خریدی ہوئی چیز کی قبضے سے پہلے ہی خرید وفروخت
آئندہ صفحات میں ہم ان مسائل کا ذکر کریں گے جو خریدی ہوئی چیز کو قبضے میں لینے سے پہلے ہی فروخت کرنے سے متعلق ہیں اور بتائیں گے کہ اس میں کون سی صورت جائز اور کون سی ناجائز ہے اور کس صورت میں قبضہ صحیح شمار ہوگا اور کس میں صحیح شمار نہ ہوگا۔
ائمہ کرام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ کسی شے کی بیع کرلینے کے بعد اور اس پر قبضہ کرنے سے پہلے اسے فروخت کرنا جائز نہیں بشرط یہ کہ اس کا تعلق ماپ،ناپ،وزن اور گنتی سے ہو۔اسی طرح جو چیزیں ان کے علاوہ ہیں ان کابھی صحیح اور راجح قول کے مطابق یہی حکم ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"جس نے اناج خریدا وہ اس وقت تک فروخت نہ کرے جب تک(اس کا ناپ اور وزن کرکے) اسے پوراحاصل نہ کرلے۔"[1]
ایک روایت کے الفاظ ہیں: "حتى يقبضه"یہاں تک کہ اسے اپنے قبضے میں کرلے۔ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: "حَتَّى يَكْتَالَهُ "یہاں تک کہ اس کاماپ کرلے۔"[2]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے:
"(کھانے کی اشیاء کے علاوہ) ہر چیز کا میں یہی حکم سمجھتا ہوں۔"[3]
بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے :
"جب بھی کوئی شے خریدو تو اس پر قبضہ کیے بغیر آگے فروخت نہ کرو۔[4]
ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے یوں روایت بیان کی ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ میں جہاں سے سامان خریدا ہے وہیں پر سامان بیچنے سے منع فرمایا ہے،یہاں تک کہ تاجراپنا سودا اپنے اپنے گھروں میں اٹھا کر لے جائیں۔"[5]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگرد رشید ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"خریدی ہوئی شے کو قبضے میں لینے سے پہلے فروخت کرنے کی نہی کی وجہ غالباً یہ معلوم ہوتی ہے کہ مشتری اس شے کو قبضے میں لینے سے عاجز اوربے بس ہے ۔ہوسکتا ہے بائع فروخت شدہ شے اس کے حوالے کرے اور ہوسکتا ہے نہ کرے۔خاص طور پر جب وہ دیکھ رہا ہو کہ خریدار کو خوب نفع حاصل ہورہا ہے تو بائع بیع کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا،خواہ انکار کرے یا فسخ بیع کے لیے کوئی حیلہ کرے ۔اس کی تائید اس مسئلہ سے بھی ہوتی ہے کہ آدمی جس چیز کے نقصان کا ذمہ دار نہ ہو اس کا نفع بھی نہیں لے سکتا۔"[6]
چنانچہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اس امر کی پابندی کرے کہ جب وہ کوئی شے خریدے تو اس وقت تک اسے فروخت نہ کرے جب تک مکمل طور پر اس پر قبضہ حاصل نہ کرلے۔
بہت سے لوگ اس مسئلے میں سستی کرجاتے ہیں یا انھیں اس مسئلے کا علم نہیں ہوتا کہ عموماً لوگ سامان خریدتے ہیں اور اس کا مکمل قبضہ لیے بغیر آگے فروخت کردیتے ہیں،مثلاً:جہاں سامان خریدار وہیں بوریوں،پیکٹوں یا ڈبوں کی گنتی کرلی،پھر گئے اور کسی کے ہاں اسے فروخت کردیا،حالانکہ اس کا صحیح طور پر قبضہ ہوا ہی نہیں تھا،جس کی وجہ سے مشتری کے لیے اسے فروخت کرناجائز نہ تھا۔
