نماز کسوف کے احکام
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"وہی ہے(اللہ) جس نے سورج کو چمک والا بنایا اور چاند کو نور اور اس کی منزلیں مقررکیں،تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب معلوم کرسکو۔یہ(سب کچھ) اللہ نے حق ہی کے ساتھ پیدا کیا ہے۔وہ اپنی آیتیں تفصیل سے بیان کرتا ہے ان لوگوں کے لیے جو جانتے ہیں۔"[1]
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور دن اور رات اور سورج اور چاند بھی(اس کی) نشانیوں میں سے ہیں،تم سورج کو سجدہ کرونہ چاندکو بلکہ سجدہ اس اللہ کے لیےکرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے،اگر واقعی تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔"[2]
(1)۔نماز کسوف کے سنت مؤکدہ ہونے میں علماء کااتفاق ہے کیونکہ یہ نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل ہی سے ثابت ہے۔
(2)۔سورج یا چاند کا گرہن اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے،جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لیے ہی نشانات بھیجتے ہیں۔"[3]
(3)۔عہد نبوی میں سورج کو گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چادرگھسیٹتے ہوئے گھبراہٹ کے ساتھ جلدی میں مسجد کی طرف آئے،لوگوں کو نماز پڑھائی اور انھیں بتایاکہ یہ گرہن اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک ایسی نشانی ہے جس کے ذریعے سے وہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے،نیز لوگوں پر عذاب کےنازل ہونے کاسبب ہوسکتا ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خاتمے کے لیے چند اعمال صالحہ کی طرف توجہ دلائی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی صورت حال میں گرہن کے صاف ہونے تک نماز،دعا،استغفار،صدقہ اور غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم دیا،مقصد یہ تھا کہ اس صورت حال میں لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اوررجوع کریں۔
زمانہ جاہلیت میں لوگ یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ یہ گرہن کسی عظیم شخصیت کی ولادت یاوفات کے موقع پر ہوتا ہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعتقاد کو باطل قراردیا اور اس کے بارے میں حکمت الٰہیہ کی وضاحت فرمادی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں جس روزآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرزند ابراہیم علیہ السلام فوت ہوا،اتفاقاً اسی روز سورج کوگرہن بھی لگ گیا،لوگوں نے کہا کہ ابراہیم علیہ السلام کی موت کے سبب سورج کو گرہن لگاہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:
"سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔یہ کسی انسان کی موت یا زندگی کی وجہ سے بے نور نہیں ہوتے،جب تم انھیں ایسا ہوتے ہوئےدیکھو تو اس وقت تک نماز پڑھتے رہو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہو جب تک کہ (گرہن) ختم نہ ہوجائے۔"[4]
صحیحین کی ایک روایت میں ہے:
"جب تک وہ صاف نہ ہوجائے تب تک دعا اور نماز میں مشغول رہو۔"[5]
صحیح بخاری میں سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،آپ نےفرمایا:
"یہ نشانیاں جنھیں اللہ تعالیٰ ظاہر کرتارہتا ہے،یہ کسی کی موت یا کسی کی زندگی (پیدائش) کیوجہ سے ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے ،جب تم یہ دیکھ لو تواللہ کے ذکر اور اس سے دعا و استغفار میں مشغول ہوجاؤ۔"[6]
