسم کا تعلق ذمہ اور مال دونوں کو شامل ہے۔جس شخص پر یہ پابندی عائد ہو وہ اپنے مال میں بیع،صدقہ یا ہدیہ وغیرہ کی صورت میں تصرف نہ کرے۔کسی قسم کا قرض،کسی کی ضمانت یاکفالت وغیرہ کی ذمے داری نہ اٹھائے کیونکہ اس طرح سے لوگوں کا مال ضائع ہوسکتا ہے۔
اسی طرح ایسے افراد کے ساتھ کسی عاقل،بالغ انسان کو کوئی مالی معاملہ کرنا صحیح نہیں،مثلاً:ان سے بیع کریں یا قرض یا امانتاً اور عاریتاً مال دیں۔اگر کسی نے ایسا کیاتو وہ اپنا دیا ہوا مال واپس لے بشرط یہ کہ اس کے پاس وہ مال بعینہ موجود ہو۔اگر وہ مال یا سامان مذکورہ افراد کے ہاں خود تلف ہوگیا یا انھوں نے تلف کردیا تو اس کامطالبہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ان پر کوئی جرمانہ یا تاوان ہوگا کیونکہ اس نے اپنی رضا ورغبت سے اپنا مال ایسے لوگوں کے حوالے کرکے خود ہی کوتاہی کی ہے،لہذا اس کا خمیازہ اسے خود ہی بھگتنا ہوگا۔
اگر کسی شخص ،نے جس کواسکی صغر سنی وغیرہ کی وجہ سے ہر قسم کے مالی تصرفات سے روک دیا گیاہے کسی کی جان یا کسی کے مال کے بارے میں جنایت کا مرتکب ہواتو وہ ضامن ہوگا اور اس جنایت پر مرتب ہونے والے نقصان وتاوان کو برداشت کرے گا کیونکہ جسے نقصان پہنچایا گیا ہے اس کا نہ قصور ہے نہ اجازت۔فقہ کا یہ مسئلہ ہے کہ"مال و جان تلف ہونے کی صورت میں نقصان پوراکرنے کی ذمہ داری میں اہل اورنااہل برابر ہیں۔"
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"بچہ،مجنون یا سویا ہوا شخص کسی کا مالی نقصان کردے تو وہ ضامن ہوگا۔یہ شریعت کا عمومی قانون ہے جس میں اُمت کی مصلحتوں کی تکمیل ہوتی ہے ۔اگر ان کے ہاتھوں سے سرزد ہونے والی غلطیوں میں انھیں قصور وار نہ ٹھہرایا جائے تو کئی لوگ ایک دوسرے کے مال کانقصان کریں گے اور دعویٰ کریں گے کہ ہم سے بغیر ارادے کے غلطی ہوگئی۔"[43]
دو صورتوں میں بچے کا"حجر" ختم ہوجاتا ہے۔
پہلی صورت جب وہ بالغ ہوجائے۔بلوغت کی پہچان کے لیے متعدد علامات ہیں جودرج ذیل ہیں۔
1۔سوتے یا جاگتے ہوئے منی کا انزال ہونا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور تمہارے بچے جب بلوغت کو پہنچ جائیں تو انھیں اجازت مانگ کر آنا چاہیے۔"[44]
واضح رہے کہ حُلم کا مطلب یہ ہے کہ طفل خواب میں ایسی کیفیت دیکھے جس سے منی دافق(اچھلنے والی) کا انزال ہوجائے۔
2۔شرمگاہ کے اردگرد(سخت) بالوں کااگنا۔[45]
3۔بچے کی عمر پندرہ برس ہوجائے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:"غزوہ احد کے موقع پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غزوے میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی جبکہ غزوہ خندق میں مجھے اجازت مل گئی کیونکہ اس وقت میں پندرہ برس کا ہوچکا تھا۔"[46]
اس روایت سے واضح ہوا کہ پندرہ سال کی عمر میں بچہ بالغ ہوجاتا ہے۔
4۔لڑکی کے بالغ ہونے کی ایک مزید علامت اسے حیض کا آنا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"اللہ تعالیٰ بالغ عورت کی نماز سرپر بغیر اوڑھنی کےقبول نہیں کرتا۔"[47]
دوسری صورت مال کی اصلاح اور اسے سنبھالنے کی صلاحیت کا پیدا ہونا۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"اوریتیموں کو ان کے بالغ ہوجانے تک سدھارتے اور آزماتے رہو،پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حسن تدبیر پاؤ توانھیں ان کے مال سونپ دو۔"[48]
اس صلاحیت کو جانچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے مالی تصرف پرتھوڑا سا اختیار دے دیاجائے،جب وہ متعدد بار مال کو اس انداز سےخرچ کرے کہ وہ کسی بڑے نقصان سےمحفوظ رہے،علاوہ ازیں وہ حرام اور بے مقصد جگہ پرمال خرچ نہ کرے تو یہ اس کے سمجھدار اور باصلاحیت ہونے کی علامت ہے۔
مجنون شخص کا"حجر" تب ختم ہوگا جب اس کا جنون ختم ہوجائے اور تصرفات مالیہ صحیح طور پر انجام دے سکے۔
