سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(8) وضو کا مفصل طریقہ

  • 23683
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 5264

سوال

(8) وضو کا مفصل طریقہ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وضو کا مفصل طریقہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ گزشتہ صفحات میں وضو کی شرائط فرائض اور سنن کا بیان پڑھ چکے ہیں۔ اب ہم انھی نصوص شرعیہ کی روشنی میں مکمل وضو تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے تاکہ آپ کا عمل اس کے مطابق ہو۔

وضو کرنے والا اولاً وضو کی نیت کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں نماز وغیرہ کے لیے وضو کر رہا ہے پھر بسم اللہ پڑھے۔پھر اپنے ہاتھوں کو تین بار دھوئے پھر تین بار کلی کرے اور ناک میں تین بار پانی کھینچے بائیں ہاتھ سے ناک جھاڑے۔ پھر تین بار چہرہ دھوئے لمبائی میں چہرے کی حد پیشانی کے اوپر والے حصے (جہاں سر کے بال شروع ہوتے ہیں)سے لے کر ٹھوڑی تک ہے۔ داڑھی کے بال چہرےکاحصہ ہیں جن کا دھونا فرض ہے۔ داڑھی مختصر ہے تو اس کو اوپر اور اندر سے دھونا ضروری ہے۔ اگر داڑھی لمبی اور ایسی گھنی ہے کہ اس کے نیچے والی جسمانی جلد نظر نہیں آتی تو صرف داڑھی کے باہر والے حصے کو دھولیا جائے اور اندورنی حصے کا خلال کر لیا جائے جس کا طریقہ اوپر بیان ہو چکا ہے چہرے کی چوڑائی کی حد ایک کان سے دوسرے کان تک ہے۔ کان سر کا حصہ ہیں ان پر سر کی طرح مسح کرے۔

پھر اپنے ہاتھوں کو ناخنوں سے لے کر کہنیوں سمیت تین بار دھوئے۔اگر اس کے ہاتھوں پر آٹا مٹی یا ناخن پالش وغیرہ لگی ہوتو اسے اتارے تاکہ پانی اعضاء کی جلد تک پہنچ جائے۔

پھر نیا پانی لے کر پورے سر کا اور دونوں کانوں کا ایک بار مسح کرے۔ مسح کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو پانی سے تر کر کے انھیں سر کے ابتدائی حصے پر رکھے پھر انھیں سر پر گزار گدی تک لے جائے پھر ان ہاتھوں کو اسی طرح اس جگہ پر واپس لے آئے جہاں سے مسح شروع کیا تھا پھر دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیوں کو کانوں کے سوراخوں میں داخل کرے اور کانوں کے اندر والے حصے میں پھیرے جب کہ انگوٹھوں کے ساتھ کانوں کے پچھلے حصے پر مسح کرے۔پھر دونوں پاؤں کو(پہلے دایاں پھر بایاں) ٹخنوں تک تین بار دھوئے۔

اگر کسی شخص کا ہاتھ یا پاؤں کٹا ہوا ہو تو وہ ہاتھ یا پاؤں کا باقی حصہ دھولے۔ اور اگر اس کا ہاتھ کہنی تک کٹا ہوا ہے تو بازو کا اگلا حصہ دھولے ۔ اسی طرح اگر کسی کا پاؤں ٹخنے تک کٹ چکا ہے تو وہ پنڈلی کا ابتدائی حصہ دھولے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم... ﴿١٦﴾... سورة التغابن

"سو اللہ تعالیٰ سے حسب طاقت ڈرو۔"[1]

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ"

"جب میں تمھیں کسی بات کا حکم دوں تو حسب طاقت اس پر عمل کرو۔"[2]

بنا بریں ایسا معذور شخص جب فرض کردہ عضو کے بقیہ حصے کو دھولے گا تو اس نے حسب طاقت حکم پر عمل کر لیا۔"[3]

وضو کرنے کے بعد آسمان کی طرف نگاہ اٹھائے۔[4]اور اس حال میں وہ تمام دعائیں پڑھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے منقول اور ثابت ہیں وہ یہ ہیں۔

"أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ"

"میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اس کے بندے اور رسول ہیں۔[5]

"اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَوَّابِينَ ، واجْعَلْني مِنَ المُتَطَهِّرِينَ "

"اے اللہ! مجھے توبہ کرنے والوں میں سے بنا دےاور پاکیزگی حاصل کرنے والوں میں سے بنا دے۔

"سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وبَحَمْدكَ أشْهدُ أنْ لا إلهَ إلا أنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وأتُوبُ إِلَيْكَ"

"اے اللہ ! تو پاک ہے اپنی تعریفوں کے ساتھ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سواکوئی معبود نہیں میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیری طرف ہی توبہ کرتاہوں۔"[6]