اللہ تعالیٰ سورج اورچاند پر گرہن طاری کرکے ان دو عظیم نشانیوں کو اس لیے دکھاتا ہے کہ لوگ عبرت حاصل کریں اور انھیں علم ہوکہ دونوں اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ہیں،دیگر مخلوقات کی طرح ان میں بھی نقص اور تغیر ہوسکتاہے۔نیز اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ لوگوں کوبتاتاہے کہ ہرچیز پر قدرت صرف اسے ہی حاصل ہے۔بنابریں وہ اکیلا ہی عبادت کے لائق ہے جیسا کہ ارشادربانی ہے:
"اور دن اور رات اور سورج اور چاند بھی(اس کی) نشانیوں میں سے ہیں،تم سورج کو سجدہ کرونہ چاندکو بلکہ سجدہ اس اللہ کے لیےکرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے،اگر واقعی تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔"[7]
(4)۔نماز کسوف کا وقت گرہن لگنے سے شروع ہوتا ہے اور اس کے ختم ہونے تک رہتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
" جب تم انھیں ایسا ہوتے ہوئےدیکھو تو اس وقت تک نماز پڑھتے رہو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہو جب تک کہ (گرہن) ختم نہ ہوجائے۔"[8]
(5)۔ گرہن ختم ہوجانے کے بعد نماز کسوف کی قضا نہیں ہے کیونکہ اب اس کا موقع ختم ہوچکا ہے۔اسی طرح اگر گرہن ختم ہوجانے کے بعد اس کاعلم ہواتو نمازکسوف نہ پڑھی جائے۔
(6)۔نماز کسوف کا طریقہ یہ ہے کہ امام دورکعتیں پڑھائے جن میں بآواز بلند قراءت ہو۔پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ کوئی لمبی سی سورت (مثلاً:سورہ بقرہ وغیرہ) پڑھے،پھر لمبارکوع کرے،پھر سر اٹھائے اور"سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد "کہے۔سیدھا کھڑے ہوکر(عام نماز کی طرح) پھر سورہ فاتحہ کے بعد پہلی سورت سے قدرے کوئی چھوٹی سورت(مثلاً:آل عمران) پڑھے۔پھردیرتک رکوع میں رہے جو پہلے رکوع سے قدرے چھوٹا ہو۔پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے ہوئے رکوع سےسر اٹھاتے اور قومے کی دعا:
"رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ ، مِلْءُ السَّمَاوَاتِ وَمِلْءُ الْأَرْضِ وَمِلْءُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ" پڑھےاور تادیر کھڑارہے۔پھرلمبے لمبے دوسجدے کرے،دونوں سجدوں کےدرمیان زیادہ دیرنہ بیٹھے،پھر اسی طرح دوسری رکعت ادا کرے کہ اس میں پہلی رکعت کی طرح دو لمبے لمبے قیام اور رکوع ہوں اور دوہی لمبے سجدے ہوں،پھر تشہد پڑھے اور سلام پھیردے۔
نماز کسوف کا یہی وہ مسنون طریقہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد طرق سےصحیحین وغیرہ میں منقول ہے،جن میں سے ایک طریق سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اپنی صحیح میں درج کیا ہے،چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سورج گرہن ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تو لوگوں نے آپ کے پیچھے صفیں بنائیں۔آپ نے تکبیر کہی اور لمبی قراءت کی،پھر اللہ اکبر کہا اور لمبارکوع کیا،پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے ہوئے کھڑے ہوگئے اور سجدہ نہ کیا بلکہ قراءت شروع کی جو کہ پہلی قراءت کی نسبت کچھ کم تھی،پھرتکبیر کہی اور لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع کی نسبت چھوٹا تھا،پھر " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ"کہا ،پھر سجدہ کیا،پھر دوسری رکعت بھی اسی طرح ادا کی،آپ نے(دورکعتوں والی نماز) چاررکوع اورچارسجدوں کے ساتھ نماز مکمل کی،نماز سے فارغ ہونے تک سورج صاف ہوچکاتھا۔"[9]