بے وقوف شخص کا"حجر" تب ختم ہوگا جب اس کی کم عقلی ختم ہوجائے اور تصرفات مالیہ صحیح طور پر انجام دے سکے۔
حالت حجر میں بچہ ہویا مجنون یا کم عقل ہر شخص کے مال کا نگران اس کا والد ہوگا بشرط یہ کہ وہ عادل وسمجھدار ہو کیونکہ اس میں کمال درجہ کی شفقت ہوتی ہے۔والد کے بعد اس شخص کا درجہ ہے جس کو والد نے وصیت کے ذریعے سے متعین کیا ہو کیونکہ وہ اس کا نائب ہے،جیسے زندگی وکیل کسی کانائب ہوتا ہے۔
متولی کے لیے ضروری ہے کہ ان(تینوں) کامال وہاں خرچ کرے جہاں ان کی مصلحت اور فائدہ زیادہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور تم یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے۔"[49]
یہ آیت اگرچہ یتیم کے بارے میں نص ہے تاہم کم عقل اور مجنون کو بھی قیاس کے ذریعے سے شامل ہوجاتی ہے۔
یتیم کا نگران اس کے مال کی اچھی طرح حفاظت کرے۔ظلم وزیادتی کرکے اپنی ذات پر استعمال نہ کرے۔
اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
"جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وه اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وه دوزخ میں جائیں گے "[50]
اللہ تعالیٰ نے یتیم کے اولیاء کو نصیحت کرتے ہوئے کہاکہ وہ یتیموں کے مال کی اس طرح نگہداشت اور خیال رکھیں جیسا کہ اپنی اولاد کے مال کا خیال رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ احسان وبھلائی کاسلوک کریں۔
ارشاد ربانی ہے:
"اور چاہئے کہ وه اس بات سے ڈریں کہ اگر وه خود اپنے پیچھے (ننھے ننھے) ناتواں بچے چھوڑ جاتے جن کے ضائع ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے، (تو ان کی چاہت کیا ہوتی) پس اللہ تعالیٰ سے ڈر کر جچی تلی بات کہا کریں"[51]
یہ بچے چونکہ اپنے مال کی خود حفاظت نہیں کرسکتے اور نہ اس میں ایسا تصرف کرناجانتے ہیں جس سے ان کا مال بڑھے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر نگران مقرر فرمادیے جو ان کی اور ان کے مالوں کی حفاظت کرتے ہیں۔اور ان نگرانوں کو نگرانی کے دوران میں توجیہات ارشاد فرمائیں جس پر چل کر وہ یتیموں کے مالوں کی حفاظت کرتےہیں۔
نیز اللہ تعالیٰ نے اولیاء(سرپرستوں) کو منع کیا ہے کہ وہ ان لوگوں کو قبل از وقت مال دے دیں تاکہ وہ ضائع نہ کرلیں۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"بے وقوف لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو جس مال کو اللہ نے تمہاری گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے۔"[52]
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں"اللہ تعالیٰ نے بے وقوفوں کومال میں تصرف کرنے کی اجازت دینے سے روکا ہے جس میں لوگوں کے لیے گزران ہے،یعنی ان کی معیشت وتجارت وغیرہ قائم ہے اور اسی سے بے وقوفوں وغیرہ پر"حجر" کا حکم اخذ کیا جاتا ہے۔"[53]
جیسے اللہ تعالیٰ نے کم عقلوں کو ان کا مال ان کے سپرد کرنے سے روکا ہے اور اسے اہل نظر اور اصلاح کرنے والوں کے سپرد کردیاہے،ایسے ہی اولیاء کو تنبیہ کی ہے کہ اس میں ایساتصرف نہ کریں جس سے ان کے مالوں میں فائدہ اور اصلاح نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
"اور تم یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وہ اپنے سن بلوغ کو پہنچ جائے۔"[54]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ آیت:
"اور تم یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے۔"[55]
اور یہ آیت:
"جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وه اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وه دوزخ میں جائیں گے "[56]