اگر آپ کہیں کہ صحیح قبضہ لینے کی وہ کون سی صورت ہے جس میں مشتری کے لیے خریدی ہوئی اشیاء میں تصرف کرنا جائز ہے؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر چیز کے قبضے کی صورت اس کی نوعیت کے مختلف ہونے کی وجہ سے مختلف ہے ،لہذا قبضے کے لیے مناسب صورت کو اختیار کیا جائے گا۔اگر وہ چیز گنتی والی ہے تو اس پر قبضہ گنتی سے ہوگا اور اگر وہ ناپ وپیمائش والی ہے تواس پر قبضہ ناپ وپیمائش کرنے سے ہوگا۔علاوہ ازیں مشتری اسے اپنی جگہ میں منتقل اور محفوظ بھی کرے گا۔اگر وہ کپڑے ،جانور یا گاڑیاں ہیں تو مشتری انھیں اپنے ہاں منتقل کرے گا۔اگرفروخت شدہ چیز ہاتھ میں پکڑی جاسکتی ہے ،مثلاً:جواہر یا کتابیں وغیرہ تو مشتری اسے جب ہاتھ میں لے گا تو صحیح قبضہ ہوگا۔اگر فروخت شدہ چیز دوسری منتقل نہ ہوسکے،مثلاً:مکانات،زمین اور درختوں پر پھل وغیرہ تو اس کا قبضہ ایسے ہوگا کہ مشتری کے زمین پر کنٹرول سنبھالنے اور مالک کی طرح تصرف کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔اسی طرح مکان ہوتو اس کی چابی حاصل کرنے اور اس کا دروازہ کھول لینے سے قبضہ ہوگا۔
اکثر لوگ سودا کرلینے کے بعد اس کا قبضہ لینے میں سستی کرتے ہیں اور شرعی قبضہ حاصل کیے بغیر اس شے میں تصرف کرتے ہیں اس طرح وہ ایسے کام کا ارتکاب کرتے ہیں جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ وہ جھگڑوں اور اختلافات میں پڑ جاتے ہیں یاجب سودے کی حقیقت حال واضح ہوتی ہے تو نادم وشرمسار ہوتے ہیں۔بسا اوقات لڑائی جھگڑے بلکہ مقدمہ بازی تک نوبت پہنچ جاتی ہے ۔اس طرح جو شخص بھی حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا ہے تو لازماً اس کا مقدر ندامت اور پریشانی ہے۔
اگر مشتری یا بائع کو بیع کرلینے کے بعد ندامت ہویابیع کرنے کے بعد مشتری کو اس چیز کی ضرورت نہ رہے یا اس چیز کی قیمت ادا کرنے میں مشکل پیش آجائے تو ان صورتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وترغیب یہ ہے کہ بھائی کی مجبوری کا لحاظ رکھتے ہوئے بیع ختم کردی جائے اور اسے سودا لینے یادینے پر مجبور نہ کیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"جس نے مسلمان کے ساتھ اقالہ کیا(اس کے مطالبے پرعقد کو ختم کیا) اللہ تعالیٰ روزقیامت اس کی لغزشیں واپس(معاف) کرے گا۔"[7]
اقالہ کا معنی ہے عقد کو ختم کردینا اور عاقدین میں سے ہر ایک کا اپنی چیز کو کمی بیشی کے بغیر وصول کرلینا اور بوقت حاجت یہ ایک مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی پر حق ہے،حسن معاملہ ہے اور دینی بھائی چارے کا تقاضاہے۔
سود کا معنی نہایت اہم اور نازک ہے جس کی حرمت پر تمام سابقہ شریعتیں متفق رہی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے سودی کاروبار کرنے والے کو بہت سخت وعید سنائی ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
"جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت کے دن) اس شخص کی طرح کھڑے ہوں گے جسے شیطان نے چھو کر خبطی(بدحواس) کردیا ہو۔"[8]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ سودی معاملات کرنے والے قیامت کو اپنی قبروں سے ایسے اٹھیں گے جیسے آسیب زدہ آسیب کی حالت میں کبھی اٹھتا ہے کبھی گرتا ہے(پھراٹھتا ہے،پھر گرجاتا ہے) اس لیے کہ دنیا میں سود خوری کیوجہ سے ان کے پیٹ،بہت بڑے اور بھاری ہوں گے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو جو سود کو حرمت سے واقف ہونے کے باوجود سودی لین دین کرنا ہے،یہ وعید سنائی کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا،چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
