سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(22) نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی صورت

  • 23697
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2959

سوال

(22) نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی صورت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کی عملی صورت


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پچھلے صفحات پر ہم نےنماز کےارکان ،واجبات اور سنن کا تذکرہ کیا ہے۔اب ہم چاہتے ہیں کہ ان ارکان،واجبات اور سنن پر مشتمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا طریقہ نماز قدرے تفصیل سے بیان کریں۔جو ایک مسلمان کے لیے نمونہ وآئینہ ہو اور اس کی نماز اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے مطابق ہو:

"صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي"

"تم ایسے نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"[1]

(1)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو قبلہ کی طرف رخ کرتے اور اپنے ہاتھوں کو کندھوں یاکانوں کے برابر اٹھاتے۔اپنی ہتھیلیوں کو قبلہ کی جانب کرتے اور"اللہ اکبر" کہتے تھے۔[2]

(2)۔پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑتے[3] اور دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھ لیتے۔[4]

(3)۔پھر آپ دعائے استفتاح پڑھتے۔اور ایک دعائے استفتاح پر دوام نہیں کرتے تھے بلکہ آپ سے اس بارے میں متعدد دعائیں منقول ہیں،ان میں سے کوئی ایک پڑھی جاسکتی ہے۔ایک دعا یہ ہے:

"سُبْحَانَكَ اللهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، تَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ"

"اے اللہ! تو اپنی تعریفوں کے ساتھ پاک ہے۔تیرا نام بابرکت ہے۔تیری شان بلند ہے۔تیرے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔"[5]

(4)۔پھر آپ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم[6] اور بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے تھے۔[7]

(5)۔پھر آپ سورۃ فاتحہ پڑھتے۔[8]جب سورہ فاتحہ ختم کرتے تو آمین کہتے تھے۔[9]

(6)۔سورۃ فاتحہ کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کبھی لمبی،کبھی چھوٹی اورکبھی درمیانی سورتیں پڑھتے۔[10]فجر کی نماز میں دوسری نمازوں کی نسبت لمبی قراءت کرتے۔[11]آپ فجر کی نماز میں[12] اور مغرب[13] اورعشاء [14]کی پہلی دورکعتوں میں بلند آواز سے قراءت کرتے تھے۔باقی رکعات میں آہستہ(بے آواز) قراءت کرتے۔آپ کا یہ معمول تھاکہ ہر نماز میں پہلی رکعت دوسری سےقدرے لمبی کرتے۔[15]

(7)۔پھر اسی طرح رفع الیدین کرتے جس طرح نماز شروع کرتے وقت کرتے تھے اور اللہ اکبر کہتے ہوئے حالت رکوع میں چلے جاتے۔[16]اپنے ہاتھوں کی انگلیاں کھول کر گھٹنوں کے اوپر یوں رکھتے جیساکہ انھیں مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔[17]اپنی کمرہموار رکھتے اور سر کو کمر کے برابر اس طرح رکھتے کہ وہ نہ اونچا ہوتا اور نہ جھکا ہوا ہوتا[18] اور سبحان ربی العظیم[19] کہتے۔

(8)۔"پھر سمع اللہ لمن حمدہ"[20] کہتے ہوئےرکوع سے سر اٹھاتے اور رفع الیدین کرتے تھے۔[21]

(9)۔جب آپ سیدھے کھڑے ہوجاتے تو ر بنا ولک الحمد کہتے۔[22]اس حالت میں آپ قدرے زیادہ دیر تک کھڑے رہتے تھے۔[23]

(10)۔پھر اللہ اکبر کہتے اور سجدے میں چلے جاتے۔[24]اس موقع پر آپ رفع الیدین نہ کرتے تھے۔[25]آپ پیشانی،ناک ،دونوں ہاتھوں،دونوں گھٹنوں اوردونوں قدموں کی انگلیوں پر سجدہ کرتے تھے۔[26]اپنے ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیاں قبلہ کی جانب رکھتے۔[27]حالت سجدہ میں اعتدال واطمینان کا خاص خیال رکھتے۔پیشانی اور ناک اچھی طرح زمین پرٹکاتے۔[28]ہتھیلیوں پر بوجھ ڈالتے اور کہنیوں کوزمین سے اٹھا کر رکھتے۔[29]اپنے بازوؤں کو بدن سے الگ رکھتے۔[30]پیٹ کو رانوں سے اور رانوں کوپنڈلیوں سے اونچا رکھتے۔[31]حالت سجدہ میں سبحان ربی الاعلیٰ کہتے تھے۔[32]