نازل ہوئی تو جس شخص کے پاس یتیم تھا اس نے گھر جاکر فوراً یتیم کاکھانا پینا اپنے کھانے پینے سے الگ کرلیا۔اور اگریتیم کا کھانا بچ جاتا تو اسے الگ رکھ دیا جاتا حتیٰ کہ یتیم خود کھالیتا یا پڑا پڑا خراب ہوجاتا۔یہ صورت صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر گراں گزری،انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اس کا ذکر کیا تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
"اورآپ سے یتیموں کے بارے میں سوال کرتے ہیں،آپ کہہ دیجئے کہ ان کی خیر خواہی بہتر ہے،تم اگر ان کامال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں۔"[57]
"تب انھوں نے ان کا کھاناپینا اپنے کھانے پینے کے ساتھ شامل کرلیا۔"[58]
یتیموں کے ساتھ تعاون اور ہمدردی کی بہترین صورت یہ ہے کہ ان کے اموال نفع بخش تجارت کے کاموں میں لگائے جائیں یا ولی اور نگران خود اس سے تجارت کرے یاکسی شخص کو بطور مضاربت ان کا مال دےدے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے بھائی محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مال تجارت پر لگادیا تھا۔سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہے:
"تم یتیموں کے مال تجارت میں لگاؤ ایسا نہ ہوکہ زکاۃ انھیں ختم کردے۔"[59]
اسی طرح یتیم کا ولی اس کے جملہ اخراجات اچھے طریقے سے پورے کرے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں"یتیم کی عزت کرنا،اس کو خوشی دینا اور پریشانی سے بچانا مستحب ہے اور اس کی دل جوئی بہت بڑا نیکی کاکام ہے۔"
اگر یتیم مالدار ہوتو اس کا سرپرست اس کے مال میں سے قربانی کاجانور خرید سکتاہے کیونکہ عید کا دن خوشی کا دن ہے ۔اسی طرح سرپرست یتیم کو اس کا مال خرچ کرکے تعلیم دلواسکتا ہے کیونکہ اس میں اس کا فائدہ ہے۔
اگر یتیم کا ولی فقیر ہوتو وہ یتیم کا مال سنبھالنے کی مناسب اجرت لے سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"ہاں(جو)مسکین ومحتاج ہوتو وہ دستور کے مطابق کھاسکتا ہے۔"[60]
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"یہ آیت یتیم کے والی کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو یتیم اور اس کے مال کی نگرانی اور اصلاح کرتاہے تو اگر وہ ضرورت مند ہوتو اس کے مال سے کھا سکتا ہے۔"[61]
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ آیت:
"مال داروں کو چاہیے کہ(ان کے مال سے) بچتے رہیں ،ہاں! جو مسکین ومحتاج ہوتو وہ دستورکے مطابق کھاسکتا ہے۔"[62]
یتیم کے ولی کے بارے میں نازل ہوئی کہ(وہ یتیم کے مال سے) بقدر نگرانی لے سکتا ہے۔[63]
فقہائے کرام نے کہا ہے کہ یتیم کا ولی معروف اجرت یا بقدر حاجت ان دونوں صورتوں میں سے جس صورت میں کم رقم بنتی ہو وہ وصول کرے۔بعض روایات میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:میری کفالت میں ایک ایسا یتیم ہے جس کے پاس مال ہے،البتہ میرے پاس مال نہیں تو کیامیں اس کے مال میں سے لے سکتاہوں؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"زیادتی کیے بغیر اپنے یتیم کے مال میں سے کھالو۔"[64]
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی رخصت کی حد عبور نہ کی جائے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں نہایت سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں،چنانچہ فرمایا:
"اور ان کے بڑے ہوجانے کےڈر سے ان کے مالوں کو جلدی جلدی فضول خرچیوں میں تباہ نہ کرو۔"[65]
اور فرمایا:
"اور اپنے مالوں کے ساتھ ان کے مال ملا کر کھانہ جاؤ،بے شک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔"[66]
نیز فرمایا:
"جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وه اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وه دوزخ میں جائیں گے "[67]
سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"سات تباہ کن گناہوں سے بچ کررہو۔"عرض کی گئی:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کون کون سے ہیں؟ آپ نے فرمایا:" اللہ کے ساتھ شرک کرنا،جادوکرنا،اللہ کی حرام کی ہوئی جان کو ناحق قتل کرنا،سودکھانا،یتیم کامال کھانا(کفارسے) جنگ کے موقع پر پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا اور پاک دامن بھولی بھالی مومن عورتوں پر (بدکاری کی)تہمت لگانا۔"[68]
جب یتیم کی یتیمی کا دور ختم ہوجائے (جوسن بلوغت ہے) اور وہ مال میں تصرف کرنے کا اہل ہوجائے تو گواہوں کی موجودگی میں اس کا مکمل مال اس کے حوالے کردیا جائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
"اور یتیموں کو ان کے مال دے دو۔"[69]
نیز فرمایا:
"اور یتیموں کو ان کے بالغ ہوجانے تک سدھارتے اور آزماتے رہو،پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حسن تدبیر پاؤ تو انھیں ان کے مال سونپ دو۔"[70]
نیز فرمایا:
"پھر جب انھیں ان کے مال سونپوتو گواہ بنالو اور حساب لینے والا اللہ ہی کافی ہے۔"[71]
یعنی جب سرپرست یتیموں کی دیکھ بھال کرتے ہیں،پھر ان کے مال ان کے سپرد کرتے ہیں تو اس وقت اللہ ہی کافی محاسب اور گواہ ہے۔اور وہ دیکھ رہا ہے کہ وہ یتیموں کو ان کے پورے کے پورے مال حوالے کرتے ہیں یا ان میں کمی کرتے(اور خیانت کاارتکاب کرتے) ہیں۔
صلح کے لغوی معنی"جھگڑا ختم کرنا" کے ہیں جبکہ شریعت کی اصطلاح میں"دو جھگڑنے والے افراد کے درمیان پیدا شدہ اختلافات ختم کرنے کے معاہدے کو صلح کہتے ہیں۔"یایوں کہہ سکتے ہیں کہ صلح سے مراد وہ معاہدہ ہے جس سے دو افراد کا باہمی نزاع ختم ہوجائے۔
صلح ایک ایسا معاہدہ ہے جس کے بہت سے فائدے ہیں،اسی لیے بوقت ضرورت اس میں جھوٹ کی آمیزش کو جائز قراردیا گیا ہے۔
صلح کی مشروعیت قرآن،حدیث اور اجماع سے ثابت ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"اور صلح بہت بہتر چیز ہے۔"[72]
ایک اورمقام پر فرمایا:
"اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو۔ پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروه سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وه اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے "[73]
ایک اور مقام پر فرمایا:
"ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی خیر نہیں، ہاں! بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے اور جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادے سے یہ کام کرے اسے ہم یقیناً بہت بڑا ثواب دیں گے"[74]
نیز فرمایا:
"سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو"[75]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
"مسلمانوں میں صلح جائز(نافذ ہونے والی) ہے الایہ کہ جو حلال کوحرام کردے یا حرام کو حلال بنادے۔"[76]
نیز خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان صلح کروانے میں دلچسپی لیا کرتے تھے۔
جائز صلح کی بنیاد عدل وانصاف پر ہوتی ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔اس کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔اس کے بعد دونوں کوراضی کرنا بھی مقصود ہوتا ہے۔
لوگوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں کوئی ایسا شخص موجود ہوجوجھگڑے کے حالات وواقعات سے واقف ہو،نیز واجب اور ذمہ داری کو سمجھتا ہو اورعدل کرنا اس کامقصد ہو۔حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان صلح کروانے والےشخص کامقام ومرتبہ اس شخص سے کہیں بڑھ کر ہے جو مسلسل روزے رکھنے والا اور قیام کرنے والا ہے۔[77]
واضح رہے جو صلح عدل وانصاف سے عاری ہوگی وہ ظلم اور حق تلفی ہوگی۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص طاقتور ظالم اور کمزور مظلوم کے درمیان اس طرح صلح کروادے کہ وہ طاقتور ظالم کو خوش کرے،ظالم کے ظلم کو برقرار رکھے،ضعیف کو اس کا حق نہ دلائے یا اسے واپس دلانے کی جرات و کوشش نہ کرے۔
