نماز کے بعد کے اذکار اور وظائف
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"مسلمانو!اللہ کا ذکر بہت زیادہ کرو۔ اور صبح و شام اس کی پاکیزگی بیان کرو۔"[1]
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں عبادات کی ادائیگی کے بعد ذکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
"پھر جب تم نماز ادا کر چکو تو اٹھتے بیٹھتےاور لیٹےہوئے اللہ کا ذکر کرتے رہو۔"[2]
اور فرمان الٰہی ہے:
"پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پالو۔"[3]
اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ رمضان المبارک کے روزے مکمل کرنے کے بعد ذکر کریں۔ ارشاد ہے:
"وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کر لو اور اللہ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو۔"[4]
مناسک حج کے بعد ذکر کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
"پھر جب تم ارکان حج ادا کر چکو تو اللہ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے باپ دادوں کا ذکر کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔"[5]
عبادات کے بعد ذکر کا حکم دینے میں حکمت الٰہی شاید یہ ہے کہ ادائیگی عبادت میں اگر کوئی نقص پیدا ہو گیا ہویا شیطانی وسوسے آئے ہوں تو ذکر کے ساتھ ان کاعلاج اور امداد ہو جائے ۔ علاوہ ازیں انسان کو توجہ دلاتا ہے کہ مسلسل ذکر و عبادت کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمہ وقت رابطہ مطلوب ہے نیز وہ یہ سمجھ لے کہ اس نے عبادت سے فارغ ہو کر اپنے خالق کا حق کامل طور پر ادا کر دیا ہے۔
فرض نماز کے بعد مسنون ذکر ایسے انداز اور طریقہ سے ہونا چاہیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔اس بارے میں ان بدعات سے اجتناب کیا جائے جنھیں بعض بدعتی صوفیاء نے اختیار کر رکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول بعض اذکار کی تفصیل کچھ یوں ہے:
1۔سیدنا ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار(استغفرالله)کہتے اور پھر یہ دعا پڑھتے۔
"اے اللہ! تو سلامتی والا ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے اے جلال اور عزت والے تو برکت والا ہے۔"[6]
2۔سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو یہ کلمات پڑھتے:
"ایک اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے اس کا کوئی شریک نہیں ملک اسی کا ہے اور تعریف بھی اسی کے لیے ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ جو تو دے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو تو روک دے اسے دے کوئی نہیں سکتا اور کسی بڑے کو اس کی بڑائی تیری گرفت سے نہیں بچا سکتی۔[7]
3۔حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے وقت سلام پھیرنے کے بعد یہ کلمات پڑھتے :
"ایک اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے اس کا کوئی شریک نہیں ملک اسی کا ہے اور تعریف بھی اسی کے لیے ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔گناہ سے بچنے کی اور نیکی کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ کے بغیر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں اس کی نعمت اور اسی کافضل ہے اور اسی کی اچھی تعریف ہے اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔ ہم اسی کی اطاعت میں مخلص ہیں اگرچہ کافر پسند نہیں کرتے۔" [8]
سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے فجر کی نماز سے سلام پھیرنے کے بعد اسی حالت میں بیٹھےبیٹھے اور دنیاوی کلام کیے بغیر درج ذیل کلمات "دس مرتبہ"پڑھے اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی۔ اس کے دس گناہ مٹا دیے جائیں گے اور دس درجے بلند ہو جائیں گے اس کا سارا دن ہر قسم کی پریشانی سے محفوظ ہو گا وہ شخص شیطان سے مامون ہو گا شرک کے سوا کوئی گناہ اس کے قریب تک نہ پھٹکےگا۔ کلمات یہ ہیں۔
سیدہ اُ م سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مندرجہ بالا کلمات مغرب کی نماز کے بعد بھی دس مرتبہ پڑھے جائیں۔[10]
علاوہ ازیں مغرب اور فجر کی نماز کے بعد:
"الٰہی !مجھے آگ سے بچانا ۔"
کے کلمات بھی سات مرتبہ پڑھے جائیں۔[11]
4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"جو شخص ہر فرض نماز کے بعد تینتیس (33) مرتبہ(سبحان الله)اورتینتیس(33)مرتبہ(الحمدلله)تینتیس (33)مرتبہ(الله اكبر) کہے اور سو کا عدد مکمل کرنے کے لیے ایک مرتبہ یہ کلمات پڑھے۔
"ایک اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے اس کا کوئی شریک نہیں ملک اسی کا ہے اور تعریف بھی اسی کے لیے ہے اور وہی ہر چیز پر خوب قادر ہے۔"تو اگر اس کے سمندر کی جھاگ کے برابر بھی ہوں گے تو معاف کر دیے جائیں گے۔"[12]
5۔پھر آیۃ الکرسی سورۃ اخلاص سورہ فلق اور سورۃ ناس پڑھے ۔[13]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص ہر نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھے گا تو اس کے جنت میں داخل ہونے کے لیے موت کے سوا اور کوئی شے رکاوٹ نہ ہو گی۔"[14]
ایک اور روایت میں یوں ہے:
"وہ شخص دوسری نماز تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے گا۔"[15]
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہر نماز کے بعد معوذات (سورۃ اخلاص ،سورۃ فلق اور سورۃ ناس) پڑھنے کا حکم دیا۔[16]
مندرجہ بالا احادیث سے واضح ہوا کہ فرض نمازوں کے بعد اذکار مذکورہ مسنون اور مشروع ہیں اور انھیں پڑھنے کا بہت زیادہ اجروثواب ہے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ مسنون طریقے سے ان وظائف کو پڑھنے کا اہتمام کریں یہ اذکار نماز کے فوراً بعد نماز کے مقام سے کھڑا ہونے سے قبل ادا کرنے چاہئیں جس کی ترتیب اس طرح ہو سکتی ہے۔
1۔ سلام کے بعد (بلند آواز سے تکبیر کہہ کر) تین بار (استغفر الله) پڑھیں۔
2۔پھر پڑھیں۔
3۔پھر پڑھیں۔
4۔اس کے بعد یہ کلمات پڑھیں۔
5۔"جو شخص ہر فرض نماز کے بعد تینتیس (33) مرتبہ(سبحان الله)اورتینتیس(33)مرتبہ(الحمدلله)تینتیس (33)مرتبہ(الله اكبر) کہے اور سو کا عدد مکمل کرنے کے لیے ایک مرتبہ یہ کلمات پڑھے۔
6۔پھر آیۃ الکرسی اور تینوں "قل"ایک ایک بار پڑھیں۔
7۔بعد نماز مغرب اور فجر دس مرتبہ ("لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو على كل شيء قدير")پڑھیں اور سات مرتبہ:
"اللهم أجرني من النار"پڑھیں۔
8۔مغرب اور فجر کی نمازوں کے بعد تینوں "قل" تین بار پڑھنا مستحب ہے۔
نماز کے بعد (لاالٰه الا الله ‘سبحان الله ‘الحمدلله ‘الله اكبر)کے کلمات انفرادی طور پر باآواز پڑھے جائیں تو مستحب ہے۔[17]البتہ انھیں اجتماعی طور پر اور مل کر ایک آواز سے پڑھنا درست نہیں۔
تسبیحات ،تحمیدات اور تکبیرات وغیرہ کی تعداد کو انگلیوں کی گرہوں پر شمار کیا جائے کیونکہ روز قیامت (پڑھنے والے کے حق میں بطور شہادت )ان کو بولنے کی قوت ملے گی ۔[18](علاوہ ازیں یہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے)
