زکاۃ کی فرضیت اور اہمیت
جان لیجئے!زکاۃ کے احکام اور اس کی شرائط ،زکاۃ ادا کرنے والے اور اس کےمستحقین ،اموال زکاۃ اور ان کے نصاب،ان تمام امور کے بارے میں واقفیت نہایت ضروری ہے۔
(1)۔زکاۃدین اسلام کا ایک رکن اور اس کی اساس ہے،جیسا کہ کتاب وسنت کے دلائل سے واضح ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں تقریباً بیاسی(82) مقامات پر زکاۃ کونماز کےساتھ ملاکر بیان فرمایا ہے،جس سے زکاۃ کی عظمت اور اس کا نماز سے گہرا تعلق اور ربط عیاں ہوتا ہے۔بنا بریں خلیفہ اول سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
"اللہ کی قسم!میں ہراس شخص کے ساتھ لڑائی کروں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا۔"[1]
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اورتم نمازوں کو قائم کرو اورزکاۃ دو۔"[2]
اورارشادربانی ہے:
"ہاں اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہوجائیں اور زکاۃ اداکرنے لگیں توتم ان کی راہیں چھوڑدو۔"[3]
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے:
1۔لالاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دینا۔
2۔نماز قائم کرنا ۔
3۔زکاۃ دینا۔
4۔حج کرنا۔
5۔رمضان کے روزے رکھنا۔"[4]
مسلمانوں کا اس امر پر ا جماع ہے کہ زکاۃ فرض ہے اور یہ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔اس کےوجوب کامنکر کافرہے اور جو شخص اپنے مال کی زکاۃ نہیں دیتا اس سے جنگ ہوتی حتیٰ کہ وہ مکمل زکاۃ ادا کردے۔
(2)۔زکاۃ سن 2ہجری میں فرض ہوئی۔تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ وصول کرنے اورمستحقین تک پہنچانے کے لیے کچھ افراد کو روانہ فرمایا۔آپ کے بعد خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین اور مسلمان حکمرانوں کا یہی طر یقہ رہا۔
(3)۔زکاۃ کی ادائیگی مخلوقات کے ساتھ حسن سلوک اور نیکی کاکام ہے،مال کو میل کچیل سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے اور اسے آفات سے بچانے کا سبب ہے۔زکاۃ رب تعالیٰ کی اطاعت اور عبودیت کی ایک شکل ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں اور ان کے لیے دعا کیجئے، بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجب اطمینان ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سنتا ہے خوب جانتا ہے"[5]
الغرض زکاۃ کی ادائیگی سے انسانی نفوس کنجوسی وبخل سے پاک وصاف ہوجاتے ہیں،نیز محبوب مال میں سے زکاۃ ادا کرکے مالدار شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان میں سرخروہوجاتاہے۔