واضح رہے صلح مخلوق کے ان حقوق کے بارے میں ہوتی ہے جس کا تعلق ایک دوسرے سے ہے اور جنھیں معاف کیا جاسکتاہے ،البتہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ،مثلاً:حدود اور عبادات وغیرہ میں صلح کی قطعاً گنجائش نہیں ہوتی۔ان میں صلح یہی ہے کہ انھیں مکمل طور پرادا کیا جائے۔
صلح کی پانچ صورتیں ہیں جو درج ذیل ہیں:
1۔مسلمان اور حربیوں(کافروں) کے درمیان صلح کروانا۔
2۔مسلمانوں میں سے اہل عدل اور باغیوں کے درمیان صلح کروانا۔
3۔ خاوند اور بیوی میں ،جب اختلاف بڑھنے کا اندیشہ ہو،صلح کروانا۔
4۔مال کے علاوہ کسی اور چیز میں دو جھگڑے والوں کے درمیان صلح کروانا۔
5۔مال کے بارے میں جھگڑنے والے فریقین کے درمیان صلح کروانا۔
واضح رہے اس بحث میں یہی آخری قسم مقصود ہے۔اس کی دو قسمیں ہیں:
اقرار پر مبنی صلح۔
انکار پر مبنی صلح۔
اقرار پر مبنی صلح کی دو صورتیں ہیں:
1۔متنازعہ چیز کا کچھ حصہ معاف کرنے پر صلح کرنا۔
2۔متنازعہ چیز کے علاوہ کوئی اورشے دینے پر صلح کرنا۔
اگرصاحب حق صلح کے لیے متنازعہ چیز میں سے کچھ حصہ خود معاف کرنے پر آمادہ ہوجائے تو یہ صلح درست ہے،مثلاً:ایک شخص دوسرے کے کسی مقرر قرض کا اعتراف کرتا ہے یا کسی ایسی مالی شے کااقرارکرتا ہے جو اس کے پاس موجود ہے۔پھر صاحب حق اپنے قرض کی کچھ رقم لینے اورکچھ رقم معاف کرنے پر صلح کرلے یا اس چیز کا کچھ ہبہ کردے اور باقی وصول کرلے تو جائز ہے۔صلح کی اس صورت کے جواز کے لیے درج ذیل شرائط ہیں:
ایک شخص دوسرے کے حق کا اعتراف کرتا ہے مگر یہ شرط لگاتا ہے کہ"میں کچھ لے کر لی اس کی ادائیگی کروں گا"
تو یہ اس کے لیے جائز نہیں ۔یا صاحب حق کہے:"میں تجھے اس شرط پر بری قراردیتا ہوں یا فلاں شے ہبہ کرتا ہوں کہ تو مجھے اس قدر رقم ادا کردے۔"تو اس قسم کی شرط بھی درست نہیں کیونکہ صاحب حق کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مکمل حق کا مطالبہ کرے۔
اس قسم کی صلح کے لیے یہ شرط بھی ہے کہ وہ حق کی ادائیگی کو صلح کے ساتھ مشروط نہ کرے کیونکہ یہ دوسرے کے مال کو ناحق کھانا ہے جو حرام ہے،نیز حق والے کو اس کا حق بغیر کسی قید وشرط کے ادا کرنا واجب ہے۔
صاحب حق ایسا شخص ہو جوہبہ کرسکتا ہو۔اگر ہبہ کرنے کا حق نہ رکھتا ہوتو ایسی صلح جائز نہیں،مثلاً: کوئی یتیم یا مجنون کےمال کا ولی ہے تو وہ یتیم ومجنون کے مال کامالک نہیں،اس لیے وہ صلح کی خاطر کسی کو یہ مال بھی نہیں دے سکتا۔
الغرض صلح کی مذکورہ بالاصورت بیان کردہ شرائط کے ساتھ جائز ہے کیونکہ اس کا تعلق رضا مندی اور خوشی سے ہے۔کسی انسان کو اپنے حق میں سے کچھ حصہ معاف کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا جس طرح کہ اسے سارا حق وصول کرنے سے روکا نہیں جاسکتا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قرض خواہوں سے بات چیت کی کہ اس کے قرضے کا کچھ حصہ معاف کردیں۔[78]
اقرار پر مبنی صلح کی دوسری صورت یہ ہے کہ صاحب حق کو متنازعہ چیز کے علاوہ کوئی اور چیز دینے پر مصالحت کر لے ،مثلاً:ایک شخص دوسرے کے قرض کا یا کسی متعین چیز کا اعتراف کرے،پھر صاحب حق کو متنازعہ چیز کے عوض میں کوئی اور چیز دینے پر صلح کرلے۔اگر ایک شخص نقد رقم کے عوض میں نقد رقم سے صلح کرتا ہے تو یہ"بیع صرف" کے حکم میں ہے جو جائز ہے۔اور اگر کوئی نقد رقم کے عوض میں کوئی اور چیز دینے کی شرط پر صلح کرتا ہے تو یہ بیع بن جائے گی اور اس پر بیع کے احکام جاری ہوں گے۔اور اگر کسی نے کسی مال کے عوض میں اپنے گھر میں رہائش کی سہولت دینے پر صلح کی تو یہ اجارہ(کرایہ پر دینا) ہے،اس پر کرائے کے احکام جاری ہوں گے ۔اگر کسی نے نقدی کے سوا کسی اور چیز کے عوض کوئی دوسری مالی چیز دینے پر صلح کی،مثلاً:بھینس کے عوض گائے دینے پرصلح کی تو یہ صلح بیع کےحکم میں ہوگی۔