اذکار و تسبیحات کے لیے موجودہ" تسبیح "کا استعمال مباح ہے بشرطیکہ اس کو استعمال کرنے والا اسے باعث فضیلت نہ سمجھتا ہو ورنہ (بعض علماء کے نزدیک )اس کا استعمال مکروہ بلکہ بدعت ہے چنانچہ کئی صوفیاء کو دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنے گلوں میں ہار کی طرح تسبیح لٹکائے پھرتے ہیں یا ہاتھوں میں کنگن کی طرح سجائے رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ کام نہ صرف بدعت ہے بلکہ ریا کاری اور تکلف کے زمرے میں بھی آتا ہے۔
نمازی اذکار مذکورہ سے فارغ ہو کر انفرادی طور پر حسب خواہش شراًدعا کرے کیونکہ عبادت اور اذکار کے بعد دعا کی قبولیت کا بہت مناسبت موقع ہے۔
فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا نہ کی جائے جیسا کہ بعض لوگوں کی عادت ہے کیونکہ یہ بدعت ہے البتہ نفلی نماز کے بعد کبھی کبھار ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
بلند آواز سے دعا کرنے کی بجائے آہستہ آواز میں دعا کرنا زیادہ مناسب اور بہتر ہے کیونکہ یہ انداز اخلاص اور خشوع وخضوع کے قریب تر اور ریاکاری سے دور تر ہے۔
بعض ممالک میں کئی حضرات نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر بآواز بلند اجتماعی طور پر دعا کرتے ہیں یا امام دعا کرتا ہے اور حاضرین ہاتھ اٹھا ئے ہوئے امام کے دعائیہ کلمات پر آمین ،آمین کہتے ہیں۔ یہ کام سراسر بدعت ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں کہ آپ نے لوگوں کو نماز پڑھا کر بعد میں اس طرح دعا کی ہو۔ فجر میں نہ عصر میں اور نہ کسی اور نماز میں۔ اورنہ آئمہ کرام میں سے کسی نے اسے پسند کیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" جس نے نماز کے بعد اجتماعی دعا کے بارے میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا کوئی قول نقل کیا ہے وہ غلط فہمی کا شکار ہوا ہے۔"[19]ہمارے لیے تو اس چیز کی پابندی واجب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اور تمھیں جو کچھ رسول دے اسے لے لو اور جس سے روکے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے۔"[20]
اور فرمان الٰہی ہے:
"یقیناً تمھارے لیے رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )میں عمدہ نمونہ (موجود)ہےہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے۔"[21]
اللہ کے بندو! تمھارے رب نے اپنے تقرب کے لیے فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ نفل نماز کو بھی مشروع قرار دیا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ اور طلب علم کے بعد نفل نماز اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے نفل نماز پر مداوت فرمائی ہے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
"سیدھے چلتے رہو اور تم ہر گز مکمل طور پر سیدھے نہیں رہ سکتے (کوئی نہ کوئی غلطی ہوہی جاتی ہے) اور جان لو کہ تمھارے اعمال میں سے بہترین عمل نماز ہے۔"[22]
نماز کئی طرح کی عبادتوں کا مجموعہ ہے مثلاً :قرآءت ،رکوع سجدہ ،دعا ،تذلل ،خشوع و خضوع مناجات ،تکبیر تسبیح اور دردوغیرہ ۔
نفل نماز کی دو انواع ہیں۔
1۔وہ نفل نماز یں جن کے اوقات متعین اور مقرر ہیں۔ انھیں "نوافل مقیدہ" کہا جاتا ہے۔
2۔وہ نفل نمازیں: جن کے اوقات متعین اور مقرر نہیں۔ انھیں "نوافل مطلقہ" کہا جاتا ہے۔