(11)۔پھر اللہ اکبر کہے ہوئے سجدہ سے سرمبارک اٹھاتے۔[33]بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھ جاتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے اور ہاتھ رانوں پررکھ لیتے۔[34]اور یہ دعا پڑھتے تھے۔

"اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَعَافِنِي، وَارْزُقْنِي"

"اے اللہ!مجھے بخش دے،مجھ پر رحم فرما،میرے نقصان پورے کردے،مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق دے۔"[35]

(12)۔پھر آپ اللہ اکبر کہہ کر سجدہ میں چلے جاتے[36] اور اسی طرح کرتے جس طرح پہلے سجدے  میں کیاتھا۔

(13)۔پھر اللہ اکبر کہہ کر سرمبارک اٹھاتے [37]اور قدموں کےاگلے حصوں کے سہارے کھڑے ہوجاتے۔[38]علاوہ ازیں اپنے گھٹنوں اور رانوں سے(اٹھتے وقت) سہارا لیتے تھے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اچھی طرح کھڑے ہوجاتے تو قراءت شروع کرتے اور پھر دوسری رکعت اسی طرح پڑھتے جس طرح پہلی رکعت پڑھتے تھے۔

(14)۔پھر تشہد اول کے لیے یوں بیٹھتے جس طرح دو سجدوں کے درمیان بیٹھتے تھے۔دایاں ہاتھ دائیں ران پر اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھتے۔دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کودرمیان والی انگلی کےساتھ ملا کر حلقہ کی شکل بنالیتے تھے۔شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے اور اس پر نظر رکھتے[39] پھر یہ کلمات پڑھتے تھے۔[40]

"التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ"

"تمام قولی،بدنی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔اے نبی( کریم صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ پرسلام ہو،اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں،ہم پر اور تمام اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں۔اور میں گواہی دیتاہوں کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔"[41]

آپ درمیانے تشہد کے لیے تھوڑی دیر بیٹھتے تھے۔

(15)۔پھر آپ تکبیر کہتے ہوئے کھڑے ہوجاتے[42] اس موقع پر رفع الیدین کرتے تھے۔[43]اورتیسری پھرچوتھی رکعت اداکرتے تھے۔یہ دو رکعتیں پہلی دو رکعتیں سے مختصر ہوتی تھیں کیونکہ آپ ان میں صرف سورہ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔[44]

(16)۔پھر آخری تشہد میں اس طرح بیٹھتے کہ بائیں پاؤں کو بچھا کردائیں پاؤں کی پنڈلی کےنیچے سے قدم باہر نکال لیتے،دائیں پاؤں کو کھڑا کرلیتے اورزمین پر بیٹھ جاتے تھے۔[45]

(17)۔پھر آخری تشہد پڑھتے۔اس میں تشہد اول کے علاوہ درود شریف کے یہ کلمات پڑھتے تھے:

"اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ"

"اے اللہ!رحمت نازل کرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کی آل پر جیسا کہ تو نے ابراہیم  علیہ السلام  کی آل پر رحمت نازل کی ہے بے شک تو قابل تعریف اور بزرگی والاہے۔اے اللہ!محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کی آل پر برکت نازل کر جیسا کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام  کی آل پر برکت نازل کی بے شک تو قابل تعریف اور بزرگی والاہے۔"[46]

(18)۔پھر آپ آخر میں جہنم،عذاب قبر،زندگی اور موت کے فتنوں اور دجال کے فتنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے اور وہ د عائیں کرتے جو کتاب وسنت  میں موجود اور محفوظ ہیں۔درج ذیل دعا آپ کو بہت پسند تھی(بلکہ آپ نے اس کے پڑھنے کا حکم دیا):

"اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ"

"اے اللہ میں عذاب جہنم،عذاب قبر ،زندگی اور موت کے فتنوں اور مسیح دجال کے فتنے سے بچنے کے لیے تیری پناہ کاطالب ہوں۔"[47]

(19)۔پھر آپ دائیں جانب اور پھر بائیں جانب السلام علیکم ورحمۃ ا للہ کہہ کر سلام پھیرتے تھے۔[48]