(4)۔اللہ تعالیٰ نے ان اموال میں زکاۃ فرض کی ہے جن میں مخلوق کا فائدہ زیادہ دے زیادہ ہو اور جو زیادہ بڑھنے والے اور نفع مند ہیں،مثلاً:جانوروں کے ریوڑ اور کھیت وغیرہ خود بخود بڑھتے ہیں۔سونا چاندی اور مال تجارت تصرف،یعنی لین دین کرنے سے بڑھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے زکاۃ کی شرح ہرمال میں اس قدر متعین فرمائی ہے جس قدر اس کے حصول میں محنت ومشقت اٹھائی جاتی ہے۔دور جاہلیت کےدفن شدہ مال کے دستیاب ہونے کی صورت میں پانچواں حصہ زکاۃ ہے۔اگر ایک جانب سے مشقت ہوتو اس میں دسواں حصہ زکاۃ(عشر) ہے،مثلاً:وہ کھیت جنھیں پانی دینے کی مشقت برداشت نہ کرنا پڑے بلکہ پانی کی ضرورت بارش اور چشموں سے پوری ہوجائے۔اور جس زمین میں دو گنا محنت ومشقت ہو،یعنی اسے رہٹ وغیرہ کے ذریعے سے پانی دینا پڑے اس میں بیسواں حصہ زکاۃ ہے۔اور جس مال کے حصوں میں بہت زیادہ محنت کرنا پڑے،اس میں چالیسواں حصہ ہے،مثلاً:کرنسی یا مال تجارت وغیرہ۔
(5)۔زکاۃ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس کی ادائیگی سے قلب ومال پاک ہوجاتا ہے۔زکاۃ کوئی تاوان یا ٹیکس نہیں کہ جس سے مال کم ہوتا ہے اور مالک کا نقصان ہوبلکہ اس کے برعکس زکاۃ سے مال میں برکت اور اضافہ اس انداز میں ہوتا ہے کہ زکاۃ دینے والے کو علم بھی نہیں ہوتا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"صدقہ(زکاۃ) دینے سے مال کم نہیں ہوتا۔"[6]
شریعت کی اصطلاح میں زکاۃ کا مطلب ہے:مخصوص مال میں مخصوص وقت پر واجب ہونے والا مخصوص لوگوں کا حق،یعنی ایک سال مکمل ہونے پر مویشی،نقدی اور مال تجارت پر زکاۃ ہے جب کہ اناج اور پھل تیار ہوجائے اور متعین مقدار میں شہد یا معدنیات کا حصول ہوتو ان میں زکاۃ فرض ہے۔اسی طرح عید کی رات سورج غروب ہوجانے پر صدقہ فطر ہر مسلمان پر فرض ہے۔
(6)۔زکاۃ ہر اس مسلمان پر فرض ہوجاتی ہے جس میں درج ذیل پانچ شرائط موجود ہیں:
1۔آزاد ہونا:غلام یالونڈی پر زکوۃ فرض نہیں کیونکہ ان کی ملکیت میں مال ہوتا ہی نہیں،ان کے پاس جو مال ہو وہ ان کے آقا کی ملکیت ہوتا ہے،لہذا اس کی زکاۃ ان کا آقا ہی ادا کرے گا۔
2۔صاحب مال کامسلمان ہونا:زکاۃ مسلمان کے مال میں فرض ہے ۔کافر کے مال میں فرض نہیں کیونکہ زکاۃ کا مقصد اللہ تعالیٰ کے قرب کا حصول اور اس کی اطاعت کا اظہار ہوتا ہے جب کہ کافر شخص اس کااہل ہی نہیں۔نیززکاۃ میں نیت کا ہونا لازمی ہے اور کافر کی نیت معتبر ہی نہیں۔کافر پر زکوۃ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام میں مخاطب وہ بھی ہے اور آخرت میں اسے اس کی سزا بھی ملے گی۔الغرض کافر پر زکوۃ وغیرہ احکام کے واجب ہونے میں بعض اہل علم اختلاف کرتے ہیں۔سیدنا معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:
"انھیں(اہل کتاب کو) لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شہادت دینے کی دعوت دو۔"
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا ذکر کیا،پھر فرمایا:
"اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں توانھیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکاۃ فرض کی ہے جوان کے مالدار لوگوں سے لی جائےگی اور ان کے فقراء پر تقسیم ہوگی۔"[7]
اس روایت میں وجوب زکاۃ کے لیے اسلام کو شرط قراردیا ہے۔(واللہ اعلم)