"اور جس نے پھر بھی(سودی کاروبار) کیا تو وہ جہنمی ہے ،ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے۔"[9]
جس مال میں سود کی آمیزش ہو اس میں برکت وخیر ختم ہوجاتی ہے،چاہے جس قدر بھی بڑھ جائے،بے برکت ہی رہے گا۔اس مال سے سود خور استفادہ نہیں کرپاتا بلکہ وہ مال باعث وبال بن جاتا ہے۔دنیا میں پریشانی اور آخرت میں عذاب کا سبب ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اللہ سود کو مٹاتا ہے۔"[10]
اللہ تعالیٰ نے سودی کاروبار کرنے والے کو کفار اوراثیم(سخت گناہگار) قراردیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقے کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے اورگناہ گار کو دوست نہیں رکھتا۔"[11]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اولاً یہ فرمایا کہ وہ سود لینے دینے والے سے محبت نہیں کرتا۔واضح رہے کہ کسی شخص سے اللہ تعالیٰ کے محبت نہ کرنے کا مطلب ہے کہ وہ اس سے بغض وناراضی رکھتاہے،پھر اسے(كَفَّارٍ) کہا جس کا مطلب اللہ تعالیٰ کی نعمت کی انتہائی ناقدری اور کفران کرنے والاہے لیکن ملت اسلامیہ سے خارج نہیں،لہذا سودخور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری اور ناسپاسی کرنے والا ہوتا ہے کیونکہ وہ مجبوراورنادار لوگوں پر رحم وترس نہیں کرتا غرباء وفقراء کی مدد نہیں کرتا اور تنگ دست کو رعایت ومہلت نہیں دیتا یا پھر(كَفَّارٍ) سے مراد دین اسلام سے خارج کرنے والا"کفر" بھی ہوسکتا ہے اور یہ تب ہے جب وہ سود کو جائز اور حلال سمجھے،نیز اسے (أَثِيمٍ) یعنی نہایت گناہ گار قراردیا کیونکہ وہ مادی اور اخلاقی لحاظ سے معاشرے کو نقصان پہنچاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سود خور کےخلاف اعلان جنگ کیا ہے کیونکہ وہ سود نہ چھوڑنے کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ہے۔علاوہ ازیں اسے"ظالم" بھی قراردیاگیا۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو (278) اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا"[12]
سود کے بارے میں قرآن مجید کی زجروتوبیخ کے علاوہ احادیث رسول میں بھی بہت سخت الفاظ واردہوئے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کو ہلاک کرنے والے کبیرہ گناہوں میں شامل کیا ہے۔[13]سود کھانے اور کھلانے والوں،اس کے گواہوں اور لکھنے والوں پر لعنت کی [14]اور فرمایا:" سود کا ایک درہم تینتیس یا چھتیس بارزنا کرنے سے بھی بُرا ہے۔[15]"نیز فرمایا:"سود کے بہتردرجے ہیں،ان میں ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی ماں کے ساتھ نکاح کرے۔"[16]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" سود کی حرمت جوئے کی حرمت سے بڑھ کر ہے کیونکہ سود خورمحتاج اور ضرورت مند سے یقینی طور پر مال وصول کرتا ہے جبکہ جوئے باز کو مال کبھی ملتا ہے اور کبھی نہیں ملتا۔سود یقینی ظلم ہے جس میں مالدار نادار پر تسلط جمالیتا ہے بخلاف جوئے باز کے اس میں کبھی غریب،امیر شخص سے مال حاصل کرتا ہے،کبھی دونوں جوئے باز غریبی ومالداری میں برابر ہوتے ہیں۔اگرچہ جوئے میں حاصل ہونے والا مال باطل اور حرام ہے لیکن محتاج پر وہ ظلم وضرر نہیں جو سود لینے میں ہے۔اور یہ بات واضح ہے کہ محتاج پر ظلم،غیر محتاج کی نسبت زیادہ براہے۔"[17]