کلمات سلام کی ابتدا قبلہ کی طرف منہ کرکے کرتے اور آخری کلمہ ادا کرنے تک چہرہ مکمل طور پر دائیں یابائیں طرف پھیر لیتے تھے۔

(20)۔جب آپ سلام پھیر لیتے تو تین مرتبہ استغفر اللہ(میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت کاطلب گار ہوں) کہتے اور پھر یہ کلمات کہتے:

"اللَّهُمَّ أنْتَ السَّلاَمُ، وَمِنْكَ السَّلاَمُ، تَبَارَكْتَ يَا ذَا الجَلالِ والإكْرَامِ"

"اے اللہ!تو سلامتی والاہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے،اے جلال وعزت کےمالک تو  برکت والاہے۔"[49]

(21)۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم   وہ د عائیں پڑھتے جو کتب احادیث میں محفوظ اور موجود ہیں۔

اےمسلمان! کتاب وسنت کی روشنی میں نماز کا یہ مختصر سابیان ہے۔آپ کو چاہیے کہ اپنی نمازمیں ان چیزوں کاخوب اہتمام کریں تاکہ آپ کی نماز حتی الامکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز کے مطابق ہو۔اللہ تعالیٰ کاارشاد گرامی ہے:

﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَرجُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثيرًا ﴿٢١﴾... سورة الاحزاب

"یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ(موجود) ہے،ہراس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتاہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کویاد کرتا ہے۔"[50]

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اعمال کی توفیق دے اور انھیں شرف قبولیت سےنوازے۔آمین

مکروہات نمازکابیان

(1)۔نماز میں چہرے کو پھیر کر ادھر اُدھر دیکھنا مکروہ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"هُوَ اخْتِلاَسٌ يَخْتَلِسُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ صَلاَةِ الْعَبْدِ"

"(ادھر اُدھر دیکھنا) یہ نقصان ہے اور شیطان بندےکی نماز میں نقصان کرتاہے۔"[51]

کسی شدید ضرورت کی وجہ سے دائیں بائیں دیکھنا پڑ جائے تو کوئی حرج نہیں،مثلاً:خوف کی حالت ہویاکوئی اور معقول وجہ ہو۔[52]

اگرکوئی شخص اپنے تمام جسم سمیت نماز میں گھوم گیا یا حالت خوف کے بغیر کعبہ کی طرف پشت کرلی تو اس کی نماز باطل ہوگی کیونکہ اس نے سمت کعبہ بلاعذر ترک کی ہے۔

اس سے واضح ہوا کہ حالت خوف میں نماز کے دوران میں دائیں بائیں دیکھ لیا جائے تو مضائقہ نہیں کیونکہ جنگ میں اس کی ضرورت پڑجاتی  ہے ،حالت خوف کےعلاوہ اگر کسی ضرورت کے تحت صرف چہرہ اور سینہ پھیرلے تو کوئی حرج نہیں۔اگر بلاضرورت ہوتو مکروہ ہے بلکہ اس نے سارا بدن جانب کعبہ سے پھیر لیا تو نماز باطل ہوجائے گی۔[53]

(2)۔نماز کے دوران آسمان کی طرف دیکھنا مکروہ ہے آپ نے اسے ناپسند کرتے ہوئے فرمایا:

"أَقْوَامٍ يَرْفَعُونَ أَبْصَارَهُمْ إِلَى السَّمَاءِ فِي صَلَاتِهِمْ فَاشْتَدَّ قَوْلُهُ فِي ذَلِكَ حَتَّى قَالَ لَيَنْتَهُنَّ عَنْ ذَلِكَ أَوْ ... اللَّهم عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ رَفْعِهِمْ أَبْصَارَهُمْ"

"لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ نماز میں آسمان کی طرف نگاہیں اٹھاتے ہیں؟بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے فرمایا:"یہ لوگ(ایسی حرکت سے)باز آجائیں یا پھر اللہ تعالیٰ ان کی نگاہیں چھین لے گا۔"[54]

پچھلے صفحات پر ہم بیان کرچکے ہیں کہ حالت نماز میں نمازی کی نظر مقام سجدہ پر رہنی چاہیے،ادھراُدھر دیکھنا،نگاہ کو آوارہ رکھنا،سامنے دیواروں پر بنے ہوئے نقش ونگار یا تحریروں کو دیکھنا ایک مسلمان کے لائق نہیں کیونکہ یہ چیز نماز سےغافل کردیتی ہے اور روح نماز(خشوع وخضوع) کو ختم کردیتی ہے۔