3۔نصاب کا مکمل ہونا:زکاۃ کی فرضیت کے لیے نصاب کا مکمل ہونا ضروری ہے،اگر مقررہ نصاب سے مال کم ہے تو اس میں زکاۃ فرض نہیں۔صاحب نصاب بالغ ہو یانابالغ،عاقل ہویامجنون ہرایک پر زکاۃ فرض ہے کیونکہ دلائل شرعیہ میں عموم ہے جن کا اطلاق ان تمام مذکورہ افراد پر ہوتاہے۔
4۔ذاتی ملکیت کاہونا:اگر کسی شخص کے پاس مال ہے لیکن اس پر اس کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ کوئی دوسرا شخص اس کا مالک ہے توت جس شخص کے پاس ہے اس پر زکاۃ فرض نہیں،مثلاً:اگر کسی غلام سے آقا کا معاہدہ ہوجائے کہ وہ ایک مقررہ رقم ادا کرے تو آزاد ہوجائےگا۔پھرجب غلام کے پاس اتنی رقم جمع ہوجائے تو وہ بظاہر اس کا مالک تو ہے لیکن اصل میں وہ رقم آقا کی ہے جووقتی طور پر اس کے پاس ہے۔
5۔مال پر ایک سال کا گزرنا:سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مال میں زکاۃ تب ہے،جب اس پر ایک سال گزرجائے۔"[8]
واضح رہے ایک سال گزرنے کی شرط اس مال پر ہے جو زمین کی پیداوار سے نہ ہو،مثلاً:نقدی،مویشی یامال تجارت وغیرہ ان میں حولان حول ضروری ہے تاکہ وہ خوب بڑھ جائے۔اس میں مالک کافائدہ ملحوظ رکھا گیا ہے،اگر وہ زمین کی پیداوار ہے تو اس میں ایک سال گزرنے کی شرط نہیں بلکہ اس مال(اناج وغیرہ) کےہاتھ میں آجانے ہی پر زکاۃ فرض ہوجائے گی۔
(7)۔مقرر نصاب کو پہنچے ہوئے مویشیوں کے پیدا ہونے والے بچوں یا مقررہ نصاب کو پہنچے ہوئے مال تجارت سے حاصل ہونے والے منافع کےلیے الگ ایک سال کا گزرنا شرط نہیں دوران سال میں حاصل ہونے والی آمدن کی بھی اصل نصاب کے ساتھ ملا کر زکاۃ ادا کردی جائے،البتہ اگراصل مال مقررہ نصاب کی حد تک نہ پہنچے تو جب نصاب مکمل ہوجائے تب سے ایک سال کی مدت شمار کی جائے۔
(8)۔اگر کسی نے کسی تنگدست سے قرض لینا ہو اور وہ مال مل نہیں رہا تو صحیح رائے کے مطابق جب اس کی رقم ملے گی تب وہ ایک سال کی زکاۃ دےگا(چاہے کئی سال گزرجائیں)۔اگروہ مقروض مال دار ہو اور ٹال مٹول کررہا ہے توقرض خواہ ہرسال زکاۃ ادا کرے گا۔[9]
(9)۔استعمال کی عام چیزوں میں زکاۃ نہیں ہے،مثلاً:رہائشی گھر،استعمال میں آنے والے کپڑے،گھر کاسامان،گاڑیاں،مشینری ،سواری کے جانور وغیرہ۔
(10)۔جن اشیاء سے کرایہ حاصل ہوتا جو ان اشیاء میں زکاۃ نہیں بلکہ ان کی آمدن میں زکاۃ ہے بشرط یہ کہ کرایہ کی رقم یا اس کےعلاوہ موجود رقم ملاکرزکاۃ کے نصاب تک پہنچ جائے اور ایک سال بیت جائے۔
(11)۔اگر کسی شخص پر زکاۃ فرض ہوگئی لیکن وہ ادائیگی سے پہلے فوت ہوگیا تو اس کی موت کی وجہ سے زکاۃ ساقط نہ ہوگی بلکہ اس کے ورثاء پر لازم ہے کہ اس کے ترکہ سےزکاۃ ادا کریں کیونکہ اس حق کی ادائیگی واجب ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"اللہ تعالیٰ کاقرض زیادہ حق رکھتاہے کہ اسےادا کیاجائے۔"[10]
اللہ تعالیٰ نے جن اموال میں زکاۃ فرض کی ہے ان میں سے مویشی ،یعنی اونٹ،گائے اور بھیڑ بکری بھی ہیں بلکہ یہ زکاۃ والے اموال میں سب سے نمایاں ہیں۔ان جانوروں کی زکاۃ کی فرضیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشہور اور صحیح احادیث وارد ہیں،حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء نے ان اموال کی زکاۃ کی فرضیت اور مسائل کے بارے میں خطوط بھی لکھے تھے اور مدینہ کےگردونواح اور وسیع وعریض مملکت اسلامیہ کے اطراف میں زکاۃ وصول کرنے کے لیے اپنے نمائندے بھی روانہ کیے تھے۔