وضو کے بعد مذکورہ بالا ذکر اور دعا پڑھنے میں حکمت یہ ہے کہ وضو سے ظاہری طہارت حاصل ہوئی جب کہ توحید اور توبہ سے باطنی طہارت میسر آئی۔ اس طرح ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی عظیم طہارتیں جمع ہو گئیں اور بندہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہونے کے قابل ہوگیا۔ یہ صورت حال کس قدر مناسب اور خوب تر ہے۔

اگر کوئی شخص وضو کر کے اپنے اعضاء کو کسی صاف ستھرے تولیے وغیرہ سے پونچھ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

تنبیہ:اچھی طرح اور مکمل وضو کرنا(جس میں کوئی عضو خشک نہ رہ جائے) فرض ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے قدم کا ناخن برابر حصہ خشک رہ گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے فرمایا:

"ارْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوءَكَ "

"تم واپس جا کر اچھی طرح دوبارہ وضو کرو۔"[7]

ایک اور روایت میں ہے:

"أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلا يُصَلِّي ، وَفِي ظَهْرِ قَدَمِهِ لُمْعَةٌ قَدْرُ الدِّرْهَمِ لَمْ يُصِبْهَا الْمَاءُ ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعِيدَ الْوُضُوءَ وَالصَّلَاةَ"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ اس کے قدم کا درہم بھرحصہ (وضو کا پانی نہ لگنے کی وجہ سے)خشک رہ گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے وضو اور نماز دونوں کو دہرانے کا حکم دیا۔"[8]

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"ويلٌ للأعقابِ مِن النار"

"(خشک رہ جانے والی)ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔[9]

اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ذمہ داری کی ادائیگی میں سستی واقع ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایڑیوں کا ایک حصہ خشک رہ گیا تو اسی بنا پر ایڑیوں کو عذاب ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِنَّهَا لا تَتِمُّ صَلاةُ أَحَدِكُمْ حَتَّى يُسْبِغَ الْوُضُوءَ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَيَغْسِلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ وَيَمْسَحَ بِرَأْسِهِ وَرِجْلَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ . . ."

"کسی شخص کی نمازتب تک کامل نہ ہوگی جب تک وہ اللہ کے حکم کے مطابق مکمل وضو نہ کرے گا۔ وہ اپنا چہرہ دھوئے کہنیوں تک بازو دھوئے اور سر کا مسح کرے پھر ٹخنوں تک پاؤں دھوئے۔"[10]

میرے مسلمان بھائی!کامل اور اچھی طرح وضو کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ پانی ضرورت سے زیادہ استعمال کیا جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ عضو پر مناسب حد تک بہایا جائے حتی کہ وہ خوب صاف ہو جائے۔ بلا ضرورت کثرت سے پانی کا استعمال اسراف ہے جس سے منع کیا گیا ہے بلکہ کبھی پانی کے کثرت استعمال کے باوجود مطلوبہ طہارت حاصل نہیں ہو تی اگر قلیل پانی سے مکمل وضو ہو جائے تو یہ کافی ہے۔ ایک روایت میں ہے:

"كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ ، وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ إِلَى خَمْسَةِ أَمْدَادٍ"

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  ایک مد پانی سے وضو اور ایک صاع سے لے کر پانچ مد تک پانی سے غسل کر لیا کرتے تھے۔"[11]

پانی کے استعمال میں اسراف (فضول خرچی) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے منع فرمایا ہے۔

ایک روایت میں ہے۔

"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِسَعْدٍ وَهُوَ يَتَوَضَّأُ فَقَالَ مَا هَذَا السَّرَفُ فَقَالَ أَفِي الْوُضُوءِ إِسْرَافٌ قَالَ نَعَمْ وَإِنْ كُنْتَ عَلَى نَهَرٍ جَارٍ"

"سیدنا سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے پاس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا گزر ہوا اور وہ وضو کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دیکھا اور فرمایا:

پانی میں اس قدر اسراف کیوں ؟تو انھوں نے کہا: کیا وضو میں بھی اسراف  ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا:"ہاں اگرچہ تم بہتے ہوئے دریا پر ہو۔"[12]

ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یوں خبر دی ہے:"میری امت میں سے کچھ لوگ طہارت کی بابت حد سے تجاوز کریں گے۔"[13]

نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"إِنَّ لِلْوُضُوُءِ شَيْطَاناً يُقالُ لَهُ : الْوَلَهَانُ، فَاتَّقُوا وَسْوَاسَ الْمَاء"

"وضو کے لیے ایک شیطان ہے جسے ولہان کہا جاتا ہے لہٰذا تم پانی کے بارے میں وسوسوں سے بچو۔"[14]

پانی کے استعمال میں اسراف سے فائدہ ہونے کی بجائے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔

کبھی پانی کی کثرت پر اعتماد ہوتا ہے اور اس طرف توجہ اس قدر ہوتی ہے کہ یہ خیال نہیں رہتا کہ پانی اعضاء کے تمام حصوں تک پہنچ پایا ہے یا نہیں بلکہ بسا اوقات پانی عضو کے مکمل حصے تک پہنچ نہیں پاتا اس بنا پر اس کا وضوناقص ہوتا اور وہ طہارت کے بغیر ہی نماز ادا کرتا ہے۔

وضو میں پانی کے کثرت استعمال (اسراف)سے عبادت میں غلو کا اندیشہ ہے کیونکہ وضو عبادت ہے اور جب عبادت میں غلو آجائے تو خرابی اور فساد لازم آتا ہے۔

پانی کے بے جا استعمال کے سبب طہارت سے متعلق وسوسے (شکوک و شبہات )پیدا ہوتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع میں مکمل بھلائی اور خیرہے۔اس کے علاوہ امور بدعات ہیں۔"اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ہر اس عمل کی توفیق دے جو اسے محبوب اور پسند ہو۔

اے مسلمان بھائی!آپ کی کوشش ہونی چاہیے کہ وضو اور عبادات کی ادائیگی مسنون طریقے سے افراط و تفریط سے دور رہتے ہوئےہو کیونکہ یہ دونوں چیزیں قابل مذمت ہیں۔ بہتر کام میانہ روی ہے۔ عبادت میں سستی سے نقض پیدا ہوتا ہے جب کہ انتہا پسند (اسراف کرنے والا)ایسی زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے جو دین میں شامل نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کی پیروی کرنے والا ہی صحیح طریقے سے عبادت کا حق ادا کرتا ہے۔

اے اللہ! ہمیں حق کو حق کی شکل میں دکھا اور اس کی اتباع کی توفیق دے اور باطل کو باطل کی صورت میں سامنے لا اور اس سے اجتناب کی ہمت دے ایسا نہ ہو کہ باطل ہم پر واضح نہ ہو سکے اور ہم اس میں پڑ کر گمراہ ہوجائیں ۔(آمین)


[1]۔التغابن:64۔16۔

[2]۔صحیح البخاری الاعضام بالکتاب والسنۃ باب الاقتداء یسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  حدیث 7288۔وصحیح مسلم الحج باب فرض الحج مرۃ فی اعلمر حدیث 1337۔ومسند احمد 2/258۔

[3]۔(ضعیف) اس روایت کی سند میں ایک راوی مجہول ہے۔ سنن ابی داؤد الطہارۃ باب مایقول الرجل اذا توضا؟حدیث 170۔

[4]۔صحیح مسلم الطہارۃ باب الذکر المستحب عقب الوضوء حدیث 234۔وجامع الترمذی الطہارۃ باب فی مایقال بعد الوضوء حدیث 55۔

[5]۔جامع الترمذی الطہارۃ باب فی مایقال بعد الوضو حدیث 55۔

[6]۔ولسنن الکبری للنسائی عمل الیوم واللیلہ باب مایقول اذا فرغ من وضو 6/25۔حدیث9909۔والمستدرک للحاکم 1/564۔حدیث 2072 وسلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للا لبانی حدیث 2651۔

[7]۔صحیح مسلم الطہارۃ باب وجوب استیعاب جمیع اجزاء محل الطہارۃ حدیث 243۔وسنن ابی داؤد الطہارۃ باب تفریق الوضوءحدیث 173۔

[8]۔سنن ابی داؤد الطہارۃ باب تفریق الوضوء حدیث 175۔

[9]۔صحیح البخاری الوضو باب غسل الاعقاب حدیث 165 وصحیح مسلم الطہارۃ باب وجوب غسل الرجلین یکما لہما حدیث 242۔

[10]۔سنن ابی داؤد الصلاۃ باب صلاۃ من لایقیم صلیہ فی الرکوع والسجود حدیث 858۔

[11]۔صحیح البخاری الوضوء باب الوضوء بالمد حدیث 201وصحیح مسلم الحیض باب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ حدیث325۔واللفظ لہ ایک صاع چار مد کا ہوتا ہے اور ایک مد کا وزن 625گرام ہے اور بعض علماء کے نزدیک 525 گرام ہے(صارم)

[12]۔(ضعیف ) سنن ابن ماجہ الطہارۃ وسننھا باب ماجاء فی القصد فی الوضوء حدیث 425۔ومسند احمد 2/221۔اس معنی میں اگلی حدیث صحیح ہے۔

[13]۔سنن ابی داؤد الطہارۃ باب الاسراف فی الوضو ء حدیث 96۔

[14]۔(ضعیف)جامع الترمذی الطہارۃ باب ماجاء فی کراھیہ الاسراف فی الوضوء بالماء حدیث 57۔ ابن ماجہ الطہارۃ وسننھا باب ماجاء فی القصد فی الوضوء حدیث 421۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

جلد 01: صفحہ 46

تبصرے