(3)۔نمازمیں بلا ضرورت آنکھیں بند کرنا بھی مکروہ ہے کیونکہ یہودایسا کیاکرتے تھے۔البتہ کسی نے کسی مقصد کی خاطر ایسا کیا تو کوئی حرج نہیں،مثلاً:اس کے سامنے کوئی ایسی چیز ہے جو اس کی نماز کے لیے تشویش کا باعث بن رہی ہے جیسے نقش ونگار یا بیل بوٹے وغیرہ۔اس بارے میں ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  نے جو کچھ لکھا ہے،اس کا یہی مفہوم ہے۔[55]

(4)۔نماز میں"اقعاء" کی صورت میں بیٹھنا مکروہ ہے،جس کی صورت وشکل یہ ہے کہ"آدمی اپنے پاؤں کے تلوے زمین پر لگا کر رانوں اور پنڈلیوں کو کھڑاکرکے اپنے چوتڑ پر بیٹھ جائے۔"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

"يا علي! لا تقع إقعاء الكلب"

"اے علی!تو اس طرح نہ بیٹھ جیسے کتا بیٹھتا ہے۔"[56]

(5)۔حالت قیام میں دیوار وغیرہ کے ساتھ بلاضرورت ٹیک لگا کر کھڑے ہونامکروہ ہے کیونکہ یہ چیز قیام کی مشقت کو ختم کردیتی ہے،البتہ اگر کسی بیماری اور مثل بیماری کی وجہ سے ایسا کرلیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

(6)۔نماز میں سجدے کے دوران اپنے بازوؤں کو پھیلاکر زمین پر بچھانا مکروہ ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ، وَلَا يَبْسُطْ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الْكَلْبِ"

"سجدہ میں اعتدال کو قائم رکھو اور کوئی شخص کتے کی طرح اپنے بازونہ پھیلائے۔"[57]

(7)۔نماز میں کھیلنا ہاتھ،پاؤں ۔ڈاڑھی ،کپڑے وغیرہ کے ساتھ  بلامقصد کوئی حرکت کرنا یا بلاضرورت زمین پر ہاتھ پھیرنا یہ سب کام مکروہ ہیں۔

(8)۔حالت نماز میں پہلووؤں پر ہاتھ رکھنا مکروہ ہے کیونکہ یہ کافر اور متکبر لوگوں کا انداز ہے۔اور ہمیں ان لوگوں کے ساتھ مشابہت سے روکاگیا ہے،چنانچہ بخاری ومسلم کی روایت میں پہلووؤں پر ہاتھ رکھ کر نماز ادا کرنے کی ممانعت موجود ہے۔[58]

(9)۔نماز کے دوران چٹخانا[59] اور عمل تشبیک،یعنی ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کرنا مکروہ ہے۔[60]

(10)۔یہ امر  بھی مکروہ ہے کہ کوئی شخص ایسی حالت میں نماز ادا کرے کہ اس کے آگے اسے مشغول یا غافل کرنے والی کوئی چیز ہو کیونکہ یہ صورت نماز کے درجہ کمال کے حصول میں رکاوٹ ہے۔

(11)۔جہاں تصاویر ہوں وہاں نماز ادا کرنا مکروہ ہے کیونکہ اس سے بت  پرستوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے۔وہ تصاویر کسی جگہ نصب ہوں یادیوار وغیرہ پر نقش ہوں یا کسی اورشکل میں ہوں،ایک ہی حکم میں ہے۔[61]

(12)۔کسی شخص کا نماز میں ایسی حالت میں داخل ہونا کہ وہ پیشاب ،پاخانہ ہواکے روکنے یا شدید سردی یا گرمی یا سخت بھوک،پیاس کی وجہ سے فکرمند وپریشان ہومکروہ ہے۔[62]کیونکہ یہ صورتیں نماز کے خشوع وخضوع میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔[63]

(13)۔بھوک کی وجہ سے کھانے کی شدید خواہش ہو اور کھانا بھی حاضر ہوتو ایسی صورت میں نماز شروع کرنامکروہ ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاارشاد ہے:

"لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ وَلَا هُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ"