اونٹ،گائے،بھیڑ اور بکریوں میں زکاۃ فرض ہونے کی دو شرطیں ہیں جو یہ ہیں:
1۔وہ جانور کام کاج اور کھیتی باڑی کے لیے نہ ہوں بلکہ دودھ اور نسل کے حصول کی خاطر رکھےہوں کیونکہ ان کی عمر اور تعداد بڑھنے کے ساتھ ان کے فوائد میں بھی اضافہ ہوتاجاتا ہے۔
2۔وہ جانور جوسارا سال یا سال کااکثر حصہ خودچر کے اپنے لیے خوراک حاصل کریں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
"چرنے والے ہر چالیس اونٹوں میں دوسال کی اونٹنی ہے۔"[11]
اس روایت کی روشنی میں جن جانوروں کو پورا سال یا سال کااکثر حصہ چارہ خرید کر یا مختلف جگہوں سے گھاس پھوس وغیرہ جمع کرکے ڈالی جائے ان جانوروں میں زکاۃ نہیں۔
جب اونٹوں میں مذکورہ شرائط پائی جائیں تو ان میں زکاۃ کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔پانچ اونٹوں میں زکاۃ ایک بکری ہے۔دس میں دو،پندرہ میں تین اور بیس اونٹوں میں چار بکریاں زکاۃ ہے۔جیسا کہ سنت اجماع سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔
2۔جب اونٹوں کی تعداد پچیس ہوجائے تو اس میں ایسی اونٹنی بطور زکاۃ ادا کی جائے جو مکمل ایک سال کی ہو اور دوسرے سال میں داخل ہوچکی ہو،اگر اونٹوں میں ایسی اونٹنی نہ ہوتو ایسااونٹ کافی ہوگا جودوسال کا ہو اورتیسرے سال میں داخل ہوچکاہو۔
3۔جب چھتیس اونٹ ہوجائیں تو ان میں زکاۃ ایسی اونٹنی ہے جو دوسال کی ہواور تیسرے میں داخل ہوچکی ہو۔اس پر اہل علم کااجماع ہے،پینتالیس اونٹوں تک یہی زکاۃ ہے۔
4۔جب چھیالیس(سے لے کر ساٹھ) اونٹ ہوجائیں تو اس میں تین سال کی اونٹنی بطور زکاۃدی جائے جو سواری اور بوجھ اٹھانے کے قابل ہو۔
5۔جب اکسٹھ اونٹ ہوجائیں تو ان میں چار سال کی اونٹنی بطور زکاۃ دی جائےجس کے دودھ کے دانت گرچکے ہوں اور مکمل جوان ہو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہی ارشاد ہے۔پچھتر اونٹوں تک یہی زکاۃ ہے۔
6۔جب اونٹوں کی تعداد چھہتر سے لے کرنوے تک ہوتو صحیح حدیث کے مطابق اس میں دوسال کی دو اونٹنیاں زکاۃ ہے۔
7۔جب اکیانوے سے لے کر ایک سو بیس تک اونٹ ہوں تو ان میں دو جوان اونٹنیاں زکاۃ ہیں جو عمر کے تین سال مکمل کرکے چوتھے سال میں داخل ہوچکی ہوں۔
8۔جب ایک سو بیس سے ایک بھی زیادہ ہوتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کے مطابق اس میں دو سال کی تین اونٹنیاں زکاۃ ہے۔
9۔پھرہرپچاس اونٹوں میں تین سال کی اونٹنی اور ہرچالیس میں دوسال کی اونٹنی بطور زکاۃ فرض ہے۔[12]
نصوص شرعیہ اور اجماع سے ثابت ہے کہ گایوں میں زکاۃ واجب ہے۔سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔آپ نے فرمایا:
"اونٹوں ،گایوں،اور بھیر بکریوں کا جومالک زکاۃ نہیں دیتا،اس کو ایک ہموارمیدان میں لٹایاجائےگا جہاں یہ جانور اپنے مالک کو سینگوں کے ساتھ ماریں گے اوراپنے پاؤں تلے اسے روندیں گے۔اس دن ان میں نہ تو بے سینگ بکری ہوگی اور نہ ٹوٹے ہوئےسینگ والی بکری ہوگی۔"[13]