(7)۔مسنون یہ ہے کہ نماز کسوف باجماعت ادا کی جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا۔اگرچہ یہ نماز بھی (دیگر نوافل کی طرح) فرداً فرداً جائز ہے لیکن باجماعت ادا کرنا افضل ہے۔
(8)۔نمازکسوف ادا کرلینے کے بعد امام کوچاہیے کہ وہ لوگوں کو وعظ ونصیحت کرے۔ان کی غفلت اور لاپرواہی پر تنبیہ کرے۔دعاواستغفار کا حکم دے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کسوف سے فارغ ہوئے۔۔۔۔۔تو لوگوں سے مخاطب ہوئے،اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور فرمایا:یہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ،یہ کسی کی موت یازندگی(پیدائش) کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے جب تم ایسا ہوتے ہوئے دیکھا تو اللہ کویاد کرو،تکبیرات کہو،نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔"[10]
(9)۔اگر گرہن ختم ہونے سے پہلے ہی نماز مکمل ہوجائے تو دوبارہ نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں بلکہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور دعا میں مصروف ہوجانا چاہیے۔اگر نماز کےدوران میں گرہن ختم ہوجانے کا علم ہوجائے تو نماز کو توڑا نہ جائے بلکہ مختصر کرلیا جائے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"اوراپنے اعمال کو غارت نہ کرو۔"[11]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ا رشاد ہے:"نماز کسوف گرہن کے ختم ہونے تک ہے۔"[12]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"کسوف کادورانیہ کبھی لمبا ہوتاہے اور کبھی چھوٹا کیونکہ کبھی ساراحصہ گرہن زدہ ہوجاتا ہے اورکبھی نصف اورکبھی ایک تہائی حصہ،جب زیادہ حصے کوگرہن لگے تب پہلی رکعت میں سورہ بقرہ یا اس جیسی لمبی سورت کی قراءت کرے،پھر ایک رکوع کے بعد پہلی سورت سے کم لمبی سورت کی قراءت کی جائے۔اس بارے میں ہم احادیث صحیحہ کا ذکر کرچکے ہیں۔"
نمازکسوف میں تخفیف اس کے سبب کے زائل ہوجانے کی وجہ سے ہے۔اسی طرح اگر معلوم ہوکہ گرہن زیادہ دیر نہیں رہےگا یا نماز شروع کرنے سےپہلے ہی کم ہونا شروع ہوجائے گا تو نماز شروع کردے لیکن مختصر پڑھے جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے کیونکہ یہ نماز کسی علت کی وجہ سے شروع کی تھی اور وہ اب زائل ہورہی ہے۔اسی طرح اگر نماز شروع کرنے سے قبل ہی گرہن ختم ہوگیا تو تب نماز کسوف پڑھنے کی ضرورت نہیں۔[13]
[1]۔یونس:10/5۔
[2]۔حٰم السجدۃ 41/37۔
[3]۔بنی اسرائیل 17/59۔
[4]۔صحیح البخاری الکسوف باب الدعاءفی الکسوف حدیث 1060 وصحیح مسلم الکسوف باب ذکر النداء بصلاۃ الکسوف الصلاۃ جامعۃ حدیث 911 واللفظ لہ۔
[5]۔صحیح البخاری الکسوف باب الدعاء فی الکسوف حدیث 1060 وصحیح مسلم الکسوف باب ذکر النداء بصلاۃ الکسوف الصلاۃ جامعۃ حدیث 915۔
[6]۔صحیح البخاری الکسوف باب الذکر فی الکسوف حدیث 1059۔
[7]۔حٰم السجدۃ 41/37۔
[8]۔صحیح البخاری الکسوف باب الدعاءفی الکسوف حدیث 1060 وصحیح مسلم الکسوف باب ذکر النداء بصلاۃ الکسوف الصلاۃ جامعۃ حدیث 911 واللفظ لہ۔
[9]۔صحیح البخاری الکسوف باب خطبۃالامام فی الکسوف حدیث 1046 وصحیح مسلم الکسوف باب صلاۃ الکسوف حدیث 901۔
[10]۔صحیح البخاری الکسوف باب الصدقۃفی الکسوف حدیث 1044۔وصحیح مسلم الکسوف باب صلاۃ الکسوف حدیث 901۔
[11]۔محمد 47/33۔
[12]۔صحیح البخاری الکسوف باب الدعاء فی الکسوف حدیث 1040۔1060 وصحیح مسلم الکسوف باب ما عرض علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی صلاۃ الکسوف من امر الجنۃ والنار حدیث 904۔915۔
[13]۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ 24/260۔