"کھانا حاضر ہوتو نماز نہیں ہوتی اور تب بھی نماز نہیں ہوتی جب کوئی پیشاب،پاخانہ کے دباؤ کی وجہ سے پریشان ہو۔"[64]

یہ تمام ہدایات اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی کے بارے میں ہیں تاکہ بندہ اپنے رب کی عبادت میں دل ودماغ کے ساتھ حاضر رہے۔

(14)۔سجدہ کرتے وقت پیشانی زمین پر رکھنے کے لیے کوئی خاص چیز سامنے رکھنا مکروہ ہے کیونکہ یہ رافضیوں کا شعار اور انداز ہے اور اس میں ان کی ساتھ مشابہت ہوتی ہے۔

(15)۔سجدہ کرنے کی وجہ سے پیشانی یاناک پر لگی ہوئی مٹی وغیرہ کو نماز میں صاف کرنا مکروہ ہے،البتہ نماز کے بعد ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

(16)۔نماز کے دوران ڈاڑھی سے کھیلنا،کپڑے کو کھولنا یا بند کرنا،ناک کی صفائی کرنا وغیرہ یہ کام مکروہ ہیں کیونکہ یہ کام نماز کے خشوع وخضوع کو ختم کردیتے ہیں۔

ایک مسلمان سے مطلوب ومقصود یہ ہے کہ وہ کلی طور پر نماز میں مشغول رہے۔نماز کے منافی کاموں سے اجتناب کرے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿حـٰفِظوا عَلَى الصَّلَو‌ٰتِ وَالصَّلو‌ٰةِ الوُسطىٰ وَقوموا لِلَّهِ قـٰنِتينَ ﴿٢٣٨﴾... سورة البقرة

"نمازوں کی حفاظت کرو،بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لیے باادب کھڑے رہا کرو۔"[65]

مسلمان سے یہ بھی مطلوب ہے کہ وہ حضور قلب اور خشوع وخضوع کے ساتھ نماز قائم کرے اور اس کی معاون صورتوں کو اپنائے جو چیزیں خشوع وخضوع کے خلاف ہیں انھیں چھوڑدے تاکہ اس کی نماز کامل اور صحیح ہو اور ذمہ داری ادا ہو جائے۔ظاہری اور حقیقی طور پر اس کی نماز ہونہ کہ صرف ظاہری نماز ہو۔اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے۔


[1]۔صحیح البخاری الاذان باب الاذان للمسافرین اذا کانوا جماعۃ والاقامۃ حدیث 361۔

[2]۔ صحیح مسلم الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام۔۔۔حدیث 390۔391۔

[3]۔سنن النسائی الافتتاح باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ حدیث 888۔

[4]۔سنن ابی داود الصلاۃ باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلاۃ حدیث 759 وصحیح ابن خذیمۃ الصلاۃ باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ قبل افتتاح القراءۃ 1/243حدیث 479۔

[5]۔سنن ابی داود الصلاۃ باب من رای الاستفتاح بسبحانک اللھم وبحمدک حدیث 775۔776 والمستدرک للحاکم 1/235 حدیث859۔860۔

[6]۔ سنن ابی داود  الصلاۃ باب مایستفتح بہ الصلاۃ من الدعاء حدیث 764 وسنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات باب الاستعاذۃ فی الصلاۃ حدیث 808 والمستدرک للحاکم 1/235 حدیث 858والمصنف لعبدالرزاق 2/86۔

[7]۔صحیح مسلم الصلاۃ باب حجۃ من قال لایجھر بالبسلملۃ حدیث 399 وسنن النسائی الافتتاح باب قراءۃ (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) حدیث 905۔906۔