صحیح بخاری کے الفاظ ہیں:
"قیامت کے دن اسے لایا جائے گا۔ دنیا سے زیادہ بڑی اور موٹی تازہ کرکے۔ پھر وہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندے گی اور سینگ مارے گی۔"[14]
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یمن کی طرف روانہ کیا تو حکم دیا کہ تیس گایوں میں ایک سال کابچہ اور چالیس گایوں میں دو سال کاگائے کابچہ بطور زکاۃ وصول کریں۔"[15]
گائیں تیس سے کم ہوں تو ان میں زکاۃ نہیں کیونکہ سیدنا معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہاکہ"جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجاتو یہ حکم دیاکہ کسی کے پاس جب تک تیس گائیں نہ ہوں،زکاۃ نہ لینا۔"[16]
جب گایوں کی تعداد چالیس ہوتو اس میں ایک دودانتا(دوندا) کی زکاۃ ہوگی۔اور دودانتا گائے کاوہ بچہ ہے جس کی عمر دو سال ہوچکی ہو،[17]سیدنا معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن بھیجا تو انھیں حکم دیاتھا:
"وہ ہر تیس گایوں میں گائے کاایک سالہ بچہ اورہر چالیس گایوں میں گائے کا دودانتا بچہ زکاۃ وصول کریں۔"[18]
جب گایوں کی مجموعی تعداد چالیس سے زیادہ ہوجائے تو ہر تیس گایوں میں گائے کا ایک سال کا بچہ اور ہرچالیس گایوں میں دوسال کا(دوندا) ایک بچہ زکاۃ ہے۔
بھیڑ،بکریوں میں زکاۃ کی فرضیت پر سنت اور اجماع دلیل ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے لکھا:
"کہ یہ زکاۃ کی وہ مقرر مقدار ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض قراردیاہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا حکم دیا ہے۔۔۔نیز فرمایا:خود چرنے والی بکریاں چالیس ہوجائیں تو ایک سوبیس تک ان میں ایک بکری یا بھیڑ زکاۃ ہے۔۔۔"[19]
چھترا یا دنبہ ہوتو تقریباً ایک سال کا(کھیرا) اور بکری یا بکرا ہوتو جودوسرے سال میں داخل ہووہ(دوندا) بطورزکاۃ ادا کیاجائے۔سیدنا سوید بن غفلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صدقہ وصول کرنے والا آیا۔اس نے کہا ہمیں حکم ملا ہے کہ ہم بھیڑ وغیرہ کی نسل کا تقریباً ایک سال کی عمر والا(کھیرا) جانور لیں اور بکری کی نسل سے دوندا جانور لیں،یعنی جوایک سال مکمل کرکے دوسرے میں داخل ہو(اور سامنے والے دانت دودھ کے گرچکے ہوں۔)
اگر بھیڑ بکریاں چالیس سے کم ہوں تو ان میں زکاۃ نہیں۔سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث میں ہے:
"جب خود چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں تو ان میں زکاۃ نہیں الا یہ کہ مالک چاہے تو زکاۃ ادا کردے۔"[20]
جب ایک سو اکیس بکریاں ہوں تو دو سو تک ان میں دو بکریاں زکاۃ ادا کی جائے جیسا کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ روایت میں ہے:
"جب ایک سو بیس سے ایک بکری بھی زیادہ ہوجائے تو دو سو تک دو بکریاں زکاۃ ہے۔"[21]