پہلی نوع کی متعدد اقسام ہیں۔ان میں بعض کی تاکید دوسری نفل نمازوں سے زیادہ ہے مثلاً:سب سے زیادہ تاکید نماز کسوف کی ہے ۔ پھر نماز استسقاء کی پھر نماز تراویح کی پھر نماز وتر کی۔ ان تمام نمازوں کی تفصیل اور احکام آپ اگلے صفحات پر ملاحظہ فرمائیں گے۔
[1]۔الاحزاب 33۔41۔42۔
[2]۔النساء:4/103۔
[3]۔الجمعۃ 62۔10۔
[4]۔البقرۃ:2/185۔
[5]۔البقرۃ:2/200۔
[6]۔صحیح مسلم المساجد باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ و بیان صفۃ حدیث 591۔592۔وسنن النسائی السہو باب الاستغفار بعد التسلیم حدیث 1338نماز سے فارغ ہو کر پہلے (اللہ اکبر )اورپھر یہ کلمات کہنے چاہئیں جیسے کہ صحیح البخاری وغیرہ میں ہے۔ صحیح البخاری الاذان باب الذکر بعد الصلاۃ حدیث 842۔وسنن النسائی السہو باب التکبیر بعد تسلیم الامام حدیث :1336۔
[7]۔صحیح البخاری الاذان باب الذکر بعد الصلاۃ حدیث844وصحیح مسلم المساجد باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ و بیان صفۃ حدیث593۔
[8]۔صحیح مسلم المساجد باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ و بیان صفۃ حدیث 594۔
[9]۔جامع الترمذی الدعوات باب فی ثواب کلمۃ التوحید النبی الھا واحداًاحداً صمداًحدیث 3474۔وصحیح الترغیب والترھیب للالبانی 1/321حدیث 472۔
[10]۔مسند احمد 6/298۔وموارد الظمان الی زوائد ابن حبان باب مایقول من الذکر بعد الصلاۃ حدیث 2341۔(صحیح بخاری میں ہے جس نے یہ کلمات سو مرتبہ پڑھے اسے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ہو گا۔ سو نیکیاں ملیں گی سو گناہ مٹا دیے جائیں گے اور صبح سے شام تک شیطان سے حفاظت میں رہے گا۔صحیح بخاری بدء الخلق باب صفۃ ابلیس وجنودہ حدیث 3293۔
[11]۔سنن ابن داود الادب باب مایقول اذا الصبح ؟ حدیث 5079والسنن الکبری للنسائی عمل الیوم واللیلہ باب ثواب من استجار من النارسیع مرات حدیث 9939۔
[12]۔صحیح مسلم المساجد باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ و بیان صفۃ حدیث 595۔597
[13]۔سنن ابی داؤد الوتر باب فی الاستغفار حدیث 1523وموارد الظمان الی زوائد ابن حبان باب قراء ۃ المعودات دبرالصلاۃ حدیث 2347۔
[14]۔السنن الکبری للنسائی عمل الیوم واللیلہ باب ثواب من قرآیۃ الکرسی دبر کل صلاۃ حدیث 9928والمعجم الکبیر للطبرانی 8/134۔حدیث7532۔
[15]۔(ضعیف) المعجم الکبیر للطبرانی 3/85 حدیث 2733وسلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ للالبانی رقم 5135۔
[16]۔سنن النسائی السہو باب الامر بقراء المعوذات بعد التسلیم من الصلاۃ حدیث 1337۔ وسنن ابی داؤد الوتر باب فی الاستغفار حدیث 1523۔وجامع الترمذی فضائل القرآن باب ماجاء فی الموذتین حدیث 2903۔واللفظ لہ۔ حدیث
[17]۔یہ بعض علماء کی رائے ہے جو صحیح بخاری کی حدیث نمبر841 سے استدلال کرتے ہیں جبکہ دوسرے علماء مقتدیوں کے لیے ایک دفعہ بلند آواز سے اللہ اکبر کے سوامزید جہری ذکر کے قائل نہیں دیکھیے فتاوی الدین الخاص 4/429(ع۔د)
[18]۔سنن ابی داؤد الوتر باب الشیخ بالحصی حدیث 1501وجامع الترمذی الدعوات باب فی فضل الشیخ والتھلیل والتقدیس حدیث 3583ومسند احمد 6/370۔371۔
[19]۔ مجموع الفتاوی الشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ 22/512۔
[20]۔الحشر7۔59۔
[21]۔الاحزاب :21۔33۔
[22]۔سنن ابن ماجہ الطہارۃ وسننھا باب المحافظۃ علی الوضوء حدیث277والموطا للامام مالک الطہارۃ باب جامع الوضوء 1/34حدیث 36۔