[8]۔ صحیح مسلم الصلاۃ باب مایجمع صفۃ الصلاۃ ومایفتتح بہ ویختم بہ۔حدیث 498۔

[9]۔ سنن النسائی الافتتاح باب رفع الیدین حیال الاذنین حدیث 880۔

[10]۔ سنن النسائی الافتتاح باب تخفیف القیام والقراءۃ حدیث 983۔

[11]۔صحیح البخاری الاذان باب القراءۃ فی الحجر حدیث 771۔

[12]۔ صحیح البخاری الاذان باب الجھر بقراءۃ صلاۃ الصبح حدیث 773۔

[13]۔ صحیح البخاری الاذان باب القراءۃ فی المغرب حدیث 763 ۔764۔

[14]۔ صحیح البخاری الاذان باب الجھر فی العشاء حدیث 766۔767۔

[15]۔ صحیح البخاری الاذان باب القراءۃ فی الظھر حدیث 758۔759۔

[16]۔ صحیح البخاری الاذان باب رفع الیدین اذا کبر واذا رکع واذا رفع حدیث 736۔737۔

[17]۔ صحیح البخاری الاذان باب سنۃ الجلوس فی التشھد حدیث 828۔

[18]۔ صحیح مسلم الصلاۃ باب ما یجمع صفۃ الصلاۃ وما یفتتح بہ ویختم بہ۔حدیث 498۔

[19]۔ سنن ابی داود الصلاۃ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ؟حدیث 871 ومسند احمد 1/371۔

[20]۔ صحیح البخاری الاذان باب مایقول الامام ومن خلفہ ازا رفع راسہ من الرکوع؟ حدیث 795۔

[21]۔ صحیح البخاری الاذان باب رفع الیدین اذاکبر واذا رکع واذا رفع حدیث 736۔

[22]۔صحیح البخاری الاذان باب فضل اللھم ربنا لک الحمد حدیث 796 وجامع الترمذی الصلاۃ باب مایقول الرل اذا رفع راسہ من الرکوع؟حدیث 266 باب منہ آخر حدیث 267 واللفظ لہ۔

[23]۔ صحیح البخاری الاذان باب الاطمانینۃ حین یرفع راسہ من الرکوع حدیث 800 وصحیح مسلم الصلاۃ باب اعتدال ارکان الصلاۃ وتخفیفھا فی تمام حدیث 472۔473۔ومسند احمد 3/172۔

[24]۔ صحیح البخاری الاذان باب التکبیر اذا قام من السجود حدیث 789۔

[25]۔ صحیح البخاری الاذان باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولیٰ مع الافتتاح سواء حدیث 735 وباب رفع الیدین اذا کبر واذا رکع واذا رفع حدیث 736 وباب الی این یرفع یدیہ؟حدیث 738۔

[26]۔ صحیح البخاری الاذان باب السجود علی الانف حدیث 812۔

[27]۔ صحیح البخاری الاذان باب سنۃ الجلوس فی التشھد حدیث 828۔

[28]۔ سنن ابی داود الصلاۃ باب صلاۃ من لایقیم صلبہ فی الرکوع والسجود حدیث 858۔

[29]۔ صحیح مسلم الصلاۃ باب الاعتدال فی السجود ووضع الکفین علی الارض حدیث 494۔

[30]۔صحیح البخاری الصلاۃ باب بیدی ضبعیہ ویجافی فی السجود حدیث 390 وسنن ابی داود الصلاۃ باب صفۃ السجود حدیث 900۔

[31]۔ صحیح مسلم الصلاۃ باب الاعتدال فی السجود ووضع الکفین۔حدیث 496۔

[32]۔ سنن ابی داود الصلاۃ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ؟حدیث 871۔

[33]۔ صحیح البخاری الاذان باب التکبیر اذا قام من السجود حدیث 789۔

[34]۔ سنن ابی داود الصلاۃ باب کیف الجلوس فی التشھد حدیث 957۔

[35]۔ جامع الترمذی الصلاۃ باب مایقول بین السجدتین؟حدیث 284 وفی صحیح مسلم الذکر والدعاء باب فضل التھلیل والتسبیح والدعاء حدیث 2679 بلفظ: "اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَعَافِنِي، وَارْزُقْنِي"

[36]۔ صحیح البخاری الاذان باب یھوی بالتکبیر حین یسجد حدیث 803۔

[37]۔ صحیح البخاری الاذان باب یھوی بالتکبیر حین یسجد حدیث 803۔

[38]۔ (ضعیف) جامع الترمذی الصلاۃ باب منہ ایضا حدیث 288 اور صحیح یہ ہے کہ دوسری اور چوتھی رکعت کے لیے اُٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کو زمین پر لگایا جائے اوران کے سہارے کھڑا ہوا جائے جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے صحیح البخاری الاذان حدیث باب کیف یعتمد علی الارض اذا قام من الرکعۃ حدیث 824 اسی طرح دوسری اور چوتھی رکعت کے لیےاٹھتے وقت جلسہ استراحت کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا معمول تھا،نیز حدیث مسئی الصلاۃ میں آپ نے اس کاحکم بھی دیا ہے۔دیکھئے صحیح البخاری حدیث 757۔