جب دو سو ایک بکریاں ہوں تو تین سوتک اس میں تین بکریاں زکاۃ ہے جیسا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ روایت ہے:
"جب دو سو ایک(201) سے تین سو(300) تک بکریاں ہوں تو تین بکریاں زکاۃ ہے۔"[22]
اس مقدار کے بعد زکاۃ کی شرح ایک ہی رہتی ہے ،یعنی ہر سو بکری میں ایک بکری زکاۃ ہے۔چارسو میں چار،پانچ سو میں پانچ اور چھ سو میں چھ بکریاں زکاۃ ہیں۔یہ ساری تفصیل سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس خط میں موجود ہےجس پروہ اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وفات تک عمل کرتے رہے۔[23]
(1)۔زکاۃ میں ایسا بوڑھا،عیب دار جانور لیا یادیا نہ جائے جس کی قربانی جائز نہ ہوالا یہ کہ سارا ریوڑ ہی ایسا ہو۔اسی طرح حاملہ یا اپنے بچے کو دودھ پلانے والا جانور یا وہ جانور جس کے حاملہ ہونے کی اُمید ہو،زکاۃ میں نہ لیا جائے،چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے :
"زکاۃ میں بوڑھا،عیب والا یاسانڈ جانور وصول نہ کیا جائے الا یہ کہ زکاۃ وصول کرنے والا چاہے۔"[24]
اور اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"ان میں سے بری چیز کے خرچ کرنے کاقصد نہ کرنا۔"[25]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
"تم درمیانی قسم کے مال دیاکرو۔اللہ تعالیٰ تم سے نہ زیادہ اچھا مال مانگتاہے اور نہ تمھیں نکما مال دینے کا حکم دیتا ہے۔"[26]
الغرض زکاۃ دینے والے سے موٹا تازہ جانور جبراً وصول نہ کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن روانہ کرتے ہوئے یہ تلقین کی تھی"
"لوگوں کا عمدہ مال لینے سے بچنا۔"[27]
(2)۔زکاۃ درمیانے درجے کی وصول کی جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:"تم درمیانی قسم کے مال دیاکرو۔"جس کی ساری بکریاں مریض ہوں تو زکاۃ میں مریض ہی قبول کی جائے کیونکہ زکاۃ کا مقصد ایک دوسرے سےغم خواری اورہمدردی ہے۔مریض بکریوں والے سے زکاۃ میں صحیح بکری کا مطالبہ کرنا ظلم ہے،اسی طرح جس کی سب بکریاں چھوٹی ہوں تو انھی سے زکاۃ لی جائے گی۔
(3)۔اگرزکاۃ دینے والا اعلیٰ اور افضل جانور دینا چاہے تو اس کی مرضی ہے۔اس میں اس کےلیے اجروثواب زیادہ ہے۔
اگر مال میں جانور بڑے اور چھوٹے ،تندرست اور بیمار یانر اور مادہ ہوں تو بڑے اور چھوٹے جانوروں کی الگ الگ قیمت لگاکردونوں قسم کے جانوروں کی قیمت کے برابر ایک بڑی تندرست مادہ زکاۃ میں لے لی جائے۔اسی طرح دوسری قسمیں ،مثلاً:تندرست اور بیمار یا نر اور مادہ کا اندازہ لگا لیا جائے۔اگر تندرست بڑاجانور دو ہزار روپے کا ہو اور بیمار چھوٹا جانور ایک ہزار روپے کاہوتو دونوں قیمتوں کانصف،یعنی پندرہ سوروپے ادا کردے۔
(4)۔اگر مویشیوں میں دویا زیادہ افراد کی شراکت ہوتو اس کی دو صورتیں ہیں:
1۔اشتراک اعیان،یعنی مال دوآدمیوں میں یوں مشترک ہوکہ ایک دوسرے کے مال کی تمیز وتعین نہ ہو بلکہ اکٹھا مال ہو،مثلاً:ایک شخص کا نصف یوچوتھائی حصہ ریوڑ یامال ہو۔
2۔اشتراک اوصاف،یعنی ہرایک کامال واضح اور معروف ہو،البتہ دونوں اپنا اپنا مال ملا کر ایک جگہ رکھتے ہوں۔