یعنی ایک شخص دوسرے پر اپنے حق کا دعویٰ کرتا ہے اور "مدعا علیہ" خاموش رہتا ہے اور اسے معلوم نہیں کہ دعویٰ کس چیز کا کیا گیا ہے،پھر مدعی ،مدعا علیہ کے خاموش رہنے کیوجہ سے اپنے دعوے کی چیز کے عوض مدعا علیہ سے نقد رقم لے یا ادھار شے لینے کا وعدہ لے کر مصالحت کرلیتاہے تو اکثر اہل علم کے نزدیک ایسی صورت میں صلح جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
"مسلمانوں میں صلح جائز(نافذ ہونے والی) ہے الایہ کہ جو حلال کوحرام کردے یا حرام کو حلال بنادے۔"[79]
صلح کی اس قسم کا مدعا علیہ کوفائدہ یہ ہے کہ وہ خصومت اور حلف سے بچ جاتا ہے جبکہ مدعی کو گواہ پیش کرنے کی تکلیف نہیں ہوتی اور اسے اپنے حق کی وصولی میں جو تاخیر ہوسکتی تھی اس سے بچ جاتا ہے۔
انکار پر صلح مدعی کے حق میں بیع کی طرح ہوتی ہے کیونکہ وہ اسے اپنے مال کا معاوضہ تصور کرتا ہے،لہذا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے یقین کے مطابق عمل کرے۔یہ صورت ایسے ہوگی گویا مدعا علیہ نے اس سے یہ چیز خرید لی ہے،لہذا مدعی کے لیے اس کے احکام بیع والے ہوں گے،مثلاً:وصول شدہ چیز عیب کی وجہ سے واپس کرنا اور اگر شفعہ والی چیز ہوتو شفعہ کے حق کا حاصل ہونا۔
مدعا علیہ کے حق میں اس صلح کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ دعویٰ سے بری الذمہ ہوجاتا ہے کیونکہ اس نے مال کی ادائیگی اپنی قسم کے بدلے کی ہے تاکہ خود سے ضررکو دور کرے،جھگڑا ختم کرے اور مقدمہ بازی کی پریشانی سے بچ جائے۔چونکہ عزت دار افراد ایسی چیزوں سے بچ کررہنا پسند کرتے ہیں،لہذا وہ اس صورت حال سے بچنے کے لیے مال ادا کردیتے ہیں۔اگر صلح کے نتیجے میں حاصل ہونے والی چیز میں کوئی عیب ہوتو مدعا علیہ اسے خیار عیب کی بنیاد پر واپس کرنے کا حق نہیں رکھتا اور اگر وہ شفعہ والی چیز ہوتو شفعہ کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اسے کسی چیز کا عوض سمجھ کر وصول نہیں کررہا۔
اگر مبنی بر انکار کی مصالحت میں فریقین میں سے کسی نے جھوٹ سے کام لیا،مثلاً:مدعی نے کسی شے کے بارے میں جھوٹا دعویٰ کیا یامدعاعلیہ نے انکار دعویٰ میں جھوٹ سے کام لیا باوجود یہ کہ اسے اپنے جھوٹ پر یقین ہے تو جس جھوٹے فریق کو یہ شے یا مال مل گیا اسکے حق میں یہ صلح باطل ہے کیونکہ وہ حقیقت اور سچائی کو جانتاہے اور صاحب حق کو اس کا حق دینے پر قادر ہے،لہذا اس صلح کے بموجب وہ جو کچھ لے رہاہے اس پر حرام ہے کیونکہ اس نے یہ مال ظلم اور زیادتی کرتے ہوئے لیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو۔"[80]
اگرچہ یہ صلح لوگوں کے ہاں درست ہوگی کیونکہ انھیں مخفی حالات کا علم نہیں ہوتا لیکن یہ صلح اس ذات کے ہاں حقیقت کو بدل نہیں سکتی جس سے آسمانوں اور زمینوں کی کوئی شے مخفی نہیں،لہذاہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ایسے برے کاموں اور باطل حیلوں سے گریز کرے۔
مبنی برانکار صلح کےمسائل میں سے یہ بھی ہے کہ اگر کسی اجنبی شخص نے مدعا علیہ کی اجازت کے بغیر مدعی ے مصالحت کرلی تو یہ صلح درست قرارپائے گی کیونہ اجنبی شخص کا اس مقصد مدعا علیہ کو قسم سے بچانا اورمخاصمت کو ختم کرناہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی اجنبی شخص نے کسی کا قرض اداکردیا،البتہ اس اجنبی نے مدعی کو جو کچھ دیا اس کا مدعا علیہ سے مطالبہ نہ کرسکے گا کیونکہ اس نے جو کچھ دیا ہے تبرعاً(خوشی سے) دیاہے۔
نا معلوم حق کے بارے میں صلح جائز ہے،خواہ یہ حق دونوں فریقوں کا ا یک دوسرے پر ہویا صرف ایک فریق کا ہو بشرط یہ کہ اس نامعلوم کو معلوم کرنا ناممکن ہو،جیسے دونوں کا آپس کا حساب جس پر طویل عرصہ گزرچکا ہو اور دونوں کو ایک دوسرے کے ذمے حق کا علم نہیں(کہ کتنا تھا) جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کو،جن کا قدیم میراث کے بارے میں اختلاف ہوا تھا،فرمایا:
"قرعہ ڈال لو اورحق کے مطابق طے کرنے کی کوشش کرو اور ہر ایک دوسرے کی کمی بیشی کو معاف کردو۔"[81]
کیونکہ یہ اپنے حق سے دست برداری ہے تو مجبوری کی وجہ سے نامعلوم میں بھی جائز ہے تاکہ مال ضائع نہ ہو جائے یا کسی کے ذمے دوسرے کا حق باقی نہ رہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمی بیشی معاف کرنے کاحکم اس لیے دیا تاکہ پوری طرح بری الذمہ ہوسکیں کیونکہ یہ مخلوق کا حق ہے اور مخلوق کا حق عظیم ہے۔
قصاص کے معاملے میں شریعت کی مقرر کردہ دیت کے ساتھ صلح یا کمی بیشی کرکے فریقین کے درمیان صلح ہوسکتی ہے۔کیونکہ اس میں مال کی مقدار متعین نہیں ہوتی،لہذا اس کے بدلے معاوضہ واقع نہیں ہوتا۔
حدود شرعیہ کے نفاذ میں مصالحت درست نہیں کیونکہ ان کی مشروعیت میں یہ حکمت ہے کہ دوسرے لوگ ان جرائم سے باز رہیں،نیز اس میں اللہ تعالیٰ اور معاشرے کاحق ہے جب کہ صلح اسے ختم کردیتی ہے،معاشرے کو خیر وفلاح کے فوائد سے محروم کردیتی ہے اور فتنہ وفساد برپا کرنے والے اور ناکارہ لوگوں کے لیے حوصلہ افزائی کا سبب بنتی ہے،لہذا حدود شرعیہ میں مصالحت جائز نہیں ہے۔
[1] ۔البقرۃ:2/283۔
[2] ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہودی کے ہاں اپنی زرہ گروی رکھنا حضر میں رہن کے جواز کی واضح دلیل ہے۔صحیح البخاری الجہاد والسیر باب ماقیل فی درع النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث:2916۔
[3]۔البقرۃ:2/282۔283۔
[4] ۔البقرۃ:2/282۔
[5] ۔کتاب الام للشافعی :4/60،والسنن الکبری للبیہقی :6/39،وسنن ابن ماجہ الرھون باب لا یغلق الرحن حدیث : 2441،وسنن الدارقطنی :3/32،حدیث :2899۔
[6] ۔البقرۃ:2۔283۔
[7] ۔صحیح البخاری الرہن فی الحضر باب الرہن مرکوب و محلوب ،حدیث:2512۔
[8] ۔اعلام الموقعین :2/38 بتصرف ومسند احمد :5/267وسنن ابی داؤد حدیث:3565۔
[9] ۔یوسف :12/72۔
[10] ۔سنن ابی داؤد البیوع باب فی تضمین العاریہ حدیث3565،وجامع الترمذی البیوع باب ماجاء فی ان العاریہ موداۃ حدیث 1265۔
[11] ۔ سنن ابی داؤد البیوع باب فی تضمین العاریہ حدیث3565،وجامع الترمذی البیوع باب ماجاء فی ان العاریہ موداۃ حدیث 1265۔
[12] ۔یوسف 12/72۔
[13] ۔سنن ابی داؤد البیوع باب فی تضمین العاریہ حدیث 3565وجامع الترمذی البیوع باب ماجاء فی ان العاریۃ موداۃ حدیث 1265۔
[14] ۔"حوالہ" کی مزید وضاحت یوں ہے کہ مثلاً: اشرف کا اکرم کے ذمے کچھ قرض ہے۔ اکرم کہتا ہے کہ میں نے اسلم سے رقم وصول کرنی ہے اس لیے تم مجھ سے وصول کرنے کے بجائے اسلم سے وصول کر لو۔ اس مثال میں اکرم(مقروض) محیل ،اشرف (قرض خواہ) محال اور اسلم (مقروض کا مقروض محال علیہ ہے۔ اگر اسلم ادائیگی کر دے تو اکرم بری الذمہ ہو جائے گا۔ اس عمل کو حوالہ کہتے ہیں۔(صارم)
[15] ۔صحیح البخاری الحوالات باب الحوالہ وھل یرجع الحوالہ ؟حدیث:2287۔
2288وصحیح مسلم المساقاۃ باب تحریم مطل الغنی۔ حدیث 1564)
[16] ۔دیکھئے اعلام الموقعین :2/10۔11۔
[17] ۔صحیح البخاری الحوالات باب الحوالہ وھل یرجع الحوالہ ؟حدیث:2287۔
2288وصحیح مسلم المساقاۃ باب تحریم مطل الغنی۔ حدیث 1564۔
[18] ۔مسند احمد:2/463۔
[19] ۔الکہف:18۔19۔
[20] ۔یوسف :12۔55۔
[21] ۔التوبہ:9۔60۔
[22] ۔صحیح البخاری المناقب باب: 28۔حدیث 3642۔
[23] ۔(ضعیف )مسند احمد 6/392۔393۔و جامع الترمذی الحج باب ماجاء فی کراھیہ تزویج المحرم حدیث841۔
[24] ۔جامع الترمذی ،الزکاۃ باب ماجاء فی زکاۃ البقر حدیث 623۔
[25] ۔صحیح البخاری ،الوکالۃ باب الوکالۃ فی الحدود ، حدیث2314۔2315۔وصحیح مسلم الحدودباب من اعترف علی نفسہ بالزنا حدیث 1697۔1698۔
[26] الفرقان:25۔22۔