سود کھانا یہود کا شیوہ تھا جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ اور مسلسل لعنت کے مستحق قرار پائے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"جو نفیس چیزیں ان کے لئے حلال کی گئی تھیں وه ہم نے ان پر حرام کردیں ان کے ظلم کے باعث اور اللہ تعالیٰ کی راه سے اکثر لوگوں کو روکنے کے باعث (160) اور سود جس سے منع کئے گئے تھے اسے لینے کے باعث اور لوگوں کا مال ناحق مار کھانے کے باعث اور ان میں جو کفار ہیں ہم نے ان کے لئے المناک عذاب مہیا کر رکھا ہے"[18]
سود کو حرام قراردینے میں حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے لوگوں کامال ناحق کھایاجاتا ہے کیونکہ سودخور لوگوں سے وہ مال وصول کرتا ہے جس کے عوض میں انھیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔سود خور فقراء اور ناداروں پر کئی گنا قرض چڑھا دیتا ہے جس کی ادائیگی سے وہ عاجز ہوجاتے ہیں۔سود سے لوگوں کے ساتھ نیکی اور ہمدردی کرنے کا جذبہ مفقود ہوجاتا ہے قرض حسنہ دینے کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور قرض کا ایک ایسا بُرادروازہ کھلتا ہے جس کا بڑھتا ہوا بوجھ برداشت کرنا غریب آدمی کے لیے ناممکن ہوجاتا ہے۔سود کیوجہ سے کمائی کے جائز ذرائع تجارتیں،پیشے اور صنعتیں(جن کے ساتھ لوگوں کی مصلحتیں وابستہ ہیں) ناکارہ اور معطل ہوجاتی ہیں کیونکہ سود خورسودکےذریعے سے کسی مشقت کے بغیر ہی خوب مال کماتا ہے اور محنت ومشقت والے کمائی کے ذرائع تلاش نہیں کرتا۔
اللہ تعالیٰ نےلوگوں کومعیشت کا ایسا نظام دیا ہے کہ ہر ایک دوسرے سے استفادہ کرے۔ایک محنت کرے،دوسرا اس کو اس کا معقول معاوضہ دے دیا ایک شخص ایک چیز دے اور دوسرا اس کے عوض رقم ادا کرے۔سود اس شکل سے خالی وعاری ہے کیونکہ سود میں کمزور،طاقتور کوکئی گنا مال دیتا جاتاہے دوسرے فریق کی طرف سے اس کے عوض کوئی چیز وصول نہیں ہوتی نہ اس کے عوض کوئی کام کیا جاتا ہے۔
سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کے لغوی معنی"اضافہ" کے ہیں شریعت میں" مخصوص میں اضافے" کانام ہے۔اس کی دو قسمیں ہیں:
1۔ادھار کا سود
2۔اضافے کا سود۔
اس کی دو صورتیں ہیں:
1۔کسی تنگ دست کے قرض میں تبدیلی کرنا۔سودکی یہ شکل زمانہ جاہلیت میں تھی۔ایک شخص مقرر مدت کے لیے کسی سے ادھار رقم لیتاتھا جب مقرر مدت ختم ہوجاتی تو قرض خواہ مقروض سے کہتا کہ میری رقم(قرضہ) ادا کرو (ورنہ میعاد کے عوض) سود اداکرو۔اگرمقروض ادائیگی کردیتا توٹھیک ورنہ قرض خواہ ایک مدت کے لیے مزید رقم بڑھا دیتا۔اس طرح مدت بڑھنے کے ساتھ مقروض پر قرض کی رقم بھی بڑھتی چلی جاتی حتیٰ کہ کچھ مدت بعد اصل قرض سے کئی گنارقم اس کے ذمے واجب الادا ہوتی۔اللہ تعالیٰ نے اس کو حرام قراردیتے ہوئے فرمایا:
"اور اگر کوئی تنگی والاہوتو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہیے۔"[19]
اس آیت کی روشنی میں حکم یہ ہے کہ جب قرضہ واپس کرنے کی مقررہ مدت پوری ہوجائے اور مقروض قرض واپس نہ کرسکے تو تنگ دست کو مہلت دی جائے،قرضے کی مقدار میں اضافے نہ کیاجائے۔اور اگر خوشحال ہے تو وہ قرض واپس کردے،لہذا خوشحال مقروض کے قرض میں بھی اضافہ جائز نہیں جیساکہ تنگ دست مقروض کے قرض میں اضافہ جائز نہیں۔
دو ہم جنس اشیاء کے باہمی تبادلے میں کسی ایک یا دونوں جنسوں کی ادائیگی میں ادھار کرنا،جس کی علت ایک ہو،[20] حرام ہے،جیسے سونے کی سونے کے ساتھ بیع یا چاندی کی چاندی کے ساتھ ،گندم کی گندم کے ساتھ جو کی جو کے ساتھ،کھجور کی کھجور کے ساتھ ،نمک کی نمک کے ساتھ بیع کرنا۔اسی طرح ان مذکورہ اشیاء کی بیع جنس کے بدلے جنس سے ادھار ہو اور ان مذکورہ اشیاء کی علت میں جو شے بھی شریک ہو اس کابھی یہی حکم ہے۔
اس میں سود کی صورت یہ ہے کہ ہم جنس چیزوں میں تبادلے کے وقت کسی جانب سے کمی بیشتی ہو یا ادھار ہو۔
شارع نے چھ اشیاء کا نام لے کر ان کی حرمت واضح کی ہے،یعنی سونا،چاندی ،گندم،جو،کھجور اور نمک۔جب ان میں سے کسی ایک جنس کا تبادلہ ہم جنس سے ہوتو اس میں کمی وبیشی کرناحرام ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"سونا ،سونے کے بدلے اور چاندی،چاندی کے بدلے اور گندم ،گندم کے بدلے اور جو ،جو کے بدلے اور کھجور،کھجور کے بدلے اور نمک،نمک کے بدلے برابر اورنقد ونقد بیع ہو۔"[21]
یاد رہے کہ سونے کی بیع ہر قسم کے سونے کے بدلے حرام ہے ،اس کا زیور ہو یانہ بنا ہومگر برابر برابر اورنقدونقد اورچاندی کی بیع چاندی کے بدلے بھی حرام ہوگی اگر برابر برابر اورنقد ونقد نہ ہوگی۔اسی طرح گندم کی بیع گندم کے بدلے ،جو کی جوکے بدلے،کھجور کی کھجور کے بدلے اپنی تمام اقسام کے ساتھ اور نمک کی بیع نمک کے بدلے حرام ہوگی مگر جب برابر برابر اورنقد ونقد ہو(تب جائز ہے)۔
ان چھ چیزوں پر ان چیزوں کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے جو علت میں ان کے مساوی اور شریک ہیں ۔جہور علماء کے نزدیک ان میں کمی وبیشی کے ساتھ تبادلہ کرنا حرام ہے،البتہ ان کی علت کی تحدید میں علماء کا اختلاف ہے۔
صحیح بات یہی ہے کہ سونے اور چاندی میں حرمت کی علت"ثمنیت" ہے،لہذا موجودہ دور کی کرنسی کو ان پر قیاس کیا جائے گا۔ایک ملک کی کرنسی کا اس ملک کی کرنسی کے ساتھ تبادلہ کرتے وقت کمی بیشی حرام ہے۔
باقی چاراجناس،گندم ،جو،کھجور اورنمک میں علت(بقول صحیح) ماپ اور وزن کے ساتھ ان کا خوراک والی شے ہونا ہے،لہذا ہر وہ شے جوعلت میں ان کے ساتھ شریک ہے ،یعنی ان کا وزن اور ماپ ہوتا ہو اور خوراک میں استعمال ہوتی ہوتو اس کاتبادلہ کرتےوقت کمی بیشی کرنا حرام ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"ہم جنس شے کے تبادلے میں کمی بیشی کرنا سود ہے جس کی علت ماپ اور وزن کے ساتھ شے کا قابل خوراک ہونا ہے،چنانچہ اس بارے میں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی روایت ہے۔"[22]