شراکت کی ان دونوں صورتوں میں دونوں شخص زکاۃ کے فرض ہونے یا اسکے ساقط ہونے میں شریک ہوں گے۔اسی طرح زکاۃ کی کمی بیشی میں متاثر ہوں گے،نیز ان صورتوں میں دونوں کا مال ایک مال متصور ہوگا۔اسکے لیے درج زیل شرائط ہیں:
(5)۔مجموعی مال نصاب زکاۃ تک پہنچ چکا ہو۔اگر مقرر نصاب سے کم مال ہوتو اس میں زکاۃ نہیں۔واضح رہے یہاں مجموعی نصاب سے مراد ہے اگرچہ ہرایک کامال نصاب زکاۃ سے کم ہی کیوں نہ ہو۔
(6)۔مشترکہ کاروبار میں دونوں وجوب زکاۃ کے اہل ہوں۔اگر ایک کافر ہوتو اشتراک مؤثر نہ ہوگا صرف مسلمان کامال نصاب زکاۃ تک ہوگا تو اس کے مال پر زکاۃ ہے ،ورنہ نہیں۔
(7)۔دونوں کے جانور اکٹھے رہتے،چرتے اور ایک جگہ رات گزارتے ہوں۔ان کا دودھ ایک جگہ دوہا جاتا ہو۔اگر ہر ایک الگ الگ جگہ پر اپنے جانوروں کا دودھ دوہتا ہے تو یہ اشتراک متصور نہ ہوگا۔مشترک ریوڑ کاسانڈ بھی مشترک ہو۔سب جانور ایک ہی جگہ چرتے ہوں۔اگر ہر ایک الگ الگ جگہ پر اپنے جانوروں کو چراتا ہوتو اشتراک مؤثر نہ ہوگا الگ الگ ملکیت شمار ہوگی۔
جب یہ تمام شرائط جمع ہوجائیں تو اشتراک کرنے والے دونوں شخصوں کامال ایک مال شمار ہوگا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"زکاۃ دینے کے خوف سے متفرق مال کو اکھٹا نہ کیا جائے اور جو اکھٹا ہو اسے متفرق(الگ الگ) نہ کیا جائے۔۔۔جو زکاۃ دو شریکوں سے وصول کی جائے گی،پھر وہ دونوں ایک دوسرے سے برابری کی سطح پر وصولی کریں گے۔"[28]
(8)۔اگر ایک شخص کی ایک بکری ہو اور دوسرے کی انتالیس بکریاں ہوں یا چالیس اشخاص کی مشترکہ چالیس بکریاں ہوں۔دونوں سارا سال اکٹھے رہے ہوں۔اشتراک کی مذکورہ شرائط بھی موجود ہوں تو دونوں صورتوں میں مجموعی طور پرایک بکری زکاۃ ہے۔پہلی صورت میں جس کی ایک بکری ہے اس کے ذمے بکری کا چالیس واں حصہ ہے ۔جب کہ دوسرے شخص کے ذمے ایک بکری کے انتالیس حصے ہیں۔دوسری مثال میں ہرایک کے ذمے بکری کاچالیسواں حصہ زکاۃ ہے۔
(9)۔اگر تین اشخاص کی ایک سوبیس بکریاں اسی طرح ہوں کہ ہرایک کی چالیس بکریاں ہیں تو مجموعی طور پر انھیں ایک بکری زکاۃ دیناہوگی ،اس طرح ہرایک ایک تہائی بکری زکاۃ پڑے گی۔
جس طرح اشتراک مؤثر ہے ،اسی طرح امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں تفریق بھی مؤثر ہے،مثلاً:ایک شخص کی جنگل میں چرنے والی بکریاں دو جگہ الگ الگ رہتی اور چرتی ہو اور دونوں ریوڑوں میں اتنا فاصلہ ہوکر نماز قصر کرناجائز ہوجائے تو زکاۃ بھی الگ الگ ریوڑوں کے حساب سے دیناہوگی۔دونوں جگہوں کی بکریوں کو ملایا نہ جائے گا۔جس جگہ بکریاں نصاب زکاۃ تک پہنچ جائیں گی ان کی زکاۃ ہوگی۔
جمہور علماء کے قول کے مطابق ایک شخص کے مال میں تفریق مؤثر نہ ہوگی بلکہ الگ الگ مال کو جمع کیاجائے گا اور یہی قول راجح ہے۔واللہ اعلم۔
[1]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب وجوب الزکاۃ حدیث 1400۔
[2]۔البقرۃ2/43۔
[3]۔التوبۃ 9/5۔
[4]۔صحیح البخاری الایمان باب دعاؤکم ایمانکم۔۔۔حدیث 8۔وصحیح مسلم الایمان باب بیان ارکان الاسلام ودعائمہ العظام حدیث 16۔