[39]۔ سنن ابی داود الصلاۃ باب کیف الجلوس فی التشھد حدیث 957۔

[40]۔ سنن ابی داود الصلاۃ باب الاشارۃ فی التشھد حدیث 990 ومسند احمد 3/4۔

[41]۔صحیح البخاری الاذان باب التشھد فی الآخرۃ حدیث 831،وصحیح مسلم الصلاۃ باب التشھد فی الصلاۃ حدیث 402۔

[42]۔صحیح البخاری الاذان باب یھوی بالتکبیر حین یسجد حدیث803۔

[43]۔ صحیح البخاری الاذان باب رفع الیدین اذا قام من الرکعتین حدیث 739۔

[44]۔صحیح البخاری الاذان باب یقراء فی الاخربین بفاتحۃالکتاب حدیث 776 وصحیح مسلم الصلاۃ باب القراءۃ فی الظھر والعصر حدیث 451۔

[45]۔صحیح البخاری الاذان باب سنۃ الجلوس فی التشھد حدیث 828۔

[46]۔صحیح مسلم الصلاۃ باب الصلاۃ علی النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  بعد التشھد،حدیث 406۔

[47]۔صحیح البخاری الاذان باب الدعاء قبل السلام حدیث 832 وصحیح مسلم المساجد باب ما یستعاذ منہ فی الصلاۃ حدیث 588 واللفظ لہ۔

[48]۔صحیح مسلم المساجد باب السلام للتحلیل من الصلاۃ عند فراغھا وکیفیتہ حدیث 582 وجامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء فی التسلیم فی الصلاۃ حدیث 295۔

[49]۔صحیح مسلم المساجد باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ حدیث 592۔

[50]۔الاحزاب 33/21۔

[51]۔صحیح البخاری الاذان باب الالتفات فی الصلاۃ حدیث 751۔

[52]۔صحیح البخاری الاذان باب اھل العلم والفضل احق بالامامۃ حدیث 680 وسنن ابی داود الجھاد باب فی فضل الحرس فی سبیل اللہ عزوجل حدیث 2501۔

[53]۔بعض علماء نے چہرہ اور سینہ پھیرنے پر نماز کے باطل ہونے کا حکم لگایا ہے۔دیکھئے فتاویٰ الدین الخالص 1/61(ع۔د)

[54]۔صحیح البخاری الاذان باب رفع البصر الی السماء فی الصلاۃ حدیث 750۔

[55]۔ذاد المعاد 1/294۔

[56]۔سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات باب الجلوس بین السجدتین حدیث 895۔

[57]۔صحیح البخاری مواقیت الصلاۃ باب المصلی یناجی ربہ عزوجل حدیث 532 وصحیح مسلم الصلاۃ باب الاعتدال فی السجود ووضع الکفین علی الارض۔حدیث 493 واللفظ لہ۔

[58]۔صحیح البخاری العمل فی الصلاۃ باب الخصر فی الصلاۃ حدیث 1219۔1220 وصحیح مسلم المساجد باب کراھۃ الاختصار فی الصلاۃ حدیث 545۔

[59]۔(ضعیف) سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات باب مایکرہ فی الصلاۃ حدیث 965 ونصب الرایۃ 2/87۔

[60]۔سنن ابی داود الصلاۃ باب ماجاء فی الھدی فی المشی الی الصلاۃ حدیث 562۔

[61]۔صحیح البخاری الصلاۃ باب ان صلی فی ثوب مصلب او تصاویر ھل تفسد صلاتہ۔۔۔؟حدیث 374۔

[62]۔صحیح مسلم المساجد باب کراھۃ الصلاۃ بحضرۃ الطعام الذی یرید اکلہ فی الحال وکراھۃ الصلاۃ مع مدافعۃ الحدث ونحوہ حدیث 557۔560۔

[63]۔شدیدسردی یا گرمی کی صورت میں نماز میں نہ داخل ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔اور سخت بھوک وپیاس کی صورت میں جب کھانا حاضر ہوتب مکروہ بلکہ فاسد ہے۔

[64]۔صحیح مسلم المساجد باب کراھۃ الصلاۃ بحضرۃ الطعام۔حدیث 560۔

[65]۔البقرۃ:2/238۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

نماز کے احکام ومسائل:جلد 01: صفحہ 118

تبصرے