بحث سابق کی روشنی میں اگراشیاء کی جنس اور علت کااتحاد ہوتو اس میں کمی بیشی یاکسی ایک طرف سے جنس کا ادھار حرام اور سود ہے،مثلاً:گندم کی گندم سے بیع کرنا جیسا کہ حدیث نبوی میں بیان ہوچکاہے۔اگر علت میں اتحاد ہے لیکن جنس میں اختلاف ہے،مثلاً:گندم کے ساتھ جو کی بیع کرنا(ان کی علت خوراک ہونا ہے)تو اس میں ادھار کرنا حرام ہے۔وہ ایک فریق کی جانب سے ہو یا دونوں طرف سے ،البتہ اس صورت میں کمی بیشی جائزہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"جب یہ اشیاء مختلف ہوں تو جس طرح چاہو فروخت کرو بشرط یہ کہ دست بدست تبادلہ ہو۔"[23]
اگر جنس اور علت دونوں مختلف ہوں تو کمی بیشی جائز ہے اور نقد یا ادھار کرنا بھی جائزہے،مثلاً سونا اور گندم کی بیع یا چاندی اور جوکا باہمی تبادلہ وبیع کرنا۔
ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ماپ والی چیز کا اپنی جنس کے بدلے ماپنے کے بغیر اوروزن والی چیز کا اپنی جنس کے عوض وزن کیے بغیر فروخت کرناناجائزہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:"سونے کی سونے کے ساتھ اور چاندی کی چاندی کے ساتھ خریدوفروخت وزن کرکے کی جائے۔ گندم کی گندم کے بدلے اور جو کی جوکے بدلے خریدوفروخت ماپ کے ساتھ کی جائے۔"[24]
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب شرعی میعار کو پیش نظر نہیں رکھاجائے گا تو تبادلے میں دونوں جنسوں کے برابر سونے کا یقین نہ ہوگا،لہذا کسی کیلی چیزکا تبادلہ اسی جنس کے ساتھ اٹکل وتخمینہ سے کرنا جائز نہیں۔اسی طرح وزن کردہ چیز کی بیع اس جنس کے عوض جس میں صرف برابری کا اندازہ وتخمینہ ہو،ناجائز ہے کیونکہ محض اندازے اور اٹکل سے برابر ہونے کا یقین نہیں ہوتا۔اور جنسوں کی برابری کاعلم نہ ہونا تفاضل وبیشی کا علم ہونے کی طرح ہے۔
[1]۔صحیح البخاری البیوع باب الکیل علی البائع والمعطی،،حدیث 2126۔وصحیح مسلم البیوع باب بطلان بیع المبیع قبل القیض حدیث 1525۔
[2]۔ صحیح مسلم البیوع باب بطلان بیع المبیع قبل القبض حدیث 1525۔
[3]۔جامع الترمذی البیوع باب ماجاء فی کراھیۃ بیع الطعام حتی یستوفیہ بعد الحدیث 1291۔
[4]۔مسند احمد 3/402۔
[5]۔سنن ابی داود البیوع باب فی بیع الطعام قبل ان یستوفی حدیث3499۔
[6]۔اعلام الموقعین 3/134،والفتاویٰ الکبری 5/391۔
[7]۔سنن ابی داود البیوع باب فی فضل الاقالۃ حدیث 3460 وسنن ابن ماجہ التجارات باب الاقالۃ حدیث 2199۔واللفظ لہ۔
[8]۔البقرۃ 2/275۔
[9]۔البقرۃ:2/275۔
[10]۔البقرۃ:2/276۔
[11]۔البقرۃ:2/276۔
[12]۔البقرۃ 2/278،279۔
[13]۔صحیح البخاری الوصایا باب قول اللہ تعالیٰ:
(إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى...)(النساء 4/10) حدیث 2766۔
[14]۔ صحیح مسلم المساقاۃ باب لعن آکل الربا ومؤکلہ حدیث 1598۔
[15]۔ مسند احمد 5/225۔
[16]۔ المعجم الاوسط للطبرانی 8/74 حدیث 7147۔
[17]۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ 20/346،347۔
[18]۔النساء:4/160،161۔
[19]۔البقرۃ:2/280۔
[20]۔علت کی وضاحت آگے آرہی ہے۔(صارم)
[21]۔صحیح مسلم المساقاۃ باب الصرف وبیع الذھب بالورق نقداً حدیث 1587 ومسند احمد 3/49،50۔
[22]۔الفتاوی الکبریٰ :5/391۔
[23]۔صحیح مسلم المساقاۃ باب الصرف وبیع الذھب بالورق نقدا حدیث 1587۔
[24]۔السنن الکبری للبیہقی:5/291۔