[5]۔التوبۃ 9/103۔
[6]۔صحیح مسلم البر والصلۃ باب استحباب العفو والتواضع حدیث 2588۔
[7]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب وجوب الزکاۃ حدیث 1395 وصحیح مسلم الایمان باب الدعاء الی الشھادتین وشرائع الاسلام حدیث 19۔
[8]۔سن ابن ماجہ الزکاۃ باب من استفاد مالا حدیث 1792۔وروی الترمذی معناہ الزکاۃ باب ماجاء لا زکاۃ علی المال المستفاد حتی یحول علیہ الحول حدیث 631۔
[9]۔اہل علم کی ایک رائے کے مطابق ایسے شخص کا حکم بھی وہی ہے جو پہلے کا ہے ،یعنی جب اسے قرضہ واپس ملے گا تب ایک سال کی زکاۃ دےگا۔(صارم)
[10]۔صحیح البخاری الصوم باب من مات وعلیہ صوم حدیث 1953 وصحیح مسلم الصیام باب قضاء الصوم عن المیت حدیث 1148 واللفظ لہ۔
[11]۔سنن ابی داود الزکاۃ فی زکاۃ السائمۃ حدیث 1575 وسنن النسائی الزکاۃ باب سقوط الزکاۃ عن الابل اذا کانت رسلا لاھلھا ولحمولتھم حدیث 2451ومسند احمد 5/2۔4۔
[12]۔دیکھئے صحیح البخاری الزکاۃ باب زکاۃ الغنم حدیث 1454 وسنن ابی داود الزکاۃ باب فی زکاۃالسائمۃ حدیث 1568۔
[13]۔صحیح مسلم الزکاۃ باب اثم مانع الزکاۃ حدیث 988۔
[14]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب زکاۃ البقر حدیث 1460۔
[15]۔سنن ابی داود الزکاۃ باب فی زکاۃ السائمۃ حدیث 1576 وجامع الترمذی الزکاۃ باب ما جاء فی زکاۃ البقر حدیث 623 ومسند احمد 5/230۔
[16]۔ھذا معنی الحدیث واصلہ فی مسند احمد 5/240۔
[17]۔مُسنہ دو دانتے جانور کو کہتے ہیں،یعنی جس کے سامنے دودانت گرچکے ہوں اور نئے دانت نکل آئے ہوں،عمر کااعتبار نہیں ہے۔دیکھئے النھایۃ(ع۔و)
[18] ۔سنن ابی داود الزکاۃ باب فی زکاۃالسائمۃ حدیث 1576 وسنن النسائی الزکاۃ باب زکاۃ البقر حدیث 3454 ومسند احمد 5/230 واللفظ لھما۔
[19]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب زکاۃ الغنم حدیث 1454۔
[20]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب زکاۃ الغنم حدیث 1454۔
[21]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب زکاۃ الغنم حدیث 1454۔
[22]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب زکاۃالغنم حدیث 1454۔
[23]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب زکاۃ الغنم حدیث 1454 وجامع الترمذی الزکاۃ باب ماجاء فی زکاۃ الابل والغنم حدیث 621 وسنن ابی داود الزکاۃ باب زکاۃ السائمۃ حدیث 1568۔
[24]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب لا یؤخذ فی الصدقۃ ھرمۃ ولا ذات عوار۔حدیث 1455۔
[25]۔البقرۃ:2/267۔
[26]۔سنن ابی داود الزکاۃ باب فی زکاۃ السائمۃ حدیث 1582۔
[27]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب اخذ الصدقۃ من الاغنیاء۔حدیث 1496 وصحیح مسلم الایمان باب الدعاء الی الشھادتین وشرائع الاسلام حدیث 19۔
[28]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب لا یجمع بین متفرق ولا یفرق بین مجتمع وباب ما کان من خلیطین۔۔۔،حدیث 1450۔1451۔