موزوں اور جرابوں وغیرہ پر مسح کرنے کا حکم
ہمارا دین آسان دین ہے مشکل و مشقت والا دین نہیں اس کے احکام ایسے ہیں جو حالات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ مصلحت کے قریب تر اور مشقت سے دور تر ہیں۔ ان میں کچھ احکام وجو سے متعلق بھی ہیں۔
جب کسی مسلمان نے اعضائے وضو پر ایسی چیز پہنی یا باندھی ہو جس کی اسے شدید ضرورت ہو اور اس کے اتارنے میں مشکل ہو۔ پاؤں کی حفاظت کے لیے موزے یا جرابیں سر کی حفاظت کے لیے پگڑی یا کسی زخم کو خرابی سے بچانے کے لیے پٹی باندھی ہوتو ایسی حالت میں شارع علیہ السلام نے اسے وہ چیز اتار کر عضو وضو کو دھونے کی زحمت نہیں دی بلکہ اسے اس پر مسح کرنے کی رخصت دی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے بندوں پر تخفیف اور آسانی ہے اور مشقت سے بچاؤ۔
اگر کسی مقیم یا مسافر شخص نے موزے یا جرابیں پہنی ہوں تو انھیں اتار کر پاؤں کو دھونے کی بجائے ان پر مسح کرنا صحیح اور مرفوع روایات سے ثابت ہے جو درجہ تو اتر تک پہنچتی ہیں۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔
"مجھے ستر(70)کے قریب صحابہ کرابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موزوں پر مسح کرتے تھے۔"[1]
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
"موزوں پر مسح کی احادیث بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے منقول ہیں۔"[2]
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ موزوں پر مسح کے بارے میں میرے دل میں ذرہ بھر بھی شک وشبہ نہیں اس سے متعلق میرے علم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے چالیس احادیث ہیں۔"[3]
امام عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے:
"موزوں پر مسح کے جواز میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا۔"[4]
امام ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے موزوں پر مسح کے جواز میں علمائے امت کا اجماع نقل کیا ہے۔"[5]
علاوہ ازیں اہل سنت کا اس مسئلے پر اتفاق ہے۔ماسوائے اہل بدعت کی ایک قلیل جماعت کے وہ اس کے جواز کے قائل نہیں۔
موزوں پر مسح کا حکم"رخصت" کا ہے موزوں کو اتار کر پاؤں دھونے سے بہتر یہ ہے کہ ان پر مسح کیا جائےاس میں اللہ تعالیٰ کی رخصت کو قبول کرنا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدار اور پیروی ہے نیز بدعتی گروہ(منکرین مسح) کی مخالفت بھی ہے (جو ہونی چاہیے)
جن اعضاء پر موزے جرابیں پگڑی اور پٹی وغیرہ بندھی ہو مسح کرنے سے وہ دھونے کے حکم میں ہو جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکلف سے کام نہیں لیتے تھے قدموں کی جیسی حالت ہوتی ویسا ہی کام کر لیتے تھے یعنی اگر موزے یا جرابیں پہنی ہوتیں تو مسح کر لیتے ورنہ پاؤں دھولیتے تھے صرف مسح کی خاطر موزے یا جرابیں پہننا درست نہیں۔[6]
اگر کوئی شخص مقیم ہو یا وہ مسافر ہو جس کا سفر اس قدر ہو جس میں نماز قصر کرنی جائز نہیں تو اس کی مدت مسح ایک دن رات ہے اور اگر اس کا سفر اتنا ہو کہ اس میں نماز قصر کرنا جائز ہے تو اس کی مدت مسح تین دن اور تین راتیں ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"مسافر کے لیے مدت مسح تین دن اور ان کی راتیں ہے جب کہ مقیم کے لیے ایک دن رات ہے۔"[7]
کوئی شخص مقیم ہو یا مسافر دونوں حالتوں میں مدت مسح اس وقت شروع ہوگی جب موزے یا جرابیں پہننے کےبعد حدث (وضو کا ٹوٹنا) واقع ہوگا کیونکہ حدث ہی موجب وضو ہے نیز مسح کا جواز حالت حدث سے شروع ہو جاتا ہے لہٰذا مدت مسح کی ابتداء جواز مسح کے ابتدائی وقت سے ہو جاتی ہے۔بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ مدت مسح اس وقت شروع ہوتی ہے جب حدث کے بعد مسح کیا جائے گا۔
[1]۔الاوسط بن المنذر1/430۔
[2]۔شرح مسلم للنووی 3/210۔
[3]۔المغنی والشرح الکبیر:1/316۔
[4]۔۔الاوسط لابن المنذر1/434۔ وفتح الباری 1/305۔
[5]۔الاوسط لابن المنذر1/434۔
[6]۔اس کی کوئی دلیل نہیں لہٰذا ایسا کرنے میں حرج نہیں۔
[7]۔صحیح مسلم الطہارۃ باب التوقیت فی المسح علی الخفین حدیث: 276۔ومسند احمد 1/96واللفظ لہ۔