[27] ۔الفجر:89۔5۔
[28] ۔النساء:6۔5۔4۔
[29] ۔سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مقروض ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر مالی تصرف کی پابندی عائد کر دی تھی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مال میں سے پورا قرض ادا کر دیا۔سنن الدارقطنی:4/230حدیث 4505والمستدرک للحاکم :2/58۔حدیث :2348(صارم)
[30] ۔النساء :4،5۔
[31] ۔البقرۃ:2/280۔
[32] ۔المعجم الکبیر للطبرانی :1/304حدیث 899۔
[33] ۔البقرۃ:2/280۔
[34] ۔صحیح البخاری الحوالات باب الحوالہ وھل یرجع فی الحوالہ؟حدیث2287۔22
88۔وصحیح مسلم المساقاۃ باب تحریم مطل الغنی حدیث 1564۔
[35] ۔مجموع الفتاوی الشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ 35/402۔
[36] ۔سنن ابن داؤد القضاء باب فی الدین ھل یحبس بہ؟حدیث3628۔ومسند احمد4/222۔388۔389۔وتلخیص الجبیر3/39حدیث 1237۔واللفظ لہ۔
[37] ۔سنن ابن ماجہ الاحاکم باب من بنی فی حقہ ما یضربجارہ حدیث:2340۔
[38]۔(حسن) المستدرک للحاکم 2/58حدیث 2348وسنن الدارقطنی :4/230حدیث4505۔
[39] ۔اعلام الموقعین :4/9بتصرف ۔
[40] ۔صحیح البخاری الاستقراض باب اذا وجد مالہ عند مفلس حدیث2402 وصحیح مسلم المساقاۃ باب من ادرکما باعہ عند المشتری حدیث 1559۔
[41] ۔سنن ابی داؤد البیوع باب فی الرجل یفلس فیحد الرجل متاعہ بعینہ عندہ حدیث 3520۔
[42]۔النساء۔4/5۔6۔
[43]۔اعلام الموقعین:2/150۔
[44]۔ النور 24:59۔
[45]۔ سنن ابی داود الحدود،باب فی الغلام یصیب الحد،حدیث 4404۔4405۔
[46]۔ صحیح البخاری الشھادات باب بلوغ الصبیان وشھادتھم حدیث 2664۔وصحیح مسلم الامارۃ،باب بیان سن البلوغ حدیث 1868۔وسنن ابن ماجہ الحدود باب من لا یحب علیہ الحد،حدیث 2543 واللفظ لہ۔
[47]۔سنن ابی داود الصلاۃ باب المراۃ تصلی بغیرخمار حدیث 641۔
[48]۔النساء:4:6۔
[49]۔الانعام:6/152۔
[50]۔النساء:4/10۔
[51]۔النساء:9/4۔
[52]۔النساء:4:5۔
[53]۔ تفسیر ابن کثیر :1/601 النساء 4/10۔
[54]۔الانعام 6:152۔
[55]۔الانعام:6/152۔
[56]۔النساء:4/10۔
[57]۔البقرۃ: 2/220۔
[58]۔ تفسیر ابن کثیر 1/346 البقرۃ:2/220۔
[59]۔ السنن الکبریٰ للبیہقی 4/107۔والمعجم الاوسط للطبرانی 5/90حدیث 4164 واللفظ لہ۔
[60]۔النساء:4۔6۔
[61]۔تفسیر ابن کثیر 1/602 النساء 4۔6۔
[62]۔النساء 6۔4۔
[63]۔ تفسیر ابن کثیر 1/602 النساء 4۔6۔
[64]۔سنن ابی داود الوصایا باب ماجاء فیما لولی الیتیم ان ینال من مال الیتیم حدیث 2872۔وسنن النسائی،الوصایا،باب ما للوصی من مال الیتیم اذا قام علیہ؟حدیث 3698۔وسنن ابن ماجہ الوصایا باب قولہ:"وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ " النساء:حدیث 2718۔
[65]۔النساء 6۔4۔
[66]۔النساء:2۔4۔
[67]۔النساء:4/10۔
[68]۔صحیح البخاری الوصایا،باب قول اللہ تعالیٰ: "إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى...)حدیث 2766 وصحیح مسلم الایمان باب الکبائر واکبرھا حدیث 89۔
[69]۔النساء:2/4۔
[70]۔النساء:6۔4۔
[71]۔ النساء:6۔4۔
[72]۔النساء:4/128۔
[73]۔ الحجرات 9/49۔
[74]۔النساء:4/114۔
[75]۔الانفال۔1/8۔
[76]۔سنن ابی داود القضاء باب فی الصلح حدیث 3594۔وجامع الترمذی الاحکام باب ما ذکر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الصلح بین الناس،حدیث 1352۔
[77]۔صحیح ابن حبان 11/489۔حدیث 5092۔
[78]۔صحیح البخاری البیوع باب الکیل علی البائع والمعطی حدیث 2127۔
[79]۔سنن ابی داود القضاء باب فی الصلح حدیث 3594۔وجامع الترمذی الاحکام باب ما ذکر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الصلح بین الناس،حدیث 1352۔
[80]۔البقرۃ:2/188۔
[81]۔سنن ابی داود القضاء باب فی قضاء القاضی اذا اخطاء حدیث 3584 والمصنف لابن ابی شیبۃ 5/27۔حدیث 2338 واللفظ لہ۔